فضائل القرآن (3) (قسط نمبر6)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
(قسط پنجم کے لیے ملاحظہ فرمائیں الفضل انٹرنیشنل شمارہ 26؍نومبر 2021ء)
اخوان الشیٰطین کہنے میں حکمت
یہاں اللہ تعالیٰ نے شیطان نہیں کہا بلکہ شیطان کا بھائی کہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ دینے والے نے تو اپنی طرف سے اچھی بات ہی سمجھی تھی کہ ایک کی بجائے بہتوں کو دے دیا۔ لیکن حقیقتاً اس کا یہ فعل اچھا نہ تھا۔ اس لئے اس کا یہ فعل حقیقی ناشکری تو نہیں لیکن اس کے مشابہ ضرور ہے۔ پھر تھوڑی چیز کو بہتوں میں اس طرح بانٹ دینے کو کہ کسی کے بھی کام نہ آئے اللہ تعالیٰ نے ناشکری قرار دینے کی یہ وجہ بتائی کہ ہم نے جو نعمت دی تھی وہ کسی غرض کے لئے ہی دی تھی مگر تم نے اس کو بے فائدہ طور پر بانٹ دیا اور اس طرح اس غرض کو باطل کر دیا۔ وہ غرض یہی ہے کہ مال قابلیت رکھنے والوں کے پاس آتا ہے اور قابلیت رکھنے والوں کو کام کرنے کے قابل بنائے رکھنا قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اگر ایک اعلیٰ درجہ کا کاریگر ہو اور وہ اپنے اوزار دوسروں میں بانٹ دے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا اپنا کام بھی نہ چلے گا۔ اور دوسروں کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن اگر وہ اپنے اوزار اپنے پاس رکھ کر ان سے کام کرے اور پھر جو کچھ کمائے اس میں سے دوسروں کی مدد کرے تو یہ بہت مفید بات ہوگی۔
صدقہ دینے کا صحیح طریق
پھر اسلام نے صدقہ دینے کا طریق بتایا ہے۔ جو یہ ہے کہ
اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً (البقرہ:275)
یعنی مومن وہ ہیں جو اپنے اموال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اس آیت میں یہ احکام بیان کئے گئے کہ اول پوشیدہ صدقہ دو۔ دوم علانیہ صدقہ دو۔
یہاں مال کے طریق تقسیم میں انجیل کی تعلیم کا مقابلہ ہو گیا۔ انجیل میں تو یہ کہا گیا ہے کہ
’’جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تا کہ تیری خیرات پوشیدہ رہے‘‘۔
لیکن قرآن کہتا ہے کہ کبھی اس طرح صدقہ دو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں کو پتہ نہ لگے اور کبھی اس طرح دو کہ سب کو پتہ لگے۔ اور اس کی وجہ بتائی کہ کیوں ہم یہ کہتے ہیں کہ ظاہر طور پر بھی صدقہ دو۔ اور پوشیدہ طور پر بھی۔ فرمایا
اِنۡ تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ ۚ وَ اِنۡ تُخۡفُوۡہَا وَ تُؤۡتُوۡہَا الۡفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ وَ یُکَفِّرُ عَنۡکُمۡ مِّنۡ سَیِّاٰتِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ(البقرہ:272)
یعنی اگر تم صدقہ دکھا کر دو تو یہ بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن
وَ اِنۡ تُخۡفُوۡہَا وَ تُؤۡتُوۡہَا الۡفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ
اگر تم چھپا کر دو تو یہ تمہارے اپنے لئے بہتر ہے۔ گویا دوسرے طریق صدقہ میں پہلے طریق کی بھی وجہ بتا دی۔ کیونکہ جب یہ بتایا کہ پوشیدہ طور پر صدقہ دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا تو یہ بھی فرما دیا کہ اگر ظاہری طور پر صدقہ دو گے تو یہ دوسروں کیلئے بہتر ہوگا۔ کیونکہ جب لوگ کسی کو صدقہ دیتے دیکھیں گے تو کہیں گے یہ بڑا اچھا کام ہے اور پھر وہ خود بھی اس کی نقل کرنے لگ جائیں گے۔ دیکھو جو لوگ یورپ کے دلدادہ ہیں وہ سر سے پیر تک وہی لباس پہنتے ہیں جو یورپین لوگوں کا ہے۔ ایک زمانہ میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی تو ہندو بھی مسلمانوں کی طرح جبے پہنے پھرتے تھے۔ اب بھی جن علاقوں میں مسلمانوں کی کثرت ہے وہاں کے ہندوئوں کا لباس مسلمانوں جیسا ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ سرحد میں یا سندھ میں ہے۔ ایک دفعہ ایک سندھی تاجر ہمارا ہم سفر تھا۔ اس نے بالکل مسلمانوں جیسا لباس پہنا ہوا تھا۔ میں اسے مسلمان ہی سمجھتا رہا۔ جب کھانا کھانے لگے تو ہمارے نانا جان بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے اس تاجر کو کہا کہ آئیے آپ بھی کھانا کھائیں۔ مگر اس نے نہ کھایا۔ جب وہ اترنے لگا تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو مسلمانوں کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے مگر دوسرے لوگ برا مناتے ہیں۔ تب پتہ لگا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ ہندو تھا۔ تو دوسروں کو دیکھ کر انسان ان کی باتیں اختیار کر لیتاہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ (بخاری کتاب الجمعۃ باب الجمعۃ فی القرٰی والمدن)
تم میں سے ہر ایک کی مثال گڈریا کی سی ہے۔ ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ بھیڑیں لگی ہوئی ہیں جو اس کی نقل کرتی ہیں۔ پس اگر کوئی ظاہری طور پر صدقہ دے گا تو اس کے بیٹے، بھائی یا دوسرے رشتہ دار، مُرید، ملازم، دوست اور آشنا بھی اس کی نقل میں صدقہ دیں گے۔
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ نسل کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ بچوں کو صدقہ دینے کی عادت پڑے گی۔ جب وہ اپنے بڑوں کو دیکھیں گے کہ وہ صدقہ دیتے ہیں تو سمجھیں گے کہ یہ اچھی بات ہے اور خود بھی صدقہ دینے لگ جائیں گے اس طرح آہستہ آہستہ ان کی تربیت ہوتی جائے گی۔
تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بعض دفعہ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں شخص امداد کا محتاج ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے اپنے محلہ یا اپنے قصبہ یا اپنے شہر کے کسی آدمی کے متعلق پتہ ہو کہ وہ محتاج ہے لیکن دوسروں کو پتہ نہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر میں ایک دوست کو کچھ دوں کہ فلاں کو دے دینا تو بغیر یہ اعلان کرنے کے کہ فلاں کی مدد کرو اسے خود بھی دینے کا خیال آ جائے گا۔ یہ ظاہری طور پر صدقہ دینے کے فوائد ہیں۔
اسی طرح اگر مخفی طور پر خیرات دی جائے تو وہ دینے والے کے اپنے نفس کیلئے اچھی ہے اس سے اس میں ریاء پیدا نہیں ہوگا جو ظاہر طور پر دینے سے پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن جو شخص مخفی خیرات اس لئے دیتا ہے کہ اس کے دل میں ریاء پیدا نہ ہو وہ جب ظاہر طور پر دے گا تب بھی ریاء کا جذبہ اس میں پیدا نہ ہوگا کیونکہ وہ اپنے نفس کو ریاء سے بچانے کیلئے پوشیدہ طور پر دے کر مشق کرتا رہتا ہے۔ ریاء کا جذبہ اسی میں پیدا ہو سکتا ہے جو صرف ظاہری خیرات دیتا ہے۔
پھر لَکُمْ کہہ کر یہ بھی بتا دیا کہ پوشیدہ دینے میں تمہارے لئے بھی نفع ہے اور فقراء کے لئے بھی یعنی جنہیں دیتے ہو ان کے لئے بھی کیونکہ اس طرح ان کی عزت نفس محفوظ رہتی ہے اور وہ شرمندہ نہیں ہوتے۔ غرض مخفی طور پر صدقہ دینا، دینے والے کیلئے بھی نفع بخش ہے کیونکہ اس میں ریاء پیدا نہیں ہوتا اور لینے والے کے لئے بھی کہ اس کی خفت نہیں ہوتی۔
صدقہ کی مختلف اقسام
صدقہ کے متعلق تیسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام نے اس کی اقسام مقرر کی ہیں۔ صدقہ کی ایک قسم تو لازمی ہے جس کے متعلق فرمایا۔
وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ (البقرہ:111)
تم نماز باشرائط جماعت کے ساتھ ادا کرو اور زکٰوۃ دو۔ آگے اس لازمی صدقہ کی دو قسمیں بتائیں۔ اول لازمی وقتی جیسے جہاد ہے۔ جب جہاد کا موقع پیش آ جائے اس وقت قوم کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے اموال پیش کر دے۔ دوم لازمی مقررہ جیسے فرمایا
خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدقَہ(البقرہ:103)
یہ زکوٰۃ ہے۔ لیکن ایک صدقہ وقتی غیر مقررہ ہے۔ اس میں شریعت یہ نہیں کہتی کہ کتنا دو بلکہ یہ کہتی ہے کہ اس وقت ضرور دو۔ مقررہ میں تو حد مقرر کر دی گئی ہے کہ چالیسواں حصہ یا جانوروں میں سے اتنا حصہ دیا جائے مگر جہاد کے لئے کہا جاتا ہے کہ دو جتنا دے سکتے ہو۔ چنانچہ ایک جہاد کے موقع کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں۔ مجھے خیال آیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ مجھ سے بڑھ جاتے ہیں۔ آج میں ان سے بڑھوں گا۔ یہ خیال کر کے میں گھر گیا اور اپنے مال میں سے آدھا مال نکال کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے لے آیا۔ وہ زمانہ اسلام کے لئے انتہائی مصیبت کا دور تھا۔ لیکن حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ ابوبکر! گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کا رسولﷺ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ یہ سن کر مجھے سخت شرمندگی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ آج میں نے سارا زور لگا کر ابوبکرؓ سے بڑھنا چاہا تھا مگر آج بھی مجھ سے ابوبکرؓ بڑھ گئے۔ (ترمذی کتاب المناقب مناقب ابی بکر الصدیق)
ممکن ہے کوئی کہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے تھے تو پھر گھر والوں کے لئے انہوں نے کیا چھوڑا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے مراد گھر کا سارا اندوختہ تھا۔ وہ تاجر تھے اور جو مال تجارت میں لگا ہوا تھا وہ نہیں لائے تھے اور نہ مکان بیچ کر آ گئے تھے۔
جہاد کے موقع پر مال دینے کا ذکر سورۃ بقرہ رکوع 24 میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ(البقرہ:196)
تم جنگی کاموں میں اپنا روپیہ صرف کرو۔ اگر نہیں کرو گے تو دشمن جیت جائے گا اور تم تباہ ہو جائو گے۔
پھر ایک صدقہ اختیاری ہوتا ہے۔ اس کے متعلق بقرہ رکوع 26میں آتا ہے۔
مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِالسَّبِیۡلِ(البقرہ:216)
جب کوئی دینے کا موقع ہو اور اس وقت تم خدا کے لئے خرچ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ اپنے والدین کیلئے اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے، یتامی اور مساکین اور مسافروں کیلئے۔ یہ صدقہ اختیاری رکھا۔ ایک اور جگہ اختیاری اور لازمی صدقہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے۔
فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ۔ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ (المعارج:26،25)
معلوم کے لفظ میں بتا دیا کہ یہ مقررہ صدقہ ہے۔ کیونکہ مَعْلُوْمٌ کے معنی ہیں مقرر کر دیا گیا۔ یعنی رقم مقرر کر دی کہ اتنا دینا ضروری ہے۔ یا یہ کہ خرچ کا وقت مقرر ہوتا ہے کہ اب کچھ نہ کچھ دینا تم پر فرض ہے۔ پس فرمایا
فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ۔
ان کے مال میں ایک مقرر حق ہوتا ہے۔
لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ۔
سوال کرنے والے اور محروم کا۔ گویا بتایا کہ اتنا دینا تمہارے لئے ضروری ہے اور غیر مقررہ کے لئے فرمایا۔
وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ (الذّٰریٰت:20)
یہاں معلوم کا لفظ نہیں رکھا گیا بعض لوگ کہتے ہیں قرآن میں قافیہ بندی کی گئی ہے۔ حالانکہ اگر صرف قافیہ بندی ہوتی تو مَحْرُوْمکے ساتھ مَعْلُوْمٌقافیہ تھا جو سورۃ معارج میں آیا۔ مگر سورۃ ذاریات میں مَعْلُوْمٌ کا لفظ اڑا دیا۔ کیونکہ یہاں دوسری قسم کے صدقہ کا ذکر تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں قافیہ کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ مضمون کا خیال رکھا جاتا ہے۔
جاری ہے
٭…٭…٭