افریقہ (رپورٹس)

لائبیریا کے ایک کیتھولک سکول میں تبلیغ احمدیت

اللہ تعالیٰ کے فضل سے مورخہ 25؍نومبر بروز جمعرات خاکسار کو St. Monica Catholic School Bopolu کے پرنسپل Fr.Anthony Toe کی طرف سے ماہانہ سٹاف میٹنگ میں شمولیت کی دعوت دی گئی جس کا مقصد اسلام کے مختلف فرقوں اور جماعت احمدیہ کا تعارف کروانا تھا۔

یہاں عموماً فرقہ بندی نہیں پائی جاتی اور مساجد ہر ایک کلمہ گوکے لیے کھلی ہیں۔ مسیحی حضرات کی زیادہ تر واقفیت سنی اور شیعہ مسلمان فرقوں سےہی ہے جبکہ جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی نمایاں پہچان رکھتی ہے۔ اسی کے پیشِ نظر خاکسار کو بھی انہی تین فرقوں پرروشنی ڈالنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ چنانچہ خاکسار نےآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کی روشنی میں امت کے مختلف فرقوں میں بٹ جانےکی پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے شیعہ سنی مسلمانوں میں بنیادی اختلاف کی وجہ بیان کی ۔ چونکہ مغربی افریقہ میں زیادہ تر مسلمان مالکی مسلک پر عمل پیرا ہیں لہٰذا سامعین کی دلچسپی کے لیےمسالک اربع کے نام، پیروں کاروں کی تعداد اور ان کا مسکن بتایا۔

اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں ہی مسلمانوں کے زوال کا نقشہ کھینچا۔ پھرایک مصلح کی آمد کی بشارت کا تفصیل سے ذکر کیا جو اسلام کا از سرنو احیاء کرے گا۔ اور بتایا کہ جماعت احمدیہ اس بات پر مکمل ایمان رکھتی ہے کہ بائبل، قرآن کریم اور بانئ اسلام کے ارشادات کی روشنی میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ہی مسیح موعود اور امام مہدی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے کل مذاہب عالم کی اصلاح کے لئےمبعوث کیا ہے جبکہ دیگر تمام مذاہب اپنے اپنے مصلح کے انتظار میں ہےاور یہی ہمارا بنیادی فرق ہے۔

اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف، آپؑ کی آمد کا مقصد، جہاد کی ممانعت، اسلام کی پرامن تعلیم کے پرچار کے لئے آپؑ کےعلمی کارناموں سے آگاہ کیا اور دنیا کو امن،بھائی چارے سے بھرنے اور دوسرے مذاہب کا احترام کرنے کے حوالہ سے آپؑ کی تعلیمات کا ذکر کیا۔

آج بھی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے اورخلافت احمدیہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک روحانی امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت وجود کی صورت میں عطا کیا ہے جن کے زیر سایہ آج جماعت احمدیہ 200 سےزائدممالک میں پھیل چکی ہے۔ جہاں جماعت احمدیہ خدمت اسلام کرتے ہوئے نہ صرف مساجد کی تعمیر اور قرآن کریم کی اشاعت میں مصروف ہے بلکہ خدمتِ انسانیت کے میدان میں ہاسپٹلز،سکولز، ووکیشنل سنٹرز،ماڈل ویلیجزکی تعمیر کے ساتھ ساتھ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے بھی اپنا کردار ادا کررہی ہے۔

بعدازاں سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا جس میں اسلاموفوبیا، جہاد، بین المذاہب شادی، پردہ اور جماعت احمدیہ کے دیگر عقائد اور مخالفت کی وجہ جیسے مسائل زیر بحث آئے۔ جہاد کے متعلق پائے جانے والےغلط تاثرات کے ضمن میں خاکسار نے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں جہاد کے التوا کا اعلان فرما دیا تھا اور ایسا آپؐ کے ذریعہ سے ہی ممکن تھا کیونکہ ایک تو اسلام کی حقیقی تعلیم محبت اور امن سے بھری پڑی ہے جسے انہوں نے دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا اور دوسری بات یہ کہ آپؐ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفات لے کرآئے تھے اس لئے بھی آپ نے دنیا کومحبت کی ہی تعلیم دی۔ جماعت احمدیہ مذہب کے نام پر دہشت گردی کی مکمل مذمت کرتی ہے اور مذہب اور ریاست کے معاملات کو الگ سمجھتی ہے۔

اس موقع پر Fr. Anthony Toe کو قرآن کریم کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔ جس پر انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے خاکسار کی طرف سےدی گئی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی کتاب World Crisis and the pathway to Peace اور دیگر کتب کو Facebook پر بھی شیئر کیا ہےاور دلچسپی رکھنے والے احباب کو دعوت مطالعہ دی ہے۔

میٹنگ کے اختتام پر تمام حاضرین نے یک زبان ہو کر شکراً کہا۔ اس میٹنگ میں 15 سٹاف ممبرز شامل تھے اور اس کا کل دورانیہ تقریباً ایک گھنٹہ رہا۔

ذیل میں چند شاملین کے تاثرات بھی درج کیے جارہے ہیں۔

Mr.Bokai نے اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یوں کیاکہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہمیں اسلام کا پیغام سننا اچھا لگا اور اس بات کی خوشی ہوئی ہے کہ آپ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرتے ہیں جبکہ دوسرے مسلمان ہمیں ان کا نہیں بتاتے۔ حالانکہ میری والدہ مسلمان ہیں لیکن ان سے بھی ایسا نہیں سنا۔ اگر بچپن سے ہی ہمیں اسلام کے متعلق اس طرح بتایا جاتا تو آج ہم بھی مسلمان ہوتے۔

Mr. David کا کہنا تھا کہ مجھے جماعت احمدیہ کے خدمتِ انسانیت کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات نے بہت متاثر کیاہے۔ مزید یہ کہ جس طرح آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا اور ان کی آمد کے متعلق بتایا ہے دوسرے مسلمان ان کاذکر نہیں کرتے شاید اسی وجہ سے وہ آپ کی مخالفت کرتے ہیں۔

Mr. Cooper نے بتایا کہ مجھے اسلام میں پردہ کی فلاسفی کا سن کر بہت اچھا لگا کہ اس کا مقصد عورت کو تکلیف دینا نہیں بلکہ اسے بری نظروں سے بچانا ہے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی بیوی ربقہ نے بھی اپنے چہرہ پر نقاب کیا تھا۔

Mr. James Smith نے بیان کیا کہ آپ کے لیکچر سے مجھے یہ پیغام ملا ہے کہ اسلام اورمسیحیت کی تعلیمات میں یکسانیت پائی جاتی ہے جیسا کہ محبت، پیار، ہمدردی، بھائی چارہ وغیرہ۔ اسلام برداشت کادرس دیتا ہے اور شدت پسندی کے خلاف ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ آتے رہیں اور اسلام احمدیت کے متعلق مزید ہمارے علم میں اضافہ کریں۔

قارئین الفضل کی دلچسپی کے لیے Bopolu کا مختصراً تعارف بھی پیش خدمت ہے۔ لائبیریا کو 15 کاؤنٹیز میں تقسیم کیا گیا ہے اور Bopolu ,City Gbarpolu County میں واقع ہے اور اس کا دارالحکومت بھی ہے یہ ملکی دارالحکومت Monrovia سے 100 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ اس صوبہ میں سونے اور ہیرے کی کئی کانیں موجود ہیں۔ مقامی احباب کے مطابق لائبیریا میں سب سے پہلے اسلام کا آغاز Bopolu سے ہی ہوا تھا جبکہ اب مسیحیت کا اثر زیادہ ہے۔ 27؍فروری 2020ء کو یہاں پہلی دفعہ باقاعدہ احمدیہ مسلم مشن کا قیام عمل میں آیا اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے 10 جماعتیں قائم ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان احباب کے ایمان و اخلاص میں برکت عطا کرے اوراحمدیت کے ذریعہ سے پھراسلام کی شان و شوکت کا بول بالا ہو۔ آمین

(رپورٹ: فرخ شبیر لودھی مبلغ سلسلہ۔ باپولوکاؤنٹی،لائبیریا)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button