اختلافی مسائل

کیا کمالات نبوت کے بغیر دجال کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟

رسول کریمﷺ نے آخری زمانے کی علامات میں ایک علامت دجال کے ظہور کو بیان فرمایا ہے۔ اس فتنے کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا:

إِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا قَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ۔

(صحیح بخاری، حدیث نمبر 3057، کتاب: جہاد کا بیان، باب: بچے پر اسلام کس طرح پیش کیا جائے)

مَیں بھی تمہیں اس کے ( فتنوں سے ) ڈراتا ہوں، کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس کے فتنوں سے نہ ڈرایا ہو، نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا۔

رسول کریمﷺ کے زمانے میں ایک شخص ابن صیاد کے متعلق گمان کیا گیا کہ وہ دجال ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کی اجازت چاہی تو رسول کریمﷺ نے فرمایا:

إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ۔

(صحیح بخاری، حدیث نمبر 3055، کتاب: جہاد کا بیان، باب: بچے پر اسلام کس طرح پیش کیا جائے)

اگر یہ وہی ( دجال ) ہے تو تم اس پر قادر نہیں ہو سکتے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کی جان لینے میں کوئی خیر نہیں۔

جس طرح دجال کا فتنہ غیر معمولی ہے اسی طرح اس کا مقابلہ کرنے والی شخصیت بھی عام نہیں بلکہ کمالات نبوت لیے ہوئے ہوگی۔ اس کا مقام اورمرتبہ دیو بند مکتہ فکر کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کے پوتے مولانا قاری محمد طیب صاحب نے اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے۔ قاری محمد طیب صاحب بھی دیوبند کے مہتمم رہے۔ کئی کتب کے مصنف اوردیوبند مکتبہ فکر میں بہت بڑا مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام‘‘ میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں فتنہ دجال اور اس سے مقابلہ کرنے والے نبوت آشنا دل والی شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الدجالین کا اصلی مقابلہ تو خاتم النبیین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لیے نہ حضور کا دنیا میں دوبارہ تشریف لانا مناسب نہ صدیوں باقی رکھا جانا شایان شان، نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم کرا دیا جانا مصلحت اور ادھر اس ختم دجالیت کے استیصال کے لیے چھوٹی موٹی روحانیت تو کیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی۔ عام مجددین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برآنہ ہوسکتے تھے جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک مؤثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختمِ نبوت کاپاور شامل نہ ہو تو پھر شکست دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہوسکتی تھی کہ اس دجالِ اعظم کو نیست ونابور کرنے کے لیے امت میں ایک ایسا خاتم المجددین آئے جو خاتم النبیین کی غیر معمولی قوت کو اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتم النبیین سے ایسی مناسبتِ تامہ رکھتا ہو کہ اس کا مقابلہ بعینہٖ خاتم النبیین کا مقابلہ ہو۔ مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجدد کا قلب کرسکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو محض مرتبۂ ولایت میں یہ تحمل کہاں کہ وہ درجۂ نبوت بھی برداشت کرسکے چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے۔ نہیں بلکہ اس انعکاس کے لیے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جو فی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو تاکہ خاتم مطلق کے کمالات کا عکس اس میں اتر سکے۔ اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہوسکتی تھی کہ انبیاء سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حد تک خاتمیت کی شان رکھتا ہو اس امت میں مجدد کی حیثیت سے لایا جائے جو طاقت تو نبوت کی لیے ہو مگر اپنی نبوت کا منصب تبلیغ اورمرتبۂ تشریع لیے ہوئے نہ ہو بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اس امت میں کام کرے اور خاتم النبیین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے۔‘‘

(تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام صفحہ 228تا229، از قاری محمد طیب، مہتمم دارالعلوم دیو بند، ناشران: مولانا محب اللہ صاحب کراچی ومحمد یعقوب قصوری لاہور، 1997ء )

غور طلب امر یہ ہے کہ اس مذکورہ بالا حوالے میں مولانا صاحب اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ دجال کا مقابلہ کرنا کسی عام مجدد اور ولی کا کام نہیں بلکہ اس کا مقابلہ نبوت آشنا وجود ہی کرسکتا ہے۔ ایسا وجود جس میں ختم نبوت کا انعکاس ہو اور وہ خاتم النبیین کی غیر معمولی قوت اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتم النبیین سے ایسی مناسبتِ تامہ رکھتا ہو کہ اس کا مقابلہ بعینہٖ خاتم النبیین کا مقابلہ ہو۔ اور اس وجود میں خاتم مطلق کے کمالات کا عکس اترا ہو۔

جب غیر احمدی علماء اس طرح کا مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں دیکھتے ہیں تو اس پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ رسول کریمﷺ کے کمالات کو جذب کرکے ان سے ایسی مناسبت اختیار کرنا کہ گویا رسول کریمﷺ کا ہی وجودہو، جب یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں تو غیر احمدی علماء اس پر کفر کے فتوے لگا دیتے ہیں۔ وہ اتنا نہیں سوچتے کہ دجال کا مقابلہ ایسا وجود ہی کر سکتا ہے جس میں نبوت کے کمالات ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان علماء حضرات کو حقیقت سمجھنے کی توفیق دے آمین۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرتﷺ کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لیے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہٖ آنحضرتﷺ کا ظہور تھا۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 263)

رسول کریمﷺ کی پیشگوئی کے مطابق دجال کا مقابلہ کرنے والا وجود آگیا ہے جس میں تمام کمالات نبوت موجود ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’نبی کریمﷺ نے آخری زمانہ میں ہی ان کا پھیلنا بطور پیشگوئی بیان فرمایا تھا دجالیت کاملہ ظاہر ہو گئی پس اس کے مقابل پر ضرور تھا کہ عیسویت کاملہ بھی ظاہر ہوتی یاد رہے کہ نبی کریمﷺ نے جن بد باتوں کے پھیلنے کی آخری زمانہ میں خبر دی ہے اسی مجموعہ کا نام دجالیت ہے جس کی تاریں یا یوں کہو کہ جس کی شاخیں صدہا قسم کی آنحضرتﷺ نے بیان فرمائی ہیں چنانچہ ان میں سے وہ مولوی بھی دجالیت کے درخت کی شاخیں ہیں جنہوں نے لکیر کو اختیار کیا اور قرآن کو چھوڑ دیا۔ قرآن کریم کو پڑھتے تو ہیں مگر ان کے حلقوں کے نیچے نہیں اترتا۔ غرض دجالیت اس زمانہ میں عنکبوت کی طرح بہت سی تاریں پھیلا رہی ہے۔ کافر اپنے کفر سے اور منافق اپنے نفاق سے اور میخوار میخواری سے اور مولوی اپنے شیوہ گفتن و نہ کردن اور سیہ دلی سے دجالیت کی تاریں بُن رہے ہیں ان تاروں کو اب کوئی کاٹ نہیں سکتا بجز اُس حربہ کے جو آسمان سے اترے اور کوئی اس حربہ کو چلا نہیں سکتا بجز اس عیسیٰ کے جو اسی آسمان سے نازل ہو سو عیسیٰ نازل ہوگیا۔ وکان وعداللّٰہ مفعولًا۔‘‘

(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد4صفحہ369)

اللہ تعالیٰ ہمیں رسول کریمﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے عیسیٰ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(مرسلہ: ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button