کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

مَیں دیکھتا ہوں کہ یورپ اور امریکہ میں میرے دعویٰ اور دلائل کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے

ہاں عیسائی مذہب دلائل کے رُو سے دن بدن سست ہوتا جاتاہے۔ اور بڑے بڑے محقق تثلیث کے عقیدہ کو چھوڑتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جرمن کے بادشاہ نے بھی اس عقیدہ کے ترک کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ محض دلائل کے ہتھیار سے عیسائی تثلیث کے عقیدہ کو زمین پر سے نابود کرنا چاہتا ہے۔ یہ قاعدہ ہے کہ جو پہلو ہونہار ہوتا ہے پہلے سے اس کے علامات شروع ہو جاتے ہیں۔ سو مسلمانوں کیلئے آسمان سے حربی فتوحات کی کچھ علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ البتہ مذہبی دلائل کی علامات ظاہرہوئی ہیں۔ اور عیسائی مذہب خود بخود پگلتا جاتا ہے۔ اور قریب ہے کہ جلد تر صفحہ دنیا سے نابود ہو جائے۔ (۵)پنجم خصوصیت جو پہلے مسیح میں تھی وہ یہ ہے کہ اس کے زمانہ میں یہودیوں کا چال چلن بگڑگیا تھا۔ بالخصوص اکثر ان کے جو علماء کہلاتے تھے وہ سخت مکار اور دنیا پرست اور دنیا کے لالچوں اور دنیوی عزتوں کی خواہشوں میں غرق ہوگئے تھے۔ ایسا ہی آخری مسیح کے وقت میں عام لوگوں اور اکثر علماء اسلام کی حالت ہورہی ہے۔ مفصل لکھنے کی کچھ حاجت نہیں۔ (۶) چھٹی خصوصیت یعنی یہ کہ حضرت مسیح قیصر روم کے ماتحت مبعوث ہوئے تھے سو اس خصوصیت میں آخری مسیح کا بھی اشتراک ہے۔ کیونکہ میں بھی قیصر کی عملداری کے ماتحت مبعوث ہوا ہوں۔ یہ قیصر اس قیصر سے بہتر ہے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھا۔ کیونکہ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب قیصر روم کو خبر ہوئی کہ اس کے گورنر پیلاطوس نے حیلہ جوئی سے مسیح کو اس سزا سے بچا لیا ہے کہ وہ صلیب پر مارا جائے اور روپوش کر کے کسی طرف فراری کر دیا ہے۔ تو وہ بہت ناراض ہوا۔ اور یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یہ مخبری یہودیوں کے مولویوں نے ہی کی تھی کہ پیلاطوس نے ایک قیصر کے باغی کو مفرور کرا دیا ہے تو اس مخبری کے بعد فی الفور پیلاطوس قیصر کے حکم سے جیلخانہ میں ڈالا گیا اور آخری نتیجہ یہ ہوا کہ جیلخانہ میں ہی اس کا سر کاٹا گیا اور اس طرح پر پیلاطوس مسیح کی محبت میں شہید ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل حکم اور سلطنت اکثر دین سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس نادان قیصر نے یہودیوں کے علماء کو بہت معتبر سمجھا اور ان کی عزت افزائی کی اور ان کی باتوں پر عمل کیا۔ اور حضرت مسیح کے قتل کئے جانے کو مصلحت ملکی قرار دیا۔ مگر جہاں تک میرا خیال ہے۔ اب زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ اس لئے ہمارا قیصر بمراتب اس قیصر سے بہتر ہے جو ایسا جاہل اور ظالم تھا۔ (۷) ساتویں خصوصیت یہ کہ مذہب عیسائی آخر قیصری قوم میں گھس گیا۔ سو اس خصوصیت میں بھی آخری مسیح کا اشتراک ہے۔ کیونکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ یورپ اور امریکہ میں میرے دعویٰ اور دلائل کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے۔ اور ان لوگوں نے خود بخود صدہا اخبار میں میرے دعویٰ اور دلائل کو شائع کیا ہے اور میری تائید اور تصدیق میں ایسے الفاظ لکھے ہیں کہ ایک عیسائی کے قلم سے ایسے الفاظ کا نکلنا مشکل ہے۔ یہاں تک کہ بعض نے صاف لفظوں میں لکھ دیا ہے کہ یہ شخص سچا معلوم ہوتا ہے۔ اور بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح کو خدا بنانا ایک بھاری غلطی ہے۔ اور بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس وقت مسیح موعود کا دعویٰ عین وقت پر ہے اور وقت خود ایک دلیل ہے۔ غرض اُن کے اِن تمام بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ میرے دعوے کے قبول کرنے کیلئے تیاری کررہے ہیں۔ اور ان ملکوں میں سے دن بدن عیسائی مذہب خود بخود برف کی طرح پگلتا جاتا ہے۔ (۸)آٹھویں خصوصیت مسیح میں یہ تھی کہ اُس کے وقت میں ایک ستارہ نکلا تھا۔ اِس خصوصیت میں بھی میں آخری مسیح بننے میں شریک کیا گیا ہوں۔ کیونکہ وہی ستارہ جو مسیح کے وقت میں نکلا تھا۔ دوبارہ میرے وقت میں نکلا ہے۔ اس بات کی انگریزی اخباروں نے بھی تصدیق کی ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مسیح کے ظہور کا وقت نزدیک ہے۔ (۹)نویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ جب اس کو صلیب پر چڑھایا گیا تو سورج کو گرہن لگا تھا۔ سو اس واقعہ میں بھی خدا نے مجھے شریک کیا ہے۔ کیونکہ جب میری تکذیب کی گئی تو اس کے بعد نہ صرف سورج بلکہ چاند کو بھی ایک ہی مہینہ میں جو رمضان کا مہینہ تھا گرہن لگا تھا۔ اور نہ ایک دفعہ بلکہ حدیث کے مطابق دو دفعہ یہ واقعہ ہوا۔ ان دونوں گرہنوں کی انجیلوں میں بھی خبر دی گئی ہےاور قرآن شریف میں بھی یہ ہے اور حدیثوں میں بھی جیسا کہ دار قطنی میں۔ (۱۰) دسویں خصوصیت یہ ہے کہ یسوع مسیح کو دُکھ دینے کے بعد یہودیوں میں سخت طاعون پھیلی تھی۔ سو میرے وقت میں بھی سخت طاعون پھیل گئی۔ (۱۱) گیارھویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ یہودیوں کے علماء نے کوشش کی کہ وہ باغی قرار پاوے اور اس پر مقدمہ بنایا گیا۔ اور زور لگایا گیا کہ اُس کو سزائے موت دی جائے۔ سو اس قسم کے مقدمہ میں بھی قضا و قدر الٰہی نے مجھے شریک کر دیا کہ ایک خون کا مقدمہ مجھ پر بنایا گیا اور اسی کے ضمن میں مجھے باغی بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ وہی مقدمہ ہے جس میں فریق ثانی کی طرف سے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی گواہ بن کرآئے تھے۔

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ32تا 34)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button