متفرق مضامین

فن تعمیر کے شاہکار پُلوں کی اقسام اور مختصر تعارف

(الرحیق المختوم۔ یوکے)

آپ بےشمار مرتبہ اپنے سفر کے دوران کسی پل پرسے گزرے ہوں گے۔ پل زمین کے دو حصوں کےجن کو پانی، کسی گھاٹی یا پہاڑ وغیرہ نے جدا کیا ہو درمیان رابطہ بحال کرتا ہے۔ آپ میں سے کبھی کسی نے سوچا کہ ان گہرے بہتے پانیوں یا ان مشکل جگہوں پہ پل کیسے بنایا جاتا ہے؟ آپ کو اِس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

پانی کے اوپر پل مختلف طریقوں سے بنائے جاتے ہیں۔ یہ طریقے پانی کے بہاؤ، اس کی گہرائی اور پانی کے نیچے موجود مٹی کی نوعیت کو سامنے رکھ کر اپنائے جاتے ہیں۔

پہلا طریقہ

کم گہرائی والے پانی میں پل بناتے وقت سب سے پہلے ان جگہوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جہاں پل کے ستون کھڑے کرنےہوتے ہیں۔ پھر پل کی بنیادوں کو عارضی طور پر بنایا جاتا ہے تاکہ ان پر گول ستون یا کھمبا نما ستون بنائے جاسکیں۔ اور اگر پل کی اوپری سطح بنانے کے لیے زمین سازگار نہ ہوتو عارضی طور پر مستول کھڑے کیے جاتے ہیں اور ان کی مدد سے پانی کی تہ میں بڑے بڑے کھمبے نصب کیے جاتے ہیں۔ پھر ان کھمبوں کی مدد سے یا عارضی طور پر بنائے گئے پلیٹ فارم/گارے سے بنائی ٹھیکریوں سے پل بنایا جاتا ہے۔ اکثراوقات کم گہرائی والے پانی میں پل بنانے کے لیے کشتیوں کی بھی مدد حاصل کی جاتی ہے۔

دوسرا طریقہ

گہرے سمندروں یا دریاؤں میں پُل بناتے وقت جو طریقہ اپنایا جاتا ہے اُس کو کوفرڈیم cofferdamکہا جاتا ہے۔ اس میں سب سے پہلے پانی کے اندر چاردیواری بنائی جاتی ہے اور پھر اس چاردیواری کے اندر سے پانی کھینچ کر اس کو مطلوبہ حد تک خشک کیا جاتاہے۔ خشک ہو جانے کے بعد اس جگہ پر پُل کی بنیادیں بڑے بڑے ستونوں کی شکل میں اٹھائی جاتی ہیں۔ اِس دوران تمام وقت چوبیس گھنٹے اس عمل کی نگرانی کی جاتی ہے اور سمندر میں اُٹھنے والی موجوں اور دریا کے پانی کے بہاؤ کی قوت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ کوفرڈیم کےطریقے سے بنائے گئے پل بہت مضبوط اور بہت بھاری بوجھ اُٹھانے کے لیے سازگار ہوتے ہیں۔

تیسرا طریقہ

اس تکنیک کو کیس ڈرلنگ case drillingکہتے ہیں۔ یہ پل بنانے کے واسطےسب سے جدید طریق ہے۔ اس طریقے میں پانی کےبہاؤ کو تیز ہوا کے دباؤ کی مدد سے اس جگہ سے دور کیا جاتا ہے جہاں پل بنانے کے واسطے ستون کھڑے کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے بعداس جگہ ایک تنگ ٹیوب نما چیمبر لگایا جاتا ہے۔ اور پھر اس ٹیوب نما چیمبر کے اندر لمبی ڈرل سے سوراخ کیے جاتے ہیں۔ اس عمل کےساتھ ساتھ تیز ہوا کا دباؤ پانی کو ساتھ ساتھ باہر نکال رہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس ڈرلنگ کیے سوراخ میں ایک کیس ڈالا جاتا ہے جو کہ اس سوراخ کو اضافی مدد فراہم کرتا ہے۔ اور اس کی مدد سے ایک مضبوط ڈھانچہ اُٹھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ستونوں اور باقی ڈھانچے کو کنکریٹ سےبھر دیا جاتا ہے۔ اور پل تیار کیا جاتا ہے۔

دُنیا بھر میں پل مختلف ساخت اور حجم میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ سادہ اور بنیادی پل جو بنائے گئے اُن میں پانی کے دو پاٹوں پہ افقی حالت میں لوہے یا لکڑی کے شہتیر بچھا دیے جاتے تھے۔ جوں جوں ان کی ضرورت بڑھتی گئی اور وزن کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوتا گیا ان پلوں کی ساخت اور بناوٹ میں بھی تبدیلی آتی گئی۔ قدیم روم میں پل محراب کی شکل میں کمان دار بنائے جانے لگے۔ جو کہ فن ِتعمیرِپل میں ایک نئے دَور کا آغاز تھا۔ یہ کمان دار پل بہت زیادہ وزن اُٹھانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ مگر یہ پل زیادہ لمبے بنانے بہت مشکل ہوتے تھے۔

گزرتے وقت کے ساتھ زیادہ چوڑے اور لمبے پل بنانے کی ضرورت پیش آئی جو کہ مضبوط اور پائیدار ہوں اور بہت زیادہ وزن اُٹھانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ فن تعمیر کو سامنے رکھتے ہوئے پلوں کو کئی گروپس میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

٭…شہتیر

٭…محراب دار

٭…لٹکے ہوئے، لچک دار

٭…رکی ہوئی تاروں والے

شہتیر والے پل

جیسا کہ بیان ہوا یہ پل پانی کے دو پاٹوں پہ بیم یعنی شہتیر رکھ کر بنائے جاتے ہیں اور یہ پل کی ابتدائی قسم ہیں۔ جدید بیم پل میں کنکریٹ اورفولاد کے شہتیر استعمال کیے جاتے ہیں۔

محراب دار

اس کی بنیاد آرک یعنی کمان ہے۔ یہ اسٹیل یا کنکریٹ سے تیار ہوتی ہے۔ یہ قدیم ترین قسم ہے۔ اس میں پل کا انتہائی بوجھ پل کے دونوں کناروں پر پڑتاہے۔ اور اگر پل کچھ لمبا ہو تو اس پر پڑنے والے بوجھ کو درمیان مین ستون لگا کر کچھ اس پر اور دونوں کناروں پر متوازن تقسیم کیا جاتا ہے۔

لچک دارپل

یہ لچکدار اور انتہائی مضبوط عناصر سے بنایا جاتا ہے۔ جس میں رسیاں، زنجیریں اسٹیل پلیٹس وغیرہ شامل ہیں۔ یہ چیزیں تناؤ میں کام کرتی ہیں۔ ان میں بوجھ کم کرنے کے لیے اضافی بیم کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس مقصد کے لیے اسٹیل کی اعلیٰ طاقت کی مضبوط تاریں استعمال کی جاتی ہیں۔ ان میں تناؤ اور دباؤ کا ایک امتزاج استعمال ہوتا ہے۔ جو آہنی تاروں کے ذریعے ٹاورز کے ساتھ پانی کے دونوں سروں پر منتقل کیا جاتا ہے۔ ان کا مضبوط مگر ہلکا وزن انہیں لمبی دوری تک پھیلانے میں مددگار ہوتا ہے۔

رُکی ہوئی تاروں والے

فنِ تعمیرِ پل میں کیبل رُکنے والے پل سب سے عام ہیں۔ اس میں ایک سے زیادہ ٹاورز ہوتے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک میں عمودی کمپریشن کا استعمال کرتے ہوئے قوتِ عمل کو آہنی کیبلز کی مدد سے پل کی بنیادوں پر منتقل کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پل کے ہر حصے پرتناؤ اور پڑنے والا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔

آپ کی دلچسپی کے لیے اب دُنیا کے چند مشہور ترین پلوں کا تذکرہ پیش ہے۔

Brooklyn Bridge

امریکہ میں واقع اس پُل کا شمار دنیا کے مشہور ترین پُلوں میں ہوتا ہے۔ یہ نیو یارک ہی نہیں دنیا کے دو بڑے مالیاتی مراکز ’’بروکلین‘‘ اور’’مین ہٹن‘‘ کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس پُل کی تعمیر1869ء میں شروع اور1883ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی لمبائی 5989فٹ، چوڑائی 85فٹ اوروزن14680 ٹن ہے۔ یہ شاہکار ماہر تعمیرات جان آگسٹس روبلنگ کا تخلیق کردہ ہے۔ گاڑیوں بسوں کے علاوہ اس پل پر سائیکلوں اور پیدل چلنے والوں کا بھی رستہ بنایا گیا ہے۔

Sydney Harbour Bridge

سڈنی آسٹریلیا میں واقع یہ پُل ’’دی کورٹ ہینگر‘‘ (The Coart Hanger) بھی کہلاتا ہے۔ یہ 8سال کے عرصے میں 12ملین ڈالر کی لاگت سےتیار ہوا۔ اس کی لمبائی 3770فٹ ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد پُل دیکھنے کے لیے سڈنی آتی ہے کیونکہ یہاں سے شہر کا نہایت دلفریب منظرنظر آنے کے ساتھ ساتھ بندرگاہ، ساحل اور سڈنی اوپیرا ہاؤس کےدل کش نظارے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ خصوصاً نئے سال کے موقع پریہاں ہونے والی آتش بازی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس پُل کا شمار اُن پلوں میں ہوتا ہے جن کی دنیا میں سب سے زیادہ تصویریں بنتی ہیں۔

Si-O-Se Pol Bridge

ایران کے شہر اصفہان میں واقع صفوی دور میں بنایا گیا یہ مشہور پل ہے۔ 1602ء میں شاہ عباس اوّل کے دَور میں بنا یہ اینٹوں اور پتھروں سے بنایا گیا295 میٹر لمبا اور 13.75 میٹر چوڑا پل ہے۔

Golden Gate Bridge

اس پل کو امریکی ماہر تعمیر جوزف بی اسٹراس (Joseph.B Strauss) نے تخلیق کیا۔ یہ سان فرانسسکو، کیلیفورنیا میں واقع ہےاور سان فرانسسکو کوبحرالکاہل سے ملاتا ہے۔ اسے دنیا کا لمبا ترین پُل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر1933ء میں شروع ہوکر 1937ءمیں مکمل ہوئی۔ لمبائی8921 فٹ ہے۔ اس پُل پر خاص طور پر سرخ اور نارنجی رنگ استعمال کیا گیا ہے، اس لیے یہ کہر آلود اور دھندلے موسم میں بھی دُور سے نظر آتاہے۔

Charles Bridge

چیک ری پبلک کے شہر پراگ میں بنا یہ پل دُنیا بھر میں بہت مشہور ہے۔ چارلس برج ہر روز آنے والے ہزاروں سیاحوں کا مقبول ترین مقام ہے۔ اس پل کے ایک حصے میں جنگلے پر آپ کو تالے ہی تالے دکھائی دیں گے۔ اسے ’لو لوک‘ کہا جاتا ہے۔

یہاں پر سیاح اپنے پیاروں کے نام کا تالا لگا کر چابی دریا میں پھینک دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس طرح ان کی محبت تاحیات قائم رہتی ہے۔

روزانہ سینکڑوں لوگ یہاں پر رنگ برنگے، چھوٹے بڑے تالے لگاتے ہیں۔ کچھ ساتھ لاتے ہیں اور کچھ قریب بیٹھے وینڈرز سے یہ تالےخریدتے ہیں، اور یوں، وہ ان تالوں پر اپنے پیاروں کا نام لکھ کر چلے جاتے ہیں۔

اس کی تعمیر 1357ءمیں شروع ہوئی اور پندرھویں صدی کے آغاز میں مکمل ہوئی۔

Ponte Vechio

اس پُل کا شمار دنیا کے قدیم ترین پُلوں میں ہوتا ہے۔ اٹلی کے شہر فلورنس کے دریا آرنو پہ یہ پہلے لکڑی سے بنا تھا، مگر1333ء میں آنےوالے سیلاب میں مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ فلورنس کا یہ واحد پل ہے جو جنگِ عظیم دوم میں تباہ ہونے سے بچ گیا ہے۔ یہ پُل سیاحوں کےلیے بے حد کشش کا باعث ہے کیونکہ صدیوں سے تاریخی حیثیت کاحامل ہے۔ پتھروں سے بنے اس پُل پر گھر اور دکانیں بھی واقع ہیں، جواسے دوسرے تمام پلوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ سیاحوں کی بڑی تعداد کو اس پر بنے ہوٹلوں میں رہنا پسند ہے۔

Millau Bridge

ملاؤ وایاڈکٹ ایک بہت بڑا کیبل اسٹینڈ پل ہے جو کہ فرانس کے شہر میلاؤ کے قریب دریائے ترن کی وادی میں بنایا گیا ہے۔ یہ دُنیا کا سب سے اونچا گاڑیوں والا پل ہے۔ یہ ایفل ٹاور سے قدرے لمبا ہے۔ اس پل پر گاڑیوں کی حد رفتار 130km/h تھی جو کم کر کے 110km/h کر دی گئی ہے کیونکہ سیاح گاڑیوں کی رفتار کم کر کے اس پل کی تصاویر لینے کی کوشش کرتے تھے جس کی وجہ سے ٹریفک رک جایا کرتی تھی۔

Tower Bridge

لندن میں واقع یہ مشہور پُل قریباً 800فٹ لمبا ہے۔ اس کی تعمیر1886ء میں شروع ہو کر1894ء میں مکمل ہوئی۔ ٹاور آف لندن کے قریب اور مشہور دریائے ٹیمز پر واقع یہ پُل ہاریس جونز اور وولف بیری نامی ماہرین کا تخلیق کردہ شاہکارہے۔ اس کی لمبائی 800فٹ ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ درمیان سے 2حصوں میں تقسیم ہوکر اوپر اُٹھ جاتا ہے، اس طرح بڑے بحری جہاز بھی بآسانی نیچے سے گزر سکتےہیں۔

Rabwah Bridge

چنیوٹ اور ربوہ کے درمیان دریائے چناب کے پاس کچھ پہاڑیاں ہیں دریائے چناب ان پہاڑیوں کے دو تنگ دروں سے گزرتا ہے جن پردو پل بنائے گئے ہیں۔ یہ پُل جماعتِ احمدیہ کے مرکز ربوہ کی وجہ سے پاکستان میں مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک پل احمدی انجینئر خان بہادر نعمت اللہ خان صاحب کی زیرِ نگرانی 1930ء میں مکمل ہوا۔ ان پلوں میں زیادہ تر لوہا استعمال ہوا ہے۔ آج کل یہ دونوں پل عام گاڑیوں کی آمد ورفت کے لیے بند ہیں اور صرف ریل گاڑیوں کے زیرِ استعمال ہیں۔ اندرون و بیرون ملک پاکستان سے لوگ بڑے شوق سےاس پل پر دریائے چناب کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے جاتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button