متفرق مضامین

اطاعتِ امام- کامیابیوں کا دارومدار

(م۔ ا۔ شہزاد)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اطاعت اختیار کرنے کے متعلق فرماتاہے:

فَاتَّقُوااللّٰہ مَااسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا۔ (التغابن: 17)

پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس حد تک تمہیں توفیق ہے اور سنو اور اطاعت کرو۔

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’عرب ایک وحشی قوم تھی اور وہ کسی کی اطاعت کرنا حتی الوسع عار جانتی تھی اور اسی لئے کسی ایک بادشاہ کے ماتحت رہنا انہیں گوارہ نہ تھا بلکہ قبائل کے سردار عوام سے مشورہ لے کر کام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں ان کے دونوں طرف پھیلی ہوئی تھیں لیکن ان کی وحشت اور آزادی کی محبت کو دیکھ کر وہ بھی عرب کو فتح کرنے کا خیال نہ کرتی تھیں۔ عمرو بن ہند جیسا زبردست بادشاہ جس نے ارد گرد کے علاقوں پر بڑا رعب جمایا ہوا تھاوہ بھی بدوی قبائل کو روپیہ وغیرہ سے بمشکل اپنے قابو میں لاسکا اور پھر بھی یہ حالت تھی کہ ذرہ ذرہ سی بات پر وہ اسے صاف جواب دے دیتے تھے اور اس کے منہ پر کہہ دیتے تھے کہ ہم تیرے نوکر نہیں کہ تیری فرمانبرداری کریں چنانچہ لکھا ہے کہ عمرو بن ہند نے اپنے سرداروں سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص ایسا بھی ہے کہ جس کی ماں میری ماں کی خدمت کرنے سے عار کرے۔ اس کے مصاحبوں نے جواب دیا کہ ایک شخص عمرو بن کلثوم ہے اور عرب قبیلہ بنی تغلب کا سردار ہے۔ اس کی ماں بے شک آپ کی ماں کی خدمت سے احتراز کرے گی اور اسے اپنے لئے عار سمجھے گی جس پر بادشاہ نے ایک خط لکھ کر عمر وبن کلثوم کو بلوایا اور لکھا کہ اپنی والدہ کو بھی ساتھ لیتے آنا کیونکہ میری والدہ اسے دیکھنا چاہتی ہے۔ عمرو بن کلثوم اپنی والدہ اور چند اور معزز خواتین کو لے کر اپنے ہمراہیوں سمیت بادشاہ کے خط کے بموجب حاضر ہوگیا بادشاہ کی والدہ نے حسب مشورہ اس کی والدہ سے کچھ کام لینا تھا۔ دونوں زنان خانہ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ والدہ شاہ نے کسی موقع پر سادگی کے ساتھ کہہ دیا کہ ذرا فلاں قاب مجھے اٹھا دو۔ عمر و بن کلثوم کی والدہ لیلیٰ نے جواب دیا کہ جسے ضرورت ہو خود اٹھا لے اس پر والدہ شاہ نے مکرر اصرار کیا لیکن لیلیٰ نے بجائے اس حکم کی تعمیل کے زور سے نعرہ مارا کہ وَااَذِلَّا ہُ یَابَنِیْ تَغْلَبْ اے بنی تغلب دوڑو کہ تمہاری ذلت ہوگئی ہے۔ اس آواز کا سننا تھا کہ اس کے بیٹے عمرو بن کلثوم کی آنکھوں میں تو خون اتر آیا بادشاہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا گھبرا اٹھا چونکہ اپنے پاس تو کوئی ہتھیار نہ تھا ادھر ادھر دیکھا۔ بادشاہ کی تلوار کھونٹی کے ساتھ لٹک رہی تھی اس کی طرف جھپٹا اور تلوار میان سے نکال کر ایک ہی وار سے بادشاہ کا سراڑا دیا لیکن اس سے بھی جوشِ انتقام نہ اترا۔ باہر نکل کر سپاہیوں کو حکم دیا کہ شاہی مال ومتاع لوٹ لو بادشاہ کی سپاہ تو غافل تھی اس کے سنبھلتے سنبھلتے لوٹ لاٹ کر صفایا کر دیا اور اپنے وطن کی طرف چلا آیا۔‘‘(سیرۃ النبیﷺ، انوارالعلوم جلد 1صفحہ456-457)

جو حال بنی تغلب کا تھا قریباً قریباً وہی حال سارے عرب کا تھا خصوصاًقریش مکہ تو کسی کی ماتحتی کو ایک دم کے لیے بھی گوارہ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جب اس قوم نے حضور نبی اکرمﷺ پر ایمان لایا تو ان کی کچھ ایسی حالت بدلی کہ انہیں اپنے سر پیر کا ہوش نہ رہا اور سب خود سری بھول گئے۔ اور آپﷺ کے عشق میں کچھ ایسے مست ہوئے کہ وہ آزادی کے خیال خواب ہوگئے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ صحابہ کی اس اطاعت گزاری کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں وعظ فرما رہے تھے۔ بعض صحابہ مجلس کے کناروں پر کھڑے تھے، آپ نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ اُس وقت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ پاس کی گلی میں سے گزر رہے تھے۔ آپ کے کان میں یہ آواز پڑی تو آپ وہیں بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے مسجد کی طرف اُنہوں نے گھسٹتے ہوئے آنا شروع کر دیا۔ کسی شخص نے آپ سے کہا یہ کیا احمقانہ حرکت ہے کہ تم گلی میں اس طرح بیٹھ کر چل رہے ہو۔ آپ نے فرمایا میرے کان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ آواز پڑی تھی کہ بیٹھ جاؤ تو میں بیٹھ گیا۔ اس پر اس شخص نے کہا کیا تمہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حکم اُن لوگوں کو دیا ہے جو مسجد میں آپ کے سامنے کھڑے تھے؟ آپؓ نے فرمایا یہ درست ہے لیکن موت کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ پتہ نہیں مَیں مسجد میں پہنچنے سے قبل ہی مر جاؤں اور اِس حکم پر عمل نہ کر سکوں تو خداتعالیٰ کے سامنے میں کیا جواب دوں گا۔ کیا خداتعالیٰ کے سامنے میں یہ کہوں گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک حکم میں نے نہیں مانا تھا اس لئے جونہی آواز میرے کان میں پڑی تو میں بیٹھ گیا۔ چاہے یہ بیوقوفی کا کام قرار دے دیا جائے لیکن اگر مسجد میں جانے سے قبل مجھے موت آگئی تو خداتعالیٰ کے سامنے میں یہ تو کہہ سکوں گا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حکم جو میرے کانوں میں پڑا مانا ہے۔

اِسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب کے حرام ہونے کے متعلق اعلان فرمایا تو اُس وقت کچھ صحابہؓ ایک شادی کے موقع پر جمع تھے۔ ایک مٹکا باقی تھا جس کو وہ شروع کرنے ہی والے تھے کہ ان کے کانوں میں آواز آئی کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ اِس پر اُن میں سے ایک نے کہا سنو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے شراب حرام ہو گئی ہے۔ دوسرے نے کہا باہر نکل کر ذرا تصدیق کر لو لیکن جس صحابیؓ کو اُس نے یہ بات کہی تھی اُس نے ڈنڈا مٹکے پر مارا اور اُسے پھوڑ کر کہا خدا کی قسم! میں پہلے مٹکاتوڑوں گا اور پھر تحقیقات کروں گا۔ جب میرے کان میں آواز پڑ گئی تو تحقیقات کا سوال بعد میں پیدا ہو گا، عمل پہلے ہو گا۔ پس صحابہؓ میں یہ روح تھی کہ وہ احکام پر فوری طور پر عمل کرتے تھے اور یہ نہیں سوچتے تھے کہ آیا وہ عقلی معیار پر پورا اُترتے ہیں یا نہیں۔‘‘(خطبات شوریٰ جلد 3صفحہ559-560)

خلافت ِراشدہ کے قیام کے دوران بھی مسلمانوں کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہی کامل جذبۂ اطاعت تھا’’حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے زمانہ کے بہت بڑے جرنیل تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے سپہ سالار اور بہادر جب ان کا نام سنتے تو ان کے جسموں پر کپکپاہٹ طاری ہوجاتی۔ انہوں نے ایک سو سے زائد لڑائیوں میں حصہ لیا اور ہر میدان میں دشمن کو مات دی۔ آپؓ شام کے علاقہ میں اسلامی افواج کے کمانڈر انچیف تھے۔ حضرت عمرؓ نے آپ کو معزول کر کے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو کمانڈر انچیف مقرر فرمایاجب یہ اطلاع حضرت خالد بن ولیدؓ کو ملی تو آپؓ فوری طور پر خلیفہ وقت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے عہدے سے الگ ہو گئے اور اطاعت خلافت کا شاندار نمونہ پیش کرتے ہوئے خودلوگوں کو خطاب کے ذریعے بتایا کہ لوگو اب خلیفة الرسول کی طرف سے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح سپہ سالار مقرر ہوئے ہیں ان کی اطاعت کرو۔ آپؓ خود چل کر حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے پاس گئے اور انہیں سپہ سالاری سونپ دی‘‘(سیرت صحابہ رسولﷺ صفحہ 145)

عسکری تاریخ میں شاذ ہی ایسی مثال ملے گی کہ دوران جنگ کمانڈر انچیف تبدیل ہو کر نئے کمانڈر کے ماتحت اسی جنگ میں شامل رہے۔ یہ سب خلافت کی اطاعت کے سبب ممکن ہوا کیونکہ صحابہ جانتے تھے کہ ساری کامیابیوں کا دارومدار اطاعتِ خلافت میں ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں۔ نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار۔ حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی۔ جب تک کہ اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے لئے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو۔‘‘(ملفوظات جلد1صفحہ223تا224)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمیشہ امام وقت کے ہر حکم پر فوری عمل کرنے والا اطاعت گزار بنائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button