متفرق مضامین

بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط پنجم)

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

(10)حضرت ماسٹر عطاء محمد صاحب

آپ جامعہ کے بزرگ ترین اساتذہ میں سے تھے۔ آپ سے ہمیں باقاعدہ پڑھنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن آپ بڑی باقاعدگی کے ساتھ جامعہ آتے اور افریقہ اور انڈونیشیا سے آئے ہوئے غیر ملکی طلباء کو اردو پڑھاتے۔ اس زمانے کے ہمارے طلباء جوباہر کے ممالک سے تشریف لائے تھے ان سب کو آپ نے ہی اردو پڑھائی ہے۔ اس فن میں آپ کمال مہارت رکھتے تھے۔ بڑھاپے میں بھی بہت طاقتور جسم تھا۔ مصافحہ بہت زور کے ساتھ کرتے جس کی شدت کا احساس دیر تک محسوس ہوتا۔ بات بھی کڑک کے ساتھ بلند لہجے میں کرتے تھے۔

ایک دن جامعہ کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے توخاکسار نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔ آپ نے اسی گرفت سے خاکسار کا ہاتھ پکڑا اور نیچے اتر کر ایک درخت / بڑے پودے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ پتہ ہے اس پودے کا کیا نام ہے؟ میں نےعرض کی کہ جی نہیں ! فرمانے لگے شمشاد اسے شمشاد کہتے ہیں۔ ہمیں بھی اس دن پہلی مرتبہ شمشاد کے درخت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اور معلوم ہوا کہ کس قسم کا درخت ہے۔

آپ مکرم نسیم سیفی صاحب مرحوم کے والد محترم تھے۔ مکرم نسیم سیفی صاحب مبلغ سلسلہ وکیل التعلیم، ایڈیٹر الفضل ربوہ اور ایڈیٹر ماہنامہ تحریک جدید رہے۔ اللہ تعالیٰ ہر دو کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین

(11)مکرم مولوی محمد دین صاحب ایم اے

خاکسار نے اس مضمون کا ذکراپنے کچھ ساتھیوں سے کیا جن میں مکرم حامد کریم محمود صاحب بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مکرم مولوی محمد دین صاحب کے بارے میں بتایا کہ آپ دارالرحمت غربی کی مسجد ناصر میں نمازیں پڑھایا کرتے تھے۔ آپ ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ آپ کی آواز بہت شاندار اور گرج دار تھی۔ آپ نے ہمیں بانگِ درا، بالِ جبریل بھی پڑھائی۔ شرارتوں کو بہت ناپسند کرتے تھے۔ اور اگر کلاس میں کوئی کسی قسم کی بھی شرارت کرے تو ناراض بھی ہوجاتے تھے۔ تمام اساتذہ کو ایک ہی بات مدنظر رہتی تھی کہ یہ طالب علم ہیں۔ ان کی تربیت صحیح معنوں میں ہو تا کہ یہ جماعت کے مفید وجود بن سکیں۔

(12)مکرم مولانا نورالحق انور صاحب

آپ امریکہ میں بطور مبلغ سلسلہ متعین تھے۔ آپ جب واپس ربوہ تشریف لائے تو ہمیں تفسیر بیضاوی پڑھانے کی ڈیوٹی آپ کے سپرد ہوئی۔ آپ کو عربی زبان پر خاص عبور حاصل تھا۔ پرانےمفسرین کی تفاسیر سے خوب آگاہی تھی۔ آپ کلاس میں بہت سنجیدہ رہتے تھے۔ آپ کی رہائش دارالعلوم میں تھی۔

طلباء کلاس میں کبھی کبھار آپ سے مذاق بھی کر لیتے تھےجس پر آپ آگے سےصرف مسکرا دیتے تھے۔ آپ کو محض پڑھائی سے غرض تھی۔ کبھی طلباء کے اصرار پر بیرون ملک تبلیغ و تربیت کے کاموں سے متعلق اپنے تجارب بھی بتا دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین

(13)مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی

آپ بھی ایک متبحر عالم اورمناظر مبلغ سلسلہ تھے۔ دیارِغیر میں بھی آپ نے تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دیا۔ آپ سے ہم نے فقہ کا مضمون پڑھا۔ آپ کی آواز بڑے دھڑلّے والی ہوتی تھی۔ اور اپنے شاگردوں سے بھی یہی امید اور توقع رکھتے تھے کہ وہ دھڑلے سے بات کیا کریں۔ وہ پیغام حق پہنچانے میں جرأت سے کام لینے والے ہوں۔ آپ کو منہ میں آہستہ آہستہ بولنا بالکل پسند نہ تھا۔ بلکہ کہتے تھے کہ یہ کیا عورتوں کی طرح میں میں لگائی ہوئی ہے۔ مَردوں کی طرح بات کریں۔ گویا طلباء میں جرأت پیدا کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔

آپ چونکہ مناظر بھی رہے تھے اور اس میدان میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابیاں عطا کی ہوئی تھیں اس لیے طلباء کو فقہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ بعض الزامی جواب بھی سکھاتے تھے۔ میدان عمل کے تبلیغی واقعات بھی سناتے تھے جن سے طلباء میں بات کرنے اور اپنی بات کو جرأت کے ساتھ بیان کرنے کا ملکہ بھی پیدا ہوتا تھا۔ آپ ہمیشہ پگڑی پہنتے تھے۔ اپنے گھر سے سائیکل پر جامعہ تشریف لاتے۔

(14)ملک غلام نبی صاحب مرحوم

آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیارِ غیر میں تبلیغ اسلام کی توفیق عطا کی۔ جب وطن واپس آئے تو ربوہ آنے پر جامعہ احمدیہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ ہم نے ان سے پڑھا نہیں لیکن آپ بھی جامعہ میں غیر ملکی طلباء کو اردو وغیرہ پڑھاتے تھے۔ شایدکسی اور کلاس کو بھی پڑھاتے ہوں۔ البتہ آپ میرے مقالہ کے ممتحن تھے۔ خاکسار نے جامعہ احمدیہ میں مقالہ زیر عنوان ’’حضرت عثمانؓ کی جنگی مہمات ‘‘کے بارے میں لکھا تھا۔ مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد اور محترم ملک غلام نبی صاحب نے اسے دیکھا۔ الحمد للہ

آپ دارالعلوم میں رہائش پذیر تھے۔ بہت اچھی طرح اور ملائمت کے ساتھ بولتے۔ اس طرح نرم گویائی تھی کہ آپ کی بات سننے والے کے دل میں اتر جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ آپ سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے۔ آمین

(15)استاذی المکرم جناب حکیم محمد اسلم صاحب فاروقی

خاکسار نومبر 1966ء میں جب جامعہ میںداخل ہوا تو ممہدہ کی کلاس میں سب سے پہلا انہی کا پیریڈ ہوتا تھا اور آپ ترجمۃ القرآن پڑھاتے تھے۔ جب میری باری آئی تو اس آیت کریمہ کا ترجمہ کرنا تھا: وَ اِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ اَہۡلِکَ تُبَوِّیٴُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مَقَاعِدَ لِلۡقِتَالِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ۔ (آل عمران: 122)میں نے اس وقت عرض کی کہ میں تو آج ہی جامعہ میں آیا ہوں۔ اور مجھے تو پڑھنا نہیں آتا۔ اور نہ ہی ترجمہ آتا ہے۔ آپ نے اسی وقت مجھے اس آیت کریمہ کا لفظی ترجمہ کر کے بتایا۔ یہ آپ سے تعارف کا آغاز تھا۔ اور اتنی مدت گذرنے کے بعد بھی جب بھی قرآن شریف کی اس آیت سے گذرتا ہوں تو آپ کی یاد آتی ہے۔

جامعہ میں پڑھانے کے علاوہ آپ کی طبابت کی دکان بھی تھی۔ آپ نے ہمیں طبابت بھی سکھائی۔ محترم پرنسپل صاحب بسااوقات بیمارطلباء کو ان کے پاس بھیج دیتے۔ خاکسار کو بھی کئی مرتبہ ان سے دوائی لینے کا اتفاق ہوا۔

جامعہ کی تعلیم کے دوران جب امتحانات کے دن نزدیک آتے تو آپ طلباء سے نصاب میں مقررہ حفظ کرنے والی سورتیں سن کر پاس یا فیل کرتے۔ اس میں خاص طور پر اس بات کو مد نظر رکھتے کہ صحیح تلفظ سے حفظ کیا گیا ہو۔ کیونکہ مربی نے جماعتوں میں نماز کی امامت بھی کروانی ہوتی ہے اور غیر احمدیوں سے بات چیت کرنے میں قرآن مجید کا تلفظ درست ہونا چاہیے۔ اس لیے اس میں آپ کوئی رعایت نہیں کرتے تھے۔ پڑھائی سنجیدگی سے کراتے تھے۔ آہستہ آہستہ بولتے اور مذاق وغیرہ بالکل پسند نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین۔

(16)مکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب

مکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب حضرت مصلح موعودؓ کے بیٹے تھے اور آپ نے بھی جامعہ میں ہمیں پہلے تفسیر صغیر پڑھائی۔ اس کے بعد تفسیر کشاف کا کچھ حصہ۔ آپ شجاعت گروپ کے انچارج بھی تھے۔ آپ کے بعد مکرم مولانا محمد احمد صاحب ثاقب شجاعت گروپ کے انچارج بنے۔ مکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب نے تفسیرپڑھانے کے علاوہ تصوف کا مضمون بھی ہمیں پڑھایا تھا۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔

(17)مکرم مولانا فضل الٰہی بشیرصاحب

ہمارے زمانے میں مکرم مولانا فضل الٰہی صاحب بشیر نے بھی کچھ وقت کے لیے ہمیں غالباً عربی پڑھائی۔ تب آپ بلاد عرب سے واپس تشریف لائے تھے۔ اس کے علاوہ آپ مسجد مبارک میں رمضان المبارک کے مہینہ میں درس قرآن بھی دیتے تھے۔

(18)مکرم عبدالرزاق صاحب پی ٹی آئی

ہم طلباءء آپ کو پی ٹی صاحب کہتے تھے۔ آپ جامعہ احمدیہ کے کوارٹر میں رہائش پذیر تھے۔ آپ شام کو طلباء کے لیے کھیلوں کا بندوبست کرتے۔ سب طلباء کی کھیلوں میں حاضری لازمی ہوتی جس کی باقاعدہ رپورٹ پرنسپل صاحب کو پیش ہوتی۔

اس کے علاوہ جامعہ کی سالانہ کھیلیں، کراس کنٹری ریس، پیدل سفر، سائیکل سفر منعقد ہوتے۔ اس قسم کی تمام سرگرمیوں کےآپ روح رواں ہوتے۔

جب ہم سادسہ کلاس میں تھے تو آپ کی دوسری شادی ہوئی۔ اس موقع پرہماری کلاس کے طلباء آپ کی بارات میں شامل ہوئے۔ ہم سب بہت خوش ہو کر گئے کیونکہ ہمارے استاد کی شادی تھی۔ آپ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔

ایک دفعہ 27میل کا سفر بھاگ کر کرنا تھا۔ بہت سے طلباء نے اس میں حصہ لیا۔ اگلے دن مکرم میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ نے ان طلباء میں سے کچھ کا انتخاب کیا اور فرمایا کہ یہ طلباء آج پھر 27 میل کراس کنٹری ریس کریں گے۔ اور خاموشی سے پی ٹی صاحب کو پرنسپل صاحب نے بتایا کہ اگر یہ بلا چون چرا سفر کرکے واپس آئے تو میں ان کو منہ مانگا انعام دوں گالیکن انعام کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ چنانچہ وہ سارے طلباء اگلے دن پھر 27میل سفر پر روانہ ہوئے۔ اور کامیابی سے واپس آئے۔ محترم پی ٹی صاحب نے بعد میں بتایا کہ میر صاحب نے کہا ہے کہ جو انعام بھی کہیں گے میں دوں گا۔ جب یہ طلباءسفر سے واپس آئے تو سب طلباءسے پوچھا گیا کہ وہ کیا انعام میں لینا چاہیں گے۔ کسی نے تفسیر صغیرکہا کسی نے اچکن کسی نے کچھ، کسی نے کچھ۔ ہماری کلاس کے ایک دوست نے کہا کہ میں تو مو ٹر سائیکل لوں گا۔ اس پر بات اڑی رہی۔ چنانچہ میر صاحب کو پی ٹی صاحب نے بتایا کہ یہ بات ہے۔ پھر انہیں سمجھایا گیا کہ بھائی کوئی ہونے والی بات کرو۔ چنانچہ پھر انہوں نے بھی غالباً تفسیر صغیر ہی لی۔

ہماری آخری کلاس درجہ سادسہ کے لیے محترم پرنسپل صاحب کا یہ بھی حکم تھا کہ ہر جمعرات کو جامعہ سے بھاگتے ہوئے احمد نگر تک جانا ہے اور واپس آنا ہے اور اس کے لیے غالباً ایک گھنٹہ مقرر تھا۔ جو شخص اس وقت میں یہ سفر نہ کرتا اسے اگلے دن پھر جانا پڑتا۔ اس لیے ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی کہ وہ اسی دن اپنے مقررہ وقت میں طے کرلے۔ اس کا اہتمام اور رپورٹ بھی ہمارے پی ٹی صاحب ہی کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے۔ آمین

یہ تھے ہمارے پیارے، محسن، مشفق اور ہمدرد اساتذہ کرام جن سے جامعہ میں پڑھا۔ ان میں سے ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ یہ طلباء پڑھ لکھ کر اور تربیت حاصل کر کے جماعت کے لیے مفید وجود بنیں اور اپنے وقف کو عمدہ رنگ میں نبھائیں۔ خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق ہو اور وفاداری اور جاںنثاری کا نمونہ دکھائیں۔ اور اس کے لیے انہوں نے ہر کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔ اور اپنے قرب میں جگہ عطا کرے۔ آمین

خاکسار نے جب یہ مضمون لکھنا شروع کیا تو اپنے آپ کو اسی عمر میں لے جا کر لکھا جس عمر میں خاکسار نے جامعہ میں داخلہ لیا۔ اور مضمون لکھتے وقت بھی وہی کیفیت رہی یعنی ایک ادنیٰ سے طالب علم کی۔

یہ ایک چھوٹا سا قرض تھا جو چکانے کی آج ہمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے ساتھیوں کو احسن رنگ میں خدمت کی توفیق عطا کرے۔ اور جو اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔

یہ مضمون تشنہ رہے گا اگر میں اپنے ان پیارے اساتذہ کے بعد اپنے ان بزرگوں اور ہمدردوں کا ذکر نہ کروں جنہوں نے ہمارے روحانی جسم کی پرورش کے بعد جسمانی نشوونما کے لیے مجاہدہ اور محنت کی۔

جامعہ کے باورچی اور مدد گار کارکن

اب میں جامعہ کے ہوسٹل میں کچن میں کام کرنے والے اور کھانا پکانے والوں کا کچھ ذکر کروں گا۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ کچن میں کھانا پکانے والوں نے بھی ہم طلباء کے ساتھ بہت ہمدردی کی ہے۔ ہم 16-17 سال کے تھے۔ اپنے اپنے گھروں کو خیر باد کہہ کر آئے تھے۔ تو یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ہماری ساری ضروریات کا خیال رکھا۔ جو طلباء ربوہ میں اپنے گھروں میں رہتے تھے انہیں اس بات کا شاید اندازہ نہ ہوا ہوگا کہ ان بچوں کے ساتھ کیا گذرتی ہے جو باہر سے آتے ہیں۔

ان میں سرفہرست بھائی محمد علی صاحب ہیں۔ آپ ایک لمبے عرصہ سے جامعہ کے ہوسٹل کے کچن میں کھانا پکانے کا کام کرتے تھے۔ قادیان سے ہی یہ کام کرتے چلے آرہے تھے۔ بچوں یعنی ہم طلباء کے ساتھ بہت ہمدردی سے پیش آتے تھے۔ تین وقت تنور کے آگے بیٹھ کر روزانہ قریباً 90 سے زائد لوگوں کے لیے کھانا پکانا۔ اور پھر روزانہ کی بنیاد پر سالن کی دیگیں پکانا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازے۔ جب کوئی طالب علم بیمار ہوجاتا اور بھائی محمد علی سے جا کر کہتا کہ آج میں روٹی یا سالن نہیں کھاؤں گاتو آپ اس کے لیے کھچڑی بنا دیتے۔ آپ کھانا بہت مزے دار بناتے تھے۔ مہینے میں ایک دن چاولوں کی کھیر بنتی تھی۔ اسی طرح دال ماش بہت مزے دار بنتی تھی۔ جامعہ کے ہوسٹل سے باہر کئی بزرگوں کو تحفۃً بھی بھجوائی جاتی۔

سالانہ عشائیہ کا کھانا بھی بھائی محمد علی صاحب ہی بناتے تھے۔ ربوہ اور باہر سے دیگر بزرگان جو مدعو ہوتے سب ہی کھانے کی تعریف کرتے۔ غالباً ایک دفعہ شکار بھی بنایا گیا جو بہت مزے دار تھا۔

بھائی محمد علی صاحب کا کام چونکہ آگ پر بیٹھ کر کرنے کا ہوتا اس لیے میں نے دیکھا کہ آپ کثرت کے ساتھ اپنے منہ اور سر کو دہی کے ساتھ دھوتے تھے تاکہ تنور کی گرمی سے منہ جو جھلس جاتا تھا اس میں کمی آئے۔

بھائی محمد علی صاحب ربوہ نہیں بلکہ احمد نگر میں رہائش رکھتے تھے اور روزانہ سائیکل پر موسم کی شدت کے باوجود آکر کھانا پکاتے۔ آپ ایک بہت پیارے وجود تھے۔ مجھ جیسے بعض طلباء جو دیہات سے آئے ہوئے تھےکوبعض کھانوں کی عادت ہوتی تھی۔ مثلاً صبح کو پراٹھا کھانا۔ ہم آپ کو گھی لا کر دے دیتے تو آپ سب کو الگ الگ پراٹھے بنا کر صبح ناشتہ میں دیتے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت ہمیں ناشتہ تنور کی ایک روٹی اور دو چھٹانک دہی ملتی تھی۔ مجھے تو دہی کی عادت نہ تھی بلکہ روٹی سالن کھانے کا عادی تھا۔ سالن تو رات کا بچا ہوا مل جاتا اوربھائی محمد علی صاحب کو گھی دےدیتا جس کا وہ پراٹھا بنا دیتے۔ باقی دہی کی لسی بن جاتی۔ گرمیوں میں تو یہ دہی جو صبح ملتی تھی بہت کام آتی۔ خاکسار دو چھٹانک دہی میںسے آدھے کی صبح کو لسی بنا لیتا تھا اور آدھے سے دوپہر کو۔ اور پھر جیسا کہ مقولہ مشہور ہے کہ لسّی اور لڑائی جتنی مرضی بڑھا لو۔ میں دوپہر کو جو لسّی بناتا اس میں برف، پانی اور نمک ڈال لیتااور اپنے ساتھیوں کی بھی تواضع کرتا۔ بڑھتے بڑھتے بہت سے دوستوں میں ہماری لسّی مشہور ہوگئی۔ اور کئی طلباء لسّی بنانے لگ گئے۔ اگرمیں یہ کہوں کہ 1966ء یا 1967ء میں خاکسار نے لسّی بنانے کا کچن میں تجربہ کیا تھا تو غلط نہ ہوگا کیونکہ مجھ سے پہلے کوئی لسّی نہ بناتا تھا۔ اور اس کے بعد طلباء نے کچن میں لسّی بنانے کا کام شروع کر دیا۔ ایک دفعہ مجھے جامعہ کے کچن میں جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا وہاں لسّی بنانے کے لیے مدھانی اور گڑویاں بھی پڑی ہیں جس کا آغاز خاکسار نے کیا تھا۔

بھائی محمد علی صاحب کے ساتھ اس وقت کچھ اور لوگ بھی کچن میں کام کرتے تھے۔ ان میں ایک بابا عبدالستار صاحب تھے۔ آپ کے ذمہ اور مولوی محمد دین صاحب کے ذمہ باہر سے گوشت سبزی وغیرہ کی خریداری کی ذمہ داری تھی۔

مولوی محمد دین صاحب اور بابا ستار صاحب دونوں ڈیرہ غازی خاں سے تعلق رکھتے تھے۔ بابا ستار صاحب بہت ہی مہربان شخصیت تھے۔ بہت خیال رکھتے تھے، طلباء اگر بازارخود نہ جاسکتے ہوں تو بابا ستار کو بتا دیتے تھے کہ بازار سے یہ سودا سلف لادیں اور آپ اسی وقت تیار ہوتے اور لا دیتے۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی کوئی چیز لانے کو کہی ہو اور اس میں انہوں نے دیر کی ہو۔ بہت پیاری اور یادگار شخصیت تھیں۔

مولوی محمد دین صاحب بھائی محمد علی صاحب کے دائیں بازو تھے۔ انہوں نے کھانا پکانا سیکھ لیا تھا اور پھر یہی مولوی محمد دین صاحب بھائی محمد علی صاحب کے بعد کھانا بناتے تھے۔ ان کی تربیت بھی بھائی محمد علی صاحب نے کی تھی۔ اور وہ حتی الوسع کوشش کرتے کہ انہی خطوط پر چلیں جو بھائی محمد علی صاحب کے تھے۔

کچن میں کام کرنے والوں میں ایک اور ساتھی بھائی محمد حنیف صاحب تھے۔ آپ الف محلہ(یعنی دارالیمن) میں رہتے تھے۔ بھائی محمد علی کے شاگرد تھے۔ اور کھانا پکانے میں اور تقسیم کرنے میں مدد کرتے تھے۔ بہت محنتی ، مخلص اور ہمدرد تھے۔ سب کو مسکرا کر ملا کرتے۔

اسی طرح ایک اور دوست نواب دین صاحب تھے۔ معلوم نہیں کہ ان کا کہاں سے تعلق تھا۔ لیکن بڑے دھیمے مزاج کےتھے۔ سر نیچے رکھ کر کام کرتے رہتے۔ کبھی سبزیاں کاٹ رہے ہیں تو کبھی آٹا گوندھنے میں مدد کر رہے ہیں۔ کبھی برتن دھونے میں اور کبھی ڈائننگ ایریا کی صفائی وغیرہ۔ آپ بہت محنت سے دھن سے اپنے کام میں مگن رہتے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔ آمین

جو بات اس وقت لکھنے لگا ہوں اس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب ہم جامعہ میں داخل ہوئے تو جامعہ کے ہوسٹل کی عمارت خستہ حالت میں تھی۔ ایک بڑے کمرے میں 12، 14 سے زائد طالب علم رہتے۔ اور اس کی چھت سے بعض اوقات سیمنٹ اور چونا گر کر کپڑوں، کتابوں اور بستر کو خراب کرتا۔ لیٹرین، بیت الخلاء کی تو سہولت تھی ہی نہیں۔ ہوسٹل کی عمارت سے باہر جس طرف تعلیم الاسلام ہائی سکول تھا اس کی دیوار کی طرف غالباً 6کھڈیاں (لیٹرین ) بنی ہوتی تھیں۔ ہوسٹل میں 80، 90کےقریب طلباء رہتے تھے۔ اور اس وقت سارے جامعہ کی تعداد غیر ملکی طلباء کو ملا کر غالباً ایک سو سے کچھ اوپر ہوتی تھی۔

ہوسٹل میں 80، 90 افراد اور باہر لیٹرین کی یہ صورت۔ ہر ایک کے پاس اپنا اپنا لوٹا ہوتا تھا۔ اور صبح سویرے نماز فجر کے بعد طلباء لیٹرین استعمال کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہوجاتے تھے۔ اس وقت فلش سسٹم تو ہوتا نہ تھا۔ وہیں پر ان چھ کھڈیوں (لیٹرینوں) میں سارا گند جمع ہوتا رہتا تھا۔ پھر بنتا مسیح صاحب آکر اس کی صفائی کرتے۔ وہاں سے اس گند اورفضلہ کو سر پر اٹھا کر کہیں باہر پھینکتے۔ پہلے تو صرف دن میں ایک مرتبہ صفائی ہوتی تھی۔ بعد میں غالباً دن میں دو مرتبہ صفائی کا انتظام ہوا۔ یہ بنتا مسیح کا کام تھا۔ اور اس کے علاوہ وہ جامعہ کی عمارت میں ہر طرح صفائی کا انتظام کرتے۔ آپ بہت بھلے آدمی تھے۔ مسکرا کر بات کرتے ۔کبھی کبھار طلباء ان سے مذاق بھی کر لیتے۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button