حضرت مصلح موعود ؓ

میری سارہ (قسط نمبر 2)

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ

خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔

ھُوَ النَّاصِرُ

(رقم فرمودہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

(قسط نمبر 2)

تعلیم میں مشغولیت

آخر سارہ اپنے گھر میں آ ئیں اور ابھی ایک ہفته آ ئی کونہ ہوا تھا کہ تعلیم میں مشغول ہوگئیں۔ پہلے میں نے انہیں انگریزی شروع کرائی کہ وہ اس زبان سے بالکل نا آشنا تھیں اور پھر اس خاص کلاس میں داخل کرا دیا کہ جو کسی قدر تعلیم یافتہ مستورات کی اعلیٰ تعلیم کیلئے میں نے کھولی تھی۔

علمی قابلیت

وہ فارسی اور عربی میں اچھی خاصی مہارت رکھتی تھیں۔ فارسی شعر انہیں بہت یاد تھے عربی میں صرف ونحو انہیں خوب آتی تھی، حتّٰی کہ وہ بعض وقت اپنے نئے استادوں کو دق کر دیتی تھیں۔ عربی ادب میں کمی تھی، اسے انہوں نے نئی کلاس میں پورا کرنا شروع کیا۔ انگر یز ی بالکل نہ جانتی تھیں، اس وجہ سے اس طرف زیادہ توجہ کرنی پڑتی اور باقی مضامین پر اس کا اثر پڑتا۔ بہرحال انہوں نے 1929ء میں پنجاب یونیورسٹی کے مولوی کا امتحان دیا اور پنجاب میں تیسرے نمبر پر پاس ہوئیں۔

انگریزی کی تعلیم

اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے وہ کچھ انگریزی کی تعلیم حاصل کر لیں اور بعد مشورہ یہ تجویز قرار پائی کہ وہ بجائے خالی انگریزی کا امتحان دینے کے میٹرک کا پورا امتحان دے دیں چنانچہ انہوں نے اور میری لڑ کی عزیزہ ناصرہ بیگم سلمها الله تعالیٰ نے دو سال بعد 1931ء میں میٹرک کا امتحان دیا اور دو سال میں ہی گویا پانچ سال کی پڑھائی ختم کر کے اچھے نمبروں پر انٹرنس میں پاس ہوئیں۔ اس کے بعد عربی تعلیم کے شروع کرنے سے پہلے میں نے مناسب سمجھا کہ وہ انگریزی تعلیم ختم کر لیں اور انہیں ایف اے کی تیاری پرلگا دیا۔

ایف اےکی تعلیم میں مشکلات

ایف اے کی تیاری میں بہت سی مشکلات پیش آئیں استاد ملنے مشکل ہوئےاور فلاسفی اور تاریخ کے پرچوں کی تیاری بالکل ادھوری رہی۔ تاریخ کیلئے تو برابر دو سال تک کوئی استاد نہ ملا۔ فلاسفی کیلئے بھی صرف ایک دو ماہ انتظام ہو سکا اور اس طرح محنت، فکر اور گھبراہٹ نے سارہ بیگم کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا۔ ان ایام میں ان کی آواز سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی خالی چیز بجتی ہے مگر پھر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ بیچ میں کئی دفعہ بیمار پڑیں اور بعض حصے کتابوں کے بالکل رہ گئے جس کے لئے آخری ایام میں انہیں دو ہری محنت اٹھانی پڑی لیکن با وجود اس محنت کے بوجہ نا مناسب حالات کے اپنی صحت بھی خراب کی اور امتحان میں بھی کامیاب نہ ہوسکیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو دیکھ کر انہیں جو ہمیشہ کامیاب رہتی تھیں اس ناکامی کے صدمہ سے محفوظ رکھا کیونکہ اس کی رحمت نے نتیجہ سے پہلے ہی انہیں اٹھا لیا۔

عمدہ خط اور زود نویسی

سارہ بیگم کا خط بہت اچھا تھا بہت سے مردوں سے بھی زیادہ اچھا تھا اور میرے خط سے تو بہت ہی بہتر تھا۔ خوب تیز لکھ سکتی تھیں اور کئی مضامین میں نے ان سے لکھوائے ہیں ان کی زود نویسی کی وجہ سے خیالات میں پریشانی نہ ہوتی اور میں آسانی سے انہیں مضمون لکھوا سکتا تھا۔

سارہ بیگم کی زندگی

… سارہ بیگم کی زندگی کا اگر خلاصہ کیا جائے تو وہ ان تینوں لفظوں میں آجاتا ہے پیدائش پڑھائی اور موت۔ انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی پڑھنا شروع کیا اور شادی سے پہلی پڑھائی تو غالباً علم کی خاطر ہوگی لیکن شادی کے بعد ان کی پڑھائی فقط دین کی خدمت کی خاطرتھی۔ دنیامیں لاکھوں عورتیں پڑھ رہی ہیں ہزاروں ایم اے بی۔ اے موجود ہیں لیکن سارہ بیگم کی پڑھائی اور ان کی پڑھائی میں ایک فرق تھا۔

18 سالہ کورس 8 سال میں

عام طور پر عورتیں شادی سے پہلے پڑھتی ہیں جب انہیں کوئی فکر نہیں ہوتا۔ سارہ بیگم نے اس وقت بھی پڑھائی جاری رکھی جب کہ ان کی شادی ہو چکی تھی۔ ایک طرف بچوں کی پیدائش جو نہایت ضعیف کر دینے والا عمل ہے دوسری طرف ایک جماعت کے امام کی بیوی ہونے کے فرائض کی ادائیگی۔ تیسری طرف کم و بیش گھر کے کاموں کا انصرام۔ چوتھے خاوند کی خدمت۔ اس پر مستزاد ایک ایسی تعلیم جو بالکل فارغ رہنے والے طالب علموں کو بھی گھبرا دیتی ہے۔ آٹھ سال وہ شادی کے بعد زندہ رہیں اس آٹھ سال کےعرصہ میں انہوں نے چار امتحان دیئے جن میں سے تین میں وہ کامیاب ہوئیں اور آخری امتحان میں بوجہ تعلیم کا پورا سامان نہ ہونے کے وہ فیل ہوئیں۔ اس عرصہ میں پانچ بچے انہوں نے جنے، دو کو دودھ پلایا، گھر کے کام کاج اور سلسلہ کے کام کاج میں بھی ایک حد تک حصہ لیا، بچوں کی تربیت بھی کی، اس آٹھ سال میں جو پڑھائی انہوں نے کی وہ سرکاری نصاب میں اٹھارہ سال کی قرار دی گئی ہے گویا اٹھارہ سالہ کورس آٹھ سال میں ختم کیا اور اس کے علاوہ وہ سب ذمہ داریاں ادا کیں جو عام طور پر عورت کی توجہ کو پوری طرح کھینچنے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہیں۔ میں نے انہیں دیکھا ہے رات کے دو دو بجے تک بستر پر لیٹے ہوئے کتاب پڑھتی رہتی تھیں، نیند بالکل اڑ گئی تھی، بعض دفعہ کئی کئی دن تک نیند نہیں آتی تھی، صبر اس قدر تھا کہ ہفتوں کی تکلیف کے بعد کبھی ایک دفعہ شکایت کرتی تھیں اور وہ بھی اس زور سے نہیں کہ طبیعت میں ملال پیدا ہو۔

محض خدا کے لئے حصول تعلیم

اس سے بھی زیادہ فرق ان کی تعلیم اور دوسروں کی تعلیم میں یہ تھا کہ دوسری عورتیں اپنے نفس یا اپنی قوم کیلئے تعلیم حاصل کرتی ہیں انہوں نے اپنے آخری سالوں میں محض اللہ تعالی کی خوشنودی کیلئے، اسلام کی خدمت کیلئے تعلیم حاصل کی۔ اس لئے اس بوجھ کو اٹھایا کہ جماعت کی مستورات کی دینی اور دنیوی ترقی کیلئے مفید ہو سکیں۔ غرض پیدائش اور موت کے علاوہ ان کا سب وقت دوسروں کے فائدہ کیلئے خرچ ہوا۔ انہوں نے اپنی زندگی سے ایک ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس عرصہ میں اپنے بچوں سے عام طور پرجدا رہیں۔ حتّٰی کہ عمر کے آخری سال میں بھی ان کے دو بچے ان سے جدا تھے وہ ان کی وفات سے صرف تین دن پہلے واپس آئے۔ ان کی طبیعت میں بچوں کی محبت عام عورتوں سے بھی زیادہ تھی، بچوں کے دکھ کو دیکھ کر بہت بے تاب ہو جاتی تھیں لیکن با وجود ایسے جذبات کے انہوں نے محض تعلیم کیلئے بچوں کی جدائی کو برداشت کیا۔ ان کے سے احساسات رکھنے والی عورت کیلئے یہ ایک عظیم الشان قربانی تھی، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔

امۃ الحی اور سارہ بیگم کی خاص خصوصیا ت

میری امۃ الحی کو بھی پڑھنےپڑھانے کا شوق تھا۔ لیکن وہ زیادہ محنت نہیں کر سکتی تھیں۔ ان کا حافظہ بھی کمزور تھا اس وجہ سے وہ تعلیم کی زبردست خواہش کے باوجود ایک حد سے اوپر علمی ترقی نہیں کرسکیں۔ ہاں ان میں علم پڑھانے کا ملکہ اور شوق سارہ بیگم سے زیادہ تھا اور وہ سارہ بیگم سے زیادہ ذہین تھیں لیکن سارہ بیگم حافظہ اور استقلال کے لحاظ سے امة الحی مرحومہ سے بہت زیادہ تھیں۔ امۃ الحی کی مثال ایسی تھی جیسے کوئی پھولوں سے ان کی خوشبو جمع کرتا ہوا چلا جائے۔ سارہ بیگم کی مثال ایسی تھی جیسے کوئی صبر سے انتظار کرےاور جب پھولوں میں بیج آ جائیں تو وہ ان بیجوں کو جمع کرے تا کہ انہیں دوسرے باغیچوں میں بوکر نئے پھول پیدا کرے۔ ایک بجلی کی ایک چمک تھی جو دنیا کو روشن کرتی ہوئی چلی جاتی ہے ایک بارش کی بار یک پھوا رتھی جو زمین کے اندر دھنس کر نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اول الذکر ان خوش قسمتوں میں سے تھیں جو اپنی چمک سے لوگوں کی توجہ کو کھینچ لیتے ہیں۔ ثانی الذکر ان لوگوں میں سے تھیں جو خاموشی سے اپنا خون درخت کی جڑ میں ڈال دیتے ہیں اور ہمیشہ کیلئے فراموش کر دیئے جاتے ہیں۔ اول الذکر ایک بڑے باپ کی بیٹی اس کے شاگردوں کے حلقہ میں عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے والی تھی۔ ثانی الذکر اپنے وطن سے دور اپنے جان پہچان والےلوگوں سے علیحدہ اجنبیوں میں زندگی بسر کرنے کیلئے آئی اور خاکساری سے اس نے اپنے دن پورے کر دیئے۔ ایک کو ناز پر غرور تھا تو دوسری کو نیاز کا سہارا۔ ایک سمجھتی تھی میں اس گھر کے لوگوں میں سے ایک ہوں اور ہر جگہ میرے لئے کھلی ہے دوسری خیال کرتی تھی ان لوگوں نے رحم کر کے اپنے گھر کا دروازہ میرے لئے کھولا ہے مجھے یہ جہاں بھی بٹھائیں ان کا مجھ پر احسان ہے۔ بعض دفعہ گھر کے بعض آدمیوں کی طرف سے ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ ہو جاتا تو میں نے دیکھا ہے وہ نسبتاً تحمل کی طرف مائل ہوئیں اور اکثر اس حربہ کو بھی استعمال نہ کرتیں جو قدرت نے عورت کو بخشاہے لیکن گریہ و زاری سے بھی اپنی طرف توجہ پھرانے کی کوشش نہ کرتیں بلکہ چہرہ سے صبرتحمل کے آثار ظاہر ہوتے۔ میں طبعاً اس روح کو نہایت محبوب رکھتا ہوں یہ روح میرے نزدیک عارضی تکلیف کا بے شک موجب ہوتی ہے لیکن اس سے اعلیٰ اخلاق کے پیدا ہونے، ہمت کے بلند ہونے اور مصائب کی برداشت کرنے کی عادت میں بہت مددملتی ہے۔ ان وجوہ سے میں جان بوجھ کر بھی ایسے موقع پر خاموش رہتا۔ اگر کبھی میں تسلی دینا ہی ضروری سمجھتا تو اس وقت میرا ایک لفظ ان کے لئے مرہم کافور ہو جاتا اور میرا ایک دلاسہ جام حیات بخش۔ میں ایک معیار ان کے لئے تیار کر رہا تھا مگر خدا تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا۔ میں انہیں اس آگ میں سے گزارنا چاہتا تھا جس میں سے گزرےبغیر بڑے کام کر نے کی قابلیت پیدا نہیں ہوسکتی۔ دنیا شاید مجھے خود فراموش خاوند تصور کرتی تھی مگر میں ایک معمار تھا جو اپنا قیمتی سامان مینار کی بنیاد میں غرق کرتا چلا جاتا ہے مگر ہم سے بالا ایک ہستی تھی وہ ہم دونوں پرہنستی تھی وہ کہتی تھی اے لوگو! یہ نہ تمہاری ہمدردی کے لئے باقی رہے گی نہ اے خاوند! تیری بلندیوں کیلئے۔ اسے میں نے اپنے لئے چن لیا ہے۔ کون ہے جوانکسار کی داد دے، کون ہے جو عاجزوں کو سینے سے لگائے، میں اور صرف میں۔ پس اپنے ہاتھ اس کے کندھوں پر سے ہٹا لو، اس کا راستہ چھوڑ دو، اسے میرے پاس آنے دو وہ میری ہے اور میرے ہی پاس آئے گی۔

اے مخلص باپ کی مسکین بیٹی ! خدا کی تجھ پر رحمتیں ہوں تو نے اس دنیا میں لوگوں کیلئے زندگی بسر کی۔ خدا تعالیٰ اگلے جہان کو تیرے لئے خوشی کی جگہ بنا دے، تیرے گناہ مٹائے جائیں اور تیری نیکیاں بڑھیں۔

سارہ بیگم کی ایک پاک خواہش

مرحومہ نے جب ایف اے کا امتحان دیا تومیں نے ان سے کہا کہ اب تم سرے کے قریب پہنچ چکی ہو الله تعالیٰ پاس کر دے تو بی اے کی تیاری کرو۔ شاید اس طرح تم کو زنانہ سکول میں کام کرنے کا موقع ملے اور سلسلہ کو بغیر مالی بوجھ برداشت کرنے کے ایک ہیڈمسٹرس مل جائے انہوں نے اس کا ارادہ تو کر لیا لیکن ان کے ایک استاد ماسٹر محمد حسین صاحب کی روایت ہے کہ مرحومہ کہا کرتی تھیں کہ میں نے آگے تب پڑھنا ہے جب میں حضرت صاحب سے وعدہ لے لوں گی کہ وہ خود مجھے قرآن کریم کی تفسیر پڑھائیں۔

اے اپنی قربانیوں کا بدلہ قرآن پڑھنے کی صورت میں چاہنے والی ! تیری ایسی پا ک خواہش کا صلہ اس قدر حقیر نہ تھا کہ مجھ سا کم علم تجھے قرآن پڑھائے۔ جا! تیری اس پاک و بلند خواہش کا صلہ تیرا رب دینا چاہتا ہے، جا اور اس سے قرآن پڑھ جس نے قرآن اتارا ہے۔ اس سے زیادہ اس پاک کلام کے معارف کون سکھا سکتا ہے؟ مگر میں بھی تیری اس پاک خواہش کی عزت کرتے ہوئے انشاء الله تیرے نام پر قرآن کی کوئی خدمت کروں گا تا تیری خواہش لفظاً بھی پوری ہو اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت مجھے ابھی کچھ عرصہ کیلئے اور اس دنیا میں رکھنا چاہتی ہے تو انشاء الله تیری اولا د کوخود قرآن پڑھاؤں گا تا ان کی معرفت تجھے صدقہ جاریہ پہنچتا ر ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button