مطبوعہ شمارے

علم اصول حدیث اور اس کی اہم اصطلاحات

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

حدیث کے لغوی اور اصطلاحی معانی

1۔ حدیث کا لفظ حَدَثَسے نکلا ہے جس کے بنیادی معنی نئی بات، نئی چیز، نئی ایجاد اور نیا خیال ہے۔ اَلْحَدُ وْثْ۔ کسی ایسی چیز کا وجود میں آنا جو پہلے نہ ہو۔ الحدیث۔ تازہ، پھل۔

لَعَلَّ اللّٰہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا (الطلاق: 2 )

کہ شاید اس کے بعد اللہ کوئی (نیا) فیصلہ ظاہر کردے۔

مُتَحَدِّثْ۔

ہر قول و فعل جو نیا ظہور پذیر ہو۔ حدیث اور قدیم بالمقابل الفاظ ہیں۔

حِدْثَانِ بِالْکُفْر،

کُفر سے نئے نئے مسلمان ہونے والے۔

حَدِیْثَةُ اَسْنَانِھِمْ،

نئے جوان ہونے والے۔

مُحْدَثَاتُ الْاُمُورْ۔

کتاب و سنت میں نئے امور شامل کرنا۔

مَا لَمْ یُحْدِثْ۔

بے وضو ہو کر نئی کیفیت ہونا۔

2۔ قرآن کریم کو بہترین حدیث کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ (الزمر: 24)

اللہ نے بہترین بیان ایک ملتی جلتی (اور) بار بار دُہرائی جانے والی کتاب کی صورت میں اتارا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

اِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثَ کِتَابَ اللّٰہ۔

(صحیح مسلم کتاب الجمعة باب تخفیف الصلوٰة حدیث نمبر1433)

3۔ رسول اللہﷺ نے خود اپنے قول کو حدیث کا نام دیا۔ فرمایا:

لَقَدْ ظَنَنْتُ یَا اَبَا ھَرِیْرَة اَنْ لَّایَسْأَلْنِی عَنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ اَحَدٌ اَوَّل مِنْکَ

(بخاری کتاب العلم باب الحرص علی الحدیث حدیث نمبر 97) یعنی اے ابوہریرہ!مجھے خیال تھا کہ اس حدیث کے بارے میں تجھ سے پہلے کوئی مجھ سے سوال نہیں کرے گا۔

پس عالم اسلام کی اصطلاح میں حدیث سے مراد رسول اللہﷺ کے اقوال ہیں جو آپﷺ کی وفات کے ایک عرصہ بعد راویوں کے ذریعہ جمع کیے گئے۔ جماعت احمدیہ کے نزدیک شریعت اسلامیہ کا پہلا اور ابدی ماخذ قرآن ہے اس کے بعد سنت اور پھر حدیث ہے۔

سنت اور حدیث میں فرق

٭…سنت۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’سنت سےہماری صرف مراد آنحضرتؐ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے … اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزارہا صحابہؓ کو اس فعل کا پابند کرکے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا۔ پس عملی نمونہ جو اب تک امت میں تعامل کے رنگ میں مشہود ومحسوس ہے، اسی کانام سنت ہے۔‘‘(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد19صفحہ209تا210)

٭…حدیث۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصوں کے رنگ میں آنحضرتﷺ سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئےہیں۔ … ان حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی…… اور حدیثیں قرآن اور سنت کے لیے گواہ کی طرح کھڑی ہو گئیں۔‘‘(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد19 صفحہ210تا211)

حدیث کو خبر اور اثر بھی کہتے ہیں۔

اصول حدیث کی ضرورت

حدیثیں رسول اللہﷺ نے خود جمع نہیں کروائیں بلکہ صحابہؓ اپنے شوق سے ان کو کسی قدر لکھتے تھے۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے ایک عرصے بعد جب جمع حدیث کی مہم کا آغاز ہوا تو ایسے لوگ بھی اس مہم میں داخل ہوگئے جو بےتوجہی سے بیان کرتے تھے یا ان کے حافظے پہلوں کی طرح پختہ نہیں تھے اور احادیث گڈ مڈ کر جاتے تھے۔ پھر وہ لوگ بھی آ گئے جو جھوٹی احادیث تخلیق کرتے تھے۔ اس لیے لازم ہوا کہ صحیح احادیث کی پہچان اور پرکھ کے لیے ضروری قواعد و ضوابط بنائے جائیں، اسے فن حدیث کہا جاتا ہے۔ اس ضمن میں بہت سے علوم ایجاد ہوئے جیسے: علم اصول حدیث، علم اسماء الرجال، علم جرح و تعدیل۔ علم الناسخ والمنسوخ، علم غریب الحدیث، علم علل الحدیث۔ راویوں کے حالات اکٹھے ہونے لگے، ان کی چھان پھٹک ہونے لگی۔ قریباً 5 لاکھ انسانوں کے حالات صرف اس لیے جمع کیے گئے کہ ان کے ذریعہ ملنے والی روایات کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس فن کے متعلق مشہور محقق ڈاکٹر سپر نگر نے لکھا ہے: ’’کوئی قوم دنیا میں نہ ایسی گذری، نہ آج تک موجود ہے، جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا سا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو، جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے۔‘‘ (انگریزی مقدمہ اصابہ مطبوعہ کلکتہ 1853ء) احادیث کی صحت کا مرتبہ پہچاننے کے لیے اصطلاحات اُبھرنے لگیں جو بحث و مباحثہ کے بعد قبول عام کی سند پاتی رہیں۔ ان کی تعریف میں اختلاف بھی ہے تاہم عمومی طور پر ان کی مدد سے بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ان میں سب سے اہم اصول روایت اور اصول درایت ہیں۔

اصول روایت اور اصول درایت

ہر واقعہ کی صحت دو طرح آزمائی جاتی ہے۔ (1)۔ اصول روایت کی مدد سےیعنی یہ دیکھنا کہ جو واقعہ ہم تک پہنچا ہے وہ واسطہ کس حد تک قابل اعتماد ہے۔ اس میں راویوں پر جرح کی جاتی ہے۔ (2)اصول درایت کی مدد سے یعنی واقعہ کی صحت کے متعلق اندرونی شہادت۔ کیا واقعہ اپنی ذات میں اور اپنے ماحول کی نسبت سے ایسا ہے کہ اسے درست اور صحیح یقین کیا جائے۔ حدیث کے ضمن میں ان دونوں علوم کو علم اصول حدیث کہا جاتا ہے۔ مگر عام علما ءکے نزدیک اس کا زیادہ تر تعلق علم روایت سے ہے۔

اصول حدیث کی چند ابتدائی اور اہم کتب

٭…معرفة أنواع علوم الحديث، ويُعرف بمقدمة ابن الصلاح۔ المؤلف: عثمان بن عبد الرحمن، أبوعمرو، تقي الدين المعروف بابن الصلاح (المتوفى: 643ھ)

٭…نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر۔ المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852ھ)

٭… فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي۔ المؤلف: شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن أبي بكر بن عثمان بن محمد السخاوي (المتوفى: 902ھ)

علم اصول حدیث کی اصطلاحات تو بہت ہیں اور بعض نے ان کی مزید تقسیم در تقسیم کی ہے مگر اس مضمون میں چند مشہور اور عام مستعمل اصطلاحات کا ذکر عام فہم انداز میں کیا جائے گا اسی طرح مثالوں اور کتب کا ذکر بھی ہو گا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس بارے میں جو راہ نمائی کی ہے وہ بیان کی جائے گی:

چند اہم اصول روایت

حدیث (خبر) کی دو بنیادی اقسام

1۔ خبر متواتر: ایسی حدیث جسے ہر دور (جیسے صحابہ، تابعین وغیرہ) میں اتنی بڑی تعداد نے روایت کیا ہو جس کا جھوٹ پر اتفاق کرلینا عقلاً محال ہو۔ یہ تعداد غیرمعین ہے اور ہر موقع کے مناسب حال ہوتی ہے۔

مثال نمبر1:

مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًافَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔

( بخاری کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبیﷺ )اس حدیث کو 70 سے زیادہ صحابہؓ نے روایت کیا ہے۔

مثال نمبر2۔ ظہور مہدی اور نزول مسیح کے بارے میں احادیث جو نہایت کثرت سے روایت کی گئی ہیں۔ (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر صفحہ 241)

مثال نمبر3: نضراللّٰہ امرء سمع منا حدیثا فبلغہ کماسمعہ۔ (جامع ترمذی کتاب العلم باب الحث علی تبلیغ السماع حدیث نمبر2580)

خبر متواتر سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے اور یہ بالاتفاق قابل قبول ہوتی ہے۔

اہم کتب: الازھار المتناثرہ فی الاخبار المتواترہ (جلال الدین السیوطی)۔ نظم المتناثر من الحدیث المتواتر(محمد بن جعفر الکتانی)اللآلی المتناثرہ فی الاحادیث المتواترہ (ابن طولون)

2۔ خبر واحد: وہ حدیث جو خبر متواتر کی شرطوں پر پوری نہ اترے۔ اصول روایت میں عام طور پر بحث اسی کے گرد گھومتی ہے۔

خبر واحدکی اقسام۔ منتہیٰ یعنی آخری قائل کے اعتبار سے

1۔ حدیث قدسی: وہ حدیث جس کی نسبت رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہو۔ مثال:

عن ابن عباس عن النبیﷺ فیما یروی عن ربہ عز و جل قال قال ان اللّٰہ کتب الحسنات والسیأت (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب من ھم بحسنة حدیث نمبر6010)

کتب:1۔الاتحاف السنیة بالاحادیث القدسیہ(شیخ عبد الرؤف المناوی 1031ھ) یہ کتاب 272 احادیث قدسیہ پر مشتمل ہے۔

2۔ الاتحاف السنیة فی الاحادیث القدسیہ(محمد محمود طربزوفی1200ھ)863 احادیث ہیں۔

2۔ مرفوع:جس حدیث کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف کی جائے مرفوع کہلاتی ہے۔ اس میں قول کا ذکر بھی ہو سکتا ہے اور فعل کا بھی۔ جو روایت اتصال سند کے ساتھ رسول اللہﷺ تک مرفوع ہو اسے مسند کہتے ہیں۔

مثال قولی: عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہﷺ بنی الاسلام علیٰ خمس … (صحیح بخاری کتاب الایمان باب قول النبی حدیث نمبر7)

فعلی: عن ابن مسعود قَالَ کَانَ النَّبِیﷺ یَتَخَوَّلْنَا بِالْمَوْعِظَةِ (صحیح بخاری کتاب العلم باب قول النبی رب مبلغ حدیث نمبر65)

3۔ موقوف: جس حدیث کی سند صحابی کی طرف کی گئی ہو۔ مثال:

قال علی حدثواالناس بمایعرفون اتحبون ان یکذب اللّٰہ ورسولہ

(بخاری کتاب العلم باب من خص بالعلم قومادون قوم حدیث نمبر124)

اگر موقوف حدیث میں صحابی کوئی ایسی بات کہے جس میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو یا ماضی اور مستقبل کے واقعات کا ذکر ہو یا رسول اللہﷺ کے زمانے سے نسبت ہو تو اسے حکماً مرفوع کہتے ہیں۔ مثال:

نُھِیْنَا عَنِ اتَّبَاعَ الجَنَائِزِ وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا۔

(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب اتباع النساء الجنائز حدیث نمبر 1199)

4۔ مقطوع: جس کی نسبت تابعی یا اس سے نیچے کسی کی طرف کی گئی ہو۔ مثال:

قال ابن المسیب فمازالت الحزونہ فینا بعد۔ ابن مسیب تابعی ہیں

(بخاری کتاب الادب باب اسم الحزن۔ حدیث نمبر 5722)

کتب: جن میں کثرت سے مثالیں ملتی ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ۔ مصنف عبدالرزاق

خبرواحد کی اقسام۔ سلسلۂ روایت کی تعداد کے لحاظ سے

1۔ مشہور: (الف)جس کی سند کے ہر طبقے میں (یعنی صحابہ اور تابعین وغیرہ میں )تین سے کم راوی نہ ہوں۔ اسے مستفیض بھی کہتے ہیں۔

مثال: ان اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاینتزعہ من العباد … کی سند حدثنا اسماعیل بن ابی اویس قال حدثنی مالک عن ھشام بن عروة عن ابیہ عن عبداللّٰہ بن عمروبن العاص قال سمعت رسول اللّٰہ یقول (بخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم حدیث 98)

ب: وہ حدیث جو بکثرت زبانوں پر جاری ہو مگر مذکورہ بالا شرائط پوری نہ ہوں۔

مثال:

اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِّسَانِہ وَیَدِہٖ۔

(صحیح بخاری کتاب الایمان باب المسلم حدیث نمبر9)

اَبَغْضَ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلَاق (ابوداؤد کتاب الطلاق باب کراھة الطلاق حدیث نمبر 1862)

کتب: المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة۔ المؤلف: شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902ھ)

كشف الخفاء ومزيل الإلباس۔ المؤلف: إسماعيل بن محمد بن عبد الهادي الجراحي العجلوني الدمشقي، أبو الفداء (المتوفى: 1162ھ)

2۔ عزیز: جس کی سند کے ہر طبقے میں دو سے کم راوی نہ ہوں۔ مثال:

حدثنا آدم بن ابی ایاس قال ثنا شعبہ عن قتادہ عن انس قال قال رسول اللّٰہ لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین

(بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول حدیث نمبر13)

ان احادیث کی تعداد بہت کم ہے۔

3۔ غریب: جسے کسی طبقہ میں صرف ایک راوی نے روایت کیا ہو۔ اسے فرد بھی کہتے ہیں۔ مثال:

حدثنا یحییٰ بن سعید الانصاری قال اخبرنی محمد بن ابراہیم التیمی انہ سمع علقمة ابن وقاص اللیثی یقول سمعت عمر بن الخطاب علی المنبر یقول سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول انما الاعمال بالنیات

(بخاری بدء الوحی حدیث نمبر1)اس حدیث کو رسول اللہﷺ سے صرف حضرت عمرؓ نے روایت کیا ہے۔

جن کتب میں کثرت سے غریب احادیث موجود ہیں۔ مسند بزار۔ معجم الاوسط طبرانی۔

غریب احادیث سے متعلق کتب: 1۔ غرائب مالک(دار قطنی)۔ 2 الافراد۔ (د ارقطنی)

خبرواحدکی اقسام۔ راویوں کی صفات کے لحاظ سے

1۔ صحیح: جس کے تمام راوی ثقہ۔ متقی۔ قوی الحافظہ ہوں۔ سند متصل ہو۔ کوئی شاذ نہ ہو۔ (شاذ کی تعریف ضعیف حدیث کی اقسام میں آئے گی)

مثلاً صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی اکثر احادیث۔

2۔ حسن: جس کے تمام راوی متقی، قوی الحافظہ ہوں۔ سند متصل ہو۔ شاذ نہ ہو۔ مگر راویوں کا حافظہ صحیح کے مقابل پر کچھ کمزور ہو۔

مثال: حدثنا قیتبة حدثنا جعفر بن سلیمان الضبعی عن ابی عمران الجونی عن ابی بکر بن ابی موسیٰ الاشعری قال سمعت ابی بحضرة العدو یقول قال رسول اللہ اِنَّ اَبْوَابَ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوفِ۔ (جامع ترمذی کتاب فضائل الجہادباب ان ابواب الجنت حدیث نمبر 1583)

کتب: جن میں کثرت سے حسن احادیث موجود ہیں جامع ترمذی۔ سنن دارقطنی۔

3۔ صحیح لغیرہ: وہ حسن حدیث جس کی اسناد متعدد ہوں۔

مثال:

حدثنا ابوکریب حدثناعبدة بن سلیمان عن محمد بن عمرو عن ابی سلمة عن ابی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ لَولَا اَن اَشُقَّ عَلی اُمتی لَاَمْرْتَہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلٰوةٍ۔

(جامع ترمذی کتاب الطہارۃ باب فی السواک حدیث نمبر 22)

محمد بن عمرو ضعیف الحفظ

ہیں مگر یہ حدیث دوسرے طرق سے بھی مروی ہے۔ اس لیے صحیح لغیرہ ہوگئی ہے۔ بخاری اور مسلم کی روایت ابوھریرہ، ابوالزناد اور اعرج سے ہے۔

4۔ حسن لغیرہ: وہ ضعیف حدیث جس کی اسناد متعدد ہوں اور ضعف کا باعث راوی کا فسق اور کذب نہ ہو۔ مثال:

حدثنا محمد بن بشار حدثنایحیی بن سعید و عبدالرحمان بن مہدی و محمد بن جعفر قالوا حدثنا شعبہ عن عاصم بن عبیداللّٰہ قال سمعت عبداللّٰہ بن عامر بن ربیعہ عن ابیہ ان المرء ة من بنی فزارة تزوجت علی النعلین فقال رسول اللّٰہ ارضیت من نفسک و مالک بنعلین قالت نعم فاجازہ۔ ( ترمذی کتاب النکاح باب فی مھور النساء حدیث نمبر 1031)

عاصم ضعف حفظ کی وجہ سے کمزور ہیں۔ مگر یہ حدیث دوسری اسناد سے بھی مروی ہے۔ اس لیے حسن لغیرہ ہوگئی ہے۔

5۔ ضعیف: جس میں حسن کی شرائط میں سے کوئی ایک شرط موجود نہ ہو۔ مثال:

حدثنا بندار حدثنا یحییٰ بن سعید و عبدالرحمان بن مہدی وبھز بن اسد قالوا حدثنا حماد بن سلمة عن حکیم الاثرم عن ابی تمیمہ الھجیمی عن ابی ہریرة ان النبی قال من اتی حائضا او امراةفی دبرھا اوکاھنا فقد کفر بما انزل علی محمد۔ (ترمذی کتاب الطہارة باب کراہیة اتیان الحائض حدیث نمبر 125)

کتب: ضعفاء کے بیان میں شائع شدہ کتب۔ کتاب الضعفاء (ابن حبان) میزان الاعتدال (ذھبی)

حدیث ضعیف کی اقسام

1۔ شاذ: جسے ثقہ راوی نے بیان کیا ہو مگر زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کی ہو۔ مثال:

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ اذا صلی احد کم رکعتی الفجر فلیضطجع علی یمینہ۔ بالمقابل عن عائشة ان النبی کان اذا صلی رکعتی الفجر فی بیتہ اضطجع علی یمینہ۔ (ترمذی کتاب الصلوٰة باب الاضطجاع بعد رکعتی الفجر حدیث نمبر385)

حضرت عائشہؓ کے بیان کے مطابق یہ طریق رسول اللہﷺ کا ذاتی فعل ہے نہ کہ حکم۔ اس لیے ابوھریرہ کی روایت شاذ ہے۔ شاذ کے بالمقابل روایت محفوظ کہلاتی ہے یعنی حضرت عائشہؓ کی روایت۔

2۔ منکر: جس کا راوی خود ضعیف ہو مگر ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہو۔ مثال:

ابن ابی حاتم عن حبیب بن حبیب الزبات عن ابی اسحاق عن الحیرازبن حریث عن ابن عباس عن رسول اللّٰہ قال من اقام الصلوٰة واتی الزکوٰة وحج بیت اللّٰہ وصام وقری الضیف دخل الجنہ۔

یہ روایت ابن ابی حاتم سے ہے دوسرے ثقہ راویوں نے یہ روایت ابواسحاق سے موقوف کی ہے۔ ثقہ راویوں کی روایت معروف کہلاتی ہے۔

3۔ موضوع: جو بات اپنی طرف سے گھڑ لی جائے اور اس کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف کردی جائے۔ مثال:

قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسلم مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰه خلق اللّٰه تَعَالَى من كل كلمة مِنْهَا طيرا منقاره من ذهب وريشه من مرجان وَأخذ فِي قصه نَحوا من عشْرين ورقة۔ (الاسرار المرفوعہ جلد 1 صفحہ 53)

کتب:

الموضوعات (ابن جوزی) الاسرار المرفوعہ المعروف بالموضوعات الکبریٰ(ملاعلی قاری)اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ (سیوطی)

4۔ متروک: جس کی سند میں کوئی راوی متہم بالکذب ہو۔ مثال: امام نسائی نے اسماعیل سے ایک روایت کے بعد لکھا ہے

إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ يَرْوِي عَنِ الزُّهْرِيِّ وَالْحَسَنِ مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ(سنن نسائی کتاب المناسک باب القران حدیث نمبر 3694 )

5۔ مدرج: وہ حدیث جس کے متن میں ایسے زائد الفاظ شامل کر دیے جائیں جن کے متن سے علیحدہ ہونے کی کوئی صورت باقی نہ رہ گئی ہو۔

مثال:

کان النبی یتحنث فی غارحرا وھوالتعبد اللیالی ذوات العدد۔ التعبد

زھری کے کلام کا حصہ ہے۔ (بخاری بدء الوحی)

کتب: العضل للوصل المدرج فی النقل (خطیب بغدادی)۔ تقریب المنھج بترتیب المدرج (ابن حجر)

6۔ مضطرب: جس کی عبارت میں راویوں نے کوئی ایسی بات داخل کر دی ہو کہ باہم ترجیح ممکن نہ ہو۔

مثال: ان فی المال لحقًا سوی الزکوٰة۔ (ترمذی ) vs لیس فی المال حق سوی الزکوٰة۔ (ابن ماجہ)

کتب: المقترب فی بیان المضطرب۔ (ابن حجر)

7۔ مصحف:(1) حدیث کے کلمات کو لفظی یا معنوی طور پر بدل دینا۔ مثال: (الف) احتجرفی المسجد کو احتجم فی المسجد کر دیا۔

صلی رسول اللّٰہ الی العنزہ … نحن قوم لنا شرف نحن من عنزہ صلی الینا رسول اللّٰہ۔

عنزہ کو قبیلہ سمجھ کر اپنا شرف بیان کیا۔

(ب) حروف اور لفظوں کی تبدیلی:

من صام رمضان واتبعہ ستّامن شوال۔

من صام رمضان وتبعہ شیئًا من شوال

خبرواحدکی اقسام۔ سقوط سند کے لحاظ سے

1۔ منقطع: جس کی سند متصل نہ ہو۔ کہیں سے کوئی راوی رہ گیا ہو۔

2۔ معلق: جس کی ابتدا میں ایک یا ایک سے زائد راوی رہ جائیں۔ مثال:

قال ابوموسیٰ غطّی النبی رکبتیہ حین دخل عثمان۔ (بخاری کتاب الصلوٰة باب فی الفحذ)

3۔ معضل: جس کی سند کے درمیان سے راوی رہ گئے ہوں۔ مثال:

عن القعنبی عن مالک انہ بلغہ ان اباھریرة قال قال رسول اللّٰہ للمملوک طعامہ و کسوتہ بالمعروف ولایکلف من العمل الامایطیق…

مالک اور ابوھریرہ کے درمیان دو راوی رہ گئے ہیں۔ محمد بن عجلان عن ابیہ

4۔ مرسل: جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپر کا راوی ساقط ہو۔ مثال:

حدثنی محمد بن رافع ثنا حجین حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شہاب عن سعید بن المسیب ان رسول اللّٰہ نہی عن المزابنہ۔ سعید بن مسیب تابعی ہیں۔ مرسل اگر کبار تابعین سے ہو تو قابل قبول ہوتی ہے۔ مرسل صحابی صحیح اور قابل حجت ہوتی ہے۔

کتب:

المراسیل ابی داؤد۔ مراسیل ابن ابی حاتم۔ جامع التحصیل لاحکام المراسیل(علائی)

صحت و ضعف کے اعتبار سے کتب حدیث کے طبقات

طبقہ اول: جن میں صحیح اور حسن دونوں قسم کی احادیث موجود ہیں۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم، مؤطا۔

طبقہ دوم: ان کی احادیث اگر چہ طبقہ اول کی نہیں تاہم انہیں قبول عام کی سند حاصل ہے۔ جامع ترمذی۔ سنن ابی داؤد۔ سنن نسائی۔ ابن ماجہ۔ مسند احمد۔

طبقہ سوم: جن میں ضعیف حدیث کی تمام قسمیں موجود ہیں اور اکثر راوی مستورالحال ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ۔ مصنف عبدالرزاق۔ بیہقی۔ طبرانی۔ طحاوی۔

طبقہ چہارم: ناقابل اعتماد کتب ابن مردویہ۔ ابن شاہین اور ابوالشیخ کی تصانیف۔

حدیث صحیح کے مراتب

1۔ جس پر امام بخاری اور مسلم کا اتفاق ہو۔ اس کو متفق علیہ کہا جاتا ہے ایسی احادیث 2326 کے قریب ہیں۔

2۔ جسے صرف بخاری نے روایت کیا ہو۔

3۔ جسے صرف مسلم نے روایت کیاہو۔

4۔ جو شیخین کی شرائط پر ہو مگر ان میں درج نہ ہو۔ مثلاً المستدرک امام حاکم۔

5۔ جو بخاری کی شرائط پر ہو مگر درج نہ ہو۔

6۔ جو مسلم کی شرط پر ہو مگر درج نہ ہو۔

7۔ جو شیخین کے علاوہ دیگر محدثین کے نزدیک صحیح ہو مگر شرائط شیخین پر نہ ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام احادیث کے مراتب کے متعلق فرماتے ہیں: ’’احادیث کے دو حصہ ہیں ایک وہ حصہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طور پر آگیا ہے۔ یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اور قوی اور لاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اور مرتبہ یقین تک پہنچا دیا ہے۔ جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اور عقود اور معاملات اور احکام شرع متین داخل ہیں۔ سو ایسی حدیثیں تو بلاشبہ یقین اور کامل ثبوت کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور جو کچھ ان حدیثوں کو قوت حاصل ہے وہ قوت فن حدیث کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوئی اور نہ وہ احادیث منقولہ کی ذاتی قوت ہے اور نہ وہ راویوں کے و ثاقت اور اعتبار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے بلکہ وہ قوت ببرکت و طفیل سلسلہ تعامل پیدا ہوئی ہے۔ سو میں ایسی حدیثوں کو جہاں تک ان کو سلسلۂ تعامل سے قوت ملی ہے ایک مرتبہ یقین تک تسلیم کرتا ہوں ‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 35)

’’دوسرا حصہ حدیثوں کا جن کو سلسلۂ تعامل سے کچھ تعلق اور رشتہ نہیں ہے اور صرف راویوں کے سہارے سے اور ان کی راست گوئی کے اعتبار پر قبول کی گئی ہیں ان کو میں مرتبہ ظن سے بڑھ کر خیال نہیں کرتا اور غایت کار مفید ظن ہوسکتی ہیں کیونکہ جس طریق سے وہ حاصل کی گئی ہیں۔ وہ یقینی اور قطعی الثبوت طریق نہیں ہے‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 35)

وہ احادیث جو پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں اور وہ پوری ہوچکی ہیں یا ان کا ایک حصہ پور ا ہوگیا ہے تو ان کو سچا سمجھاجائے خواہ وہ اصول روایت کے لحاظ سے کتنی ہی ضعیف ہوں۔ مثلاً سنن دار قطنی میں حدیث کسوف و خسوف کا حوالہ دیتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں: ’’کسی حدیث کی سچائی پر اس سے زیادہ کوئی یقینی اور قطعی گواہی نہیں ہو سکتی کہ وہ حدیث اگر کسی پیشگوئی پر مشتمل ہے تو وہ پیشگوئی صفائی سے پوری ہو جائے کیونکہ اور سب طریق اثبات صحت حدیث کے ظنی ہیں مگر یہ حدیث کا ایک چمکتا ہوا زیور ہے کہ اس کی سچائی کی روشنی پیشگوئی کے پورے ہونے سے ظاہر ہو جائے کیونکہ کسی حدیث کی پیشگوئی کا پورا ہو جانا اس حدیث کو مرتبۂ ظن سے یقین کے اعلیٰ درجہ تک پہنچا دیتا ہے اور ایسی حدیث کے ہم رتبہ اور یقینی مرتبہ میں ہم پلّہ کوئی حدیث نہیں ہو سکتی گو بخاری کی ہو یا مسلم کی۔ اور ایسی حدیث کے سلسلۂ اسناد میں گو بفرض محال ہزار کذّاب اور مفتری ہو اس کی قوت صحت اور مرتبہ یقین کو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا سکتا کیونکہ وسائل محسوسہ مشہودہ بدیہہ سے اُس کی صحت کھل جاتی ہے اور ایسی کتاب کا یہ امر فخر ہو جاتا ہے اور اس کی صحت پر ایک دلیل قائم ہو جاتی ہے جس میں ایسی حدیث ہو پس دارقطنی کا فخر ہے جس کی حدیث ایسی صفائی سے پوری ہو گئی۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 140 حاشیہ)

چند متفرق اصطلاحات متابع اور شاھد

متابع: حدیث فرد یا خبر واحد کے جس راوی کے متعلق اکیلے رہ جانے کا گمان تھا اگر اس کا کوئی موافق مل جائے تو اس موافق کو متابع اور موافقت کو متابعت کہا جاتا ہے۔

شاھد: اگر کسی دوسرے صحابی سے ایسا متن مل جائے جو کسی خبر واحد کے ساتھ لفظا ًیا معناً مشابہ ہو تو اسے شاہد کہتے ہیں۔

متابع اور شاھد کے الفاظ ایک دوسرے کے لیے بھی استعمال کرلیتے ہیں۔

مثال:

کتاب الام۔ شافعی عن مالک عن عبداللّٰہ بن دینار عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ الشہر تسع وتسعون فلا تصوموا حتی ترواالہلال ولا تفطرواحتی تروہ فان غم علیکم فاکملواالعدة ثلاثین۔ (شرح نخبة الفکر صفحہ128)

اس کے متعلق خیال تھا کہ امام شافعی امام مالک سے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔

متابعت تامہ:

بخاری عن عبداللّٰہ بن مسلم القعنبی عن مالک عن عبداللّٰہ بن دینار عن عبداللّٰہ بن عمر ان رسول اللّٰہ قال الشہر تسع وعشرون لیلة فلاتصوموا حتی تردہ فان غم علیکم فاکملوا العدة ثلاثین۔ (بخاری کتاب الصوم باب اذارء یتم الھلال فصوموا)

متابعت ناقصہ: ابن خزیمہ عن عاصم بن محمد عن محمد بن زید عن عبداللّٰہ بن عمر … فاکملوا ثلاثین

شاھد: نسائی عن محمد بن حنین عن ابن عباس عن رسول اللّٰہ فان غم علیکم فاکملوا العدة ثلاثین

شیخین: امام بخاری اور مسلم۔ (ایک دوسری اصطلاح میں حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کو بھی شیخین کہتے ہیں )

حافظ: جس محدث کو ایک لاکھ حدیثیں یاد ہوں۔

طرق۔ طریق: سلسلہ روایت۔ سلسلہ سند

اصح الاسانید: وہ حدیث جس کے تمام راوی اعلیٰ درجہ کے ہوں۔ ایسی کئی اسناد ہیں

٭…حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی صحیح ترین سند کو اصح الاسانید یا سلسلة الذھب کہتے ہیں۔ مالک عن نافع عن عبداللہ بن عمر

٭…حضرت انسؓ کی صحیح ترین سند یہ ہے۔ مالک عن زھری عن انس

٭…حضرت عائشہؓ کی صحیح ترین سند.

ھشام بن عروہ عن عروہ بن زبیر عن عائشہ… یحییٰ بن سعید عن عبیداللہ بن عمر…عن قاسم بن محمد عن عائشہ

٭…ابن عباس کی صحیح ترین سند. زہری عن عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ عن ابن عباس

ھذا حدیث صحیح کا مطلب: اس سے محدثین کی یہ مراد ہوتی ہے کہ حدیث میں مطلوبہ پانچوں صحت کی شرائط پوری ہوگئی ہیں۔ یہ مراد نہیں کہ حقیقت کے لحاظ سے بھی اس کے قطعی صحیح ہونے کا حکم لگا دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ ثقہ راویوں میں بھی غلطی کرنے اور بھولنے کا امکان موجود ہوتا ہے۔

ھذا حدیث غیر صحیح سے مراد ہے کہ حدیث میں صحیح کی پانچوں یا بعض شرطیں پوری نہیں ہوئیں۔ یہ مراد نہیں کہ حقیقت کے لحاظ سے بھی جھوٹ ہے۔ اس لیے کہ کثرت سے غلطیاں کرنے والے راوی سے بھی صحیح روایت کا منقول ہونا ممکن ہوتا ہے۔ (اصطلاحات حدیث صفحہ43)

صحیح اور صحیح الاسناد

محدثین کے قول ہذا حدیث صحیح کا درجہ ھذا حدیث صحیح الاسناد سے زیادہ ہے۔ اسی طرح ھذا حدیث حسن کا درجہ ھذا حدیث حسن الاسنادسے زیادہ ہے۔

ترمذی وغیرہ کا قول حدیث حسن صحیح کہنا۔ اگر حدیث کی ایک سے زائد اسناد ہیں تو مراد ہے کہ ایک سند کے لحاظ سے صحیح اور دوسری کے لحاظ سے حسن ہے۔ اگر سند ایک ہی ہے تو مراد ہے کہ کسی ایک گروہ کی نظر میں وہ صحیح اور دوسرے کی نظر میں حسن ہے۔

تحمل اور اخذ حدیث کے چند طریقے

1۔ سماع: شیخ پڑھے اور شاگرد سنتا جائے۔

سَمِعْتُ

یا

حَدَّ ثَنِیْسب

سے اچھا صیغہ ہے۔

2۔ قراء ت۔ عرض: طالب علم پڑھے اور شیخ سنتا جائے۔ خواہ طالب علم خود قراء ت کرے یا کوئی دوسرا۔

سب سے محتاط قول قرء ت علی فلان ہے۔ یا اخبرنا۔ بعض کے نزدیک سماع اور قراء ت کا حکم ایک ہی ہے۔

3۔ اجازت: شیخ اپنے تلمیذ کو زبانی یا تحریری طور پر روایت کی اجازت دے۔

4۔ مناولہ: شیخ اپنے تلمیذ کو اپنی کتاب دے اور اپنے سے روایت کرنے کی اجازت دے۔

اشارات اداء الفاظ: مسلسل آنے والے الفاظ کو اختصار سے لکھا جاتا ہے حدثناکو ثنا۔ اخبرناکو انا۔ ان سے پہلے قال حذف ہوتا ہے۔ تحویل(ایک سند سے دوسرے کی جانب پلٹنا) کو ح سے بیان کرتے ہیں۔

تصانیف کی اقسام

العلل: جو کتب معلول احادیث اور ان کی علل کے بیان پر مشتمل ہوں کتاب العلل (دارقطنی) العلل (ابن ابی حاتم)

اطراف: جس میں مصنف نے ہر حدیث کا ایک ایسا حصہ جمع کر دیا ہو جس سے بقیہ حدیث کا مضمون سمجھ آسکتا ہو۔

کتب: تحفة الاشراف بمعرفة الاطراف (المزی)

حدیث مسلسل: جس کی اسناد کا یا رجال کا ایک حالت یا صفت میں تتابع ہو۔

مثال:

لا يَجِدُ العبدُ حَلاوة الإِيمَانِ حَتَّى يؤمنَ بالقَدَر خيرِه وشرِّه، حُلْوِه ومُرِّه، وَقَالَ: قَبَضَ رسولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى لِحْيَتِه وَقَالَ: آمنتُ بالقَدَر خيرِه وشرِّه، حُلْوِه ومُرِّه۔ ( الطيوريات: أبو الحسين المبارك بن عبد الجبار الصيرفي الطيوري (المتوفى: 500ھ)

اس کے بیان کے وقت رسول اللہﷺ نے اپنا دست مبارک داڑھی پر رکھا اور فرمایا آمنت بالقدر خیرہ و شرہ و حلوہ و مرہ۔ اس روایت میں تسلسل کے ساتھ ہر راوی نے داڑھی پر ہاتھ رکھا اور رسول اللہﷺکا مذکورہ بالا جملہ دہرایا۔

کتب: مسلسلات أبي نعيم إلاصبهاني: للإمام الحافظ المعمر أبي نعيم احمد بن عبد اللّٰه بن احمد بن إسحاق إلاصبهاني (336۔ 430)

مسلسلات الخطيب البغدادي: للمؤرخ أبي بكر احمد بن علي بن ثابت الخطيب البغدادي الشافعي (392۔ 463)

غریب الحدیث: جس حدیث میں ایسے مشکل الفاظ موجود ہوں جن کو عام آدمی نہ سمجھ سکتا ہو۔ رسول اللہﷺ قریش کی زبان بولتے تھے اور بعض دور افتادہ قبائل اسے سمجھ نہیں سکتے تھے۔ ان کو سمجھانے کے لیے الگ کتب لکھی گئی ہیں۔

کتب: غریب الحدیث( ابوعبیدہ القاسم بن سلام )النہایہ فی غریب الحدیث والاثر (ابن اثیر)

ثلاثیات: ایسی احادیث جس کے مصنف اور رسول اللہؐ کے درمیان صرف تین راوی ہوں۔ چار واسطوں والی رباعیات اور پانچ راویوں والی خماسیات کہلاتی ہیں۔ کتب: ثلاثیات البخاری۔ ( ابن حجر)۔ ثلاثیات احمد بن حنبل

علم جرح و تعدیل: وہ علم جو خاص الفاظ کے ذریعہ راویوں کی عدالت و ثقاہت یا عیب وضعف سے بحث کرتا ہے۔ کتب: طبقات ابن سعد۔ تاریخ کبیر بخاری۔

علم رجال الحدیث: اس علم میں رواۃ حدیث کے حالات بیان کیےجاتے ہیں۔ کتب: اسدالغابہ (ابن اثیر 630ھ)۔ الاصابہ (ابن حجر عسقلانی 852ھ)

علم مختلف الحدیث

وہ حدیث جن میں بظاہر تناقض نظر آتا ہے ان میں تطبیق کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثال:

لَاعَدْویٰ…فر مِنَ الْمَجْذُومِ فِرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِ

علم ناسخ و منسوخ

یہ علم ان متعارض احادیث سے بحث کرتا ہے جن میں جمع و تطبیق کا امکان نہ ہو اور بعض کو ناسخ اور بعض کو منسوخ کہا جاتا ہے۔ کتب: ناسخ الحدیث و منسوخہ۔ ( ابوبکر محمد بن عثمان الشیبانی)

اصول درایت

اصول درایت میں سب سے اہم امر یہ ہے کہ وہ کسی بھی طرح قرآن کریم کے خلاف نہ ہو اس کے علاوہ مندرجہ ذیل امور زیادہ قابل لحاظ سمجھے گئے ہیں۔

(1) روایت کسی معتبر اور مستند عصری ریکارڈ کے خلاف نہ ہو۔ (2) کسی مسلمہ اور ثابت شدہ حقیقت کے خلاف نہ ہو۔ (3) کسی دوسری مضبوط تر روایت کے خلاف نہ ہو۔ (4) کسی ایسے واقعہ کے متعلق نہ ہو کہ اگر وہ صحیح ہے تو اس کے دیکھنے یا سننے والوں کی تعداد یقیناً زیادہ ہونی چاہیے لیکن پھر بھی اس کا راوی ایک ہی ہو۔ (5) روایت میں کوئی اور ایسی بات نہ ہو جو اسے عقلاً یقینی طور پر غلط یا مشتبہ قرار دیتی ہو۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’درایت اور روایت دونوں امور توام ہیں جو شخص دونوں کو بیک وقت بنظر غائر نہیں دیکھتا وہ گھاٹے میں پڑ جاتا ہے۔ ہمارے دین کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ عقل کو نقل کے ساتھ اور درایت کو روایت کے ساتھ جمع کر دیتا ہے۔‘‘(ترجمہ سر الخلافہ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 428)

کتب حدیث کی اقسام

کتب احادیث کو طرز تصنیف، مقصد تحریر اور مصنف کی ذاتی محنت اور دقت نظر کے اعتبار سے مختلف اقسام میں منقسم کیا گیا ہے۔ مثلاً:

1۔ جامع: وہ کتاب ہے جس میں ہر قسم کے مضامین کی حدیثیں خاص ترتیب کے مطابق بیان ہوں مثلاً عقائد، احکام، آداب معاشرہ، تصوف، اخلاق، تاریخ و تفسیر وغیرہ جیسے۔ جامع صحیح بخاری۔ جامع ترمذی۔

2۔ مسند: حدیث کی وہ کتاب جس میں ہر صحابی کی بیان کردہ احادیث کو الگ الگ بلا لحاظ مضمون جمع کر دیا گیا ہو۔ مثلاً پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث، و علی ہذا القیاس دوسرے صحابہ کی احادیث، جیسے مسند احمد بن حنبل جو مختلف صحابہ کی روایات سے قریباً چالیس ہزار احادیث پر مشتمل ہے۔ اس کے مصنف حضرت امام احمد بن حنبل ہیں جو 164ھ میں پیدا ہوئے اور 241ھ میں وفات پائی۔

3۔ معجم: حدیث کی وہ کتاب ہے جس میں ہر استاد یا ہر شہر کی احادیث کو بلالحاظ مضمون الگ الگ اجزاء میں بیان کیا گیا ہو۔ جیسے معجم طبرانی۔

4۔ سنن: وہ کتاب جس میں صرف احکام و آداب سے متعلقہ احادیث جمع کی گئی ہوں یعنی وہ کتاب فقہی ابواب سے متعلق احادیث پر مشتمل ہو جیسے سنن ابوداؤد، سنن نسائی۔

5۔ صحیحین: صحت کے لحاظ سے حدیث کی دو بہت ہی مشہور کتابیں یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم۔

6۔ صحاح ستہ: صحت کے لحاظ سے حدیث کی چھ مشہور کتابیں یعنی بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی

حدیثوں کی تعداد

علم حدیث کی اصطلاح میں کسی بیان میں حرف، لفظ کے بدلنے، تقدیم و تاخیر سے اسے الگ حدیث گنا جاتا ہے اگرچہ مرکزی متن ایک ہی ہو۔ اسی طرح کسی ایک راوی کی تبدیلی سے بھی وہ نئی حدیث شمار کی جاتی ہے۔ مثلاً حدیث

اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ

700 سندوں سے مروی ہے ان کو 700 احادیث گنا جائے گا۔ ایک شیخ نے 10 شاگردوں کے سامنے ایک حدیث بیان کی اور سب نے 10، 10کے سامنے بیان کی تو وہ 100حدیثیں کہلائیں گی۔ اس طرح مختلف محدثین کے مطابق احادیث کی تعداد 2 لاکھ سے 12 لاکھ تک ہے ان میں صحابہ کے اقوال اور فتاوی ٰ بھی شامل ہیں۔ اورجب کہا جاتا ہے کہ امام بخاری نے 6 لاکھ یا امام مسلم نے 7 لاکھ احادیث میں سے انتخاب کیا ہے تو اس سے یہی مراد ہے۔ جبکہ فی الواقع رسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے فقرات جو پوری سند کے ساتھ ہیں وہ علما٫ کے نزدیک 4400 کے قریب ہیں۔

صحاح ستہ میں 105 صحابہ کی روایات موجود ہیں۔ مسند ابو داؤد طیالسی میں 250 صحابہ کی روایات ہیں۔ رسول اللہﷺ کے کم از کم 14 صحابہؓ نے 120 سال یا اس سے زیادہ عمر پائی ہے جن میں حضرت حکیم بن حزامؓ، عاصم بن عدیؓ، مخرمہ بن نوفلؓ اور حسان بن ثابتؓ شامل ہیں۔ ابن مندہ ( 511 ھ) نے باقاعدہ اس پر کتاب لکھی ہے من عاش مائة وعشرين سنة من الصحابة

حدیث بھی امت محمدیہ کے لیےبہت بڑی نعمت ہے مگر اس بحر میں غوطے لگا کر موتی تلاش کرنے پڑتے ہیں اور اسی تلاش کے یہ قواعد و ضوابط ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی برکات سے متمتع فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button