تعارف کتاب

واقعات صحیحہ (مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ) (قسط 10)

(اواب سعد حیات)

پیر مہر علی شاہ گولڑوی کا حضرت مرزا غلام احمدؑ مسیح موعود و مہدی معہودؑ کے بالمقابل مُباحثہ تفسیرالقرآن سے انکار و فرار

مولف و مرتب موصوف نے نومبر 1900ء میں یہ کتاب تیار کرکے ان حالات کا سچا فوٹو تیار کیا جس سے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود کے مباحثہ تفسیر القرآن کے واقعات اور پیش آمدہ دیگر متعلقہ حالات کا ریکارڈ محفوظ ہوگیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علماء سے طویل مباحثات و مناظرات کے بعد 1896ء میں اپنی کتاب انجام آتھم میں آئندہ کے لیے مباحثات کے نتائج بدامنی اور فتنہ انگیزی وغیرہ کے پیش نظر ان میں حصہ نہ لینے کا اعلان فرمایا لیکن صوفیاء اور اہل اللہ کہلانے والوں کے لیے روحانی مقابلہ کا میدان کھلا رکھا۔ جیسا کہ اسی کتاب میں پیر مہر علی شاہ صاحب کو مباہلہ کے روحانی مقابلہ کی دعوت دی جسے پیر صاحب نے قبول نہ کیا۔

1900ء میں جب پیر مہر علی شاہ صاحب نے ایک کتاب شمس الہدایہ حیات مسیح کے موضوع پر شائع کی تو حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب نے ان سے محولہ کتب کے بارے میں بعض استفسار کیے تو عقدہ کھلا کہ یہ کتاب پیر صاحب کی تصنیف کردہ نہیں ہے بلکہ محض منسوب ہےاور ایک مرید کی مرتب کردہ ہے۔ پیر صاحب کی طرف منسوب کتاب کا کافی و شافی جواب حضرت سید محمد احسن امروہوی نے شمس بازغہ کے نام سے لکھا۔ اور مولف کتاب کے چیلنج کے جواب میں اپنی طرف سے مباحثہ کی دعوت بھی قبول کر لی لیکن پیر صاحب نے اس کا بھی جواب نہیں دیا۔

اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے شمس الہدایہ میں درج پیر صاحب کے دعویٰ کہ ’’انہیں قرآن کریم کی سمجھ عطا کی گئی ہے ‘‘ کے فیصلے کے لیے ایک آسان طریق تجویز کرتے ہوئے 20؍جولائی 1900ءکو انہیں تفسیر نویسی میں مقابلہ کا چیلنج دیا کہ قرآن کریم کی کوئی سورت قرعہ اندازی کے ذریعہ نکال کر فریقین اس کی چالیس آیات کی تفسیر عربی میں تحریر کریں اور تین علماء اہل سنت ان تفاسیر کو دیکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ کونسی تفسیر زیادہ فصیح اور اعلیٰ نکات پر مشتمل ہے جس کا نمونہ پہلی تفاسیر میں موجود نہ ہو۔ یہ ثابت ہوجانے پر اس فریق کو حق پر اور من جانب اللہ تسلیم کیا جائے گا۔

مگر افسوس کہ پیر مہر علی صاحب تفسیر القرآن کے میدان میں تو مرد میدان نہ بن سکے بلکہ بچنے کے لیے نامعقول حیلے اور عذر لنگ تراشنے لگے مثلاًکہا کہ اوّلاً فریقین کے مابین مباحثہ و مناظرہ ہو، اس کے بعد علماء کے فیصلے کے مطابق مرزا صاحب پیر صاحب کے ہاتھ پر توبہ کریں پھر تفسیر نویسی کا مقابلہ ہو۔

ظاہر ہے کہ یہ شرائط اوررنگ برنگی کہانیاں قرآن دانی کے روحانی مقابلہ میں عاجز رہنے کا اقرار تھا جیسا کہ پیش گوئی کی گئی تھی البتہ حضور علیہ السلام نے اتمام حجت کے لیے مقررہ دنوں کے اندرسورت فاتحہ کی تفسیر لکھ کر اعجاز المسیح کے نام سے دنیا کے سامنے رکھ دی، جو ایک زندہ معجزہ ہے۔

الغرض اس کتاب میں پیر مہر علی صاحب کے ساتھ ہونے والی خط وکتابت سمیت پیش آمدہ واقعات کا واقعاتی ریکارڈ فوری طور پر اسی زمانہ میں محفوظ کردیا گیا۔ جسے آج تک کوئی چیلنج نہیں کرسکا ہے اور بلاشبہ یہ واقعات موجب عبرت ہیں۔ اس کتاب میں اس زمانے کے دیگر نامور علماء حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور مولوی محمد احسن امروہی صاحب کے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس تاریخی علمی دنگل میں شرکت کا حال بھی مرقوم ہے۔ جو قارئین کے لیے علمی فائدہ کا موجب ہے۔

پیر مہر علی شاہ کے ساتھ ہونے والا یہ معرکہ نشان صداقت بن کر ابھرا اور اسی دور میں پیر صاحب کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بالمقابل تفسیر نویسی کے مقابلہ سے انکار کے بعد برصغیر کے پانچ سو لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے تھے۔

پیر مہر علی شاہ کی طرف منسوب کتاب کا جائزہ بتاتا ہے کہ اس کی عبارت غیر سلیس اور موٹے لفظو ں سے بھری ہوئی ہے اور ترکیب فقرات ایسی بیہودہ اور طرز بیان ایسا لغوہے کہ سمجھدار لوگوں کو اس کا ایک صفحہ پڑھنا بھی مشکل اور بھاری معلوم ہو۔ علاوہ ازیں دلائل ایسے لچر دیے گئے ہیں کہ علمیت کی پردہ دری ہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں حیات مسیح کے عقیدہ کے ثبوت میں چند ایک ایسی کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا دستیاب ہونا پنجاب میں تو درکنار پورے ہندوستان میں بھی محال ہے۔ نیز منطق اور علم الٰہی کے متعلق اس کتاب میں فاش غلطیاں پائی گئیں تو 10 سوال لکھ کر پیر صاحب کی طرف بغرض استفسار بھیجے گئے، اس تازہ صورت حال میں گھبرا کر پیر مہر علی شاہ نے لکھ بھیجا کہ یہ کتاب میری تصنیف ہے ہی نہیں بلکہ ایک مرید کی کاوش ہے۔

الغرض طرح طرح کی چالاکیاں اور چال بازیاں آزمائی گئیں لیکن نوشتہ دیوار پورا ہوکر رہا کہ

اِنّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔

اس کتاب میں فریقین کی باہمی خط وکتابت کے متن بھی مہیا کیے گئے ہیں۔ اور ضروری علمی بحثیں اور واقعات کا اندراج بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے شائع کردہ اشتہارات، حواشی، وغیرہ کے ساتھ ساتھ کتاب کے آخر پر کئی صفحات پر مشتمل حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کا مضمون بھی پیش کیا گیا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button