متفرق مضامین

بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط چہارم)

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

(5)استاذی المحترم مبارک احمد ملک صاحب

عربی زبان میں جامعہ احمدیہ کے ایک اور استاد جنہوں نے اپنا نام پیدا کیا اور لوہا منوایا وہ استاذی المحترم ملک مبارک احمد صاحب مرحوم تھے۔ باوجود اس کے کہ جماعت کے عربی زبان کے ایک جید عالم تھے آپ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک، عجز و انکسار کا مرقع اور پیکرتھے۔

کسی نے غض بصر سیکھنا ہو تو آپ سے سیکھے۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ جامعہ، بازار، مسجد یا کسی اورجگہ آئےہوں اور آپ نے اپنی نظر اوپر کی ہوئی ہو۔ ہمیشہ نظریں نیچی کر کے چلتے پھرتے تھے۔

کلاس میں آتے ہی چاک ہاتھ میں لے کر بورڈ پر لکھتے ’’شکلوا‘‘ آپ کی لکھائی بہت عمدہ تھی۔ کاتب بھی ایسی عربی کیالکھے گا جو آپ لکھتے تھے۔ آپ ساری کلاسوں میں عربی گرائمر، عربی ادب، عربی کلام، بلاغت وغیرہ سبھی کچھ پڑھاتے تھے۔

درجہ رابعہ میں بلاغت کا مضمون آپ نے پڑھایا۔ یہ مضمون کم از کم میرے لیےبہت ہی مشکل تھا۔ مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہ آتی تھی۔ اور مجھے یقین ہوگیا کہ اس مضمون میں تو فیل ہوجاؤں گا۔ رات کو خواب بھی اسی قسم کے آنے لگےکہ عربی پڑھ رہے ہیں سمجھ نہیں آرہی۔ امتحان ہورہا ہے۔ اور پرچہ ہاتھ میں ہے۔ سر پکڑ کےکمرہ امتحان میں بیٹھا ہوں۔ بس ہر وقت یہی فکر لاحق تھی کہ باقی مضامین میں تو پاس ہونے کے کچھ امکانات ہیں مگر اس میں نہیں۔

جیسا کہ اس کے نام سے معلوم ہوجائے گاکہ ’’بلاغت‘‘ اور وہ بھی عربی کی۔ عبارات اس قدر گہری اور نہ سمجھ آنے والی۔ سوچ سوچ کر خاکسار نے اس مضمون میں پاس ہونے کا ایک حل نکالاکہ اگر اس مضمون کے پرچہ کا جواب اردو میں لکھوں جبکہ اردو بھی سمجھ نہیں آرہی۔ اردو میں ہی مفہوم بہت زیادہ بن جائے گا اوریاد کرنا مشکل ہوجائےگا۔ کیوں نہ بلاغت کی اس کتاب کو حفظ کر لیا جائے اور جو جواب بھی لکھنا پڑے وہ عربی میں ہی لکھ دوں۔ یہ خیال کر کے خاکسار نے بلاغت کی کتاب سے ہر روز تھوڑا تھوڑا زبانی یادکرنا شروع کر دیا۔ جب کہ سمجھ پھر بھی نہیں آر ہی تھی۔ لیکن کوشش شروع کر دی۔ خیر امتحان ہوااور خاکسار نے سارے سوالوں کے جواب عربی میں لکھ دیے۔ چنانچہ بلاغت کے مضمون میں اللہ کے فضل سے اچھے نمبرلے کر کامیاب ہوا۔ ملک مبارک صاحب اس بات پر بہت خوش ہوئے اور بعد میں کئی سالوں تک آپ طلباء کو خاکسارکی مثال دیتے تھے کہ اس نے عربی میں بلاغت کا پرچہ حل کیا۔ اور اسے زبانی یاد کر لیا تھا۔

اللہ آپ کی دعا قبول کرے

ایک دفعہ ہمارے زمانے میں آپ چند دن کے لیے قائم مقام پرنسپل بنےتو ایک طالب علم نے آپ کے نام چھٹی لینے کے لیے درخواست لکھی۔ جس پر یہ الفاظ لکھے۔ ’’مکرم محترم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ رضی اللہ عنہ‘‘ ۔ آپ نے اس کی چھٹی منظور کرتے ہوئے اسی درخواست پر یہ الفاظ لکھ کر باہر نوٹس بورڈ پر لگا دیے کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کی یہ دعا میرے حق میں قبول کرے تو اَور کیا چاہیے۔‘‘

آپ کچھ عرصہ سپرنٹنڈنٹ ہوسٹل رہے۔ آپ طلباء کو انہماک کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔ خاکسار کا بھی مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعہ میں پڑھنے والے طلباء بہت انہماک سے نمازیں اور نماز تہجد ادا کرتے تھے۔ مسجد تو نہیں تھی البتہ ہوسٹل کے اندر ایک خاصا بڑا کمرہ تھا جس میں نمازیں ادا ہوتی تھیں اور آخری کلاسز کے طلباء باری باری کچھ عرصے کے لیے امام الصلوٰۃ کے فرائض ادا کرتے اور درس دیتے تھے تا کہ نماز پڑھانے اور درس دینے کی تربیت اور تجربہ بھی ساتھ ساتھ حاصل ہو۔

ننگے سر پھرنا قبول نہ تھا

آپ کبھی کبھار طلباء کو نمازوں کے بعد ان کی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتے تھے۔ ان میں سے ایک خاص طور پر یہ تھی کہ طالب علم جب باہر خرید و فروخت کے لیے یا کسی بھی کام کے لیے جائیں تو سر پر ٹوپی ضرور ہونی چاہیے۔ ننگے سر پھرنا کسی صورت میں بھی آپ کو قبول نہ تھا۔

اصل بات یہ ہے کہ جامعہ کا ہر استاد ہی ہر طالب علم کے لیے اس کوشش اور دعا میں لگا رہتا تھا کہ ہر طالب علم اخلاقی، روحانی اور علمی لحاظ سے جماعت کا روشن ستارےبنے۔ اور اس کے لیے وہ ہر قسم کی کوشش بھی کرتے تھے۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔

عاجزی و انکساری کی ایک مثال

ایک دفعہ جب خاکسار چھٹی پر پاکستان آیا تو آپ کو گھر ملنے گیا۔ جو بچہ باہر آیا اسے پوچھا کہ ملک صاحب گھر پر ہیں؟ وہ کہنے لگا کہ جی۔ میں نے کہا ملک صاحب کو بتائیں کہ شمشاد ملنے آیا ہے۔ اس وقت ملک صاحب کسی کام میں مصروف تھے۔ اس وقت جامعہ میں ایک اور طالب علم جو اس وقت جامعہ احمدیہ جرمنی کے پرنسپل ہیں مکرم شمشاد قمر صاحب زیر تعلیم تھے۔ ملک صاحب مرحوم نے سمجھا کہ وہ آئے ہیں اور اس طرح انہوں نے خیال کیا کہ جس کام میں وہ مصروف ہیں شاید تین چار منٹ کا ہوگا ختم کر کے وہ باہر آکر طالب علم سے مل لیں گے۔ لیکن جب باہر آئےتو دیکھا کہ خاکسار کھڑا تھا۔ بس پھر کیا تھا اتنی معذرتیں کیں کہ میں پسینہ پسینہ ہوگیا۔ آپ تو میرے استاد تھے لیکن اتنی عاجزی و انکساری۔ مَیں نے ان کو عرض کی کہ ملک صاحب کوئی بات نہیں مجھے اس انتظار کا ثواب ہی ملا ہے آپ اتنی معذرت نہ کریں۔ پھر آپ مجھے اندر لے گئے اور تواضع کی اور اس دوران بھی معذرت کرتے رہے۔

ہائیکنگ

خاکسار نے اس سے قبل لکھا ہے کہ جامعہ میں طلباء کو ہائیکنگ پر بھی لے جایا جاتا تھا۔ جس سال ہم گئے ہیں اس سال مکرم ملک مبارک احمد صاحب اور قریشی نور الحق تنویر صاحب دو استاد ہمارے ساتھ تھے۔ قریشی نور الحق تنویر صاحب انچارج تھے۔ میرے ذمہ آپ نے ادویات کا کام لگایا تھا کہ کچھ بنیادی ادویات ساتھ رکھوں اگر کسی کو کسی مرحلے پر ضرورت پڑجائے تو اس کی مدد اور خدمت کروں۔ اس سال ہم ایبٹ آباد، کاغان، ناران، بٹہ کنڈی، سیف الملوک اور لولو سر وغیرہ گئے تھے۔ واپسی پر ہم اسلام آباد آئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ بھی ان دنوں اسلام آباد میں تھے۔ طلباء نے مکرم قریشی صاحب سے درخواست کی کہ وہ حضورؒ کے ساتھ ملاقات کی درخواست دیں۔ محترم قریشی صاحب نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو درخواست دے دی اور درخواست منظورہوگئی۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے غالباً دن کے 11 بجے شرف ملاقات بخشا۔ جب ملاقات کے کمرے میں داخل ہو رہے تھے تو خاکسار سب سے پیچھے تھا۔ جب سب اندر داخل ہوگئے اور اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تو خاکسار کے لیے کوئی جگہ نہ بچی۔ خاکسار حضورؒ کے قدموں میں ہی نیچے بیٹھ گیا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو وہاں سے اٹھا کر اپنے ساتھ جس تخت پر بیٹھے تھے ساتھ بٹھالیا۔

مکرم ملک مبارک صاحب نے دیکھا کہ میں اوپر حضورؒ کے ساتھ ہی بیٹھ گیا ہوں تو ہاتھ کے اشارے سے مجھے کئی دفعہ اشارہ کیا کہ میں نیچے بیٹھ جاؤں۔ لیکن جب حضورؒ نے خود مجھے اپنے ساتھ اوپر بٹھا لیا تواب میں کیسے نیچے بیٹھتا۔ ملاقات میں حضورؒ ہائیکنگ کے متعلق باتیں پوچھتے رہے۔ بعد ملاقات خاکسار نے محترم ملک صاحب سے عرض کی کہ میں آپ کا اشارہ دیکھ بھی رہا تھا اور سمجھ بھی رہا تھا لیکن آپ نے ہی تو ہمیں یہ سبق بھی پڑھایا ہے کہ الامر فوق الادب۔آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔

تعلیم و تدریس

کلاس میں بھی داخل ہوتے تو سوائے پڑھانے کے اور کوئی بات نہ ہوتی۔ بڑی سنجیدگی سے پڑھاتے اور طلباء بھی سنجیدگی سے ہی پڑھتے تھے۔ میں نے آپ کی کلاس میں کسی کو شرارت یاہنسی مذاق وغیرہ کرتے نہیں دیکھا۔ جہاں آپ اپنے مضمون اورعربی زبان کے ماہر تھے وہاں آپ نے بہت سی کتب سلسلہ کا عربی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا: ’’مرحوم بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ عربی ادب پر پورا عبور تھا، تراجم اور مضامین ان کی یاد ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ سلسلہ کے نہایت مفید وجود تھے۔ ان کی خدمات نہایت قابل تحسین ہیں۔‘‘ یہ الفاظ اب بہشتی مقبرہ میں محترم ملک صاحب کی قبر پر کندہ ہیں۔ اور آپ کی قبر بھی ایسی جگہ ہے جہاں ہر شخص آتے جاتے دیکھ سکتا ہے۔ اور دعا کر سکتا ہے۔

آپ کے ایک بیٹے عزیزم مظفر ملک صاحب امریکہ میں ہیں۔ ان سے اکثر ملاقات ہوتی ہے۔ اور محترم ملک صاحب کے بارے میں یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ اکثر ان کو یاد دلاتا ہوں کہ ان کی پیدائش پر محترم ملک صاحب نے ہماری ساری کلاس کو لڈو کھلائے تھے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے دیے گئے اسباق کو اپنی زندگی کے سنوارنے میں اور قرب الٰہی حاصل کرنے اور سلسلہ کی خدمت کرنے میں ممدو معاون بنائے۔ آمین

(6)استاذی المحترم مولوی غلام باری صاحب سیف

آپ کی شخصیت سے کون ناواقف ہوگا۔ اس زمانے میں آپ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پُرمغز تقاریر کیا کرتے تھے۔ جامعہ کے طلباء کو جماعتوں میں ساتھ لے جاتے تھے اور جلسے منعقد کرواتے،ان کی تربیت کرتے۔ فن تقریر میں ان کا ملکہ بڑھاتے۔ مجھے یاد ہے کہ آپ نے کلاس میں کئی مرتبہ تقریر کرنے کے بارے میں فرمایا کہ تقریر کے وقت گھبراہٹ ایک طبعی امر ہے لیکن آپ لوگوں کا تو کام ہی تقریر اور تدریس کا ہے۔ اس لیے آپ کے اندر گھبراہٹ اور بے چینی نہیں ہونی چاہیے۔ اس گھبراہٹ کو دور کرنے کے لیے انہوں نے ایک بڑا مفید سبق اور نسخہ یہ سکھایا جس پر میں نے کئی مرتبہ عمل کیا۔ اور وہ یہ کہ جب تقریر کرنی ہو اسے لکھ لیں۔ پھر باہر کھیتوں میں چلے جائیں اور کھیت کی فصل کو سامنے رکھ کر تقریر کریں اور سمجھیں کہ میرے سامنے یہ لوگ بیٹھے ہیں۔ اس طرح تقریر کرنے کی مشق اور ملکہ بڑھے گا اور بتاتے تھے کہ آپ کی تقریر اتنی مدلل ہو کہ آپ کو یہ گمان ہو کہ اب اس مضمون کے بارے میں سامعین میں سے مجھ سے زیادہ اور کوئی نہیں جانتا۔ اس طرح آپ نے طلباء کے اندر بات کرنے، تقریر کرنے، درس و تدریس کا ملکہ اور ہنر پیدا کرنے کی سعی جمیل کی۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء

آپ فیکٹری ایریا کے محلے میں رہتے تھے۔ کئی دفعہ آپ کے گھر جانے کا اور آپ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کا بھی موقع ملا۔

آپ خود بھی علم کلام کے ماہر تھے۔ اور تقریر کے فن سے خوب واقف تھے۔ ہمارے زمانہ طالب علمی میں آپ کچھ عرصے کے لیے لبنان بھی عربی کی تعلیم کے لیے گئے۔ جب واپس آئے تو جامعہ میں اور کلاسز میں ’’ما رایتُ فی اللبنان‘‘ یعنی ’’میں نے لبنان میں کیا دیکھا ‘‘ کے موضوع پر عربی اور اردو میں تقاریر کیں۔ یہ تقاریر اسی موضوع سے مشہور ہوئیں۔

آپ جماعتوں کے دورے پر بھی جاتے تھے۔ اور وہاں علمی تقاریر کے ساتھ ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خوب تقاریر کرتے اور آپ کی تقاریر کو پسند بھی بہت کیا جاتا۔

دلائل اور الزامی جواب

آپ علم کلام کے استاد تھے۔ جس کا تعلق جماعت احمدیہ کے عقائد سے زیادہ تھا۔ آپ نے خود نوٹس کی اپنی ایک کاپی بنائی ہوئی تھی۔ اور اس میں ہاتھ سے نوٹس لکھے ہوئے تھے۔ ہمیں بھی پڑھاتے اور حوالہ جات نوٹ کرواتے۔ بعض مواقع پر جماعت احمدیہ کے جید علماء اور مناظر اور جو آپ کے قادیان میں استاد بھی رہ چکے تھے ان کے واقعات اور الزامی جواب بھی سکھاتے تھے۔ بلکہ شوق سے ایسے واقعات سناتے جن کا تعلق علم کلام سے ہوتا اور مناظرے میں بھی کام آنے والے ہوتے تھے تاکہ دلیل کے ساتھ ساتھ الزامی جواب کی بھی سمجھ آجائے کہ برموقع کس طرح استعمال کرنا ہے۔

میری لائبریری

آپ نے طلباء کے اندر اس بات کا شوق پیدا کیا کہ ہر مبلغ اور مربی کی اپنی لائبریری ہونی چاہیے۔ اور ان کے پاس کتب کا ایک ذخیرہ ہو۔ کیونکہ پڑھائی کرنے کا کوئی وقت تو نہیںہوتا۔ اور نہ ہی تحقیق کرنے کا وقت ہوتا ہے۔ بلکہ یہ تو کسی وقت بھی ہوسکتا ہے اور ہر وقت لائبریری بھی میسر نہیں آسکتی اس لیے طلباء کو آپ بار بار تلقین اور ترغیب دیتے کہ کتب خریدیں۔ اور اپنی لائبریری بنائیں۔

خاکسار پر اس بات کا گہرا اثر ہوا۔ اب کس طرح لائبریری بنائی جائے۔ اس وقت ہم جامعہ کے طالب علم تھے۔ اور جامعہ احمدیہ کے ہوسٹل میں رہائش پذیر تھے۔ اس وقت یہ بھی سننے اور دیکھنے میں آتا تھا کہ جب مبلغ باہر کے ممالک میں تبلیغ کے لیے جاتے ہیں تواپنے ساتھ کتب بھی لے کر جاتے ہیں۔ خصوصاً افریقہ میں مبلغین کے حالات سنتے تھے کہ تبلیغ کے دوران وہ جب ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے تو کتب کا صندوق بھی ساتھ ہوتا تھا۔ آج تو یہ مشکلات نہیں ہیں۔ ہر ایک کے پاس سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ ہیں۔ کتب کا سارا خزانہ اس کے اندر سمایا ہوا ہے۔

بہرکیف خاکسار کو آپ سے یہ بات سن کر بہت شوق پیدا ہوا کہ اپنی لائبریری ہونی چاہیے۔ ایک دن شام خاکسار آپ کے گھر واقع فیکٹری ایریا میں چلا گیا اور کنڈی کھٹکھٹا دی۔ آپ گھر پر ہی تشریف رکھتے تھے۔ فرمانے لگے آؤ شمشاد کیسے آنا ہوا۔ میں نے بتایا کہ ایک عرصہ سے آپ سے سن رہا ہوں کہ مبلغ کی اپنی لائبریری ہونی چاہیے۔ مجھے اس کا بہت شوق ہوگیا ہے لیکن کتب خریدنے کی گنجائش نہیں۔ آپ کی تو بہت بڑی لائبریری ہے کچھ کتب زائد ہوں گی یا اب آپ کے کام کی نہ رہی ہوں گی لیکن میرے کام آجائیں گی۔ لہٰذا میں اپنی لائبریری کی ابتدا آپ کی کتب کے تحفہ سے کرتا ہوں۔ آپ بہت خوش ہوئے اور مجھے چند کتب اپنی لائبریری سے بطور تحفہ عنایت فرمائیں اور اس طرح میں نے اپنی لائبریری کا اجرا کیا۔ اور اس کے بعد کچھ اور اساتذہ سے بھی اسی طرح کتب اکٹھی کر کے اپنی لائبریری بنائی۔

اس سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری (طلباء کی) اپنے اساتذہ کے ساتھ کس قدر بے تکلفی تھی۔ اور تبلیغ، تربیت اور علمی کاموں میں ہمیں اساتذہ سے بات کرنے میں کوئی عار اور جھجک نہ تھی جس کا ہمیں بہت فائدہ ہوا۔ الحمدللہ

شکار کا شوق اور ایک دعوت

خاکسار نے اس سے قبل لکھا ہے کہ آپ کو شکار کا بھی بہت شوق تھا۔ جامعہ کے طلباء کے ساتھ بھی شکار پر چلے جاتے تھے۔ یہ جنوری 1978ء کا واقعہ ہے۔ جلسہ سالانہ ختم ہوا تھا۔ اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں نذیر احمد صاحب ایک مددگار کارکن ہوتے تھے۔ وہ محلہ دارالعلوم میں رہتے تھے۔ میرے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے۔ خاکسار کو معلوم ہوا کہ انہیں بھی شکار کا شوق ہے اور وہ شکار کھیلتے ہیں اور دوستوں کو بھی اس میں شریک کرتے ہیں۔ خاکسار نے انہیں کہا کہ نذیر صاحب مجھے بھی شکار لا کر دیں۔ انہوں نے پوچھا کتنا چاہیے میں نے کہا جو بھی آپ کر سکیں۔ وہ دو دن بعد 30 فاختائیں (جس کو پنجابی میں گُھگیاں کہتے ہیں ) شکار کر کے لے آئے۔ یہ تو میری توقع سے کہیں زیادہ شکار تھا۔ میں نے سمجھا شاید دو چار پرندے لائیں گے۔ وہ 30 فاختائیں تھیں۔ میں نے ان سے ہی درخواست کی کہ وہ انہیں اب صاف کرنے میں بھی مدد کریں۔ اور ادھر خاکسار نے جامعہ کے اساتذہ اور دیگر بزرگان کو اپنے گھر رات کے کھانے کی دعوت دے دی۔

مجھے ان دنوں کوارٹر تحریک جدید ملا تھا۔ جن بزرگوں اور احباب کو دعوت دی گئی ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ، حضرت ملک سیف الرحمان صاحب، محترم ملک مبارک احمد صاحب، محترم قریشی نور الحق تنویر صاحب، مکرم غلام باری سیف صاحب، مولانا محمد احمد جلیل صاحب، مولانا شیخ مبارک احمد صاحب، مولانا دوست محمدصاحب شاہد، صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب، مولانا عبدالمالک خان صاحب(بیماری کی وجہ سے تشریف نہ لاسکے) شامل تھے۔

اس طرح ایک دو اپنے دوست جو جامعہ کے ساتھی اور مربی تھے گھر میں مدد کے لیے، مکرم نذیر صاحب نے ہی ان میں سے15فاختاؤں کو بھون کر سالن بنایا۔ اور خاکسار کی والدہ صاحبہ اور اہلیہ صاحبہ نے باقی فاختاؤں کا پلاؤ اور دیگر کھانا گھر میں تیار کیا۔

ہمارے کوارٹر کا یہ حال تھا کہ ہمارے گھر بیٹھنے کی جگہ نہ تھی۔ تحریک جدید کے کوارٹر میں صرف 2کمرے تھے۔ بیڈروم میں جو بھی بزرگ آتا گیا بیڈز پر ان کو بٹھاتا گیا جب کھانا لگ گیا تو کھانے کے لیے ٹیبل، کرسیاں یا ڈائننگ سیٹ برتن وغیرہ بھی نہ تھے۔ خاکسار نے کوارٹر کے برآمدے ہی میں دری اور کھیس بچھا دیے اور سب بزرگوں کو اس پر بٹھا دیا اور کھانا شروع کرا دیا۔

حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدصاحبؒ کی آمد اور مولانا دوست محمد صاحب شاہد کی آمد سے مجلس میں بے حد لطف پیدا ہوا۔ علمی لطائف کا گویا دریا چل پڑا تھا۔ سب نے نیچے بیٹھ کر کھانا تناول کیا۔ اور بہت خوشی کا اظہار کیا۔

یہ سب بزرگان کی سادگی اور دل جوئی بھی تھی کہ گھر میں کسی قسم کے تکلفات نہ تھے پھر بھی دعوت قبول کی اور خوش ہوئے۔ کھانے کے دوران بجلی چلی گئی۔ خاکسار نے مٹی کے تیل کی لالٹین اور موم بتیوں کا انتظام کر رکھا تھا۔ بجلی جانے پر فوراً اس انتظام سے فائدہ اٹھایا۔ اس پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے فرمایا دیکھیں جامعہ احمدیہ میں پڑھنے کے فائدے۔ ہر چیز کا پہلے سے بندوبست کیا ہوا ہے۔ الحمد للہ۔

مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف کو شکار بہت پسند تھا۔ اس لیے انہوں نے بھی اس تقریب دعوت کو بہت سراہا۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء

(7)مکرم مولانا محمد احمد صاحب ثاقب

آپ ہمارے شجاعت گروپ کے انچارج بھی تھے۔ فقہ پڑھاتے تھے۔ فقہ اور حدیث پر دسترس تھی۔ طبیعت بہت سادہ، ملائم اور ملاطفت کی سی تھی۔ بہت خاموش طبع، حلیم، لیکن علم کے سمندر تھے۔ بہت کم غصے میں آپ کو دیکھا ہے۔ پڑھانے کا انداز بہت سادہ ہوتا تھا۔ طلباء کے بار بار پوچھنے پر کبھی بُرا نہ مناتے تھے۔ کبھی کبھار طلباء کے ساتھ بے تکلفی میں لطیفے اور وہ بھی فقہی لطائف سناتے تھے۔ اپنے زمانہ طالب علمی کے واقعات اور قادیان کےبزرگ علماء و اساتذہ سے آپ نے فیض حاصل کیا تھاان سے سنے ہوئے فقہی مسائل بھی بیان کرتے۔ ہدایۃ المجتہد کے بارے میں جو علمی کام آپ نے کیا تھا اس کا بھی تذکرہ آپ سے سنا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی غریق رحمت کرے۔ طلباء کے ساتھ نیک اور ہمدردانہ سلوک اور رویہ تھا۔

(8)مکرم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب

آپ کا بھی جامعہ کے بزرگ اور علمی اساتذہ میں شمار ہوتا تھا۔ آپ طلباء کو ابتدائی کلاسز میں صرف و نحو پڑھاتے تھے۔ ہمیں بھی آپ سے یہی مضمون پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ عربی کی گرائمر میں جو گردانیں ہیں۔ وہ رٹانے میں اور پڑھانے میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ آپ ماشاء اللہ ہمیشہ بڑے چاک و چوبند رہتے تھے۔ سر پر ہمیشہ پگڑی باندھتے تھے۔ جو کچھ اس وقت صرف و نحو میں پڑھا وہی ہمارے کام آیا۔ اب تو صرف و نحو قریباً بھول گئی ہے۔ مگر وہ باتیں، وقت اور گردانیں یاد آتی ہیں۔

اپنا مضمون پڑھانے کے ساتھ ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ گذرا ہوا وقت اور تفسیر صغیر کے لیے کیے ہوئےکام کا بھی اکثر ذکر کرتے۔ بتاتے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ کس طرح انتھک محنت کرتے تھے۔ اور آپ کس طرح راتوں کو کام کرتے۔ دن کے وقت کس طرح کام ہوتا تھا۔ گرمی، سردی، بھوک، پیاس کی پرواہ کیے بغیر سب کام میں جُتے ہوتے تھے۔ یہ واقعات ہماری علمی استعدادوں، روحانی اور اخلاقی قدروں کو بڑھانے اور زندگی کا حصہ بنانے کے لیے بہت ضروری تھے تاکہ ہم جماعت کے ڈھانچے، کام کرنے کا طریق اور وقف کی اہم ذمہ داریوں کو سمجھنے اورادا کرنے کے قابل ہوسکیں۔

خاکسار کو آپ کے ساتھ جلسہ سالانہ 1966ء کے موقع پر شعبہ استقبال ریلوے سٹیشن پر بھی ڈیوٹی دینے کا موقع ملا۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میں ایک چست جرنیل کی طرح ریلوے سٹیشن اور اڈہ ربوہ پر گھومتے رہتے اور معاونین کی نگرانی کرتے۔ مسافروں اور مہمانوں کو بھی دیکھتے۔ ایک دفعہ غالباً آپ کی ڈیوٹی بطورناظم بازار کی بھی لگی۔

آپ ادارۃ المصنفین کے انچارج بھی بنے۔ یہ 1973ء کا واقعہ ہے کہ جب ہم جامعہ سے فارغ ہوئے تو چند ہفتوں کے لیے ہماری ساری کلاس آپ کے سپرد ہوئی تھی۔ اس وقت قرآن کریم کی اشاعت ہوئی تھی۔ چنانچہ آپ کے ساتھ رہ کر ہم سب ساتھی طلباء کو قرآن کی خدمت کی بھی توفیق ملی۔ الحمد للہ

(9)مکرم شیخ خادم حسین صاحب

آپ باقاعدہ واقف زندگی تونہ تھےمگر آپ سے ہم نے انگریزی پڑھی ہے۔ جوں ہی آپ کلاس میں داخل ہوتے ایک مستعد ملٹری آدمی کی طرح لگتے تھے۔ باوجود پتلے اور کمزور ہونے کے تقویٰ پر مضبوط لیکچر دیتے۔ کلاس میں داخل ہوکر حاضری لگانے کے بعد چند منٹ ضرور تقویٰ پر بات کرتے اور سمجھاتے۔

آپ ایران میں سفارتی ڈیوٹی پر متعین رہے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ربوہ میں مسجد اقصیٰ کے قریب آکر آباد ہوئے تھے۔ طلباء پیار سے آپ کو Mr. Priestly کہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ محترم میر داؤد احمد صاحب مرحوم کی خواہش تھی کہ ہمیں انگریزی بھی آجائے۔ اس کے لیے آپ نے لندن سے کچھ نصابی کتابیں منگوائی تھیں جن سے آپ ہمیں پڑھاتے تھے۔ ان میں ایک کہانی Mr. Priestly نام کی تھی۔

آپ نے ہمیں اسلامی اصول کی فلاسفی انگریزی میں پڑھائی۔ پہلے اس کتاب کا نام The Teachings of Islamتھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس کتاب کا صحیح انگریزی میں ترجمہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کو ضائع کرنے کا حکم فرمایا۔ اس کے بعد حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نےاس کتاب کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا۔ پھر ہم نے انگریزی کی کتاب جو The Philosophy of The Teaching of Islamکے نام سے ہے پڑھی۔

ایران میں رہنے کی وجہ سے آپ کو فارسی پر بھی کافی عبور تھا۔ کلاس میں کبھی کبھی فارسی کی کہاوتیں اور درثمین فارسی کے اشعار بھی سنا دیتے تھے۔ جونہی کوئی طالب علم کلاس میں ہلکی سی شرارت کر تا توآپ تقویٰ پر تو ضرور بات کرتے۔ میرے دل پر آپ کی اس بات کا بہت نقش جما ہوا ہے۔ طلباء پر آپ نوازشات بھی کرتے تھے لیکن ہر کام، ہر بات میں آپ ہمیشہ مدنظر رکھتے کہ ہم مبلغ اور مربی بن رہے ہیں اور مبلغ اور تقویٰ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان کی کلاس کے دوران مجھے یہ دو ہی باتیں یاد ہیں۔ ایک اسلامی اصول کی فلاسفی کتاب کا انگریزی میں پڑھنا اور تقویٰ کے بارے میں آپ کی باتیں۔ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے۔ آمین

بڑھاپے اور کمزوری کے باوجود بولنے کے وقت ان کے اندر ایک خاص عزم والی روح دیکھنے میں آتی تھی۔ آپ جماعت امریکہ کے نائب امیر ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب کے ماموں بھی تھے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button