اختلافی مسائل

کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے؟

بعض غیر احمدی علماء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ عجیب وغریب اعتراض کرتے ہیں۔ انہی اعتراضات میں ایک یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے( نعوذ باللہ )خدائی کا دعویٰ کیا ہے۔ اوراپنی طرف سے ثبوت کے طورپر بعض الہامات پیش کرتے ہیں حالانکہ ان الہامات میں سے کسی ایک میں بھی خدائی کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ اگر ان مولوی حضرات کے اعتراضات کو درست مان کر ان الہامات کی روشنی میں یہی سمجھا جائے کہ ان میں خدائی کا دعویٰ ملتا ہے تو پھر ان مولوی حضرات کی مخالفت کرنا خلاف قرآن ہے کیونکہ قرآن کریم خدائی کا دعویٰ کرنے والے کی سزا کا خود ذکر فرماتا ہے کہ

وَمَنْ يَّقُلْ مِنْهُمْ إِنِّيْٓ إِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهٖ فَذَالِكَ نَجْزِيْهِ جَهَنَّمَ كَذَالِكَ نَجْزِي الظَّالِمِيْنَ۔ (الانبياء: 30)

اور اُن مىں سے جو کہے کہ مىں اس کے سوا معبود ہوں تو وہى ہے جسے ہم جہنم کى جزا دىں گے اسى طرح ہم ظالموں کو جزا دىا کرتے ہىں۔

خدائی کا دعویٰ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ خود سزا دے گا اور وہ جہنم کی صورت میں ہو گا۔ مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں مخالفین احمدیت کو چاہیے کہ یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ جھوٹا الزام نہ لگائیں اور اگر وہ اس الزام کو سچا سمجھتے ہیں تو انہیں آ پ علیہ السلام کی مخالفت ترک کر دینی چاہیےکیونکہ ایسا دعویٰ کرنے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ اسےخود سزا دےگا۔

غیر احمدی علماء جانتے ہیں کہ ان کا یہ الزام درست نہیں ہے۔ چنانچہ جس کشف کی بنیاد پر یہ جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے اس میں حضورؑ فرماتے ہیں:

رَاَیْتُنِیْ فِی الْمَنَامِ عَیْنَ اللّٰہِ

یعنی میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5، صفحہ 564)

اس طرح کے کشف اور خواب کی تعبیر کے حوالے سے تعطیر الانام فی تعبیر المنام میں اس طرح لکھا ہے کہ’’اگر کوئی شخص خود کو خدا بنا دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ آدمی صراط مستقیم پر چلے گا۔‘‘ ( تعطیر الانام فی تعبیر المنام، صفحہ 51 )

علماء جانتے ہیں کہ کسی کے دعویٰ کی بنیاد خواب اور کشف پر نہیں رکھی جاسکتی لیکن صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی وجہ سےاس طرح کا الزام لگا دیتے ہیں۔

دسویں صدی ہجری کے مشہور عالم اور صوفی حضرت مجدد الف ثانی پربھی خدائی کے دعویٰ کا الزام لگا اوران کے اس دعوےکو فرعون کے دعوے سے مشابہت دی گئی تو سراج الہند کے لقب سے مشہور، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بڑے بیٹے مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اس کا جواب دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’یہ امر کہ جناب حضرت امیرؒ [حضرت مجدد الف ثانی ]نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ اس شخص کو چاہیے کہ پہلے یہ ثابت کرے کہ یہ دعویٰ کرنا صحیح نص سے ثابت ہے۔ پھر اس کے جواب کا خواستگار ہو۔

اگر اس شخص کی یہ مراد ہے کہ اولیاء اللہ سے بحالتِ وجد کلمات صادر ہوتے ہیں۔ ان کلمات کا صدورآپ کی زبان مبارک سے بھی ہوا مثلاً

اَنَا مُنْشِی الاَرْوَاح اَنَا بَاعِث مَنْ فِی الْقُبورِ اَنَا یَدُ اللّٰہِ اَنَا وَجْہُ اللّٰہِ اَنَا الْقُرآنُ النَّاطِقُ۔

یعنی میں ارواح کا پیدا کرنے والا ہوں، میں ان لوگوں کا اٹھانے والا ہوں جو قبروں میں ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوں۔ میں اللہ تعالیٰ کا منہ ہوں، میں قرآن ناطق ہوں۔

تو اس امر کو اس شخص کے مدعا سے کچھ واسطہ نہیں۔ یہ حماقت ہے کہ ان کلمات سے خدائی کا دعویٰ سمجھا جائے۔ ان کلمات سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ظہور جناب الٰہی آپ کو درجہ کمال حاصل ہوا اور صوفیاء کے اقوال کا یہی حاصل ہے اورپھر یہ قائل ان امور میں کیا کہے گا۔ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سمجھا کہ آگ ہے اور وہ آگ یہ کہتی ہے کہ

اِنِّیۡۤ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ (القصص: 31)

یعنی میں خدا ہوں سب جہاں کا پروردگار۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ (الفتح: 11)

یعنی آنحضرتﷺ کو خدا تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ آ پ کی بیعت قبول کرتے ہیں۔ فی الواقع وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بیعت قبول کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان لوگوں کے ہاتھوں پر ہے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی(الانفال: 18)

یعنی جب آپ نے تیر چلایا تو فی الواقع آپ نے تیر نہ چلایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے تیر چلایا۔ ایسے ہی اور بھی نصوص ہیں۔

حاصل کلام فرعون کا یہ مقولہ تھا

وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَاُ مَا عَلِمۡتُ لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرِیۡ(القصص: 39)

یعنی فرعون نے کہا میں اپنے سوا تم لوگوں کا کوئی خدا نہیں جانتا اور میں تم لوگوں کا بڑا وردگار ہوں۔ اور فرعون اپنے سوا دوسرے کے خدا ہونے کا ہرگز قائل نہ تھا۔ صوفیاء کے اقوال مذکورہ کا یہ مفہوم ہے کہ ان کلمات کے قائل کو حضرت جناب رب العزت سے ایسی نسبت حاصل ہوئی کہ بعض وجوہ میں احکام کا مدار اتحاد پر ہوگیا۔ صوفیاء کے اقوال مذکورہ اور فرعون کے کلام میں بہت فرق ہے۔‘‘ (فتاویٰ عزیزی کامل ازمولانا شاہ عبد العزیز محد ث دہلوی صفحہ 135، ناشر سعید کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی )

غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خواب وکشف میں ان علماء حضرات کو دعویٰ نظر آتا ہے لیکن ان کے اپنے بزرگوں کی تحریرات میں واضح بیان کہ’’میں ارواح کا پیدا کرنے والا ہوں، میں ان لوگوں کا اٹھانے والا ہوں جو قبروں میں ہیں۔‘‘ وغیرہ کو بھی دعویٰ نہیں سمجھتے بلکہ ان کی طرف منسوب خدائی کے دعویٰ کے الزام کا جواب قرآنی آیات کی روشنی میں دیتے ہیں۔ مخالفین یقیناً اپنے بزرگوں کی کتابوں میں ان جوابات کو پڑھتے ہیں لیکن پھر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر الزام لگا دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان کو حق بات سمجھنے اور کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(مرسلہ: ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button