یادِ رفتگاں

میرے مشفق و محسن بھا ئی مکرم محمد مظہرالحق بٹ صاحب کی یاد میں

(پروفیسر رشیدہ تسنیم خان(مرحومہ)۔ امریکہ)

فریدا ایسا ہو رہو جیسے ککھ مسیت

پیرا ں تلے لتا ڑیئے کدے نہ چھوڑیں پریت

(اے انسان، تجھے مسجد کے تنکے کی طرح ہونا چا ہیے، جسے بار بار پاؤں کے نیچے کچلا جاتا ہے، مگروہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا )

ایک دفعہ میں اپنی پیاری والدہ کے ہمراہ جلسہ سالانہ پر اۤئی ہو ئی تھی۔ جلسے کے اختتام پر ہمارا حضرت اماں جانؓ کی زیارت کا پرو گرام بنا۔ خوش قسمتی سے اگلے دن ہی علی الصبح اجازت نامہ اۤ گیا۔

ہم گھر سے باہر نکلے تو سردی کی ٹھٹھر تی دُھند میں ربوہ کی کچی سڑکوں پر ہر طرف دھانی پرا لی کی خوشبو پھیلی ہو ئی تھی۔ مہما نوں کو الوداع کر نے والے عزیزوں کے دل اُداس تھے، مگر چہروں پر ایمانی رو شنی اور دینی خدمت کے نئے نئے عزا ئم وا ضح طور پر نظر اۤ رہے تھے۔

مو جودہ یاد گار چوک کے کچے مکان میں حضرت اماں جانؓ مقیم تھیں۔ کچھ انتظار کے بعد ہمیں اندر بلا لیا گیا۔ کمرے میں فرشی نشست گاہ کا انتظام تھا، اور ایک نو رانی وجود گا ؤ تکیہ کے سہارے دیوار کے ساتھ تشریف فر ما تھیں۔ میری والدہ نے اپنے مختصر تعا رف کے بعد دعا کے لیے درخواست کی، تو حضرت اماں جانؓ نے فر مایا ’’بی بی کیا دعا کروں؟ ‘‘میری والدہ نے عرض کی اماں جان ! دعا کریں میرے بچے نیک بنیں۔ حضرت اماں جانؓ نے فر مایا: ہاں بی بی نیک بنیں گے تو دین و دنیا سنور جا ئے گی۔ یہ با بر کت دعا ہم سب بہن بھا ئیوں کے لیے ساری زندگی ایک جاری چشمہ فیض بنی رہی، الحمدللہ۔

پیدا ئش

بھائی جان کی پیدا ئش جون میں ڈاکٹر خیر الدین بٹ مرحوم (دارالصدر، شمالی ربوہ) کے ہاں پنڈی بھٹیاں میں ہو ئی، اۤپ اپنے دس بہن بھا ئیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ہماری پہلی والدہ (جو ہماری خالہ تھیں ) کے دو بچے محمد یا سین اور اقبال بی بی صغر سنی میں ہی وفات پا گئے تھے۔ اس وجہ سے بھائی مظہرننھیا ل اور ددھیال میں منتوں مرادوں کے بہت لاڈلے بچے تھے۔ برما میں مقیم دادا جان ( امیر خان) کو نام تجویز کرنے کے لیے خط لکھا گیا، اس زمانے میں جواب اۤ تے اۤتے کم از کم ایک ماہ لگتا تھا۔ چنانچہ بچے کا نام محمد مظہر الحق تجویز ہو کر اۤیا۔ ہماری نانی جو کہ ہمارے دادا کی بہن تھیں بتا یا کر تی تھیں کہ خاندان کی عورتیں گھر کے صحن میں بیری کے سائے تلے بیٹھ کربھا ئی جان کا نام یاد کر نے کی کو شش کیا کر تی تھیں، لیکن کسی کو بھی پورا نام یاد نہ ہوسکا۔

بھائی کے لاڈ اور پیار کا یہ عالم تھا کہ ان پر چھوٹے چھوٹے گیت بنے ہو ئے تھے۔ والدہ مر حومہ بتایا کر تی تھیں کہ گا ؤں میں اکٹھا ہندو مسلم معاشرہ تھا۔ مظہر نے جب تھوڑا تھوڑا چلنا شروع کیا تو ایک دفعہ ہندو ہمسایہ کی ہنڈیا توڑ دی جس میں سرسوں کا ساگ پکا ہوا تھا۔ وہ عورت غصے میں بد دعا دینے ہی لگی تھی کہ میری نانی نے اسے کہا خبر دار اسے بد دعا نہ دینا یہ تو میرے میکے کا چراغ ہے۔ اۤؤ میں تمہیں پیسے یا گندم دیتی ہوں، دکان سے جا کر نئی ہنڈیا اور کو ئی سبزی تر کاری خرید لاؤ۔ میری بڑی ممانی رابعہ مر حومہ (جو خلافتِ حقہ کی عاشق اور عبادت گزار خا تون تھیں ) بتا یا کر تی تھیں، کہ جب تم لوگ اپنے ننھیال ملنے کے لیے اۤتے تو مظہر سارے بستروں میں چن کر خوبصورت بستر اور نرم تکیہ لیتا۔ اور پیار کی وجہ سے حتی الوسع اس کی ہر فر ما ئش پوری کی جا تی تھی۔

تعلیم و تر بیت

جب میں نے ہوش سنبھالا تو بھا ئی جان مڈل کلا سز کے طالبعلم تھے۔ سکول یا گلی محلے سے کبھی ان کی شکا یت گھر نہیں اۤئی۔ گھر میں ہمیشہ انہیں ایسا کمرہ ملتا جس کا دروازہ باہر کی طرف کھلتا۔ والدہ مر حومہ ہمیشہ اۤپ کے کمرے کی صفا ئی ستھرائی اور اۤپ کے ما حول کو پر سکون رکھنے کی کوشش کر تیں۔ اس لاڈ پیار نے بجائے اۤپ کی طبیعت میں بگاڑ پیدا کر نے کے نرمی، ملا ئمت اور صبر و تحمل پیدا کر دیا تھا۔ ہم سب چھوٹے بہن بھا ئیوں سے اۤپ کا سلوک کبھی نا جا ئز رعب کا نہیں رہا۔ چھوٹی عمر سے ہی ہماری بہتری کی باتیں سو چا کر تے تھے۔

ملازمت

جنگِ عظیم دوم کے اختتام کے بعد حکو مت کے کا رندے نئی بھرتیوں کے لیے قر یہ قریہ پھر تے تھے۔ چنانچہ انہوں نے قادیان میں بھی کیمپ لگایا۔ بھا ئی جان میٹرک کے نتیجے کا انتظار کر رہے تھے، اۤپ نے بھر تی کے لیے نام پیش کر دیا (اس زمانے کے ایک فو ٹو میں بھائی جان اپنی یو نٹ میں سب سے چھوٹے معصوم سے لڑکے نظر اۤ رہے ہیں )۔ بھائی کے بھرتی ہونے پر گھر پر اداسی چھائی رہتی۔ اسی اثنا میں قادیان دارالامان میں تعلیم الاسلام کالج کا مبارک افتتاح ہوا۔ ابا جی بھا ئی جان کو ملنے ان کی یو نٹ میں گئے۔ اور بہت اصرار کیا کہ ایئر فورس چھوڑ اۤؤ اور کا لج میں داخل ہو کر مزید پڑھ لو۔ لیکن بھا ئی جان نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں اور اۤپ اکیلے گھر کے کفیل ہیں۔ میں اۤپ پر اپنی مزید پڑھائی کا بو جھ نہیں ڈال سکتا۔

اۤپ کی یو نٹ کے افسر اور ساتھی آپ کی بہت تعریف کرتے تھے اور اۤپ کے کردار کو مثالی بتاتے تھے۔ ایئر فورس میں ہر ایئر مین کو اعلیٰ کوا لٹی کے سگریٹ کا مخصوص کو ٹہ فری ملتا تھا۔ بھا ئی جان مسکرا کر بتایا کر تے تھے کہ میں سگریٹ نو شوں کو سگریٹ قیمتاً دے دیتا ہوں، اور خود نشہ سے بچا رہتا ہوں۔

جب بھا ئی جان سال کے بعد ایک مہینے کی چھٹی پر گھر اۤتے، ما موں، چچا اور دوسرے عزیز ملنے اۤ تے، ہمارے گھر میں ہرروز عید کا سماں ہو تا۔ بھا ئی جان کے ڈیوٹی پر وا پس جانے کے ایک ہفتہ پہلے والدہ صاحبہ بھا ئی جان کے لیے ایک خاص حلوہ تیار کر تیں۔ چنے کی دال کو دودھ میں بھگو کر کو نڈی میں گھوٹ کر دیسی گھی میں بھو نا جا تا، جس کی خوشبو دور دور تک پھیل جا تی، حلوہ ہو تا تو بہت مزیدار لیکن تیاری میں محنت طلب۔ ہمیں تو تھوڑا تھوڑا ملتا۔ بھا ئی جان کو ہر روز چائے کے ساتھ چند چمچ کھا نے کی تلقین ہو تی۔ بعد میں بھا ئی جان بڑا زندہ سا قہقہہ لگا کر اکثر بتا یا کر تے تھے کہ میں تو جا تے ہی دوستوں کے سامنے ڈبہ کھول کر رکھ دیا کر تا تھا، اور وہ اس کا انتظار ہی کر رہے ہو تے تھے۔

ملک کے بٹوارے پر ہمیں قا دیان دارالامان چھوڑنا پڑا تو ہماری والدہ کو کچھ عر صہ بعد واپس اۤنے کا یقین تھا۔ چنانچہ اۤپ نے صحن میں گڑھا کھود کر اس میں برما سے اۤ ئے ہو ئے چینی اور پیتل کے خوبصورت بر تن دبا دیے۔ بھا ئی جان کو دوسرے فو جی ملازمین کی طرح اجازت ملی کہ فو جی ٹرک لےکر اپنے عزیزو اقارب کو انڈیا سے حفا ظت کے ساتھ نکال لا ئیں۔ جب بھائی ٹرک لےکر قادیان پہنچے تو ہم پا کستان پہنچ چکے تھے۔ ہمارا مکان بھا ئی جان کی غیر مو جود گی میں تعمیر ہوا تھا، اۤپ نے سارا گھوم پھر کر دیکھا۔ اۤپ نے بتایا کہ امرود، شہتوت اور اۤم کے پو دوں کے درمیان مجھے ایک جگہ بڑی نرم لگی۔ میں نے تھوڑا سا کھودا تو بر تن ڈبوں میں بند تھے۔ میں نے نکال کر مہاجرین میں با نٹ دیے کہ استعمال کرو۔

ہمارے چھوٹے بھا ئی امتیاز احمدبٹ جو اس وقت چھٹی کے طا لب علم تھے، وہ بھی اپنی مرضی اور جذ بہ سے قا دیان رہ گئے، بڑے بھائی کا بھی کچھ اتا پتہ نہ تھا۔ میری تو نا سمجھی کا زمانہ تھا، مگر والدین کے یہ بہت پریشا نی کے دن تھے۔ ابا جی مرحوم کی وا ہگہ میں زخمیوں کی دیکھ بھال پر ڈیو ٹی تھی۔ اور ہم چھ سات بہن بھا ئی، اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ گو جرنوالہ میں ہندوؤں کے چھوڑے مکان میں مقیم تھے۔ گو جرانوالہ میں غیر از جماعت کشمیری برادری تھی جو پردیس میں ہمارے لیے غنیمت تھی۔ خصوصاً ہماری خالہ زاد بہن ما ہتاب بی بی کا سلوک ہما رے ساتھ بہت اچھا تھا۔ اس وقت ہماری بے سرو سامانی کی حالت تھی کہ اچا نک دونوں بھا ئی اۤ گئے۔ اور ابا جی کی تعیناتی خانقاہ ڈوگراں ہو گئی۔ اور زندگی اپنی قدرتی ڈگر پر چل نکلی۔

بزرگوں سے عقیدت

بھا ئی جان کو بزرگوں سے بہت محبت تھی۔ جب اۤپ برما میں ڈیو ٹی پر تھے، اس وقت بر ما میں ہمارے دادا جان کی وفات ہو چکی تھی۔ اۤپ نے تلاش بسیار کے بعد دادا کی قبر کا پتہ لگا لیا تھا، مگرسیلاب کے با عث سڑک بند تھی اس لیے قبر تک پہنچ کر دعا نہ کر سکے جس کا اۤپ کو سخت افسوس تھا۔

پا کستان میں اۤ پ کی پو سٹنگ کراچی، وغیرہ میں ہوتی رہی۔ 1949ءمیں اۤپ کی شادی ہوئی۔ خانگی مجبوریوں کے باعث اب ان کا گھر اۤنا دیر سے ہو تا۔ مگر گھر والوں سے ان کی محبت ذرہ بھی کم نہ ہو ئی۔ جب کبھی گھر اۤتے گیٹ سے بھاگ کر اۤ تے اور والدہ کو اۤپا جی کہہ کر محبت سے لپٹ جا تے۔

امریکہ میں اۤمد

اۤپ نے 1964ء میں ایئر فورس سے کو رنگی کریک کے مقام سے ما سٹر وارنٹ اۤفیسر کے عہدے سے ریٹا ئرمنٹ لی، اور امریکہ میں Fort Lauderdale, Miami میں سکو نت اختیار کر لی۔ وہاں اس زما نے میں اۤپ پہلے احمدی تھے۔ اۤپ نے مختلف کارو بار کیے، جن میں اۤپ کی ذاتی ٹیکسیاں شا مل تھیں۔ آپ کو تبلیغ کا شوق تھا۔ مختلف زبا نوں میں احمدیہ لٹریچر اردو، گور مکھی اور انگریزی میں کھلے دل سے خرید کر مسلمانوں، ہندو ؤں اور سکھوں میں تقسیم کر تے رہتے تھے اس یقین کے ساتھ کہ

ہر طرف اۤواز دینا ہے ہمارا کام اۤج

جس کی فطرت نیک ہے وہ اۤ ئے گا انجام کار

اۤپ نے انگریزی میں ایک با تصویر تر بیتی رسالہ SALAT the Muslim prayer کے عنوان سے اپنے خر چے سے چھپوایا۔ جس میں نماز کے اوقات اور رکوع و سجود کی حالتوں کو اشکال کے ذریعے دکھایا گیا تھا۔ سا تھ ہی عربی الفاظ کے تلفظ کے لیے audio cassette مہیا کی گئی تھی بھا ئی جان نے اسے افا دۂ عام کے لیے خوب تقسیم کیا۔

اس زمانے میں میامی میں مشن ہا ؤس نہیں تھا، جمعہ کی نماز اور اجلاس وغیرہ مختلف گھروں میں ہو تے تھے۔ حاضرین کے لیے اۤپ فر ما ئش کر کے اپنے خرچے پر کھا نا بنواتے۔ خلافت سے انتہا ئی عقیدت تھی۔ ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ہر ضرورت مند نووارد کو بلا تفریق مذہب، ملت، رنگ و نسل اپنے پاس وقتی رہا ئش مہیا کر تے۔ اور اس کے کھانے و غیرہ کا خیال ر کھتے۔ اور انہیں جاب انٹر ویوز، ڈرائیونگ ٹیسٹ، یا انگریزی سیکھنے کی ابتدائی کلا سز کے لیے اپنی ٹیکسی میں مفت لے کر جا نے کی پیش کش کر تے۔

جب میامی میں احمدی احباب کی تعداد کچھ بڑھ گئی تو بھا ئی جان جلد از جلد مشن ہاؤس خریدنے پر زور دیتے۔ اسی طرح احمدیہ قبرستاں کے لیے جگہ خریدنے کی تحریک میں اۤپ پیش پیش تھے اور چند قبروں کے پیشگی پیسے ادا کر دیے تھے۔ چنانچہ اب احمدیہ قبر ستان وا قع Woodland West Myanmar Park میں اۤپ کے ساتھ کئی احمدی ابدی نیند سو رہے ہیں۔ اللّٰھم اغفر لہٗ وا ر حمہ و انت خیرالغا فرین۔

بھا ئی جان میامی جما عت میں ’’حق صاحب ‘‘کے نام سے معروف تھے۔ اۤپ کی خداداد کارو باری فراست سے کئی لوگوں نے فا ئدہ ا ٹھا یا، اس سلسلے میں میرے چھوٹے بھائی کی راہ نمائی کی۔ اۤپ کے غیر از جماعت دوست اۤپ سے اس سلسلے میں رائے لیتے رہتے، سکھ دوست اۤ پ کو پیار سے ’’گرو جی ‘‘ کہتے تھے۔ اور کسی کام کرنے سے پہلے اۤپ سے دعا اور مشورہ لینا نیک فال خیال کر تے تھے۔ ایک غیر از جما عت دوست نے ایک بار تویہ تک کہہ دیا: اگر میں حق صاحب جیسا ایک اور احمدی دیکھ لوں تو میں احمدی ہو جا ؤں گا۔ اۤپ نے حسبِ عادت ایک زندہ سا قہقہہ لگا کر کہا: دیکھنے نکلو گے تو مجھ سے بہتر ہزاروں مل جا ئیں گے۔ لیکن

صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں

اک نشاں کا فی ہے گر دل میں ہو خوفِ کرد گار

1986ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرا بع رحمہ اللہ جب Orlendo, Miami تشریف لا ئے تو گرد و نواح کے احمدیوں کو حضورؒ کی ملا قات کے لیے لانے میں بھا ئی جان پیش پیش تھے۔ اسی طرح حضور کے دورہ Guatemalaپر روانہ ہو نے کے لیے میامی ایئر پورٹ پر تشریف لا ئے تو مکرم شیخ مبارک احمدصاحب مر حوم بھی ساتھ تھے بھا ئی جان نے ہر انتظام میں سرگرمی سے حصہ لیا، اور حضورؒ کی صحبت سے فیضیاب ہوئے۔

جما عتی خدمات

جب تک اۤپ کی صحت نے ا جازت دی اۤپ سیکرٹری ضیافت، تر بیت اور تبلیغ رہے اور اۤخری عمر میں کسی عہدہ کے بغیر جما عتی خد مت کے لیے کمر بستہ رہے۔ اۤپ نے پا کیزہ زندگی بسر کی۔ اۤپ کو بے کاری سے سخت گھبراہٹ ہوتی تھی اور کسی کو بےکار دیکھنا بھی نہیں چا ہتے تھے۔ ان کے ساتھ رہنے والوں کا بیان ہے کہ بھائی جان صرف ان دنوں کام نہیں کرتے تھے جب وہ بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہو تے۔ ہارٹ بائی پاس کر وا چکے تھے، اورہر دوسرے دن dialysis کے لیے ہسپتال جا تے۔ واپسی پر گھنٹہ بھر اۤرام کر کے گھر میں پھولوں کو پا نی دے رہے ہو تے اور پھر کام پر چلے جا تے۔ بھا ئی جان کے ہمسایہ میں ایک لیڈی ڈاکٹر رہا کر تی تھی۔ اۤپ کے متعلق کہتی: میں نے زندگی بھر اتنی مضبوط قوتِ ارادی کا انسان نہیں دیکھا۔ بھا ئی جان کو در اصل کسی کے سا منے اپنی تکلیف کا اظہار اچھا ہی نہیں لگتا تھا۔ اۤپ کے خوبصورت چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی۔ اۤپ اپنی زندگی کے المیوں کو قیمتی اثاثہ کی طرح چھپا کر رکھتے تھے۔

1964ءمیں اۤ پ میامی میں اکیلے احمدی تھے اور 2004ء میں جب اۤ پ کی وفات ہو ئی اللہ تعا لیٰ کے فضل سے جماعت کی تعداد سو سے زا ئد تھی، ان میں سے کچھ مبا ئعین اور کچھ عارضی رہنے والے تھے جو میا می کے خوش اۤمدیدی ما حول کو دیکھ کر یہیں کے ہو رہے تھے۔ اۤپ کی انتہائی خواہش اور دعا کی برکت سے دو spanish لڑکیاں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں دا خل ہوئیں اور میرے بھا ئی حنیف بٹ صاحب کے دو لڑکوں سے بیاہی گئیں اور اب ما شاء اللہ صاحبِ اولاد ہیں۔ ولی ذیشان کی اہلیہ ام سمیر پیرو کے شہر لیما سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ انعام الحق کی بیوی امِ صوفیہ کا تعلق ایکواڈور سے ہے۔ ان دونوں ملکوں کی یہ پہلی احمدی خواتین ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں پکی اور سچی احمدی بننے کی تو فیق دے۔ اور اس بیج سے ہزاروں لاکھوں نیک سچے احمدی ان ممالک میں پھلیں پھو لیں۔ اۤ مین۔

جب میری فیملی 1999ءمیں میامی اۤئی تب بھائی جان باوجودیکہ دل کے مریض اور dialysis کے لیے ہر دوسرے دن ہسپتال جا تے تھے، ہمارے ٹھہرنے کے لیے اپنا کمرہ خالی کر دیا اور گھر کے بر اۤمدہ میں شفٹ ہو گئے۔ اور میرے لڑکوں کو اپنی ٹا ئیاں باندھ کر انٹرویوز کے لیے لاتے لے جاتے۔ اۤپ کا دل بچے کی طرح معصوم اور شفاف تھا۔ صحیح معنوں میں اپنے نفس کو خدا کی امانت جان کر اس کی مخلوق کی خدمت کر تے تھے۔

بعض دفعہ تو دیکھنے والے حیران رہ جا تے کہ جن لو گوں کا اۤپ سے شدید اختلاف ہو تا اور وہ کسی طرح بھی اۤپ سے صلح کی طرح ڈالنا نہیں چا ہتے تھے۔ اگر ان کے کسی عزیز کو ہسپتال وغیرہ جا نے میں کو ئی دشواری محسوس ہو تی تو بھا ئی جان اسے ہسپتال لے کر جا تے۔ وفات پر بھائی جان کفن دفن کے انتظام میں سب سے اۤ گے ہو تے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے اۤپ کا لا ئحہ عمل سورت حٰم السجدۃ کی اۤ یات35تا36کے مطا بق ہوتاکہ’’نہ اچھائی برائی کے برابر ہو سکتی اور نہ برا ئی اچھا ئی کے (برابر)۔ ایسی چیز سے دفاع کر جو بہترین ہو…یہ مقام نہیں عطا کیا جا تا مگر ان لو گوں کو جنہوں نے صبر کیا۔ اور یہ مقام عطا نہیں کیا جا تا مگر اسے جو بڑے نصیب والا ہو۔ ‘‘

انجام بخیر

اپنے پیارے بندوں کے ساتھ خداتعا لیٰ کا سلوک عجیب معجزانہ ہو تا ہے۔ بھا ئی جان کی زندگی کے اۤخری حصے میں اۤپ کے تین بہن بھا ئی اور بڑے ما موں محمد حسین صاحب مر حوم کا ایک بیٹا عزیزم شفیق احمد بٹ، بھا ئی جان کے پا س اۤ گئے تھے، یہ چاروں بھائی جان کے بچوں کی عمر کے تھے۔ اۤپ نے ان سب کو شفقتِ پدری دی۔ اور انہوں نے بھی بھائی جان کی بہت خدمت کی۔ میری چھوٹی بہن بشریٰ و ہاب تو بھا ئی جان کے ساتھ ہی رہی، اور میرے چھوٹے بھائی محمد حنیف بٹ کی تو چوبیس گھنٹے نگرا نی تھی۔ اور شفیق بٹ صاحب نے بھی محبت کا حق ادا کر دیا۔ جب سب عزیز اکٹھے ہو تےتوبا جما عت نماز کا اہتمام ہوتا۔ باربی کیو کی جاتی۔ افطاریاں اکٹھی ہو تیں۔

میں ہسپتال میں بیمار پرسی کے لیے گئی، اور بھائی جان کے ہا تھوں کو (جو ہمیشہ اوپر رہے) اپنی اۤنکھوں سے لگا کر عقیدت کے اۤنسوؤں سے الوداع کہہ اۤ ئی۔ بھا ئی جان 14؍اپریل 2004ءکو وفات پا کر اپنے خالق کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ را جعون۔

اۤ پ کے بریف کیس میں اُن تمام منی اۤرڈرز کی اپٹوڈیٹ رسیدیں مو جود تھیں، جو اۤپ بلا نا غہ ہر ماہ اپنے عزیزوں کو بھجوایا کر تے تھے۔ اس کے علاوہ ایک د ستخط شدہ Blank check تھا جس کے ساتھ یہ نوٹ تھا کہ اس سے میرے چندہ جات کے بقایا جات اور کفن دفن کا خرچ ادا کیا جا ئے۔

سپردم بتو ما یہ خویش را تو دانی حساب کم و بیش را

اۤ خر میں اس عا جزکی دعا ہےکہ اے میرے خالق ومالک رحیم و کریم خدا، میرے بھا ئی پر رحمت کی نظر رکھنا اور انہیں اپنے صالحین اور صادقین کی معیت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے، حضرت مسیح پاک کے قدموں میں جگہ دینا۔ اۤ مین ثم اۤ مین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button