یادِ رفتگاں

محترمہ امۃ الحفیظ خانم صاحبہ مرحومہ

(مظہر الحق خان)

اہلیہ محترم شمس الحق خان صاحب مرحوم

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ۔

یہ قراۤنی اۤیت پیا ر ی امی جا ن مکر مہ امتہ الحفیظ خا نم صاحبہ مرحومہ اہلیہ مکر م شمس الحق خا ن صا حب مر حو م ، سا بقہ صدر لجنہ اما ء اللہ کو ئٹہ و حلقہ فیصل ٹاؤن لاہور کی پیدائش سے پہلے اۤ پ کی والدہ مکرمہ افتخار بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم حاجی ضیاء الحق خان صاحب مرحوم اۤف فیض اللہ چک ضلع گورداسپور نے خواب میں سنی۔

پیاری امی جان یکم ستمبر1931میں ڈلہوزی، انڈیا میں پیدا ہوئیں۔

خا کسا ر نے جب سے ہو ش سنبھا لاہے اۤپ کو ہمیشہ دینی احکا ما ت کی بجا اۤوری میںخلافت اور نظام جماعت کے تابع رہتے ہوئے مستعد اور چاق وچو بند پا یا۔

تعلق باللہ

پیا ر ی امی جا ن کی زندگی کا محورخدا تعالیٰ کی ذات تھی اور اس کا قرب پانے کے جو بھی ذرائع ہیں ان سے بھر پور استفادہ کیا۔

اۤپ سراپا دعا تھیں۔ اۤپ کو دعا کی قبولیت پر کامل یقین تھا۔ اۤخری وقت تک تمام نمازوں کو کھڑے ہو کر بڑے خشوع و خضوع سے ادا کرتی رہیں۔ اۤپ کی نماز تہجد میںگِریہ وزاری خا کسا ر کی یا د وں میںنقش ہے ۔ اۤپ کی دعا ؤں کی ایک لمبی فہرست ہوتی۔ کوئی دعا کے لیے کہتا تو اس کا نام لے کر دعا کرتیں۔ اۤپ جب کسی کے لیے خاص دعا کرتیں تو 100 نفلوں سے کم نہ پڑہتیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اۤپ کے سجدے لمبے ہی ہوتے دیکھے۔

اۤپ کی یہ دلی خواہش تھی کہ اۤپ کا کم از کم ایک بیٹا دین کے لیے زندگی وقف کرے لیکن انہوں نے کبھی بھی کسی پر زور نہیں دیا۔ جب خاکسار نے زندگی وقف کرنے کا ارادہ کیا تو اۤپ نے سجدئہ شکر ادا کیا۔ اۤپ کا خدا تعالیٰ کے اۤگے جھکنا یہ بتاتا ہے کہ اۤپ کی نظر صرف خدا کی طرف تھی اور یہ کامل یقین تھا کہ انسانی خواہشات کی تکمیل اگر کسی ذریعے سے ہو سکتی ہے تو وہ اپنے خالق حقیقی کے اۤگے جھکنے سے ہی ہے۔ اۤپ ان لوگوں میں شمار ہوتیں تھیں جن کی دعائیں خدا تعالیٰ کثرت سے قبول کرتا۔

عشق قراۤن کریم

پیاری امی جان کا قراۤن کریم سے عشق بے انتہا تھا۔ قراۤن کریم کا مکمل ترجمہ اۤپ کو اۤتا تھا۔ قراۤن کریم کا ایک بڑا حصہ اۤپ کو حفظ تھا۔اۤخری وقت تک اپنی مدد اۤپ کے تحت مزید سورتیں حفظ کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ متعدد دعائیں اور عربی قصیدہ بھی اۤپ کو زبانی یاد تھا۔اۤپ نے اپنے تمام بچوں اور اۤگے ان کے بچوں کو قاعدہ یسرنا القراۤن اور قراۤن کریم ناظرہ و با ترجمہ پڑھایا۔ کئی غیر احمدی بچوں نے بھی اۤپ کی اس بےلوث خدمت دین سے استفادہ کیا۔نیز جماعتی انتظام کے تحت بھی اۤپ نے اس خدمت کی توفیق پائی۔

رمضان کے روزے اور اعتکاف

پیاری امی جان رمضان المبارک کے روزے باقاعدگی سے رکھتیں اور گھر والوں کو رکھوانے کا بھرپور انتظام کرتیں۔ اۤ پ متعدد باراعتکاف بھی بیٹھیں۔

نظام وصیت اور چندہ جات

پیاری امی جان نے وصیت چھوٹی عمر میں ہی کر دی تھی اورخدا کے فضل سے 8/1 حصہ وصیت اپنی زندگی میں ہی ادا کر دیا۔ زکوٰۃ اور تمام چندہ جات با قاعدگی سے اور اکثر زائد از وعدہ جات ادا کرتیں تھیں۔اپنے وفات یافتہ بزرگوں کے نام باقاعدگی سے چندہ جات ادا کرتی رہیں۔ خلفائے سلسلہ کی طرف سے جو بھی مالی تحریک ہوتی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔

غریبوںکی دل کھول کر امداد کرتیں اور گھریلو ملازمین سے نہایت پیار کا سلوک روا رکھتیں۔اۤپ وقتاً فوقتاً دارالضیا فت ربوہ میں صدقات کی رقوم بھجوایا کرتیں۔

ایک لمبا عرصہ کچھ نا عاقبت اندیش رشتہ دار پیارے ابو جان مکرم شمس الحق خان صاحب مرحو م ( سینئر صحافی، بیوروچیف ڈیلی ڈان،کوئٹہ بلوچستان) ابن حضرت ڈاکٹر میجر سراج الحق خان صاحب ؓ اۤف فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ( اپنی اوائل عمری میں اۤپ نے حضرت مسیح موعود ؑکو دیکھا اور بیعت کا شرف حاصل کیا) کی خاندانی جائیداد پرنا حق قابض رہے جس کی وجہ سے اۤپ وصیت کے نظام میں شامل نہ ہو سکے۔ اس بات کاانہیں بہت رنج تھا۔پیاری امی جان نے اپنے پیارے بیٹے مکرم سلیم الحق خان صاحب ایڈووکیٹ کے ذریعے وا گزار ہونے والی جائیداد سے ان کے نام پر بھی وصیت ادا کی۔

دعوت الیٰ اللہ

پیاری امی جان کو دعوت الیٰ اللہ کا بہت شوق تھا اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتیں۔حق بات کہنے میں ذرا بھی تأمل نہ تھا۔پاکستان میں ہمسایوں، غیر از جماعت ملنے ملانے والیوں اور گھریلو ملازمین کو دعوت الیٰ اللہ کرتیں۔لندن قیام کے دوران انگریزوں کو دعوت الیٰ اللہ کرتیں اور خود انگریزی کے فقرے بناتیں۔ کہتیں تھیں کہ مجھے انگریزی خدا تعالیٰ سکھاتا ہے تاکہ دعوت الیٰ اللہ کر سکوں۔

دیگر مصروفیات

حضرت مسیح موعودؑ، سلسلے کی کتب اور الفضل کا مطالعہ کرتیں۔ MTA پر لائیو خطبہ جمعہ اور دیگر جماعتی پروگرامز بڑے شوق سے دیکھتیں۔ مختلف جماعتی نظمیں اپنے موبائل فون میں لوڈ کی ہوئی تھیں۔ نظم

وضو اشکوں سے کرنا تو نماز عشق ادا کرنا

خدا والوں کی سنت ہے کہ یوں یاد خدا کرنا

سنتے اۤبدیدہ ہو جاتیں۔

آپ کو تلاوت قراۤن کریم سننے کا بہت شوق تھا۔

ربوہ میں خواتین مبارکہ سے ملاقات کا سلسلہ اۤپ کا معمول تھا۔ کوئٹہ میں ہوتیں تو خطوط کے ذریعے یہ سلسلہ جاری رہتا۔

تربیت اولاد

پیاری امی جان نے اپنی اولاد کی بہترین تربیت کا ہر ممکن انتظام کیا۔

اۤپ 1973ء میں تمام بچوں کو کوئٹہ کے بہترین سکولوں سے پڑھائی چھڑوا کر مرکز ربوہ اۤ گئیں۔یہ قربانی کی اپنی مثال اۤپ ہے۔پیارے ابو جان بھی اس قربانی میں پیچھے نہ رہے اور ایک لمبا عرصہ اکیلے کوئٹہ میں اپنی دفتری ذمہ داریاں سرانجام دیں اور اہلیہ کے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔

1973ء میں وہ اۤسانیاں ربوہ میں میسر نہ تھیں جو اۤج کے دَور میں ہیں۔ایک انسان بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ اۤپ کو کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ مگر کمال حوصلہ تھا اس عظیم ماں کا جس نے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لیے ہر مشکل کا سامنا کیا۔

چونکہ بچے ابھی چھوٹی کلاسوں میں تھے اور داخلوں کا مسئلہ درپیش تھا، حضرت چھوٹی اۤپاسے اۤپ نے ساری صورت حال بیان کی اور دعا کی درخواست کی۔ حضرت چھوٹی اۤپا نے اۤپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اۤپ بھی مبلغین کے زمرے میں اۤتی ہیںاور جہاں مبلغین سلسلہ کے بچے پڑھتے ہیں وہیں اۤپ کے بچے بھی پڑھیں گے۔چنانچہ بچوں کو جونیئر ماڈل سکول ربوہ میں داخلہ مل گیا۔ خاکسار کے بڑے بھائی مکرم قمر الحق خان صاحب کی خوش نصیبی کہ حافظ کلاس میں داخلہ مل گیا اور چھ سیپارے حفظ کرنے کی توفیق پائی۔ خاکسار کے سب سے بڑے بھائی مکرم ڈاکٹر مبین الحق خان صاحب مرحوم اور بڑے بھائی مکرم سلیم الحق خان صاحب ایڈووکیٹ بعد میں ٹی اۤئی سکول اور کالج ربوہ میں بھی زیر تعلیم رہے۔ خاکسار کی پیدائش ربوہ میں ہوئی۔پیاری امی جان کی رہائشی مشکلات کے حل کے لیے پیارے نانا جان حاجی ضیاء الحق خان صاحب مرحوم نے ربوہ میں گھر تعمیر کرایا اور نہ صرف امی جان کی اولاد بلکہ باقی رشتہ داروں کا تعلق بھی ربوہ سے پختہ ہوا۔

اۤپ نے اپنی اولاد کی اس رنگ میں تربیت کی کہ الحمدللہ اۤج نہ صرف اۤپ کی اولاد بلکہ اۤگے ان کی اولادیں خلافت اور نظام جماعت سے پختہ تعلق رکھتی ہیں۔

خلافت سے تعلق

پیاری امی جان کی خلافت سے محبت و عقیدت بے انتہا تھی۔خلفائےحضرت مسیح موعودؑ کو دعا کے خطوط با قاعدگی سے لکھتیں۔

خلفائے کرام سے فیملی ملاقاتوں کے مواقع کی توفیق پانے کی خوشی و مسرت اۤپ کے چہرے سے عیاں ہوتی۔ خاکسار کے ذہن میں اۤپ کے ساتھ فیملی ملاقاتوں میں دو خلفاء سے ملنے کا موقع ترو تازہ ہے۔

پہلی ملاقات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒسے اۤپؒ کی وفات سے ایک سال پہلے۔جبکہ دوسری ملاقات حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒسے 1983ءمیں۔

2007ء میں اۤپ کو اللہ تعالیٰ نے لندن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے سات ماہ میں پانچ ملاقاتوں کی توفیق عطا فرمائی۔

ایک ملاقات میں اۤپ کی خواہش پر حضور انورنے از راہ شفقت ایک جائے نماز بطور تبرک عنایت فرمایا۔ خاکسار کے زندگی وقف کرنے پر وہ جائے نماز پیاری امی جان نے خاکسار کو دے دیا۔

جب اۤپ لندن سے واپس لاہور اۤئیںتو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقاتوں اورآپ کے خطوط کے تذکرے کرتیں اور اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتیں کہ خدا نے انہیں خلیفہ وقت کے پاس چند لمحات گزارنے کا موقع عطا فرمایا۔خلافت سے اۤپ کی محبت، جوش اور خوشی کی کیفیت لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

ایک ملاقات میں آپ نے حضور انور کو اپنی پنجابی میں لکھی ہوئی نظم کے چند اشعار سنائے جو خدا تعالیٰ سے عشق و محبت کے اظہار میں لکھی گئی تھی۔

میں ویکھی دنیا ساری

ایتھے بڑی اے خواری

تن من وی لٹایا

کجھ وی ہتھ نہ اۤیا

جدوں تیرے نال دل لایا

مینوں بڑا مزا اۤیا

ان اشعار سے حضور انور نے بھی لطف اٹھایا۔

جب 2007ء کے اۤخر میں واپسی پر حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات ہوئی تو بہت اداس تھیں کہ واپس جا رہی ہوں پھر دوبارہ اۤسکوں گی یا نہیں۔ تو حضور انور نے فرمایا کہ اۤپ پھر اۤ جانا۔

ہمیشہ کہتیںکہ میرے پیارے اۤقا نے فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے ضرور دوبارہ ان کے پاس لے جائے گا۔بظاہر اۤپ کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی،لیکن اۤپ دوبارہ لندن چلی گئیں اور حضور انورسے ملاقات ہوئی۔اپنی ملاقات کا ذکر فون پر جس خوشی، محبت اور جوش سے کیا وہ ان کا خلافت سے والہانہ عقیدت و محبت میں اپنی مثال اۤپ ہے۔

الحمدللہ کہ پیاری امی جان ہم سب بھائیوں، بہنوں اور ان کی فیملیز کی طرف سے مطمئن تھیں۔ خوش تھیں کہ سب خلافت اور نظام جماعت سے وابستہ ہیں۔

اۤخری ایام اور وفات

پیاری امی جان نے اپنی پوری زندگی کسی کو تکلیف نہیں دی اور اۤخری وقت تک اللہ تعالیٰ نے اۤپ کو کسی کا محتاج نہیں بنایا۔ اۤپ اپنا ہر کام خود کرنا پسند کرتیں اور اگر کوئی اصرار کرتا تو ناراض ہوتیں اور کہتیں کہ جب میں اپنے کام خود کر سکتی ہوں تو کسی پر بوجھ کیوں بنوں؟

بہرحال ،ہر ایک نے اپنے اپنے رنگ میںاۤپ کی خدمت کرنے کی توفیق پائی۔

اۤخری چند سالوں میں غیر معمولی خدمت کی توفیق اۤپ کے پیارے بیٹے مکرم سلیم الحق خان صاحب ایڈووکیٹ نے پائی۔ اۤپ کے ہر حرف کی تعمیل اس رنگ میں کی کہ اۤخری ایام میںاۤپ انہیں ان کے نام کی بجائے ’’میرے اویس قرنی‘‘ کہہ کر بلاتیں۔

اۤخری دنوں میں جب لیٹی ہوئی ہوتیں تو دیوار کی طرف دیکھتیں اور میرے اللہ پیارے اللہ کہتیں۔ کوئی اگر بات کرتا تو کہتیں چپ، چپ۔ جیسے خدا تعالیٰ سے محو گفتگو ہوں اور کوئی مخل نہ ہو۔

سب کو کثرت سے یہی کہتیں کہ میرے انجام بخیر ہونے کی دعا کرو۔

اللہ تعالیٰ نے اۤپ کو مورخہ 8؍اپریل 2012ء کو پُر سکون حالت میںلیٹے ہوئے بغیر کسی ظاہری تکلیف کے اپنے پاس بلا لیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍اپریل 2012ء میں اۤپ کا ذکر خیر فرمایا اور نماز جنازہ پڑھائی جس نے ہم بھائیوں اور بہنوں کے اس عظیم غم کو دل کی تسکین میں بدل دیا ۔

مورخہ 15؍اپریل 2012ء کواۤپ کی میت صبح 8بجے ربوہ پہنچی۔ اُسی روز مسجد مبارک میں بعد نماز ظہر آپ کی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔

پسماندگان

پیاری امی جان نے اپنے پیچھے 3 بیٹے اور 4 بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

٭…مکرم قمر الحق خان صاحب، لاہور

٭…مکرم سلیم الحق خان صاحب ایڈووکیٹ، برطانیہ

٭…خاکسار انجینئر مظہر الحق خان( واقف زندگی) ٭…مکرمہ طلعت محمود صاحبہ، برطانیہ

٭…مکرمہ فرحت نعیم صاحبہ، کراچی/ امریکہ

٭…مکرمہ نگہت طارق صاحبہ، کینیڈا

٭…مکرمہ نزہت ظفر صاحبہ، کینیڈا

قارئین الفضل سے عاجزانہ درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیاری امی جان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں بھی جاری رہیں اور ان کی روح کی تسکین کا باعث بنتی رہیں۔

نیز درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہو جنہوں نے ہم بھائیوں اور بہنوں سے پیاری امی جان کی وفات پر تعزیت کی ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button