حاصل مطالعہ

مصر کا مہمان

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

آپ فریضۂ نماز کی بھی ادائیگی کرتے ہیں جب بھی اُس کا وقت ہوجاتا ہے خواہ آپ اقوام متحدہ کے اجلاسات میں کسی جگہ پر بھی ہوں

حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کے دورۂ مصر 1952ء کے موقع پر اخبار ’’البلاغ‘‘کا آپ کے متعلق تعارفی نوٹ

مصر کا مہمان

یصل بعد ظھر الیوم الی القاھرۃ السید محمد ظفر اللّٰہ خان وزیر خارجیۃ الباکستان واحد مجاھدی ھذہ الدولۃ و أقطابھا الّذین شقوا طریقھم الی الصفوف الأولیٰ بین ساسۃ العالم۔

و یبلغ السید محمد ظفر اللّٰہ خان التاسعۃ و الخمسین من عمرہٖ فقد ولد فی6 فبرایر ء م1893، فی اقلیم البنجاب و تلقی علومہٗ فی کلیۃ الحکومۃ بلاھور، ثم فی الکلیۃ الملکیۃ بلندن و حصل علیٰ شھاداتہٖ فی الآداب و القانون بِدرجات ممتازۃ و فی عام1914 اشتغل بالمحاماۃ فی لندن ثم منحتہ جامعۃ کمبردج شھادۃ الدکتورۃ فی القانون بأمتیاز۔

و عین عُضوا فی محکمۃ البنجاب العلیا ثم رأس تحریر مجلۃ ’’قضایا الھند‘‘ و ظل یشتغل ھذا المنصب لمدۃ16 عامًا۔

و فی عام1926 انتخبہٗ المسلمون عضوا فی المجلس التشریعی الاقلیمی بالبنجاب و ظل یتمتع بھذہ العضویۃ حتیٰ عام1935 حین عین عضوا فی مجلس الحاکم العام التنفیذی۔

و قد حضر السید محمد ظفر اللّٰہ خان مؤتمرات ’’المائدۃ المستدیرۃ‘‘ فی أعوام 1930، 1931، 1932 مندوبًا عن الھند، کما مثلھا فی المؤتمرالامبراطوری الذی عقد فی عام1937 ثم فی مؤتمر وزراء الدومنیون فی سنۃ 1939 و رأس وفد الھند فی عصبۃ الامم فی العام نفسہ ثم تولّی بعد انشاء الباکستان ریاسۃ وفودھا الیٰ ھیئۃ الامم المتحدۃ۔

و تغلغل التعالیم الاسلامیۃ فی ذات نفسہ تغلغلًا یبدو فیہ فریدا کسیاسی، فانّہ لیستمد آیات القرآن الحکیم فی کلامہٖ او فی خطبہ التی یلقیھا فی الأمم المتحدۃ۔ و قد رأیناہ یلقیھا بلغۃ الضاد ثم یُترجمھا الی الانجلیزیۃ۔ و کان یؤدی فریضۃ الصلوٰۃ اذا حلت اوقاتھا فی ای مکان من أماکن اجتماعات الأمم المتحدۃ یتوفر فیھا أداء الصلاۃ۔

وھو معروف بأنہ صاحب اکبر خطبۃ القیت من فوق منابر ھذہ الھیئۃ الدولیۃ، و ھی الخطبۃ التی القیت أمام مجلس الامن اثناء بحث مشکلۃ کشمیر۔ و ھو کذالک من السیاسیین الذین یجیدون الخطابۃ و ھم یرتجلون اکثر مما یجیدونھا و ھم یحضرون کلماتھم۔

و أخیرا ھو معروف بسیاستہ ’’الاسلامیۃ‘‘ الدولیۃ و بأنّہ من أشد الناس اقتناعًا بضرورۃ بعث القوۃ الاسلامیۃ فی العالم لتحتل دولہ مکانھا اللائق بھا۔

آج بعد ظہر پاکستان کے وزیر خارجہ جناب محمد ظفر اللہ خان قاہرہ پہنچ رہے ہیں، آپ اس مملکت کے مجاہدوں میں سے اور اس کے روشن ستاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نےعالمی سیاست کی پہلی صفوں میں جگہ بنائی ہے۔

محترم محمد ظفر اللہ خان صاحب اپنی عمر کے 59ویں سال کو پہنچ رہے ہیں۔ آپ 6؍فروری 1893ء کو صوبہ پنجاب میں پیدا ہوئے اور تعلیم لاہور میں حکومتی اداروں سے حاصل کی جس کے بعد King’s College لندن سے اعلیٰ نمبروں میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1914ء میں انہوں نے لندن میں بطور وکیل کام کیا، پھر انہیں کیمبرج یونیورسٹی نے امتیازی طور پر ڈاکٹر آف لاء کی ڈگری سے نوازا۔

انہیں پنجاب ہائی کورٹ کا رکن مقرر کیا گیا، پھر میگزین ’’انڈیا کیسز‘‘کے چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے اور وہ اس عہدے پر 16سال رہے۔

1926ء میں، مسلمانوں نے انہیں پنجاب میں صوبائی قانون ساز کونسل کے لیے منتخب کیا، اور وہ 1935ء تک اس رکنیت پر کام کرتے رہے، جب انہیں گورنر جنرل کی ایگزیکٹو کونسل کا رکن مقرر کیا گیا۔

سید محمد ظفر اللہ خان نے 1930ء، 1931ءاور 1932ء میں گول میز کانفرنسوں میں بطور مندوب ہندوستان شرکت کی، اسی طرح 1937ء میں ہونے والی شاہی کانفرنس میں اور پھر1939ء میں ڈومینین منسٹرز کانفرنس میں شرکت کی اور اسی سال ہندوستان کی سربراہی کی۔ پھر قیام پاکستان کے بعدانہوں نے اقوام متحدہ میں اس کے وفد کی قیادت سنبھالی۔

اسلامی تعلیمات کا ان کی اپنی روح میں داخل ہونا ایسا ہی منفرد ہے جیسا کہ سیاست کا، کیونکہ وہ قرآن حکیم کی آیات سے اپنی گفتگو یا اپنے خطبات میں جو وہ اقوام متحدہ میں پیش کرتے ہیں راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ اور ہم نے انہیں قرآن کی تلاوت عربی زبان میں کرتے ہوئے اور پھر اس کا انگریزی میں ترجمہ کرتے دیکھا ہے۔ اور آپ فریضۂ نماز کی بھی ادائیگی کرتے ہیں جب بھی اُس کا وقت ہوجاتا ہے خواہ آپ اقوام متحدہ کے اجلاسات میں کسی جگہ پر بھی ہوں، آپ ان میںبھی ادائیگیٔ نماز کا پاس رکھتے ہیں۔

(اقوام متحدہ) جیسے بین الاقوامی ادارے کے منبر سے کی جانے والی سب سے لمبی تقریر کے لحاظ سے بھی معروف ہیں اور یہ وہ تقریرہے جو مسئلہ کشمیر پر بحث کے دوران سلامتی کونسل کے سامنے پیش کی گئی۔ وہ ان سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جو خطابت میں اچھے ہیں اور ان کا طرز بیان فی البدیہہ ہوتا ہے اور اس کے باوجود ان کی تقریر ان مقرروں سے بہتر ہوتی ہے جو تقریر کی تیاری کر کے پیش کرتے ہیں۔

اور آخر میں یہ کہ وہ اپنی ’’اسلامی‘‘ بین الاقوامی پالیسی کے لیے جانے جاتے ہیں اور یہ کہ وہ دنیا میں اسلامی قوت کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت کے سب سے زیادہ قائل لوگوں میں سے ایک ہیں تاکہ اس کے ممالک اپنی مناسب جگہ پر مضبوط ہو جائیں۔

(اخبار البلاغ قاہرہ، مصر۔ 24؍فروری 1952ء صفحہ 1)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button