اختلافی مسائل

کیا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو علم نہیں تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم سمیت زندہ آسمان پر موجود ہیں؟

(ابن قدسی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دَور خلافت میں کوفہ کو دارالحکومت بنایا۔ خلافت کی موجودگی کی وجہ سے کوفہ کی غیر معمولی اہمیت تھی اور صحابہ رضوان للہ علیھم اجمعین کی ایک بڑی تعداد کوفہ منتقل ہوگئی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے حوالے سے پیشگوئی کے رنگ میں بیان فرمایا۔ روایت کچھ یوں ہےکہ

’’حضرت عبدا للہ بن سبع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہم کو خطبہ دیا فرمایا: وہ ذات جس نے دانہ کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا، ضرور بضرور یہ داڑھی اور سر خون سے رنگا جائے گا۔ ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم ! ایسا کوئی نہیں کرے گا، ہم اپنی اولاد کو سمجھائیں گے۔ آپ نے فرمایا میں اللہ کو یاد کرتا ہوں یا میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ مجھے قتل ہی کیا جائے گا۔ ایک آدمی نے عرض کی اے امیر المومنین! کیا آپ خلیفہ نہیں مقررکریں گے؟ آپ نے فرمایا: نہیں! لیکن میں تم کو ویسے ہی چھوڑوں گا جس طرح حضورﷺ نے چھوڑا ہے۔ انہوں نے آپ سے عرض کی: آپ اللہ کے حضور کیا کہیں گے جب اس سے ملیں گے؟ آپ نے فرمایا: میں عرض کروں گا کہ اے اللہ !تو نے مجھے ان میں چھوڑے رکھا سامنے ہے جو تیرے لیے واضح ہوا(ثُمَّ تَوَفَّیْتَنِی ) پھر مجھے موت دی اور میں نے ان میں تجھے چھوڑا اگر تو چاہے تو ان کی اصلاح فرما اور اگر چاہے تو ان کو تباہ کر۔ ‘‘

(مسند ابو یعلیٰ الموصلی، جلد نمبر اوّل، مسندعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ صفحہ 372تا373، ترجمہ غلام دستگیر چشتی سیالکوٹی مدرس جامعہ رسولیہ شیرازیہ بلال گنج لاہور پروگریسو بکس یوسف مارکیٹ اردو بازار لاہور )

اس روایت میں حضرت علیؓ نے سورت مائدہ کے آخری رکوع میں استعمال ہونے والے الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ استعمال فرمائے۔ سورت مائدہ کے آخری رکوع میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے لیے فَلَمَّاتَوَفَّیْتَنِی استعمال فرمایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ثُمَّ تَوَفَّیْتَنِی استعمال فرمایا۔ غیر احمدی علماء حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے تَوَفَّیْتَنِی کا ترجمہ زندہ جسم سمیت آسمان پر اٹھانا کرتے ہیں لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے اسی لفظ کا ترجمہ موت کرتے ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے خطاب کے متعلق روایت طبقات ابن سعد سے کچھ یوں ہے کہ

’’ لمّٰا تُوُفِّيَ عَلِيّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ قَامَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَصَعد الْمَنْبَر فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ قُبِضَ اللَّيْلَةُ رَجُل لَمْ يَسْبقه الأَوَّلُوْنَ وَلَا يُدْرِكْهُ الآخرُوْنَ قَدْ كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلّى اللّٰه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَبْعَثُه الْمَبْعَث فَيَكْتَنِفُه جِبْرَئِيل عَنْ يَمينِه وَمِيكَائِيل عَنْ شِمَالِه فَلَا يَنثني حَتّٰى يَفْتَحَ اللّٰهُ له وَمَا تَرَكَ إِلَّا سَبْعِمِائَةَ دَرْهَم أَرَادَ أَن يَّشْتَرِي بِهَا خَادِمًا وَلَقَدْ قُبِضَ فِيْ اللَّيْلَةِ الَّتِيْ عُرِجَ فِيْهَا بِرُوْحِ عِيْسٰى بْن مَرْيَمَ لَيْلَة سَبْع وَعِشْرِيْنَ مِنْ رَمَضَانَ‘‘

انہیں الفاظ کے ساتھ یہ روایت الخصائص الکبریٰ از جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی جلد اوّل صفحہ نمبر 28پر بھی موجود ہے۔ اس عربی عبارت کا اردو ترجمہ طبقات ابن سعد مترجم سے کچھ اس طرح ہے: ’’ہبیرہ بن بریم سے مروی ہے کہ جب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو حسن بن علی کھڑے ہوئے منبر پر چڑھے اور کہا کہ اے لوگو! رات وہ شخص اٹھا لیا گیا جس سے نہ اولین آگے بڑھے اور نہ آخرین اسے پائیں گے جس کو رسول اللہﷺ میدان جنگ میں بھیجتے تھے اس کی داہنی طرف سے جبرائیل اسے پناہ میں لیتے تھے اور بائیں طرف سے میکائیل وہ اس وقت تک نہیں پلٹتا تھا جب تک اللہ اسے فتح نہ دے دیتا اس نے سوائے سات سو درہم کے کچھ نہ چھوڑا جس سے اس کا ارادہ خادم خریدنے کا تھا وہ اس شب کو اٹھا لیا گیا جس میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی روح کو معراج ہوئی یعنی رمضان کی سترھویں شب ‘‘

( الطبقات الکبریٰ لابن سعد حصہ سوم صفحہ نمبر 164، مترجم: عبدا للہ العمادی، نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)

اب اس روایت میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے تَوَفّی لفظ استعمال ہوا تو مترجم نے اس کا ترجمہ وفات ہی کیاہے لیکن جب یہ لفظ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے استعمال ہوتا ہے تو وہاں ترجمہ زندہ جسم سمیت آسمان پر جانا مراد لے لیتے ہیں۔

پھر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خصائص بیان کرنے کے بعد وفات کا ذکر کیا او رآپ رضی اللہ عنہ کی وفات کے واقعہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مشابہت دی کہ جس رات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روح اٹھائی گئی اسی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح بھی اٹھائی گئی تھی۔

غور طلب امر ہے کہ کیا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو علم نہیں تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا توجسم اٹھایا گیا پھر وہ کیسے روح کے اٹھائے جانے کا ذکر کرکے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کو بیان کرسکتے تھے؟ اگر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ جسم سمیت آسمان پر موجود ہونا مانتے تو کبھی اپنے خطاب میں اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر نہ فرماتے۔

پھرحضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے سامنے اہل کوفہ بیٹھے تھے۔ ان میں صحابہؓ اور تابعین شامل تھے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کے علم میں یہ بات ہوتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کی بجائے جسم اٹھایا گیا تھا تو وہ یقیناً ذکر کرتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو جسم سمیت زندہ آسمان پر موجود ہیں تو کیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے واقعہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے مشابہت دی جاسکتی ہے۔

موجودہ زمانے کے غیر احمدی علماء اپنے عقیدے کے مطابق یا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی زندہ جسم سمیت آسمان پر تسلیم کریں یا پھر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں کی روحوں کا اٹھایا جانا مان کر دونوں کی وفات کو تسلیم کر یں۔

مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی جو پورے ہندوستان میں اہل حدیث کے بہت بڑے عالم سمجھے جاتے تھے جنہوں نے نصف صدی کے قریب حدیث پڑھائی تھی اور پورے ملک میں شیخ الکل مشہور تھے، کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک اشتہار میں فرماتے ہیں: ’’اس قدر تو خود میں مانتا ہوں کہ اگر میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا مخالف نصوص بینہ قرآن وحدیث ہے اور دراصل حضرت عیسیٰؑ ابنِ مریم آسمان پرزندہ بجسدہ العنصری موجود ہیں جو پھر کسی وقت زمین پر اتریں گےتو گویہ میرا دعویٰ ہزار الہام سے مؤیّد اور تائید یافتہ ہو اور گو نہ صرف ایک نشان بلکہ لاکھ آسمانی نشان اس کی تائید میں دکھاؤں، تاہم وہ سب ہیچ ہیں۔ کیونکہ کوئی امر اور کوئی دعویٰ اور کوئی نشان مخالف قرآن اور احادیث صحیحہ مرفوعہ ہونے کی حالت میں قابل قبول نہیں۔ اور صرف اس قدر مانتا ہوں بلکہ اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر آپ یا حضرت !!ایک جلسہ بحث مقررکرکے میری دلائل پیش کردہ جو صرف قرآن اور احادیث صحیحہ کی رو سے بیان کروں گا توڑ دیں اور ان سے بہتر دلائل حیات مسیح ابن مریم پر پیش کریں اور آیات صریحہ بینہ قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابنِ مریم کا بجسدہ العنصری زندہ ہونا ثابت کر دیں تو میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا اور تمام کتابیں جو اس مسئلے کے متعلق تالیف کی ہیں، جس قدر میرے گھر میں موجود ہیں سب جلا دوں گا اور بذریعہ اخبارات اپنی توبہ اور رجوع کے بارے میں عام اطلاع دے دوں گا۔ ‘‘

(اشتہار 17؍اکتوبر1891ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 242)

غیر احمدی علماء حضرات کے بڑے بزرگ علماء توحضرت مسیح موعود علیہ السلام بالمقابل علمی دلائل بیان کرنے سے عاجز رہے، اور موجودہ زمانے کے غیر احمدی علماء پتا نہیں کن دلائل کی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ عطا فرمائے آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button