حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ جماعت احمدیہ آئرلینڈ کی (آن لائن) ملاقات

نوجوانوں کو بھی ایسے کلبز میں جانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جہاں وہ لوکل لوگوں سے مل جل سکیں اور اپنے ایمان پر بھی قائم رہیں
اور یوں اپنے تعلقات بڑھا کر لوگوں کو اسلام کی پُر امن تعلیمات سمجھا سکیں

امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس، ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 24؍اکتوبر 2021ء کو نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ آئر لینڈ کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِانور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ اراکین مجلس عاملہ نےمریم مسجد، Galway آئر لینڈسے آن لائن شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، جس کے بعدجملہ حاضرین کو حضور انور سے گفتگو کرنے اور متفرق امور پر راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

مجلس عاملہ کے ایک رکن نے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں موجودہ pandemic سے کیا دنیا نے کوئی سبق سیکھا ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو آئر لینڈ میں کوئی سبق سیکھا نظر آ رہا ہے؟ اسی طرح ہا،ہو ہے اسی طرح دنیا داری ہے اسی طرح جو نظام ان کا چلتا ہے اسی طرح چلائے جا رہے ہیں تو انہوں نے خدا کی طرف تو رجوع نہیں کیا۔ نہ کرنا چاہتے ہیں۔ صرف باتیں ہی ہیں۔ اب جرمنی میں اتنے flood آئے ہیں کیا انہوں نے سبق سیکھا؟ تھوڑی دیر کے لیے ان کو اللہ یاد آیا اور جو کھانے کی لائنوں پہ لگے اور رونا شروع کیا اور جب دوبارہ حالات ٹھیک ہوئے تو اس کے بعد بھول گئے۔ تو جس طرح قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہوا ہے کہ جب کسی مصیبت میں پڑتے ہیں، جب پانی میں گِھر جاتے ہیںتو پھر میری طرف جھکتے ہیں اور میری مدد مانگتے ہیں ۔ جب خشکی پہ پہنچتے ہیں تو پھر انہی برائیوں میں پڑ جاتے ہیں، پھر بھول جاتے ہیں کہ اللہ کون اور میں کون اور تم کون!

ایک اور عاملہ کے رکن نے گفتگو کا آغاز یوں کیا کہ حضور میرا ایک چھوٹا سا سوال ہے مگر اس سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضور سے ملاقات کی سعادت ایسی ہے جو ہر احمدی کو نصیب نہیں ہوتی اور میں حضور انور کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کی خاطر حضور انور سے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتا ہوں۔ پھر اپنے سوال کا ذکر یوں کیا کہ میرا تبلیغ کا یہ تجربہ رہا ہے کہ بعض اوقات لوگ کہتے ہیں کہ انہیں اسلام کی روحانی تعلیمات پسند ہیں لیکن ان کے لیے شریعت کی پابندی، اوامر اور نواہی کی پابندی کرنا مشکل کام ہے۔ اس سلسلہ میں میرا سوال یہ ہے کہ آیا کسی کو یہ کہنے کی اجازت ہے کہ اسلام قبول کرلو اور بعد میں ناجائز امور کو ترک کرنے کی کوشش کرو یا ہمیں ابتدا میں ہی یہ کہہ دینا چاہیے کہ اگر آپ نے اسلام قبول کرناہے تو شروع سے ہی ناجائز امور کو ترک کرنا ہوگا؟

حضو ر انور نے فرمایا کہ دیکھیں، ہم تبلیغ صرف اپنی تعداد بڑھانے کے لیے نہیں کرتے، کسی کو اسلام احمدیت قبول کرنے کی دعوت دینے کا کیا فائدہ، اگر اس میں اپنی اصلاح کی قوت ارداہ ہی نہ ہو؟ اسلام اور دین ہے کیا؟ دین آپ سے یہ چاہتا ہے کہ آپ اپنی اصلاح کریں، اللہ کے سامنے جھکیں اور اس کے حقوق ادا کریں۔ اس کے علاوہ آپ کے بعض اخلاقی فرائض بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو آپ ان سے کہہ دیں کہ یہ اسلام کی تعلیمات ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اپنی زندگی کی حفاظت کرنی ہے تو صرف یہ سوچ کر نہیں کرنی کہ یہی دنیاوی زندگی ہی (ایک) زندگی ہے، آپ کو ایک اور زندگی کا سامنا کرنا ہوگا جو کہ ابدی زندگی ہے۔ وہاں آپ اپنے تمام اعمال کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ اگر آپ نے اچھے کام کئے ہیں تو جزا ملے گی اور اگر برے کام کئے ہیں تو سزا ملے گی۔ یوں آپ کو اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ یہ زندگی ابدی زندگی نہیں ہے۔ اور آپ کو ہمیشہ آنے والی زندگی کو اپنے سامنے رکھنا ہوگاجو کہ حیات بعد الموت ہے۔ اور وہاں آپ کو اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اگر وہ اس بات کو سمجھ لیں تو انہیں اسلام احمدیت ضرور قبول کرلینی چاہیے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ بصورت دیگر اسلام احمدیت میں محض لوگوں کا اضافہ کرنے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اور وہ کسی کام کے نہیں ۔ ورنہ وہ آپ کے نظام کو ہی خراب کر دیں گے۔ جو وہ چاہیں گے وہی کریں گے۔ وہ کلبز (clubs)اور کسینوز (casinos)میں جائیں گے۔ شراب پیئیں گے اور زنا کریں گے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے گناہ ہیں جو ان کے نزدیک غیر اخلاقی نہیں ہیں اور ان کی زندگی کا حصہ ہیں ۔ لیکن شریعت اور ا سلام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان تمام برائیوں کو چھوڑنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ اخلاق، انسانوں کے بنائے ہوئے اخلاقی ضوابط سے الگ ہے۔ آ پ ان کو بتا دیں کہ انہیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ایک اور زندگی ہے جو موت کے بعد ملے گی، جو اَبدی زندگی ہے۔ اگر وہ اس بات کو سمجھ لیں تو ٹھیک ہے ورنہ تعداد بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ٹھیک ہے؟

ملک میں بھرپور تبلیغی مساعی کے بارے میں حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو لوگوں کے ساتھ ذاتی تعلقات بڑھانے اور تبلیغ کے لیے ہر ایک سے انفرادی ملاقات اور تعلق رکھنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو دعوت دیں اور ذاتی تعلقات بنائیں۔ یہ صرف لوگوں کے ساتھ ذاتی تعلقات بنانے پر ہی منحصر ہے کہ آپ بھرپور رنگ میں تبلیغ کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر محض leaflets کی تقسیم کافی نہیں ہے، جب تک آپ کو یہ پتہ نہ لگے کہ کس نے انہیں پڑھ لیاہے اور اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے۔ leaflets بہت سے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ آپ کو ہر راستہ پر قدم مارنا چاہیے تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ آپ کے حالات کے مطابق آپ کس طرح بہترین رنگ میں تبلیغ کر سکتے ہیں۔

ایک مبلغ سلسلہ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ انہوں نے حال ہی میں ایک سائیکلنگ کلب جانا شروع کیاہے تاکہ لوکل لوگوں سے رابطہ بڑھا سکیں اور ارد گرد کے احباب کو تبلیغ کرنے کے لیے مزید راستے کھل سکیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ دیگر نوجوانوں کو بھی ایسے کلبز (clubs)میں جانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جہاں وہ لوکل لوگوں سے مل جل سکیں اور اپنے ایمان پر بھی قائم رہیں اور یوں اپنے تعلقات بڑھا کر لوگوں کو اسلام کی پر امن تعلیمات سمجھا سکیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button