بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط اوّل)
جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کی محبتوں اور شفقتوں کے چند واقعات اور حسین یادیں
آج صبح 25؍ستمبر بروز ہفتہ مسجد محمود ڈیٹرائٹ میں نمازتہجد باجماعت کا پروگرام تھا۔ جن دوست نے نماز تہجد پڑھائی اس میں انہوں نے سورۃ الفجر کی آیات پڑھیں۔ جن کا اختتام یوں تھا۔
یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ۔ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً۔فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ۔ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔(الفجر:28تا31)
ان آیات نے طبیعت پر ایک خاص اثر کیا۔اور خاکسار اپنے زمانہ طالب علمی جامعہ احمدیہ کے ماحول میں گم ہوگیا اور اپنے پیارے اساتذہ کرام جو ہمارے محسنین بھی تھے، غمگسار بھی تھے، شفقت کرنے والے، اور ہمدرد بھی تھے۔ جن کی تربیت، محبت اور نیک سلوک کی وجہ سے ہمیں تعلیم مکمل کرنے میں آسانی ہوئی۔سب ایک ایک کر کے یاد آنے لگے۔ اور پھر
رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰى وَالِدَيَّ
کے تحت مجھے اپنے اِن بزرگ اساتذہ کرام کی شفقتوں اور محبتوں کے بارے میں کچھ لکھنے کی تحریک ہوئی کیونکہ یہ سب وہ بزرگ تھے جن کے بارے میں امید کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نفسِ مطمئنہ کی لازوال نعمت سے سرفراز فرمایا تھا۔ اور دمِ واپسیں انہیں یہ آواز آئی ہوگی کہ اپنے ربّ کی طرف اس حالت میں لوٹ آؤ کہ تم بھی راضی اور وہ بھی راضی اور یہ آواز کہ آؤ میرے بندوں میں داخل ہوجاؤ۔ اور میری جنت میں داخل ہوجاؤ۔ واللہ اعلم۔
اللہ تعالیٰ کے افضال
یوں تو خاکسار کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں، رحمتوں اور اس کی بے پایاں عنایات سے بھرا پڑا ہے۔ جسم کا ذرہ ذرہ بھی شکر کرے تو ناممکن ہے لیکن مجھے اپنی زندگی کے 71سالوں کی بہاروں میں سے وہ سات سالہ بہار جو جامعہ احمدیہ کی زندگی میں میسر آئی کبھی نہیں بھول سکتی۔ میں ہر دم خداتعالیٰ کا شکر گذار ہوں اور یہ دعا کرتا ہوں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
حضرت سید میر داؤد احمد صاحب
سب سے اول جس بزرگ استاد کا میں ذکر کرنے لگا ہوں اور جن کی شخصیت اور دعاؤں اور شفقت سے خاکسار نے حصہ لیا وہ حضرت سید میر داؤد احمدغفر اللہ عنہ ہیں۔ آپ کے بارے میں خاکسار نے عرصہ ہوا ایک مضمون لکھا تھا۔جو الفضل کے علاوہ دیگر جماعتی جرائد میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ اور اس مضمون پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تھا:’’آپ کی طرف سے مکرم سید میر داؤد احمد صاحب کے بارہ میں ذاتی یادداشتوں پر مشتمل مضمون موصول ہوا۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ اس مضمون کو شائع کروائیں۔ یہ صرف آپ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ آج جامعہ کے اساتذہ، طلبہ، مربیان، واقفین زندگی سب کے لئے لائحہ عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ میر صاحب کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔آمین‘‘
سیرت داؤد جو 2015ء میں شائع ہوئی اس کے حصہ دوم میں یہ مضمون بھی شامل ہوچکا ہے۔ الحمد للہ
سید میر داؤد احمد صاحب کی سیرت اور شخصیت کے بارے میں خاکسار آج کچھ مزید واقعات لکھنے لگا ہے۔
وقت کی پابندی
آپ کی منجملہ صفات میں سے ایک بات یہ تھی کہ آپ وقت کے بہت پابند تھے۔ جامعہ احمدیہ صبح قریباً سات بجے لگتا تھا۔ اور آپ کا کسی کلاس میں پہلا پیریڈ بھی نہیں ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود آپ وقت سے پہلے جامعہ میں تشریف لاتے اور اسمبلی میں خود حاضر ہوتے۔ آپ کا اسمبلی میں طلبہ سے پہلے آنا، وقت کی پابندی کا ایک اٹل قانون اور حصہ تھا۔ اس وقت اسمبلی میں مکرم قریشی سعید احمد صاحب حاضری لگاتے ہوئے ہر طالبعلم کا نام پکارتے تھے۔ اگر کوئی طالب علم اس وقت حاضر نہیں ہوتا پھر چاہے وہ اس کے ایک یا دومنٹ کے بعد ہی آجاتا پھر بھی اسے ایک روپیہ جرمانہ ہوتا تھا۔ اور پھر ہر گھنٹی (پیریڈ) میں ہر استاد حاضری لگاتا تھا۔ اس وقت کی غیر حاضری پر آٹھ آنے جرمانہ ہوتا تھا۔ جو طالب علم کو خود ادا کرنے پڑتے تھے اور اس میں کسی قسم کی کوئی رعایت نہ ہوتی تھی۔
اس بات نے کہ آپ وقت پر خود موجود ہوتے اور ایک منٹ کی تاخیر بھی برداشت نہ فرماتے، ہم میں سے اکثر طلبہ کو وقت کا پابند بنایا۔
محترم میر داؤد احمد صاحب اسمبلی میں صرف حاضر ہی نہ ہوتے تھے بلکہ ہر طالب علم کے لیے دعا بھی کرتے تھے۔ہر طالب علم کے لباس پر، حتیٰ کہ اس کے جوتوں پر بھی گہری نظر رکھتے تھے کہ صاف ہیں، پالش شدہ ہیں وغیرہ۔
کسی کے لباس میں کسی طریق سے کمی ہوتی تو آپ اس کو ضرور توجہ دلاتے۔وقت کی پابندی کا ذکر ہے۔ آپ میں یہ وصف نمایاں تھا۔بے شمار سلسلہ کے کام آپ کے سپرد تھے۔ ہر ایک کا کرنا اور وقت پر کرنا آپ کا وصف نمایاں تھا اور یہی کامیابی کی ایک کنجی بھی ہے۔
اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ اپنا بھی اور دوسروں کا بھی بہت وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ خصوصاً شادی بیاہ کے موقعوں پر، بعض اوقات تو دو گھنٹے، تین گھنٹے ضائع ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ کبھی دلہا نہیں آیا، کبھی دلہن تو کبھی دلہن کے سسرال اور کبھی دلہا کے سسرال والے نہیں پہنچے۔اور ایسے تمام لوگوں کو جو وقت کے پابند ہیں انہیں پھر بے چینی اور گھبراہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو ایسی شادیوں میں نماز کے اوقات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو الہام ہے کہ
اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَایُضَاعُ وَقْتُہٗ۔
ایسے احباب کو ضرور اس امر کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ نہ اپنا وقت ضائع کریں اور نہ ہی دوسروں کا۔ وقت کا ضیاع جب ہوتا ہے تو بہت صدمہ ہوتا ہے۔ مکرم سید میر داؤد احمد صاحب نے اپنے طلبہ کے اندر وقت کی پابندی کا احساس پیدا فرمایا اور خود اس کی مثال بنے۔ اور اس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ تربیت کے میدان میں بھی ہم اس بات کا خصوصیت کے ساتھ اہتمام کریں۔ اسی طرح مساجد میں نماز کے لیے مبلغ، مربی کو وقت سے پہلے پہنچنا چاہیے۔ باقی احباب اگر جلدی آجائیں تو وہ بھی اپنےوقت کو مسجد میں ذکر الٰہی اور نوافل میں گزاریں۔
جمعہ کے دن
میں نے ہمیشہ آپ کو جمعہ کے دن جب نماز جمعہ مسجد مبارک میں ادا ہوتی تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے جمعہ پڑھانے کے لیے تشریف لانے سے پون گھنٹہ سے ایک گھنٹہ پہلے آکر نوافل پڑھتے دیکھا ہے۔ جامعہ کے طلبہ کو بھی خصوصاً آخری کلاسوں کے طلبہ کو یہی ہدایت ہوتی تھی کہ وہ وقت سے بہت پہلے مسجد میں حاضر ہو کر نوافل ادا کریں، دعائیں کریں اور ذکر الٰہی کی عادت ڈالیں۔
خلیفۂ وقت کی باتوں پر عمل، وقف عارضی
جامعہ کے طلبہ تو سب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمہ وقت واقفِ زندگی تھے۔ لیکن جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 8؍مارچ 1966ء کو وقفِ عارضی کی سکیم کا اعلان فرمایا کہ’’میں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ دوست جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے سال میں 2 ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں۔اورا نہیں جماعت کے مختلف کاموں کے لئے جس جس جگہ بھجوایا جائے وہاں اپنے خرچ پر جائیں اور ان کے وقف شدہ عرصہ میں سے جس قدر عرصہ انہیں وہاں رکھا جائے اپنے خرچ پر رہیں اور جو کام ان کے سپرد کیا جائے انہیں بجا لانے کی پوری کوشش کریں۔ ‘‘
(الفضل 23؍مارچ 1966ء)
اس سلسلے میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا: ’’جماعت سمجھتی ہے کہ اصلاح و ارشاد کا کام مربیوں کا ہےحالانکہ ہر احمدی کو بڑی توجہ کے ساتھ اصلاح و ارشاد کا کام کرنا چاہیئے۔ یہ توجہ پیدا کرنےکے لئے اور جماعت میں اصلاح و ارشاد کا شوق پیدا کرنے کے لئے میں نے وقف عارضی کی سکیم جاری کی ہے۔ اس میں روحانی فوائد بھی ہیں اور جسمانی فوائد بھی‘‘
(رپورٹ مجلس مشاورت 1966ء)
ان روحانی اور جسمانی فوائد کےحصول کے لیے محترم پرنسپل سید میر داؤد احمد صاحب کی جامعہ کے سب طلبہ کو ہدایت تھی کہ وقفِ عارضی کی سکیم میں ہر طالب علم حصہ لیا کرے اور اس کے لیے گرمیوں کی تعطیلات کا وقت مقرر تھا۔ ہر طالب علم کے لیے ضروری تھا کہ
1۔ خلیفہ ٔوقت کی اس سکیم پر عمل کرے۔ اس میں حصہ لے۔
2۔ اس سے روحانی اور جسمانی فوائد بھی حاصل کرے۔
3۔ اورجیسا کہ حضور رحمہ اللہ نے بیان فرمایا کہ اس کا خرچہ بھی خود برداشت کرنا ہے۔جماعتوں پر بوجھ نہ ہوگا۔
مندرجہ بالا فوائد کے علاوہ طلبہ کو ایک یہ بھی فائدہ تھا کہ جب وہ مربی بن کر جماعتوں میں جائیں تو احباب کو وقف عارضی سکیم میں شامل ہونے اور ’’وقف عارضی‘‘ کرنے کی تحریک کس طرح کریں گے اگر انہوں نے خود اس میں شمولیت نہیں کی اور تجربات حاصل نہیں کیے۔
چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جامعہ کے طلبہ ہر سال تعطیلات میں وقف عارضی کرتے تھے۔ مجھے بھی متعدد مرتبہ مختلف جماعتوں میں وقف عارضی پر جانے کا موقع ملا۔ ایک دفعہ خاکسار چوہڑکانہ (اِس وقت غالباً اس کا نام فاروق آباد ہے) میں وقف عارضی پر گیا۔ میرے ساتھ ایک اور دوست بھی تھےجو جامعہ کے نہ تھے بلکہ کسی اور جماعت سے آئے تھے۔ہم نے دو ہفتے یہاں گزارے۔اور خدمت کی توفیق پائی۔جب ہم ایک دوسرے سے جدا ہونے لگے تو انہوں نے خاکسار کو ایک قلم دیا اور کہنے لگے کہ یہ حضرت مصلح موعوؓد کا تبرک ہے جو میں آپ کو دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے، آمین۔
خلافت کا احترام اور عظمت
جن طلبہ کی لکھائی خوشخط نہ ہوتی آپ نے ان کے تحریر اور خط و کتابت کو بہترین بنانے کے لیے تختی لکھانے کا کام بھی شروع کیا۔اور اس بارے میں فرماتے تھے کہ جب آپ اپنی رپورٹس حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں بھجوائیں گے تو حضور کو پڑھنے میں دقّت نہ ہو۔ رپورٹس لکھنے کا بھی طریق سمجھاتے جس میں تحریر اور رپورٹس کے خوشخط ہونے کا خاص خیال کرنے کی طرف توجہ دلاتے تھے۔
اسی طرح یہ بھی فرماتے تھے کہ آپ جو بھی لکھیں اس کے دونوں طرف حاشیہ چھوڑ کر لکھیں تا اگر حضور اس پر اپنے ریمارکس، تبصرہ یا کوئی ہدایت لکھنا چاہیں تو اس کے لیے جگہ موجود ہو۔ یہ نہ ہو کہ حضور رپورٹ کو یا خط کو الٹ پلٹ کر دیکھیں کہ ہدایت کس جگہ لکھنی ہے۔ اس طرح خلیفۃ المسیح کے وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں۔
آپ درجہ سادسہ کو خاص طور پر ہدایت دیتے تھے کہ ’’جن کے خط اچھے نہیں وہ کسی سے ہدایت لے کر درست کر لیں۔ میں پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں مگر افسوس ہوتا ہے کہ توجہ نہیں ہوتی۔ یہ ساری عمر کے لیے مفید ہو گا۔ رپورٹ اگر بدخط سے لکھی ہو یا خط لکھے ہوں تو پڑھنے والے کی توجہ نہیں ہوتی یا اس کے دل میں چڑ پیدا ہوتی ہے۔ اس وجہ سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘
آپ نے یہ بھی طلبہ کو ہدایت دی کہ ’’حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں باقاعدگی سے خط لکھیں، دعا کی درخواست کریں اور ان سے ایک خصوصی ذاتی تعلق پیدا کریں، ایسا کہ آپ کی زندگی، حتیٰ کہ ذاتی حالات اور آپ کا کام ان کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہو جائے۔ اس کی برکات وہی شخص مشاہدہ کر سکتا ہے جو ان سے تعلق رکھتا ہے، غیر اس کو نہیں جان سکتے۔‘‘
یہ ہدایات وقتی نہ تھیں یا اس وقت کے طلبہ کے لیے اور واقفِ زندگی کے لیے نہ تھیں، بلکہ یہ آج بھی اسی طرح مسلّمہ حقیقت ہیں۔ ان پر عمل کر کے دیکھیں آپ کی کایا ہی پلٹ جائے گی۔ خدا کرے کہ ایسا ہو۔
جامعہ کے طلبہ کو ہر فن مولا بنانا
آپ کو جامعہ کے طلبہ پر فخر بھی تھا۔ مان بھی تھا۔آپ اکثر دوسرے لوگوں سےکہا کرتے تھے کہ میرے جامعہ کے طلبہ کا آپ کسی دوسرے ادارہ کے طلبہ سے کسی کام میں بھی مقابلہ کرالیں۔خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے طلبہ ہی جیتیں گے۔ یہ ایک اعتماد اور عزم کا حوصلہ آپ نے جامعہ کے ہر طالب علم کو بخشا۔ ہائیکنگ جامعہ کے طلبہ سے کراتے۔ کشتی رانی اور پکنک پر لے جاتے۔ شکار کا شوق بھی تھا۔ شکار کرنے اور کرانے کے لیے طلبہ کو ساتھ لے جاتے۔ وقار عمل کراتے، ہماری آخری کلاس جو سادسہ کی کلاس کہلاتی تھی کو ہر ہفتہ وقار عمل کراتے۔ ربوہ کے مختلف محلہ جات میں کہیں نالی کی مرمت، تو کہیں سڑک کی مرمت تو کہیں گڑھوں میں مٹی ڈالنے کی۔پھر صرف یہی نہیں بلکہ اچکن، ٹوپی، سفید شلوار اور بوٹوں کے ساتھ وقار عمل میں شامل ہونے کی ہدایت ہوتی تھی تاکہ کسی وقت ایسا کام کرنا پڑجائے تو مربی کا لباس ہی اس کام میں آڑے نہ آجائے۔ آپ نے ’’نفس‘‘کومارنے یعنی جھوٹی عزت اور انا کو مارنے کے لیے یہ سارے کام کروائے۔
ہر سال پکنک بھی کراتے۔ عموماً برج والی نہر پر جہاں پانی کافی گہرا ہوتا ہے۔ تیراکی بھی ہوتی تھی۔خاکسار کو تو تیراکی آتی نہیں اور وہاں پر اس نہر کے ساتھ ایک اور چھوٹی سی نہر بھی نکلتی تھی۔ اس میں نہا کر گزارہ کر لیتے تھے۔ مگر ساتھی طلبہ ایک دوسرے کو گہرے پانی میں پھینک کر بھی خوب نظارہ کرتے۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ محترم میر صاحب نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم کو بھی اس پکنک میں شرکت کی دعوت دی۔ آپ تشریف لائے اور بڑی نہر میں تیراکی کی۔اس وقت نہر کا پانی قدرے نیچا تھا۔ میں حضرت مولانا کو کنارے سے دیکھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم بھی آجاؤ۔ میں نے کہا میں تیراکی نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا پانی میں اترو میں سکھا دیتا ہوں۔ تو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلایا اور فرمایا اپنے سینہ کو میرے ہاتھوں پر پھیلاؤ۔ اور ہاتھوں اور پاؤں کو چپوؤں کی طرح چلاؤ۔ کیا دن تھے۔ بزرگوں کی محفلیں اور ان کی محبتیں اور شفقتیں!
آتی رہیں گی یاد ہمیشہ وہ صحبتیں
ڈھونڈا کریں گے ہم تمہیں فصل بہار میں
خاکسار نے اوپر شکار کا ذکر کیا ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ ذہن میں آیا کہ ایک مرتبہ آپ نے چند طلبہ اور چند اساتذہ کو ساتھ لے کر مکرم چودھری نصیر احمد صاحب کے گاؤں شکار کے لیے گئے۔ چودھری نصیر احمد صاحب خاکسار سے ایک سال جامعہ میں سینئر ہیں۔ اس وقت جو اساتذہ اور طلبہ ساتھ تھے ان میں مکرم استاذی المحترم ملک سیف الرحمان صاحب، استاذی المکرم جناب نورالحق تنویر صاحب، استاذی المکرم غلام باری سیف صاحب کے علاوہ زکریا خان صاحب آف ڈنمارک، رشید ارشد صاحب آف یوکے یادہیں۔آپ نے مکرم ملک سیف الرحمان صاحب سے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے کبھی پستول یا بندوق چلائی ہے۔ تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ آپ نے انہیں پستول دیا کہ اس سے ہوائی فائرنگ کریں۔ پہلے تو انہوں نے انکار کیا۔ مگر محترم میر صاحب کے اصرار پر انہوں نے پستول لیا اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ہوائی فائر کیا۔ وہ منظر بہت دلچسپ اور دیدنی تھا۔ اس کے بعد ہم طلبہ مکرم استاذی المحترم غلام باری صاحب سیف کے ساتھ ہولیے۔اور راستے میں انہوں نے چنیوٹ کے قریب ایک چاولوں کی مل کے باہر چڑیوں کا شکار کھیلا۔اور متعدّد چڑیاں ایک ہی فائر میں مار گرائیں۔خود بھی ایک تھیلا بھر کر ساتھ لائے اور طلبہ میں بھی شکار تقسیم کیا۔ مکرم چودھری نصیر صاحب کی مہمان نوازی تھی۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔
تبلیغ کی اہمیت اور تجربہ
محترم میر داؤد احمد صاحب طلبہ کے اندر تبلیغ کا تجربہ بھی پیدا کرنے کے لیے ہمہ تن پروگرام بناتے تھے۔ طلبہ کی مختلف ٹولیاں بنا کر ہر ماہ کی آخری جمعرات کو جس دن جامعہ میں چھٹی ہوتی تھی انہیں ربوہ کے مضافات میں بھجوانے کا پروگرام ہوتا تھا۔تمام طلبہ کی اس میں شمولیت لازمی ہوتی تھی۔اس ضمن میں ایک دفعہ کا واقعہ ذہن میں آیا ہے۔ خاکسار ابھی درجہ ممہدہ [جامعہ کے پہلے سال]ہی میں تھا۔ اور اس وقت جماعت کے عقائد کا بھی ابھی کچھ تفصیلی علم نہ تھا۔ چنانچہ ہم 3، 4 طلبہ ربوہ کے مضافات میں یکو والے بنگلے پر تبلیغ کے لیے گئے۔ہمارے وفد کے امیر مکرم قریشی محمد انور صاحب تھے۔ ہمیں ہدایت یہی ہوتی تھی کہ ہر سفر میں ایک امیر بھی مقرر کرنا ہے۔ آپ ہم میں سے سینئر بھی تھےاور خدا تعالیٰ کے فضل سے صاحبِ علم بھی تھے۔ ہم سائیکلوں پر نکلے۔ ہمیں تلاش تھی کہ کہاں اور کس کو تبلیغ کریں۔ چنانچہ دور کھیتوں میں ہم نے ایک شخص کو اپنے کھیت میں پانی لگاتے دیکھا ہم نے سوچا چلو اس کو تبلیغ کرتے ہیں۔اس نے ہمیں آتے دیکھا تو اپنا رخ بھی ہماری طرف کر لیا اور ہم سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ مکرم قریشی انور صاحب نے جواب دیا کہ ہم احمدی ہیںاور آپ کو احمدیت کا پیغام پہنچانے آئے ہیں۔ اس نے کہا ٹھیک ہے آجاؤ۔ یہ 1967ء کا واقعہ ہے۔وہ دن بھلے تھے۔ لوگ علمی بحث کرتے تھے۔اس طرح گالیوں پر نہ اترتے تھے جس طرح آج کل رواج ہے کہ دلیل تو پاس کوئی ہے نہیں بس گالیاں دے کر، گند بک کر، اپنے آپ کو اونچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے کھیت میں پاس ہی ایک چارپائی تھی۔ اس پر ہم سب ان سمیت بیٹھ گئے۔ مکرم قریشی صاحب نے بات شروع کی۔اس نے دو تین منٹ تو خاموشی کے ساتھ بات سنی اور پھر بڑی اونچی اونچی آواز میں حیات مسیح کے فرسودہ دلائل دینے لگا۔ دلیل کم تھی، آواز بہت اونچی گویا لاؤڈ سپیکر ہے۔ مجھے تو عقیدے کی باریکیوں کا اتنا علم نہیں تھا۔ اورنہ ہی مذہبی بات کرنے کا کوئی سلیقہ تھا۔خاکسار نے چار پانچ منٹ یہ نظارہ دیکھا کہ قریشی صاحب بڑے دھیمے اور نرم لہجے میں کوئی دلیل دیتے ہیں، بات کرتے ہیں تو وہ شور ڈال کر کچھ کا کچھ کہہ جاتا ہے جو کہ دلیل کا جواب بھی نہیں ہوتا۔ خیر جب اس پر کچھ منٹ اس طرح گزرے تو میں نے مکرم قریشی صاحب سے اجازت لی کہ ان کو میں کچھ جواب دوں۔ انہوں نے کہا ضرور۔خاکسار نے اس غیر احمدی دوست کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ مخاطب ہو کر کہا کہ اگر تم نے اونچی آواز کا مقابلہ کرنا ہے اور شور ڈالنا ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو۔ میں آپ سے زیادہ جوان ہوں اور آپ سے زیادہ زور سے شور ڈال سکتا ہوں اور اگر دلیل کا جواب دینا ہے تو آہستہ اور نرمی اور اخلاق سے بات کرو۔ بس پھر کیا تھا۔ وہ شخص کہنے لگا۔ آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا ہے۔ آپ کا شکریہ اور اس طرح ہم نے وہاں سے اجازت لی۔
میر داؤد صاحب کی چار آنکھیں
میں گاؤں سے 1966ء میں ربوہ آ کر جامعہ میں داخل ہوا تھا اور یہی میرا پہلی مرتبہ ربوہ آنا ہوا تھا۔ غالباً ان دنوں مجلس خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع تھا۔اس میں شامل ہونے کا بھی پہلا تجربہ تھا اور اجتماع کے فوراً بعد جامعہ میں داخلہ ہوا۔
محترم میر صاحب کی ذہانت، فراست اور طلبہ کی پوری طرح خبر گیری رکھنے کی وجہ سے کسی نے ایک دن مجھے کہا کہ میر صاحب کی چار آنکھیں ہیں۔ دو سامنے اور دو پیچھے۔ بس پھر کیا تھا میں اس ٹوہ میں رہنے لگا کہ آپ کی دو سامنے کی آنکھیں تو نظر آرہی ہیں 2 پیچھے کی آنکھیں کس جگہ ہیں۔ انہیں تلاش اور دیکھنے کی جستجو رہتی اور جب بھی موقع ملتا میں تلاش کرتا اور دیکھتا کہ آپ کی دو آنکھیں کس جگہ ہیں۔ خیر اسی جستجو میں کچھ دن گزر گئے۔ کیونکہ میں اسے ظاہراً صحیح سمجھ بیٹھا تھا اور یقین کر لیا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔جب مجھے اس میں کامیابی نہ ہوئی تو میں نے ایک دن ان دوستوں سے کہہ ہی دیا جنہوں نے مجھے کہا تھا کہ آپ کی دو آنکھیں سر کے پیچھے ہیں کہ میں اتنے عرصے سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں مجھے تو نظر نہیں آئیں۔ انہوں نے زور دار قہقہہ مارا اور کہنے لگے کہ جو سبز عینک انہوں نے پہنی ہوئی ہوتی ہے وہ اس قسم کی ہے کہ اس میں سے پیچھے سے بھی نظر آجاتا ہے۔ بعد میں جا کر معاملہ کھلا کہ آپ کی نظر ماشاء اللہ تیز ہے اور آپ ہر چیز پر نگاہ رکھتے ہیں۔ خصوصاً طلبہ سے متعلق سارے امور ان کی نظر میں رہتے ہیں۔
جامعہ کے ایک اور ہر دلعزیز استاد مکرم مولانا محمد احمد جلیل صاحب تھے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ خاکسار نے ان سے بھی اس بات کا ذکر کیا کہ ایسا سنا ہے کہ میر داؤد صاحب کی چار آنکھیں ہیں دو سامنے اور دو پیچھے۔ آپ نے یہ سن کر خاکسار کا نام اس دن سے ’’معصوم شاہ‘‘ ڈال دیا۔ جب بھی ملتے اسی نام سے پکارتے۔ اور جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی جب خط و کتابت ہوتی آپ خط کا جواب دیتے وقت ’’عزیزم معصوم شاہ‘‘سے ہی مخاطب ہوتے۔
صفائی اور نظافت پسند تھے
جنہوں نے بھی محترم میر داؤد احمد صاحب کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ آپ حسن کا ایک پیکر تھے۔ خدا تعالیٰ نے بارعب اور پرکشش شخصیت سے نوازا تھا اور آپ کا لباس، کھانا پینا بہت ہی سلیقے سے دیدہ زیب اور صاف ہوتا تھا۔ آپ ہر قسم کا لباس پہنتے لیکن سفید اچکن تو آپ پر بہت سجتی تھی۔ان کی اسی شخصیت سے متاثر ہو کرخاکسار نے ہمیشہ اچکن اور شیروانی کا استعمال کیا ہے۔ آپ اپنے طلبہ کو بھی ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ اپنا رومال، جرابیں، انڈرویر روزانہ خود دھو کر استعمال کیا کریں۔جو چیزیں فطرت میں شامل ہیں ان کی صفائی کی طرف بھی توجہ دلاتے تھے۔ کھانے کے بارے میں ایک دفعہ کہنے لگے کہ جب آپ سلیقے سے دال بھی پکا کرصاف پلیٹ میں رکھ کر دو گے تو وہی مزے دار بن جائے گی۔اور اگر پلاؤ گندی پلیٹ میں رکھ کر دو گے تو وہی بدذائقہ ہوجائے گی۔اسے کوئی بھی نہیں کھائے گا۔ہر چیز کا سلیقہ ہونا چاہیے اور صفائی پر بہت زور دیتے۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭