اختلافی مسائل

کیا انگریز حکومت کی تعریف کرنے سے ان کا ایجنٹ ہونا ثابت ہو جاتا ہے؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد اشاعت توحید الٰہی اور تبلیغ پیغام خداوندی تھا۔اس مقصد کے حصول کے لیے آپ علیہ السلام ہر ممکنہ پہلو اختیار فرماتے تھے۔جون 1897ء میں ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے حوالے سے ملکی سطح پر مختلف تقاریب منعقد ہونی تھیں۔آپ علیہ السلام نے اس موقع پر تبلیغ اسلام کا ایک پہلو یہ نکالا کہ ایک رسالہ ’’تحفہ قیصریہ‘‘کے نام سے لکھ کر 25؍مئی 1897ء کو شائع فرمایا۔اس رسالے میں جوبلی کی تقریب پر مبارکباد کے علاوہ نہایت لطیف پیرایہ اور حکیمانہ انداز میں آنحضرتﷺ اور اسلام کی صداقت کا اظہار فرماتے ہوئے ان اصولوں کا ذکر فرمایا جو امنِ عالم اور اخوتِ عالمگیر کی بنیاد بن سکتے تھے۔حضورؑنے اسلامی تعلیم کا خلاصہ بیان کرکے ملکہ معظمہ کو لندن میں ایک جلسہ مذاہب منعقد کرانے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ اس سے انگلستان کے باشندوں کو اسلام کے متعلق صحیح معلومات حاصل ہوں گی۔پھر حضور علیہ السلام نے عیسائیوں کے اس عقیدے کی کہ مسیح صلیب پر مر کر ان کے لیے ملعون ہوا شناعت وقباحت ظاہر کرکے ملکہ معظمہ سے درخواست کی کہ پیلاطوس نے یہودیوں کے رعب سے ایک مجرم قیدی کو تو چھوڑ دیا اور یسوع کو جو بے گناہ تھا نہ چھوڑا۔مگر اے ملکہ ! اس شصت سالہ جوبلی کے وقت جو خوشی کا وقت ہے تو یسوع کو چھوڑنے کے لیے کوشش کر۔اور یسوع مسیح کی عزت کو اس لعنت کے داغ سے جو اس پر لگایا جاتا ہے اپنی مردانہ ہمت سے پاک کرکے دکھلا۔ آپ علیہ السلام نے اپنے دعویٰ کی صداقت میں ملکہ موصوفہ کو نشان دکھانے کا وعدہ کیا بشرطیکہ نشان دیکھنے کے بعد آپ علیہ السلام کا پیغام قبول کر لیا جائے۔اور نشان ظاہر نہ ہونے کی صورت میں اپنا پھانسی دے دیا جانا قبول کر لیا اور فرمایا اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور میں جھوٹا نکلوں تو میں ا س سزا پر راضی ہوں کہ حضور ملکہ معظمہ کے پایہ تخت کے آگے پھانسی دیا جاؤں اور یہ سب الحاح اس لیے ہے کہ کاش ہماری محسنہ ملکہ معظمہ کو آسمان کے خدا کی طرف خیال آجائے جس سے اس زمانے میں عیسائی مذہب بے خبر ہے۔(تعارف و خلاصہ تحفہ قیصریہ،روحانی خزائن جلد12)

20؍جون1897ء کو قادیان میں عام جلسہ ہوا جس میں گورنمنٹ کی ہدایت کے مطابق مبارکباد کا ریزولیوشن پاس کرکے تار کے ذریعہ سے وائسرائے ہند کو بھیجا گیا اور ’’تحفہ قیصریہ‘‘ کی چند کاپیاں ملکہ کو بھیجنے کے لیے ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور ،وائسرائے گورنر جنرل اور لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو بھیجی گئیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’تحفہ قیصریہ‘‘ کے مضمون کو نئے پیرائے سے 24؍اگست 1899ءکو ’’ستارہ قیصرہ ‘‘(روحانی خزائن جلد نمبر 15)لکھ کر شائع فرمایا۔اس میں بھی انگریزی حکومت کی مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی کا جو سب مذاہب کو اس نے یکساں طور پر دی ہوئی تھی ذکر کرتے ہوئے صلیبی عقیدہ کی نہایت احسن پیرایہ میں تردید فرمائی اور اپنے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ پیش کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اشاعت وتبلیغ اسلام کی مساعی اور اس زمانے کے طاقتور ترین انگریز حکمران کے مذہب کو غلط اور اس حکمران کو اسلام کی دعوت دینے کے باوجود موجود ہ زمانے کے غیر احمدی علماء حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر انگریزوں کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔انگریز انتظامی امور میں مضبوطی کی وجہ سے دنیا کے بیشتر خطوں پر حکمرانی کر رہے تھے کیا وہ کسی ایسے شخص کو اپنا ایجنٹ بنا سکتے تھے جو ان کے مذہب کو ہی جھوٹا ثابت کر دے بلکہ ان کے خدا یعنی یسوع مسیح کو ہی مار دے۔اگر ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے غیراحمدی علماءکی دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزی حکومت کی تعریف کی ہےتو اس دلیل سے تو موجودہ زمانے کے تمام فرقے ہی انگریزوں کے ایجنٹ ثابت ہوجائیں گے کیونکہ جس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کی تعریف کی اس زمانے میں مسلمانوں کے تمام بڑے بڑے فرقوں کے بڑے بڑے علماء ایک دوسرے سے بڑھ کر انگریزوں کی تعریف کر رہے تھے۔بلکہ مبالغہ کر رہے تھے لیکن موجودہ زمانے میں انہیں اسلام کے داعی اور مفکر کہا جاتا ہے۔22؍جنوری 1901ء کو ملکہ وکٹوریہ کی وفات ہوئی توان کی وفات پر شاعر مشرق علاقمہ محمد اقبال نے ایک طویل مرثیہ’’اشک خوں‘‘ کے عنوان سے لکھا۔اس میں سے چند اشعار یہ ہیں:

اے جامِ بزمِ عید مقدر یہ تھا ترا

لبریز کرنے آئے مئے اشکِ غم تجھے

ایسی گھڑی میں تیری افق پر ہوئی نمود

سمجھا نہ کوئی حلقۂ ماتم سے کم تجھے

کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے،ہوا کرے

اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے

مثلِ سموم تھی یہ خبر کس کی موت کی

گلزارِ دل میں اگنے لگے غم کے خار آج

اقلیمِ دل کی آہ شہنشاہ چل بسی

ماتم کدہ بنا ہے دلِ داغدار آج

تو جس کی تخت گاہ تھی اے تخت گاہِ دل

رخصت ہوئی جہان سے وہ تاجدار آج

شاہی یہ ہے کہ آنکھ میں آنسو ہوں اور کے

چلاّئے کوئی، درد کسی کے جگر میں ہو

اے ہند تیری چاہنے والی گذر گئی

غم میں ترے کراہنے والی گذر گئی

دردِ اجل کی تاک بھی کیسی غضب کی تھی

انگشتری جو دل کے نگینوں کی تھی ،گئی

اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایۂ خدا

اک غم گسار تیرے حزینوں کی تھی ،گئی

اے ہند جو فضیلتِ نسواں کی تھی دلیل

تیرے گھروں کی پردہ نشینوں کی تھی ،گئی

اے سال قرنِ نو یہ ستم تو نے کیا کیا

عزت ذرا جو تیرے مہینوں کی تھی،گئی

تو آج سر بہ خاک ہو سیّارۂ زمیں

رونق جو تیرے سارے مکینوں کی تھی،گئی

صرفِ بکا ہے جانِ سلاطینِ روزگار

دہلیز جس کی عید جبینوں کی تھی ،گئی

ہو موت میں حیات ،ممات اس کا نام ہے

صدقے ہو جس پہ خضر ،وفات اس کا نام ہے

اے شمعِ بزمِ ماتمِ سلطانۂ جہاں

کیا تھی جھلک تری کہ ثریّا تلک گئی

لالی افق پہ آنکھ نے دیکھی جو شامِ عید

اک بات تھی کہ خونِ جگر کو کھٹک گئی

سمجھی ہے اپنے آپ کو آئی ہوئی اجل

لو میری خامشی سے قضا بھی بہک گئی

اے دردِ جاں گداز خدا کے لیے نہ تھم

ہم بھی اٹھیں گے ساتھ جو تیری کسک گئی

ماتم میں لے گیا ہوں دلِ پاش پاش کو

آزادِ جاں گدازئ درماں کیے ہوئے

لے اے عروسِ ہند تری آبرو گئی

آنکھوں کو اشکِ غم سے در افشاں کئے ہوئے

اے روز توپہاڑ تھا یا غم کا روز تھا

دن بن کے تو چڑھا تھا پہ ہو کر برس گیا

شہرہ ہوا جہاں میں یہ کس کی وفات کا

ہےہر ورق سیاہ بیاضِ حیات کا

مانگی تھی ہم نے آج اجل کے لیے دعا

صدقے نہ ہو گیا ہو دعا پر اثر کہیں

صورت تری ہے اشکِ جگر سوز کی طرح

قربان ہو نہ جائے ہماری نظر کہیں

ہلتا ہے جس سے عرش یہ رونا اسی کا ہے

زینت تھی جس سےتجھ کو،جنازہ اسی کا ہے

مرحوم کے نصیب ثوابِ جزیل ہو

ہاتھوں میں اپنے دامنِ صبرِ جمیل ہو

(کلیات باقیاتِ شعر اقبال مرتبہ ڈاکٹر صابر کلوروی دورِ اوّل کا کلام (1893ء تا 1908ء)صفحہ 49تا63اقبال اکادمی پاکستان)

اقبال کا یہ مرثیہ 109 اشعار پر مشتمل ہے۔یہاں چند درج ہیں۔اس میں ملکہ وکٹوریہ کو سایۂ خدا ،ان کی وفات کے دن کو محرم اور غم کی کیفیت کو مختلف تمثیلات کے ذریعہ بھر پور مبالغہ سے بیان کیا ہے۔1901ء میں یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد بھی اقبال پر کوئی ایجنٹ ہونے کا الزام نہیں لگاتا لیکن حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کا امن عامہ اور مذہبی رواداری کے قیام کے حوالے سے انگریز حکومت کی تعریف کرنے پر یہ الزام لگا دیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان غیر احمدی علماء کو سمجھ دے اور سچ سمجھنے اور کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

(مرسلہ:ابن قدسی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button