احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
منارۃ المسجد کے روکنے میں ہمارے مخالفوں نے پوری کوشش کی مگر خداتعالیٰ نے ان کو اپنے ان ارادوں میں پوراناکام ونامراد رکھا ۔والحمدللہ علیٰ ذالک۔
منارۃ المسیح کی تعمیراور مقامی باشندگان کی طرف سے مخالفت(حصہ چہارم۔آخری)
13مئی 1903ء کو انتظامیہ کی طرف سے مینارکی تعمیرکے سلسلہ میں فیصلہ بھی آگیا کہ مخالفین کی درخواست درخوراعتناء نہیں سمجھی جارہی اورمینارکی تعمیرکی بابت کسی قسم کاکوئی اعتراض بھی قابل توجہ وسماعت نہیں ہے ۔اور یوں مخالفین کی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی ۔
الحکم میں فیصلے کی یہ خبراس طرح دی گئی ۔
’’ہم نہایت مسرت اور خوشی کیساتھ خداتعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے اس خبرکا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہواہے کہ منارۃ المسجد کی جس قدر مخالفت کی گئی تھی وہ ضلع گورداسپور کے بیدارمغز اور دقیقہ رس جناب میجر ڈالس صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر کی عدالت سے آخر بےسود ثابت ہوئی اور آپ نے اس معاملہ میں کسی قسم کی دست اندازی کو بالکل غیر ضروری سمجھا جیسا ہم نے اپنے اخبار میں صاحب موصوف کی بیدار مغزی اور معدلت گستری سے امید کی تھی۔ وہ امید پوری ہوئی اور ہماری تحریریں اس معاملہ میں نتیجہ خیز۔ہم اس مثل کی نقل کے حاصل کرنے کی سعی کررہے ہیں باضابطہ مصدقہ نقل مل جانے پر ہم صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کا اصل حکم شائع کرنے کے قابل ہوں گے۔
بہرحال ہم سلسلہ عالیہ احمدیہ کی طرف سے اپنے مخدوم مجسٹریٹ ضلع کے شکرگزارہیں کہ انہوں نے ہمارے معروضات پر جیسا کہ آپ کی تشریف آوری پر ہم نے توقع کی تھی پوری توجہ فرمائی اور ہماری مذہبی آزادی اور مذہبی عبادت گاہ کے جائز حقوق کی حفاظت فرما کراپنی انصاف پسندی اور بے رو رعایت پالیسی کا ثبوت دیا ہے۔ ضلع گورداسپور کی رعایا کو ایسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پر جس قدرناز ہو وہ کم ہے۔ منارۃالمسجد کے روکنے میں ہمارے مخالفوں نے پوری کوشش کی مگر خداتعالیٰ نے ان کو اپنے ان ارادوں میں پوراناکام ونامراد رکھا ۔والحمدللہ علیٰ ذالک۔
ہم صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی ذات سے توقع کرتے ہیں کہ وہ آئندہ کے لئے ایسی سازشیں کرنے والوں کا پورا لحاظ رکھیں گے ۔پبلک کے امن میں خلل اندازی کرنے کا انہیں موقع نہ دیا جاویگا ۔ہم یہ امر آپ کی توجہ کے لئے پیش کر نے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ بعض آدمی اس قماش کے یہاں موجود ہیں جو ہمیشہ ایسے ہی جوڑ توڑ میں لگے رہتے ہیں ۔
بہرحال ہماری قوم کے لئے یہ بہت بڑی شکر گزاری اور خوشی کا موقع ہے جو صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر گورداسپورکی بیدارمغزی سے ان کو ملا ہے ۔اور سب سے زیادہ ہمارے لئے کہ ہماری تحریریں مؤثر ثابت ہوئیں ۔‘‘
(الحکم نمبر20جلد31،7مئی 1903 ء صفحہ 9 کالم 2،1)
فیصلہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر ضلع گورداسپور
نقل حکم اجلاسی سی ایم ڈالس صاحب بہادرڈپٹی کمشنر بہادرضلع گورداسپور مرجوعہ 14اپریل 1903ء
فیصلہ 13مئی 1903ءنمبرمقدمہ 4/17
کاغذات دربارہ تیاری منارۃ المسیح قادیان و عذرات برخلاف چند اہالیان قادیان …… فی الحال کوئی امر ایسا نہیں ہےکہ جس سے نقض امن کا احتمال ہو ۔جن لوگوں کو عذر ہے وہ بذریعہ عدالت دیوانی اپنی دادرسی کرسکتے ہیں ۔اینجانب فی الحال دست اندازی نہیں کرتے ۔کاغذات داخل دفتر ہوں۔ دستخط حاکم
( بحوالہ الحکم نمبر21 جلد7۔10جون 1903ء صفحہ 9۔10)
یہ فیصلہ ڈپٹی کمشنر سی ۔ایم ۔ڈالس صاحب نے کیاتھا۔ ان کامختصرساتعارف یہ ہے۔
میجر ڈیلس: Charles Mowbray Dallas
30؍اگست1861ءکوپیداہوئے۔22؍جنوری 1881ء کو انہوں نے انڈین سول سروس جائن کی اور 3 اکتوبر 1882ء کو ہندوستان آئے۔ 1882ء سے 1887ء تک انہوں نے فوج میں ملازمت جاری رکھی اور اسی دوران ہندی اور پشتو زبان میں پہلے ابتدائی اور پھر اعلیٰ سطح کے امتحانات پاس کئے۔1887ء میں ان امتحانات کے پاس ہونے پر انہیں اسسٹنٹ کمشنر بنا دیا گیا۔ بطور اسسٹنٹ کمشنر یہ لاہور، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، مردان اور تھل وغیرہ میں تعینات رہے۔1897ء میں امرتسر میں تعیناتی کے دوران انہیں ڈپٹی کمشنر کے عہدہ پر ترقی ملی۔بعد ازاں سیالکوٹ اور گورداسپور وغیرہ مقامات پر بھی ڈپٹی کمشنر رہے۔ 1905ء میں انہیں پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر ریاست پھلکیاں اور بہاولپور میں تعینات کیا گیا۔ اور 1910ء میں انہیں دہلی کا کمشنر بنا دیا گیا۔1916ء میں انبالہ کی کمشنری سے ریٹائر ہوئے۔ملٹری کے لحاظ سے انہیں کپتان سے1901ء میں میجر اور پھر 1907ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدہ پر ترقی ملی۔
1893ء میں ان کی شادی Catherine Dallas سے ہوئی اور اس سے ان کے دو بچے Kathleen Campbell Dallas اور Alfred Stuart Dallas پیدا ہوئے۔ کرنل ڈیلس کی وفات 6 جنوری 1936ء میں ہوئی۔
( History of Services of Gazetted Officers Employed In The Punjab 1900 pg: 184-۔185
http://www.geni.com/people/Lt-Col-CharlesDallas/60000000290212005
http://www.dnw.co.uk/auction-archive/catalogue-archive/lot.php?auction_id=71&lot_id=47119)
منارہ کی تعمیرمیں روک اور الٰہی مصالح ایک معترضانہ سوچ اور اس کی تردید
ہرچندکہ اب اگرکوئی ظاہری روک تھی بھی تووہ ختم ہوگئی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد مینارکی تعمیردوبارہ شروع نہیں ہوئی ۔اس کی کیاوجہ تھی ؟کیاوجہ ہوسکتی تھی؟ تاریخ خاموش ہےیانہیں ۔البتہ مؤرخین خاموش نہیں رہے ۔مختلف وجوہات کی تلاش میں رہے ۔ وہ تو بعدکی بات ہے کہ مینارکی تعمیرنے خودبول کربتادیا کہ کیاوجہ ہوسکتی تھی لیکن بعض ایسے بھی کورچشم ثابت ہوئے کہ اتنے بلندوبالامینارکودیکھ کربھی وہ سمجھ نہ پائے اور مینارکی تعمیرمیں عارضی رکاوٹ کواپنے مستقل تعصب اور کینےکاسہارادے کرایسی وجوہات اور اسباب پیش کیے ہیں کہ عقل ایسے سوانح نگار پرحیران ہے ۔ان کی لکھی ہوئی کتاب پڑھ کرغالب کایہ شعر یادآجاتاہے؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سوانح پرمبنی ایک کتاب مجدداعظم بھی ہے ۔ اس کے مصنف محترم ڈاکٹربشارت احمدصاحب منارۃ المسیح کی تعمیرمیں اس عارضی روک کی بابت لکھتےہیں:
’’حضرت اقدس مرزا صاحب کو جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ آیا ہوں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیشین گوئیوں کو پورا ہوتے دیکھنے کا بڑا شوق اور بڑا خیال تھا۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث کو جس میں مسیح موعود کی جائے نزول دمشق کا مشرقی منارہ بتایا گیا تھا۔ آپ اپنی کتابوں میں ثابت کر آئے تھے کہ یہ اعلیٰ پایہ کی حدیث نہیں۔ روایت اور درایت دونوں کے لحاظ سے اس پر اس قدر اعتراضات پڑتے ہیں کہ اس کی مثال ایک چیونٹیوں بھرے کباب کی سی ہے۔ روایتاً تو اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ امام بخاری نے اسے رد کر دیا اور درایتاً یہ اس لئے ناقابل قبول ہے کہ جب قرآن کریم کی تیس آیات سے صریح طور پر یہ ثابت ہو چکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام فوت ہو چکے ہیں اور مرے ہوئے اس دنیا میں واپس نہیں آتے تو اُن کا کسی منارہ پر نزول کیا معنی رکھتا ہے؟ علاوہ ازیں ایک اور حدیث ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے جس میں مسیح موعود کو اِمَامُکُمْ مِنْکُم فرما کر یہ بتایا ہے کہ وہ تمہارا امام ہو گا اور اے اُمتی لوگو وہ تم میں سے ہو گا۔ اس اعلیٰ پایہ کی حدیث سے دمشقی نزول والی حدیث مخالف پڑتی ہے۔ لہٰذا ان حالات میں دمشقی نزول والی حدیث کو کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟ لیکن ساتھ ہی حضرت مرزا صاحب کا یہ بھی مذہب تھا کہ اگر کسی حدیث کی تاویل ہو سکے تو اُسے رد نہ کیا جائے۔ اس لئے اس حدیث کی ایک تاویل بھی آپ نے کی جو بالکل درست معلوم ہوتی ہے اور وہی واحد تاویل ہے جو اس کی ہو سکتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ ایک کشفی نظارہ تھا جو آنحضرتﷺ نے دیکھا اور اپنے صحابہ کے روبرو بیان فرمایا۔ اور یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ رؤیا اور کشوف اکثر تعبیر طلب ہوتے ہیں۔ پس مسیح موعود کا دمشق کے مشرق کی طرف نزول بتاتا ہے کہ اس کی بعثت کسی ایسے مقام پر ہو گی جو دمشق سے مشرق کی طرف ہو گا۔ چنانچہ قادیان دمشق سے ٹھیک مشرق کی طرف واقع ہے اور منارہ کے معنی جائے نُور کے ہیں جس میں یہ اشارہ ہے کہ مسیح موعود کا مقام بعثت اس کے زمانہ میں اسلام کے نور اور روشنی کے پھیلنے کی جگہ ہو گا۔ جیسا کہ حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں قادیان تھا اور دو زرد چادروں سے جس میں مسیح موعود کو آنحضرت صلعم نے ملبوس دیکھا مراد علم تعبیر کی کتب کے رُو سے دو بیماریاں تھیں جو اس کے لاحق حال ہونگی۔ جیسا کہ حضرت مرزا صاحب کو دورانِ سر اور کثرت بول کی بیماریوں کی اکثر تکلیف رہا کرتی تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس معقول تاویل کے باوجود حضرت مرزا صاحب کو یہ خیال بھی آیا کرتا تھا (جیسا کہ بعض حدیث میں ہے کہ رؤیا کو ظاہری طور پر بھی پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے) کہ جہاں تک ممکن ہے اس کشفی نظارہ کو کسی حد تک ظاہری طور پر بھی پورا کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں آپ کو خود بھی یہ الہام ہو چکا تھا کہ ’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔‘‘ جس کا اصل مطلب تو یہ ہے کہ آپ کے علم کلام اور لٹریچر کے ذریعہ مسلمانوں کا قدم ایک ایسے بلند مینار پر نہایت مضبوط جا پڑا جہاں اُسے کسی قسم کا خطرہ کفر اور باطل کے حملوں سے نہ رہا۔ لیکن آپ کو یہ خیال ہوا کہ اگر حدیث مذکورہ بالا اور اس الہام کو اپنے ظاہری رنگ میں بھی پُورا کرنے کی کوشش کی جائے تو بطور تفاول نیک کے ہرج کوئی نہیں۔ پس آپ نے اس منارہ کو جس کا وجود استعارہ اور مجاز کے رنگ میں مسیح موعود کے وجود سے وابستہ تھا ظاہری رنگ میں بھی بطور یادگار کے تعمیر کرنا چاہا۔
………………………(باقی آئندہ)
٭…٭…٭