جو شخص اترنے والا تھا وہ عین وقت پر اُتر آیا اور آج تمام نوشتے پورے ہوگئے
ظاہر ہے کہ اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں یہ خیال ہوتا کہ عیسیٰ آسمان پر چھ سو برس سے زندہ بیٹھا ہے تو وہ ضرور حضرت ابوبکر کے آگے یہ خیال پیش کرتے لیکن اس روز سب نے مان لیا کہ سب نبی مر چکے ہیں اور اگر کسی کے دل میں یہ خیال بھی تھا کہ عیسیٰؑ زندہ ہے تو اُس نے اس خیال کو ایک ردّی چیز کی طرح اپنے دل سے باہر پھینک دیا۔ یہ مَیں نے اس لئے کہا کہ ممکن ہے کہ عیسائی مذہب کے قرب و جوار کے اثر کی وجہ سے کوئی ایسا شخص جو غبی ہو اور جس کی درایت صحیح نہ ہو یہ خیال رکھتا ہو کہ شاید عیسیٰ اب تک زندہ ہی ہے مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ اس وعظ صدیقی کے بعد کل صحابہ اس بات پر متفق ہوگئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے جتنے نبی تھے سب مرچکے ہیں اور یہ پہلا اجماع تھا جو صحابہ میں ہوا۔ اور صحابہ رضی اللہ عنہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں محو تھے۔ کیونکر اس بات کو قبول کر سکتے تھے کہ باوجودیکہ ان کے بزرگ نبی نے جو تمام نبیوں کا سردار ہے۔ چوسٹھ برس کی بھی پوری عمر نہ پائی۔ مگر عیسیٰ چھ سو برس سے آسمان پر زندہ بیٹھا ہے۔ ہرگز ہرگز محبت نبوی فتویٰ نہیں دیتی کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بالتخصیص ایسی فضیلت قائم کرتے۔ لعنت ہے ایسے اعتقاد پر جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین لازم آوے۔ وہ لوگ تو عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ وہ تو اس بات کے سُننے سے زندہ ہی مر جاتے کہ اُن کا پیارا رسول فوت ہوگیا مگر عیسیٰ آسمان پر زندہ بیٹھا ہے۔ وہ رسول نہ اُن کو بلکہ خدا تعالیٰ کو بھی تمام نبیوں سے زیادہ پیارا تھا۔ اسی وجہ سے جب عیسائیوں نے اپنی بدقسمتی سے اس رسول مقبول کو قبول نہ کیا اور اس کو اتنا اُڑایا کہ خدا بنا دیا۔ تو خدا تعالیٰ کی غیرت نے تقاضا کیا کہ ایک غلام غلمان محمدی سے یعنی یہ عاجز اس کا مثیل کر کے اس اُمّت میں سے پیدا کیا۔ اور اس کی نسبت اپنے فضل اور انعام کا زیادہ اُس کو حصّہ دیا۔ تا عیسائیوں کو معلوم ہو کہ تمام فضل خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
غرض عیسیٰ بن مریم کے مثیل آنے کی ایک یہ بھی غرض تھی کہ اُس کی خدائی کو پاش پاش کر دیا جائے۔ انسان کا آسمان پر جاکر مع جسم عنصری آباد ہونا ایسا ہی سنّت اللہ کے خلاف ہے۔ جیسے کہ فرشتے مجسم ہو کر زمین پر آباد ہو جائیں۔
وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا(الفتح:24)۔
پھر یہ نادان قوم نہیں سوچتی کہ جس حالت میں صلیب دینے کے وقت ابھی تبلیغ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ناتمام تھی اور ابھی دس قومیں یہود کی دوسرے ملکوں میں باقی تھیں جو اُن کے نام سے بھی بیخبر تھیں تو پھر حضرت عیسیٰ کو یہ کیا سوجھی کہ اپنا منصبی کام ناتمام چھوڑ کر آسمان پر جا بیٹھے۔پھر تعجب کہ اسلامی کتابوں میں تو حضرت عیسیٰ کو نبی سیاح لکھا ہے مگر وہ تو صرف ساڑھے تین برس اپنے ہی گاؤں میں رہ کر راہیٔ ملک سماوی ہوئے۔
ظاہر ہے کہ جبکہ صرف بیہودہ قصوں پر بھروسہ کر کے حضرت عیسیٰ کو خدا مانا جاتا ہے پھر اگر وہ یہ کرشمہ بھی دکھلاویں کہ آسمان سے معہ فرشتوں کے اُتریں تو اس وقت کیا حال ہوگا۔ یاد رہے کہ جو شخص اترنے والا تھا وہ عین وقت پر اُتر آیا اور آج تمام نوشتے پورے ہوگئے تمام نبیوں کی کتابیں اسی زمانہ کا حوالہ دیتی ہیں۔عیسائیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ اسی زمانہ میں مسیح موعود کا آنا ضروری تھا اُن کتابوں میں صاف طور پر لکھا تھا کہ آدم سے چھٹے ہزار کے اخیر پر مسیح موعود آئے گا۔ سو چھٹے ہزار کا اخیر ہوگیا۔ اور لکھا تھا کہ اس سے پہلے ذوالسنین ستارہ نکلے گا۔ سو مدت ہوئی کہ نکل چکا۔ اور لکھا تھا کہ اس کے ایام میں سورج اور چاند کو ایک ہی مہینہ میں جو رمضان کا مہینہ ہوگا گرہن لگے گا۔ سو مدت ہوئی کہ یہ پیشگوئی بھی پوری ہو چکی اور لکھا تھا کہ اس کے زمانہ میں ایک بڑے جوش سے طاعون پیدا ہوگی اس کی خبر انجیل میں بھی موجود ہے سو دیکھتا ہوں کہ طاعون نے اب تک پیچھا نہیں چھوڑا۔ اور قرآن شریف اور احادیث اور پہلی کتابوں میں لکھا تھا کہ اس کے زمانہ میں ایک نئی سواری پیدا ہوگی جو آگ سے چلے گی اور انہیں دنوں میںاونٹ بیکار ہو جائیں گے اور یہ آخری حصّہ کی حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے سو وہ سواری ریل ہے جو پیدا ہوگئی۔ اور لکھا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سرپر آئے گا۔ سو صدی میں سے بھی اکیس برس گزر گئے۔ اب ان تمام نشانوں کے بعد جو شخص مجھے رد کرتا ہے وہ مجھے نہیں بلکہ تمام نبیوں کو رد کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے جنگ کررہا ہے اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے بہتر تھا۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ23تا 25)