کوثر نیازی اور مسلمان کی تعریف کا چیلنج
مفتی منیب الرحمان صاحب کےایک کالم مطبوعہ روزنامہ دنیا 11؍ستمبر 2021ء میں جماعت احمدیہ پر اٹھائے جانے والے بعض اعتراضات کے جوابات
ستمبر کے مہینے کے آغاز سے ہی جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے جماعت کے خلاف نفرت انگیز مہم میں تیزی آجاتی ہے۔ جھوٹ اور سچ کی تمیز کے بغیر جماعت کو رقیق حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چنانچہ بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین و سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان صاحب کا ایک کالم مورخہ 11؍ستمبر 2021ء کو روزنامہ دنیا میں شائع ہوا جس میں انہوں نے 1953ء کے فسادات کی تحقیقاتی عدالت میں پیش ہونے والے جید علماء کی پتلی حالت پر پردہ ڈالتے ہوئے ان علماء کی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ تحقیقاتی عدالت پر ڈال دیا، اور عدالت کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ عدالت کے روبرو پیش ہونے والے مختلف علماء نے اپنی اپنی فہم کے مطابق الفاظ کے فرق کے ساتھ مسلمان کی تعریف بیان کی۔ لیکن تحقیقاتی عدالت نے فریب کاری سے کام لیتے ہوئے اسے علماء کی نااتفاقی سے تعبیر کیا، چنانچہ وہ کہتے ہیں: ’’1953ء کی ختم نبوت کی تحریک کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر نے مختلف مذہبی رہنماؤں سے الگ الگ بلا کر مسلمان کی تعریف پوچھی، سب نے اپنی اپنی فہم کے مطابق مسلمان کی تعریف بتائی اور ظاہر ہے کہ سب کا مفہوم ملتا جلتا تھا، لیکن یہ قرآن کی کوئی آیت تو نہیں تھی کہ سب کی زبان سے لفظ بلفظ اور من و عن ایک ہی جیسے کلمات ادا ہوتے۔‘‘
اس سلسلے میں پہلی گزارش یہ ہے کہ مفتی منیب الرحمان صاحب اپنے اس کالم میں جانتے بوجھتے ہوئے بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے حقائق کو چھپاتے ہوئےاپنے اس کالم میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا تمام علماء کو اچانک اس سوال کا سامنا کرنا پڑا، اور اس وجہ سے مختلف علماء نے اپنے فہم کے مطابق ’’مسلمان‘‘ کی الگ الگ تعریف بیان کی۔ حالانکہ یہ عدالت کسی گوشہ تنہائی میں قائم نہیں کی گئی تھی کہ جس کی کارروائی ان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتی۔ اسی طرح ان علماء کی گواہی ایک ہی روز میں مکمل نہ ہوئی تھی بلکہ بعض علماء کی گواہی بعض دوسرے علماء سے کئی ہفتوں بعد عمل میں آئی تھی۔ مزید برآں اس عدالت میں پیش ہونے والے زیادہ تر علماء متحدہ محاذ میں شامل تھے جو مشترکہ وکیل سے ہی صلاح مشورے کیا کرتے تھے۔
یاد رہے کہ جسٹس منیر اور کیانی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق کوئی سے دو علماء بھی ’’مسلمان‘‘کی ایک تعریف پر متفق نہ تھے۔ مصدقہ رپورٹ میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ تمام علماء کو پہلے سے اس سوال کے بارے میں بتا دیا گیا تھا اور ان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ مسلمان کی جامع اور مختصر تعریف بیان کریں۔ لہٰذا ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے مفتی منیب الرحمان صاحب کا یہ عذرکسی صورت بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے بعد مفتی صاحب نے 1973ء کی قومی اسمبلی کے حوالے سے علماء کا ایک ’’کارنامہ‘‘ان الفاظ میں بیان کیا، کہتے ہیں: ’’مولانا کوثر نیازی نے 1973ء کی اسمبلی میں علماء کو چیلنج کیا کہ وہ مسلمان کی ایک متفقہ تعریف پیش کردیں، اُسے دستور میں شامل کر دیا جائے گا۔ علماء نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اگلے دن مسلمان کی متفقہ تعریف مرتب کرکے اسمبلی میں پیش کردی اور حکومت کے پاس گریز کا کوئی راستہ نہ رہا، سو اس تعریف کو دستورِ پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔‘‘
لیکن جب ہم مفتی صاحب کے اس بیان کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں ایسا کوئی چیلنج 1973ء کی اسمبلی کی کسی کارروائی میں دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اوراق کی روگردانی کرتے ہوئے کوثر نیازی صاحب کا ایک چیلنج 1973ء کی بجائے 15 ؍اپریل 1972ءکی کارروائی میں ملتا ہے جہاں وہ’’مسلمان‘‘کی متفقہ تعریف کے حوالے سے جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ مولوی شاہ احمد نورانی صاحب کے ایک بیان کے جواب میں ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’علماء میں جو اختلافات موجود ہیں ان کی بناء پر ایک عالم دوسرے عالم سے مسلمان کی تعریف میں متفق نہیں ہے…منیر انکوائری رپورٹ آپ کے سامنے ہےوہاں علمائے کرام نے جس طرح مسلمان کی تاویل پیش کی اور جس طرح ان میں باہمی تضاد تھا۔ اختلاف تھا اور تصادم تھا اس سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ میں اس وقت بھی یہاں چیلنج کرتا ہوں کہ علماء کی کوئی متفقہ تعریف، اس ایوان کے سامنے پیش کریں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس ملک کے علماء مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، جمعیت العلمائے پاکستان ہی کو لیجئےاس میں بھی کئی گروپ بن گئے ہیں کوئی نورانی گروپ ہے کوئی سیالوی گروپ۔ میں ان کو چیلنج کرتا ہوں کہ ان کے جتنے ارکان یہاں بیٹھے ہیں وہ باہم مل کر مسلمان کی کوئی تعریف ہمارے سامنے پیش کریں ہم انہیں پندرہ منٹ دینے کے لئے تیارہیں وہ ایک ساتھ بیٹھ جائیں اور مسلمان کی کسی ایک تعریف پر متحد ہوجائیں۔ ہم اسے acceptکرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ آج بھی ان کے اندر باہمی اختلاف ہوگا اور وہ صحیح طور سے مسلمان کی کوئی ایک تعریف نہیں کر سکیں گے۔‘‘(کارروائی قومی اسمبلی 15؍اپریل 1972ء صفحہ 141)
کوثر نیازی صاحب کے مندرجہ بالا بیان کو سامنے رکھا جائے تو کسی کے لیے بھی یہاں اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ نیازی صاحب کا چیلنج تو مفتی منیب الرحمان صاحب کے بیان کے برعکس کچھ اور ہی نقشہ بیان کر رہا ہے۔ اس میں تو قطعا ًوہ مفہوم پایا ہی نہیں جاتا جو کہ مفتی منیب الرحمان صاحب اپنے کالم میں بیان فرما رہے ہیں۔ اوّل یہاں کوثر نیازی صاحب کے مخاطب صرف وہ علماء حضرات ہیں جو اس روز اسمبلی حال میں موجود تھے اس لحاظ سے صرف انہی کو مخاطب کرتے ہوئے پندرہ منٹ میں ’’مسلمان‘‘کی کوئی جامع اور متفقہ تعریف پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اپنے مخالفین کو دندان شکن جواب دینے اور آپس کا اتفاق و اتحاد ثابت کرنے کا اس سے بہترین اور آسان موقع ان علماء کے پاس نہ تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تمام علماء جو اس ایوان میں بیٹھے ہوئے تھے اپنے باہمی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے اور پندرہ منٹ کے اندر اندر مسلمان کی کوئی ایک جامع اور متفقہ تعریف سارے ایوان کے سامنے پیش کردیتے۔ مزید بر آں مولوی شاہ احمد نورانی صاحب اپنی تقریر میں مسلمان کی تعریف پہلے ہی پیش کر چکے تھے۔ اب کرنا تھا تو صرف یہ کہ نورانی صاحب کی بیان کردہ تعریف کی تائید میں دیگر تمام علماءسے تصدیقی بیانات حاصل کر کے اسپیکر صاحب کے حضور پیش کر دیے جاتےاور عوام کی نظر میں سرخرو ہوجاتے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ پندرہ منٹ تو درکنارپندرہ گھنٹے گزرنے کے باوجود علماء کوئی بھی متفقہ تعریف پیش کرنے سے قاصر رہے۔
یاد رہے کہ چیلنج دینے والے موصوف بھی ایک عالم دین تھے اور جن کو چیلنج دیا جارہا تھا وہ سب بھی علماء تھے، اور ایک عالم دین ہوتے ہوئے کوثر نیازی صاحب خوب جانتے تھے کہ ان کے مخالف علماء کبھی بھی ان کے چیلنج پر پورا نہیں اتر سکتے۔ حالانکہ عملی میدان میں یہی مولوی صاحبان کسی بھی کلمہ گو کو کافر یا غیر مسلم قرار دینےمیں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کرتے لیکن یہاں چیلنج کے باوجود خود کو عقل کل سمجھنے والے پندرہ منٹ میں کوئی متفقہ تعریف پیش نہ کر سکے۔
سب کی اس سبکی سے بچنے کی خاطر تیسرے روز یعنی 17؍اپریل 1972ء کو مولوی صاحبان کو خیال آیا کہ کوئی متفقہ تعریف پیش کرنی چاہیے، چنانچہ جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے مشہور دیوبندی عالم مولوی عبد الحق آف اکوڑہ خٹک نے مسلمان کی ’’متفق علیہ‘‘تعریف ان الفاظ کے ساتھ بیان کی: ’’خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمان وہ شخص ہے۔ جو کتاب و سنت یعنی ضروریات دین پر یقین رکھتا ہواور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہو۔‘‘(کارروائی قومی اسمبلی 17؍اپریل 1972ء صفحہ 354)
چاہیے تھا کہ مولوی عبد الحق صاحب اپنی بیان کردہ تعریف میں استعمال کی گئی اصطلاح ’’ضروریات دین‘‘ پر بھی خاطر خواہ روشنی ڈال دیتے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہتا۔ بہرحال اس اصطلاح کے استعمال کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ عوام کو یہ تاثر دیا جائے کہ احمدیوں کو چھوڑ کر باقی تمام فرقے ’’ضروریات دین‘‘پر پوری طرح ایمان اور یقین رکھتے ہیں۔ لیکن قارئین کو جان کر حیرانی ہوگی کہ مختلف فرقوں کے جید علماء نے ایک دوسرے کو دیگر امور دینیہ کی طرح’’ضروریات دین‘‘کا منکر قرار دینے میں بھی ذرا تامل سے کام نہیں لیا۔
چنانچہ بریلوی فرقے کے چوٹی کے عالم دین اور صحیح بخاری کے شارح مفتی شریف الحق امجدی صاحب دیوبندی علماء کو ’’ضروریات دین‘‘کا منکر ہونے کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جماعت دیوبند کے یہ اکابر یعنی قاسم نانوتوی صاحب، رشید گنگوہی صاحب، خلیل احمد انبیٹھوی صاحب، اشرف علی تھانوی صاحب نے ضروریات دین کا انکار کیا، اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی، جس کے بعد ایک مسلمان کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ ان چاروں کو یقیناً حتماً کافر جانے۔‘‘(مسئلہ تکفیر اور امام احمد رضا، مصنفہ مفتی محمد شریف الحق امجدی، صفحہ 55)
یہی گمان دیوبندی علماء کا اہل تشیع کے بارے میں نظر آتا ہے۔ چنانچہ نامور دیوبندی عالم مولوی ضیاء الرحمان فاروقی صاحب اہل تشیع کے متعلق یوں گویا ہوتے ہیں: ’’پوری دنیا میں اسلام کی اصل روح کو مسخ کرنے کے لئے اسلام ہی کے نام پر قائم ہونے والی اس گروہ کی سازشوں اور مکاریوں سے اسلام کا سینہ چھلنی ہے۔ اس کی سازشوں سے قرونِ اولیٰ اور وسطیٰ کی پوری تاریخ زخمی ہے…نبوت کے مقابلہ میں متعہ اور امامت کے عقیدہ کی بنیادکے باعث یہ گروہ ضروریات دین سے یکسر علیحدہ ہوچکا ہے۔‘‘(خمینی ازم اور اسلام، مؤلفہ ضیاء الرحمان فاروقی، ناشراشاعت المعارف ریلوے روڈ فیصل آباد، صفحہ 21)
اہل حدیث بھی اس وار سے بچے ہوئے نظر نہیں آتے وہ بھی دوسرے فرقوں کے نزدیک ضروریات دین کے منکر ٹھہرتے ہیں۔ چنانچہ ایک اور مشہور و معروف بریلوی عالم مفتی جلال الدین امجدی صاحب تمام اہل حدیث کو کافروں اور مرتدوں کی صف میں کھڑا کر کے فرماتے ہیں: ’’جماعت میں غیر مقلدوں کے شریک ہونے سے بیشک نماز میں خرابی پیدا ہوتی ہے اس لئے کہ ان کی نماز باطل ہے…حنفیوں پر لازم ہے کہ ان کو اپنی مسجد میں آنے سے منع کریں …اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی تحریر فرماتے ہیں کہ غیر مقلدین زمانہ بحکم فقہا و تصریحات عامہ کتب فقہ کافر تھے…اور تجربہ نے ثابت کر دیا کہ وہ ضرور منکرین ضروریات دین ہیں اور ان کے منکروں کے حامی و ہمراہ تو یقیناًقطعاً اجماع ان کے کفر و ارتداد میں شک نہیں۔‘‘(فتاویٰ فیض الرسول جلد اول صفحہ 338، مصنف مفتی جلال الدین احمد امجدی، ناشر شبیر برادرز 40 بی اردو بازار لاہور)
15؍اپریل کی کارروائی کی ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولوی کوثر نیازی صاحب کے جواب میں جمعیت علمائے پاکستان کے ہی ایک اور ممبر اسمبلی مولوی عبدالمصطفی الازہری نے جوابی تقریر کی۔ انہوں نے کوثر نیازی صاحب کو طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنایااوریہ دعویٰ بھی کیا کہ مسلمان کی تعریف کو لے کر علماء میں کوئی اختلاف نہیں۔ چنانچہ اپنے موقف کی تائید میں انہوں نے 1951ء کے ان ’’بائیس نکات‘‘ کا تذکرہ کیا جومختلف مسالک سے تعلق رکھنے والےعلماء کی طرف سے پیش کیے گئےتھے۔ اسی طرح اس بات کا بھی اظہار کیا کہ علماءمسلمان کی متفقہ تعریف پیش کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں لیکن کوئی بھی تعریف پیش کیے بغیر اپنی نشست پر براجمان ہوگئے۔ (کارروائی قومی اسمبلی 15؍ اپریل 1972ء صفحہ151 تا 153)
لیکن مفتی منیب الرحمان صاحب کی طرح یہ مولوی صاحب بھی حقائق کے برعکس مختلف واقعات کو تروڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے تھے۔ ان بائیس نکات کی حقیقت کیا تھی اور ان نکات کے حوالے سے علماء میں کس قدر اتفاق و اتحاد تھا، اس بارے میں اسی اسمبلی کے ایک ممبر اور جماعت احمدیہ کے شدید معاند، مولوی غلام غوث ہزاروی بھی کچھ بیان کرتے ہیں اور علماء کی نااتفاقی کا قصوروار جماعت اسلامی اور مولوی ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو گردانتے ہوئےکہتے ہیں: ’’مودودی صاحب کے بارہ میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ نہ وہ پہلے کبھی اسلامی نظام چاہتے تھے اور نہ اب چاہتے ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1951ء میں اسلامی نظام کے مطالبے کے لیے اکتیس علماء کراچی میں اکٹھے ہوئے اور بقول مولانا محمد علی صاحب جالندھری، مودودی صاحب نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حکومت سے اسلامی نظام کا مطالبہ نہیں کرنا چاہتے اور وہ کانفرنس سے اٹھ کر جانے لگے۔ اس ڈر سے کہ حکومت کا یہ اعتراض درست ثابت نہ ہو جائے کہ علماء کے اندر اتفاق نہیں ہےانہیں بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر بٹھایا اور وعدہ کیا کہ حکومت سے اس قسم کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ اور اس کی بجائے اسلامی حکومت کا صرف خاکہ مرتب کیا جائے گا۔ یہ تھی ابتدا اور انتہا یہ ہوئی کہ سیاسی لیڈروں کی گول میز کانفرنس میں جب شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے بائیس نکات کے مطابق اسلامی نظام کا مطالبہ کیا تو اس خود ساختہ مجتہد نے منہ میں گھنگنیاں ڈال لیں اور بعد میں کہا کہ چونکہ ایوب خان کا موڈ خراب تھا اس لیے اس قسم کا مطالبہ پیش کرنا مناسب نہ تھا۔ پھر انہوں نے ایسی خرافات لکھیں کہ عام مسلمانوں اور علماء میں سر پھٹول ہوئی۔‘‘(نوائے انقلاب، صفحہ 20، انٹرویوز و تقاریر مولوی غلام غوث ہزاروی، مرتبہ شمس القمر قاسمی، مطبع شرکت پرنٹنگ پریس، عزیز پبلیکیشنز لاہور)
دینی اور مذہبی معاملات کے نام پرقومی اسمبلی کی یہ کارروائی کس قدر سنجیدگی کی تصویر پیش کر رہی تھی اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اسی کارروائی کے دوران پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی احمد رضا خان قصوری نے کچھ ایسی بات کہی کہ مولوی غلام غوث ہزاروری بہت سیخ پا ہوئے اور کہنے لگے: ’’جناب صدر صاحب یہ مذاق ہے! میں اس کے خلاف احتجاج کرتا ہوں، اس کو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ اسلام کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ احمد رضا صاحب اپنے الفاظ واپس لیں، یہ سنت کی توہین ہے۔‘‘(کارروائی 15؍اپریل 1972ء صفحہ 211)
بہر حال کذب بیانی اور مبالغہ آرائی کا یہ سلسلہ آپ کو ہر سطح پر نظر آئے گا مثلاً بریلوی مکتبہ فکر سے ہی تعلق رکھنے والے سہ ماہی رسالہ ’’انوار رضا‘‘میں مولوی شاہ احمد نورانی صاحب کی وفات کے بعد ان سے اظہار عقیدت میں ایک نمبر شائع ہوا جس میں مسلمان کی متفقہ تعریف کو نورانی صاحب کا ایک کارنامہ گردانتے ہوئے اور مَیل کا بیل بناتے ہوئےپندرہ منٹ کے چیلنج کو کھینچ کر پندرہ دن کا چیلنج بنا دیا۔ (سہ ماہی انوار رضا، جلد 3 شمارہ 4، صفحہ 68، انوار رضا لائبریری بلاک نمبر 4 جوہرآباد ضلع خوشاب)
چنانچہ اسی کالم میں مفتی منیب الرحمان صاحب ایک اور دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جب مرزا ناصر سے سوال کیا جاتا تو کتاب بھی اس کے سامنے پیش کر دی جاتی، پس اسے انکار کی مجال نہ تھی۔‘‘جبکہ گورنمنٹ کی شائع شدہ کارروائی مفتی صاحب کے دعوے کے برخلاف کچھ اور ہی منظر پیش کر رہی ہے۔ مثلاً ایک موقع پر تو چیئر مین صاحب ممبران اسمبلی سے کچھ یوں مخاطب ہوتے ہیں: ’’میں ایک چیز آنریبل ممبرز کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن ممبر صاحبان نے سوالات دئیے ہیں، ساتھ حوالہ جات بھی دیا کریں۔‘‘
اس کے بعد کسی قدر برہمی کے ساتھ ممبران سے یوں مخاطب ہوتے ہیں: ’’یہ طریقہ کار بالکل غلط ہے کہ ایک حوالہ کو تلاش کرنے میں آدھ گھنٹہ لگتا ہے۔ میں کل سے یہی کہہ رہا ہوں کہ یہ میز جو ہے اس پر کتابیں یہاں رکھیں …books جو ہیں وہ ریڈی ہونی چاہئیں تاکہ اٹارنی جنرل کو difficulty نہ ہو اور ٹائم waste نہ ہو۔‘‘(کارروائی خصوصی کمیٹی 6؍اگست 1974ء صفحہ300)
اگر صرف حوالہ جات کی ہی بات کی جائے جو اٹارنی جنرل صاحب اور ان کے معاونین کی طرف سے پیش کیے گئے تھے تو وہاں غلط اور جعلی حوالہ جات کا سلسلہ اتنا طویل نظر آتا ہے کہ اسے بیان کرنے میں کئی صفحات درکار ہوں گے۔
مفتی منیب الرحمان صاحب نے یہ بھی کہا کہ جماعت احمدیہ کے مسئلےکو لے کر اٹارنی جنرل صاحب کی مہارت نہایت نمایاں تھی۔
لیکن مفتی صاحب کے اس بیان کے برخلاف 1974ء کی اسمبلی کے ہی ایک اور ممبر اور پیپلز پارٹی کے اہم راہ نما ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے ایک انٹرویو میں اٹارنی جنرل یعنی یحییٰ بختیار صاحب کے بارےمیں سوال کیا جاتا ہے تو وہ انہیں جاہل اور بیوقوف قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اٹارنی جنرل کو جو لکھ دیا جاتا تھا وہ بغیر سوچے سمجھے پڑھ دیتے تھے۔ خود اٹارنی جنرل صاحب کا ایک مرتبہ کا بیان ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کے مذکورہ بالا بیان کی بھرپور تائید کرتا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ اٹارنی جنرل کو حوالہ جات بیان کرنے میں بہت دقت ہوئی اور جماعت احمدیہ کے وفد کے سامنے انہیں اور ان کی معاونت کرنے والی ٹیم کو بہت شرمندگی اٹھانا پڑی۔ جب جماعتی وفد اسمبلی ہال سے رخصت ہوا تو اٹارنی جنرل صاحب نے کرکٹ کا محاورہ استعمال کرتے ہوئے ممبران سے درخواست کی
’’but I request the honorable members not to supply me loose balls to score boundaries‘‘
یعنی ممبران اسمبلی مجھے ایسی گیندیں مہیا نہ کریں جس پر مجھے چوکے چھکےلگیں۔ (کارروائی خصوصی کمیٹی صفحہ548)
مفتی منیب الرحمان صاحب نے جماعت احمدیہ کے وفد کی پارلیمنٹ میں شامل ہوکر اپنا موقف بیان کرنے کی درخواست پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے جماعت احمدیہ کی خودکشی سے تعبیر کیا۔ لیکن اگر تعصب کی عینک اتاری جائے تو ہر ذی شعور اس بات کو کہنے پر مجبور ہوگا کہ جماعت احمدیہ نے پارلیمنٹ میں پیش ہوکر کوئی خودکشی نہیں کی لیکن مفتی منیب صاحب کا یہ کالم ان کے اپنے پاؤں پر کلہاڑا ضرور ثابت ہوا۔
٭…٭…٭