متفرق مضامین

حضرت اُمّ عمّارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

(سعدیہ وسیم۔ جرمنی)

تعارف: حضرت اُمّ عمّارہ کا اصل نام ’’نُسَیبہ‘‘تھا لیکن تاریخ ِاسلام میں آپ اپنی کنیت’’ اُمّ عمّارہ‘‘ہی سے مشہور ہوئیں۔ آپؓ انصار کے قبیلہ خزرج کے معزز خا ندان’’نجار‘‘ سے تعلق رکھتی ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب کی والدہ سلمیٰ خاندانِ نجار سے تھیں جو کہ مدینہ کاایک معزز خا ندان تھا اور آپؐ بھی اس خا ندان کو بہت محبوب رکھتے تھے۔

آپؓ کی پیدائش: حضرت اُمّ عمّارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہجرت سے تقریباً چالیس سال پہلے مدینہ میں پیدا ہو ئیں۔

آپؓ کا پہلا نکاح اور اولاد: آپؓ کا پہلا نکاح زید بن عاصم سے ہوا۔ جو آپ کے چچا زادتھے۔ زیدسے دو بیٹے عبداللہ اور حبیب پیداہوئے۔

آپؓ کا دوسرا نکاح اور اولاد: زید کے انتقال کےبعد عربہ بن عمرو سے آپؓ کا نکاح ہوا۔ جس سے تمیم اور خولہ پیدا ہوئے۔ ( ماخوذ ازحضرت اُمُِ عمّارہ ر ضی اللہ تعا لیٰ عنہا بسلسلہ صد سالہ خلافت جو بلی صفحہ1)

آپؓ کاقبولِ اسلام: حضرت اُمّ عمّارہ نے عقبہ ثانیہ کے وقت اسلام قبول کیا۔ یہ واقعہ ہجرت سے تین ماہ قبل ہوا جب حضرت مصعب بن عمیرؓ مدینہ کے ایک وفد کو لے کر مکّہ روانہ ہوئے۔ …مدینہ کے لوگ یہ ارادہ کرکے آئے تھے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے اسلام قبول کرتے ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو مدینہ آ نے کی دعوت دی۔ …اس وفد میں حضرت اُمّ ِ عمّارہ اور ان کے شوہر عربہ بن عمروؓ شامل تھے اس لیے انہیں پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہونے کا شرف حا صل ہے۔

آپؓ کی بہادری اور دلیری: ہجرت کے تیسر ے سال کا ذکر ہے شوال کا مہینہ تھا کہ اچانک اہل مدینہ کو یہ خبر ملی کہ ابوسفیان ایک بڑے لشکر کے ساتھ جنگ کے لیے روانہ ہوا ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئےآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بھی جنگ کی تیاری کا حکم دیا۔ حضرت اُمّ عمّارہؓ دوسری خواتین کے ساتھ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور جنگ میں شمولیت کی اجازت لی۔ تاریخ اسلام میں یہ غزوہ حضرت اُمّ عمّارہ کی دلیری کی وجہ سےہمیشہ یاد رہے گا۔ اس جنگ میں حضرت امّ عمّارہؓ نے اپنے خاوند اور دو بیٹوں کے ساتھ شرکت کی۔ آپؓ اور آپؓ کے بیٹوں نے میدان ِ جنگ میں دشمن کی تلواروں اور تیروں کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ حضرت اُمّ عمّار ہ جنگ ِاُحد میں زخمیوں کو پانی پلاتی پھر رہی تھیں، جب انہوں نےآ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرات میں گھرا پایا تو اُن سے برداشت نہ ہوا ۔آپؓ نے مشکیزہ وہیں زمین پر پٹخ کر تلوار اٹھائی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر کفار کے سامنے سینہ سپرہو گئیں۔ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حضرت اُمِّ عمّارہؓ کی اس بہادری اور جرأت کو دیکھ کر ان کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ اور ان کا حو صلہ بڑھاتے رہے۔

آپؓ فرماتی ہیں: ’’ جس وقت اُحد کے مقا م پر مسلمانوں میں بھگدڑ پڑ گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دس آدمی بھی باقی نہ رہے تو میں اور میرا شوہر عربہ بن عمروؓ اور میرے دو بیٹے عبد اللہ اور حبیب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہو کر دشمن کے غول سے مقابلہ کرتے رہے جب کہ بعض لوگ آپؐ کے سامنے ہی بھاگ جاتے تھے۔ اسی اثناء میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اچانک مجھ پر پڑی تو آپؐ نے دیکھا کہ میرے پاس سِپر( ڈھال ) نہیں ہے۔ اس لیے آپؐ نے ایک بھاگنے وا لے سے جس کے پاس سِپر تھی یہ فرمایاکہ’’ اے سِپروالے!اپنی سِپرکسی لڑنے والے کو دیتا جا!چنانچہ اس نے بھاگتے بھاگتے اپنی سِپر زمین پر ڈال دی میں جھٹ اسے اٹھا کر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے روک بن کر کھڑی ہو گئی۔ اس وقت مشرک لوگ ہم پر بہت زیادتیاں کر رہے تھے وجہ یہ تھی کہ وہ سوار تھے اور ہم پیدل۔‘‘

آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب گھڑ سوار بار بار حملے کر رہے تھے۔ جہاں تک اُمّ عمارہؓ اور ان کے بیٹوں کا بس چلتا یہ مشرکین کے سامنے سینہ سِپر ہو جاتے۔ یہ نازک وقت تھا بڑے بڑے بہادروں کے قدم لڑ کھڑا گئے۔ لیکن یہ شیر دل خا تون کوہِ استقامت بن کر میدان جنگ میں ڈٹی ہو ئی تھیں اچانک ہی ایک مشرک نے آپؓ کے سر پر پہنچ کر اپنی تلوار کا وار کیا۔ اُمّ عمارہؓ نے اِ سے اپنی ڈھال پر روکا اور وہ مشرک بھاگ گیا۔ دوبارہ اسی مشرک نے اُمّ عمارہ پر اپنی تلوار کا وار کیا آپؓ نے اپنی ڈھال پر روکا اور مشرک کے گھوڑے کے پاؤں پر تلوار کا ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ گھوڑا اور سوار دونوں زمین پر گر گئے۔ …آپؐ نے اُمّ عمّارہ کے بیٹے عبداللہؓ کو پکارکر فرمایا !عبداللہ اپنی ماں کی مدد کرو۔ وہ فوراًادھر لپکے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اس مشرک کو قتل کردیا۔ اُسی وقت ایک اور مشرک تیزی سے ادھر آیا اور حضرت عبداللہؓ کا بایاں بازو زخمی کرتا ہوا نکل گیا۔ حضرت اُمّ عمّارہ نے اسی وقت اپنے ہاتھ سے عبداللہ کے زخم پر پٹی باندھی اور کہا’’بیٹے جاؤاورجب تک دم میں دم ہے لڑو۔‘‘

آپؐ نے ان کاجذبہ جاںنثاری دیکھ کر فرمایا:

مَنْ یُطِیْقُ مَا تُطِیُقِیْنَ یَا اُمِّ عَمَّارَۃؓ !

ترجمہ: اے اُمّ عمارہؓ جتنی طاقت تجھ میں ہے اَور کسی میں کہاں ہو گی!

اسی اثناء میں وہی مشرک جس نے عبداللہؓ کو زخمی کیا تھا۔ پلٹ کر پھر حملہ آ ور ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُ مّ عمّارہؓ سے فرمایا:

’’اے اُمّ عمارہ سنبھلنا یہ وہی بدبخت ہے جس نے عبد اللہ کو زخمی کیا تھا۔‘‘

حضرت اُمّ عمارہؓ جوش غضب میں اس کی طرف جھپٹیں اور تلوار کا ایسا کاری وار کیا کہ وہ ٹکڑے ہو کر نیچے گر پڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر خوب ہنسے یہاں تک کہ آپؐ کے سامنے کے دانت کھل گئے اور فرمایا! اے اُمِّ عمارہؓ آخر تو نے بدلہ لے ہی لیا۔ اسی اثناء میں ایک بد بخت نے دور سےآ نحضرتؐ پر پتھر پھینکا۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو دندان مبارک شہید ہو گئے۔ اِبنِ قمئہ نامی کافر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر سے وار کیا۔ جس سے آپؐ کی زرہ کی دو کڑیاں رخسار مبارک میں کُھب گئیں۔ یہ دیکھ کرشمع رسالت کے پروانے مضطرب ہو کر ادھر متوجہ ہوئے۔ تو وہی کا فر دوبارہ گھوڑا دوڑاتا ہوا آ یا اور آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تلوار کا بھر پور وار کیا۔ حضرت اُ مّ عمّارہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قریب ہی تھیں حضرت اُ مّ عمارہؓ نے وار کو اپنے اوپر لیا اور پھر تلوار تول کر اس پر اپنا وار کیا۔ وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا۔ اس لیے اُمّ عمارہ کی تلوار ہاتھ سے گر گئی اسی دوران ابن قمئہ کو جوابی کا رروائی کرنے کا موقع مل گیا۔ حضرت اُمّ عمارہ کے کندھے پر شدید زخم آ یا۔ لیکن ابن قمئہ کو بھی پھر ٹھہرنے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ تیزی سے گھوڑا دوڑا کر بھاگ گیا۔ اس معرکہ میں اُمّ عمارہ کو بارہ زخم لگے۔ حضرت اُمّ عمارہؓ کے زخموں سے تیزی سے خون نکل رہا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے ان ز خموں پر پٹی بندھوائی اور کئی بہادر صحابہ کا نام لے کر فرمایا واللہ! آج عمّارہؓ نے ان سب سے بڑھ کر بہادری دکھائی۔ حضرت اُ مّ عمارہؓ نے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان میرے لیے دعا فرمائیے کہ جنت میں بھی آپؐ کی معیت نصیب ہو۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت تو جہ سے ان کے لیے دعا مانگی اور بلند آواز سے فرمایا:

اللّٰھُمَّ اجْعَلْھُمْ رُفَقَائِی فِی الْجَنَّۃِ

تر جمہ: اے اللہ ! انہیں جنت میں میرا رفیق بنادے۔

یہ سن کر حضرت اُمّ عمّارہؓ کو بڑی مسرت ہو ئی اور ان کی زبان پر بے اختیار یہ الفاظ جاری ہو گئے۔

مَا ابَالِی مَا اَصَا بَنِی مِنَ الدُّنْیا

تر جمہ: اب مجھے دنیا میں کسی مصیبت کی پروا نہیں۔

جنگ کے اختتام پر آ نحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک گھر تشریف نہ لے گئے۔ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن کعب ما زنیؓ کو بھیج کر حضرت اُمّ عمارہ کی خیریت دریافت نہ کرلی۔

آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اُ حد کے دن میں دائیں بائیں جدھر نظرڈالتا تھا، اُمّ عمارہ ہی اُمّ عمّارہ لڑتی نظر آ تی تھیں۔ (حضرت اُمُِ عمّارہ ر ضی اللہ تعا لیٰ عنہا بسلسلہ صد سالہ خلافت جو بلی صفحہ 2تا13)

حضرت ام عمارہؓ کی زندگی ہم احمدی عورتوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی بہادری، جرأت اور دین کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا سبق رکھتا ہے۔ آج جب اسلام کے نام پر حملے ہورہے ہیں ہر احمدی عورت کا فرض ہے کہ حضرت عمارہؓ بن کر جرأت اور بہادری کے ساتھ آگے بڑھے اور دربارِ خلافت سے ملنے والی ہدایات کی روشنی میں ان حملوں کا جواب دے کسی بھی قسم کی احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر دین کی ناموس اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے اور اپنی گودوں میں پلنے والے احمدیت کے چمکتے ستاروں کی بھی ایسی ہی پرورش کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button