الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

براعظم آسٹریلیا کے قدیم مذاہب

براعظم آسٹریلیا 76لاکھ 17 ہزار 930مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ انسائیکلوپیڈیاکے مطابق تقریباً اڑتالیس ہزار سال قبل تک آبادی کا سراغ یہاں ملتا ہے۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 27 اور 28؍مارچ 2013ء کے شماروں میں شائع ہونے والے ایک طویل تحقیقی مضمون میں آسٹریلیا کے قدیم مذاہب کے متفرق عقائد، تعلیمات اور رسوم و رواج کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒلکھتے ہیں کہ یہ وہ براعظم ہے جس کی ثقافت، معاشرت اور مذہبی تاریخ کم از کم پچیس ہزار سال پر پھیلی ہوئی ہے اور بہت سے محققین کے نزدیک اس کا عرصہ چالیس ہزار سال بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اور بعض تاریخ دانوں کے نزدیک یہ عرصہ ایک لاکھ تیس ہزار سال تک ممتد ہے۔ اس عرصہ میں بغیر کسی وقفہ، ملاوٹ اور خلل کے مذہب کی نشوونما جاری رہی۔

آسٹریلیا کے قدیم باشندے کم وبیش اڑھائی سو لسانی گروہوں میں تقسیم تھے اور روایتاً دوسروں سے میل جول اور روابط کو سخت ناپسند کرتے تھے چنانچہ ان کا مذہبی اور معاشرتی ارتقاء بالکل الگ الگ اپنی اپنی ڈگر پر جاری رہا۔

The Encyclopaedia of Aboriginal Australia میں درج ہے کہ براعظم آسٹریلیا کے مقامی لوگوں میں قدیم تصورات کاطویل سلسلہ ،نہایت عجیب حد تک مشترک بھی ہے اور مختلف بھی۔ ماہرین متفق ہیں کہ دراصل یہاں ایک ہی مذہب ہے جو Sociocultural اختلافات کے باوجود اپنی مرکزیت میں ایک ہی ہے۔
1606ء میں ڈچ مہم جوؤں نے اس پُرسکون علاقہ کو دریافت کیا اور پھر کالونیاں بنانے کے لیے یہاں بھی وہ سب کچھ ہوا جو باقی دنیا میں کیا گیا تھا چنانچہ مقامی لوگوں کی تعدادجو پہلے قریباً پانچ لاکھ نفوس تھی، آج آسٹریلیا کی کُل آبادی کا محض 2.3فیصد رہ گئی ہے۔ وسطی آسٹریلیا آبادی سے تقریباً خالی اور بے آباد ہے۔مگر قدیم اقوام یعنی Aboriginies شمالی اور وسطی علاقوں میں تاحال اپنے روایتی مذہبی طور طریقوں اور قدیم طرز زندگی کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا زیادہ ارتکاز Murray Riverکے ساتھ ساتھ ہے۔ اگرچہ ان کی نئی نسل جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر ہر شعبے میں موجود ہے تاہم ان لوگوں کی انگریزی زبان میں قدیم مقامی الفاظ اور محاورات کی اس قدر آمیزش ہے کہ اس کو الگ نام ’’آسٹریلین ایبوریجنل انگلش‘‘ دیا گیا ہے۔ معروف اصطلاح Aborigineلاطینی سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے: ’’اوّلین معلوم یا قدیم ترین مقامی انسان‘‘۔

مقامی لوگوں میں اپنی تاریخ اور مذہب کا تحریری ریکارڈ رکھنے کا رواج نہ تھا چنانچہ اس حوالے سے تمام تر معلومات سیاحوں کی بیان کردہ ہیں۔قدیم آسٹریلیا کی چھ صد زبانوں میں سے محض چند ایک کا علم کتابی شکل میں مدون تھا۔ نیزپہاڑی غاروں میںملنے والی عبادت گاہوں کے آثار، وہاں موجود نقش ونگار وغیرہ بھی تحقیق میں معاون بنتے ہیں۔

ایبوریجنیز پرتحقیق کرنے والوں میں جرمنی کے ایک رومن کیتھولک پادری پیٹرولیم شمٹ (Peter William Schmidt) نے 1912ء اور 1925ء کے درمیان نہایت عرق ریزی سے سائنسی اصولوں کی روشنی میں بارہ جلدوں پر مشتمل ایک تحقیقی کتاب لکھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں : بہت سے غیر ملکیوں نے جو اُن قبائل کی زندگی اور تاریخ پر تحقیق کر رہے تھے اُن کے عقائد کو غلط طور پر سمجھا اور پھر اُن عقائد کو غلط طریق پر دنیا کے سامنے پیش بھی کیا۔ اس حوالے سے چند امور خاص توجہ طلب ہیں:

٭…نظریہ توحید انسانی سرشت پر مرتسم ہےجیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ (الاعراف:173)۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’آسمان کے لوگ بھی اس کے نام کو پاکی سے یاد کرتے ہیں اور زمین کے لوگ بھی۔ اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ آسمانی اجرام میں آبادی ہے اور وہ لوگ بھی پابند خدا کی ہدایتوں کے ہیں۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی)

محققLangاپنی کتابMyth, Ritual and Religionکے حصہ اول مطبوعہ 1901ء میں لکھتا ہے کہ ’’محققین کے نزدیک آسٹریلیا کی ان قدیم اقوام کے ’توہماتی‘ اور ’مذہبی‘ معاملات آپس میں گڈ مڈ ہوگئے ہیں۔‘‘

ان اقوام میں مستعمل لفظ ’’ہائی گاڈز High Gods‘‘ کی بابت حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: High Godsکی اصطلاح جمع پر دلالت نہیں کرتی جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کیونکہ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کی زبان میں یہ اصطلاح ہمیشہ ایک واحد بالا تر ہستی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ لوگ تعظیماً اس ہستی کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہوں۔

ایک الجھاؤ یہ دیا جاتا ہے کہ آسٹریلیا کے مذاہب اوران کی توحید والے عقائد عیسائی مشنریوں کی تبلیغ کے زیراثر ہیں لیکن یہ بات کئی لحاظ سے غلط ٹھہرتی ہے: اوّل زمانہ کا فرق غیرمعمولی ہے۔ دوم عیسائی تبلیغ کا اثر ہوتا تو پھر توحید کی بجائے تثلیث نظر آنی چاہیے مگر سارے آسٹریلیا کی قدیم اقوام میں تثلیث کا ذکر نہیں ملتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ تہذیب کے ادنیٰ ترین مقام پر جو قبائل اس وقت دنیا میں پائے جاتے ہیں اور مشرکانہ خیالات میں شدّت سے مبتلا ہیں ان میں بھی ایک خدا کا خیال پایا جاتا ہے۔ اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ توحید کا دَور پہلا تھا کیونکہ ان کے حالات سے ثابت ہے کہ وہ باوجود ایک بڑے خدا کو ماننے کے اس کی پوجا نہیں کرتے۔ پوجا وہ اپنے قومی دیوتائوں کی ہی کرتے ہیں۔ آسٹریلیا، میکسیکو، افریقہ کے قبائل کی تحقیق جو موازنۂ مذاہب والوں نے کی ہے اس میں تسلیم کیا ہے کہ ان اقوام میں ایک بڑے خدا کا خیال موجود ہے جو ان کے نزدیک نظر نہیں آتا اور آسمانو ںپر ہے۔ پھر آسٹریلیا کا علاقہ جو چند صدیوں سے ہی دریافت ہوا ہے اور جہاں کے لوگ باقی دنیا سے بالکل منقطع ہورہے تھے اور اس قدر وحشی اور خونخوار تھے کہ ان کا قریباً خاتمہ ہی کر دیا گیا ہے ان کے ایک قبیلہ کا نام آرنٹا ہے وہ ایک ایسے خدا کا قائل ہے جسے آلٹجیرا کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چونکہ وہ حلیم ہے اس لیے سزا نہیں دیتا پس اس کی عبادت کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا کے بعض اور قدیم باشندے نورینڈیئر کو شریعت دینے والا خدا سمجھتے ہیں۔ ووممبو ایک پرانا وحشی قبیلہ ہے وہ نوریلی کے نام سے ایک زبردست خدا کی پرستش کرتا ہے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)

ایبوریجنیز کے موحدانہ عقائد سے خوفزدہ ہوکر توحید کے دشمن عناصر نے اہل آسٹریلیا کو کسی ’’مہذب دنیا‘‘ سے آئے ہوئے مہاجر ثابت کرنے کی کوششیں کیں، نیز ان کے ’’اساتذہ ‘‘ کی تلاش میں بھی مصروف رہے۔ مگر 2011ء کے دوران تحقیق کاروں نے ایبوریجنیز کے ’’جینیاتی مواد‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ حیران کن ثبوت حاصل کیے کہ ان کی آبادی باسٹھ سے پچھتر ہزار سال قبل یورپین اور ایشین آبادی سے الگ ہوگئی تھی یعنی یورپین اور ایشیائی آبادی کے متفرق ہونے سے قریباً چوبیس ہزار سال قبل۔

٭…قرآن کریم فرماتا ہے:کوئی قوم ایسی نہیں جس میں ہوشیار کرنے والا نبی مبعوث نہ ہوا ہو۔ (سورۃ الفاطر:25)

پس اگرچہ کسی ایک بھی نبی کا ذکر نہ ملے مگر آسٹریلیا کے قدیم لوگوں کے حالات اور ان کی میسر اور محفوظ تعلیمات ہی گواہی دے رہے ہیں کہ ان اقوام میں خدائی ہدایت پہنچانے والے ضرور آئے۔

٭… تمام آسٹریلیا میں یہ عمومی عقیدہ پایا جاتا ہے کہ دنیا، انسان ، جانور اور پودوں کو خاص ’’مافوق الفطرت ہستیوں‘‘ نے پیدا کیا اور بعد ازاں یہ وجود آسمان اور زمین میں غائب ہوگئے۔ سارے آسٹریلیا میں ایک ہی تصور ہے کہ ساری مادی کائنات آغاز سے ہی اسی شکل میں موجود تھی۔ انسانی وقت تب شروع ہوا جب دیوتاؤں نے انسانوں جیسی تخلیق کو جنم دیا، اسے ساری زمین پر پھیلایا، عبادت کے طریق سکھائے اور جب وہ مافوق الفطرت وجود اپنی ’’Physical Death‘‘کو پہنچے تو پہاڑوں کی چوٹیوں اور متفرق نشیب وفراز کی صور ت میں اپنے اثرات اور نشانیاں پیچھے چھوڑ گئے۔ محقق Howitt نے اپنی کتاب Native Tribes میں لکھا ہے کہ ان قدیم اقوام کا معبود ’’All Fathers‘‘کا وجود قبیلے کے سردار کی طرز پر ہوتا ہے جس کی صفات میں شامل ہے کہ اس نے ساری دنیا یا اس کا بڑا حصہ تخلیق کیا، اس کے اَور بھی غیرمعمولی کام ہیں، اس کا نام نامی سوائے خاص مقدس مواقع کے لینا معاشرتی طور پر ممنوع ہے۔وہ ہر جگہ جاسکتا ہے اور ہر کام کرسکتا ہے۔ ان مافوق الفطرت ہستیوں کے متفرق کاموں میںزمین کی فطری پیداوار کا خیال رکھنا، موسموں کا ادل بدل کرنا، زمین کی زرخیزی بحال رکھنا، زمین پر توازن قائم رکھنے کے لیے دیگر متفرق (Species) اجناس وانواع کی بھرائی کرتے رہنا شامل ہیں۔ یہ تصور بھی ہے کہ وہ تمام جگہیں جہاں وہ Mythical Beingsرہتی ہیںوہ قیمتی ذخائر کا مجموعہ ہوتی ہیں وہ طاقت ازل سے ہے اورنہ کمزور ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں کمی آتی ہے۔

یہ بالاہستیاں صرف اُن پر ظاہر ہوتی ہیں جو اِن ہستیوں سے خاص روحانی تعلق رکھتے ہیں یعنی لوگ بھی از خود ان بالاہستیوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ہر علاقہ میں ایسے طاقت کے ذخائر ہوتے ہیںجن میں ایک یا دو ایسی بالا ہستیاں موجود رہتی ہیں لیکن DreamTimeکے ختم ہوجانے کی وجہ سے ہم براہ راست ان کو دیکھ نہیں پاتے ہیں۔یہ بالاہستیاں اپنی جگہ موجو دتو ہوتی ہیں لیکن انسانی عمل دخل کا انتظار کررہی ہوتی ہیں مثلاً ایک بچہ کی ولادت سے قبل اس کے اندر روح کے ادخال کے دو طریق ہوسکتے ہیں اول وہ عورت جو حاملہ ہونے والی ہے وہ کسی خاص بالا ہستی کی جگہ کے پاس سے گزرتی ہے تو روح داخل ہوجاتی ہے اور دوم طریق یہ ہے کہ بچے میں روح کے ادخال کے لیے خاص مذہبی رسومات کی بجاآوری ضروری ہوتی ہے۔

ہر قدیم معاشرتی گروہ میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جن کو اگر کوئی غیر اہل، ناواقف اور غیرحقوق والا استعمال کرلے تو اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسے الفاظ استعمال کرکے بعض خاص رسومات، خاص نشانات، مقامات،گیت، اشیاء اور اشخاص کو عام عوام سے منفرد کیا جاتا ہے۔ ان مخصوص چیزوں تک رسائی کے لیے عمر، جنس، مذہبی مقام ومرتبہ(یعنی کس درجہ تک عبادت مکمل کرچکا ہے) اہم ہیں۔

قدیم اقوام میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کوبھی مکمل مذہبی آزادی میسر تھی لیکن عبادات ورسوم کا ظاہری فرق دراصل دونوں کے بوجھ اٹھانے کی طاقت کے فرق کی وجہ سے ہے۔ یہ عبادات ’’درون خانہ‘‘اور ’’بیرون خانہ‘‘کی تقسیم بھی رکھتی ہیں۔ ان عبادات کا مقصد اپنے علاقہ/زمین سے اپنی محبت کا اظہارکرنا ہوتا ہے۔ ان عبادات کے کئی کئی ادوار ہوتے ہیں جو کئی ہفتے جاری رہتے ہیں۔

تمام آسٹریلیا میں فطرت سے تعلق رکھنے والی اور خارق عادت اعمال بجالانے والی متفرق ناموں والی کئی مافوق الفطرت ہستیوں کا پتہ ملتا ہے۔ان کے اسماء کا فرق ، ان قبائل کے سراسر مقامی ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ مثلاً ومبایوWimbaioقبیلے کا عقیدہ ہے کہ زمین کی تخلیق کے وقت خدازمین کے بالکل قریب تھا لیکن اس کام کی تکمیل کے بعد وہ آسمان کی بلندیوں کی طرف واپس چلا گیا اسی طرح قبیلہ ’’ووجوبالک‘‘ کا عقیدہ ہے کہ بنجل (Bunjil) نامی ایک بالاہستی پہلے زمین پر عظیم انسان کی شکل میں موجود تھی لیکن بالآخر آسمان کی طرف پرواز کر گئی۔

مضمون نگار نے مختلف تاریخی حوالوں سے مختلف قبائل میں رواج پانے والی عبادات اور رسوم کی نقشہ کشی کی ہے۔اور پھر رقمطراز ہیں کہ ان تمام امور کا خلاصہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ یوں بیان فرماتے ہیں:

’’آسٹریلیا کے تمام قبائل بلااستثنا تمام کائنات کی تخلیق کرنے والی ایک بالا ہستی پر ایمان رکھتے ہیں۔ تفصیلی مطالعہ سے کہیں کہیں ان کے عقائد میں معمولی فرق ضرور نظر آتا ہے اور کچھ اصطلاحات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لیکن عمرانیات اور انسانی ارتقاء کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ وہ سب قبائل ایک بالاہستی پر ایمان رکھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ، خدا، پرماتما، برہما اسی ہستی کے دوسرے نام ہیں۔‘‘ (الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ:190-191)

٭… سارے آسٹریلیا میںعام تصور ہے کہ انسان دراصل تب پیدا ہواتھاجب اس نے موجودہ جسمانی ساخت اپنائی نیز مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی اصول الہاماً اس کو عطا ہوئے، وہ اصول جنہوں نے قبائل کا قیمتی ورثہ ترتیب دیا۔

الہام کے متعلق محقق Howitt نے اپنی کتاب (The Native Tribes of South East Australia) میں لکھا ہے کہ ’’میں ایک دفعہ Theddoraقبیلہ سے تعلق رکھنے والی ایک نہایت معمر خاتون سے ملا اور Daramulunکے بارہ میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں بس اتنا جانتی ہوں کہ Daramulun ایک گرجدار آواز کے ساتھ نیچے آتا ہے تا ‘لڑکوں’کو ‘آدمی’ بنائے۔ اور ہم اس کو Papang کہتے ہیں۔’’ مصنف کے مطابق Papang کا مطلب ہے باپ۔ واللہ اعلم۔

٭… محققLang اپنی کتاب (God Primitive and Savage) میں بتاتا ہے کہ قبیلہ Arunda اور Dieiri کے لوگ اپنے ہیروز alcheringaاور mura-mura کے بارے میں مانتے ہیں کہ وہ آسمانوںمیں آباد ہیں اور لوگ ان سے بارش کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔اور مصنف کے نزدیک ان اقوام میں ایک’’مذہب‘‘پر کاربند ہونے کی ہی نشانی ہے کیونکہ اس عادت میں ایک ’’بالاطاقت‘‘ سے دعائیں مانگنا صاف نظر آتاہے۔

٭… انسان کی وجودیت، اور دنیا کی تشکیل ایک خاص’’زمانہ خواب‘‘ میں ہوئی۔ یعنی وہ Dream Time جس کو Arandaکی اصطلاح میں Alcheraیا Alcheringaکا وقت کہاجاتا ہے۔ مگر یہ ’’زمانہ خواب‘‘اب ختم ہوچکا ہے مگر یہ Mythical Pastاب تک جاری ہے اور ہر عبادت کے دوران اس توہماتی ماضی کو دہرایا جاتا ہے۔اور یہ ڈرامائی تشکیل اور ماضی کے واقعات کی منظر کشی ہی عبادت ہے۔ کیونکہ قدیم توہماتی وجودوں کے تمام کام اور کارنامے مقدس ہیں نیز ان ارواح کا روحانی پہلو آج بھی اس مادی دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔

٭…ہر قبیلہ میں بچے کو جس کی عمر چھ سے آٹھ سال کے درمیان ہو، ایک خاص تقریب منعقد کرکے عبادت کا آغاز یا تعارف کروایا جاتا ہے۔

مختلف قبیلوں میں عبادت کے لیے لائے جانے والے اس مبتدی کی عمر مختلف ہوسکتی ہے کیونکہ یہ عمر سارے آسٹریلیا میں مختلف ہے، لیکن صحاح ستہ میں سے ابوداؤد کی کتاب کے باب متیٰ یومر الغلام بالصلوٰۃ کی اس روایت کو مدنظر رکھاجائے تو ادیان فطرت کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔

’’حضرت عمرو بن شعیبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز کا کہو اور جب دس سال کے ہوجائیں تو ذرا سختی سے توجہ دلاؤ۔ اور ان کو الگ بستروں میں سلاؤ۔‘‘

آسٹریلیا کے قدیم لوگ اپنے بچوں کو عبادات ورسومات سے متعارف کروانے کے لیے باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں، زائرین کو مدعو کیا جاتا ہے۔ بچے کو ابتدائی معلومات مہیا کی جاتی ہیں، DreamTime کے بارہ میں کچھ بتایا جاتا ہے کہ فلاں زمانہ ماضی میں کیا کیا کام ہوئے وغیرہ وغیرہ، مذہبی زندگی شروع کرنے کو تصویری شکل دی جاتی ہے، یعنی والد یا مردبچے کو عبادت کے لیے لے کر جاتے ہیںا ور ماں یا خواتین باقاعدہ واویلا کرتی ہیں کہ ہمارا بچہ ہم سے جدا ہورہا ہے۔ اس اداکاری کے توسط سے یہ دکھایاجاتا ہے کہ مذہبی زندگی کا آغاز ایک موت سے مشابہ ہے یعنی جسمانی تعلقات پر ایک موت کا وارد ہونا جس کے بعد اصل زندگی شروع ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ قدیم اقوام جسمانی موت کے تو قائل ہیں مگر روحانی زندگی کو مستقل مانتے ہیںشائد اسی کو مخمصہ قرارد ےکر مغربی محققین نے اسے ’’تناسخ ‘‘ سے حل کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ چونکہ یہ مبتدی بچہ اب عملی زندگی کی طرف سفر کرنے والا ہے اس لیے یہاں یہ بیان خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ انسا ئیکلو پیڈیا کے مطابق ان قدیم اقوام میں منگنی اور شادی کو سماجی اور ذاتی زندگی میں اہم مقام حاصل ہے مگر مذہبی زندگی میں ان امور کی اہمیت اور کردار کافی محدود ہے۔نیز شادی بیاہ کے معاملہ میں مذہبی طور پر حدود وقیود موجود نہ ہیں۔

اب ہم پھراپنے پہلے بیان کی طرف لوٹتے ہیں کہ بچہ اپنی مذہبی زندگی کے آغاز پر ختنہ کی رسم سے بھی گزرتا ہے۔دین فطرت پر کاربند آسٹریلیا کی ان قدیم اقوام میںختنہ کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اس پر خاص طور پر زور دیا جاتا ہے۔اس فریضہ کی رسومات کی تفاصیل اور وجوہات ، ایک الگ مضمون کی متقاضی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’…آسٹریلیا کے پرانے قبائل بھی ختنہ کراتے تھے…… (دیکھو ٹرائیبز آف سنٹرل آسٹریلیا مصنفہ سپنسر اینڈ گلن ص323)‘‘

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ: 438)

٭… جب ایک لڑکی نوجوانی میں قدم رکھتی ہے اور پہلی دفعہ ’’ایام خاص‘‘سے گزرتی ہے تو اس کی الگ رسومات ہیں۔ خاندان اور قبیلہ کی بزرگ خواتین اس نوجوان بچی کو Mian Camp سے باہر لے کر جاتی ہیںاس بچی کو پہلے غسل کے ساتھ ہی اگلی عملی زندگی کے رموزواوقاف سمجھائے جاتے ہیں۔ اس کو نئی ذمہ داریوں اور کاموں کے لیے ذ ہنی طور پر تیار کیا جاتاہے کہ اب وہ ایک بچی نہیں رہی بلکہ ایک عورت ہے۔

٭…جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ بچوں کو عبادات سے روشناس کروانے کے معاملہ میں لڑکی کی بلوغت کی عمر کا انتظار کیا جاتا ہے یعنی پہلے حیض کا۔ لیکن خواتین کی عبادات و رسومات مردوں کی عبادات و رسومات کے مقابلہ میں کچھ زیادہ شاندار اور زندگی اور گرمجوشی جیسے جذبات سے بھرپور نہیں ہوتی ہیں۔ نہ ہی ان خواتین کی رسومات کے لیے زائرین کو مدعو کیا جاتا ہے یعنی نہ اپنی قوم سے اور نہ ہی ہمسایہ دوست قبیلہ سے کوئی آتا ہے۔عام طور پر محققین اس کی وجوہات نامعلوم قرار دیتے ہیں۔

لیکن معلوم یوں پڑتا ہے کہ خواتین کے ساتھ اس اختصاص کی وجوہات زیادہ گہری نہ ہیں بلکہ کسی بھی معاشرہ میںخواتین کی خاص ذمہ داریاں ہی اس کا اصل سبب ہے۔ مثلاً اگلی نسل کے بچوں کی نگہداشت کرناوغیرہ۔ علاوہ ازیں قدیم آسٹریلوی معاشرہ میں خواتین ہی Bread- Winner ہواکرتی تھیںاپنے لیے، اپنے بچوں کےلیے اور مردوں کے لیے بھی۔ مردحضرات کے ذمہ شکار(گوشت کی فراہمی) ہے خواہ وہ جنگل میں شکار کریں یا بڑے سمندری جانوروں کا اپنی خاص الخاص مہارت سے شکار کریں۔لیکن اس شکار کی فراہمی معین اور لگی بندھی بھی نہیں ہے۔

٭…آسٹریلیا کی قدیم اقوام میں عبادت گزاروں کے آسمان سے تعلق پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔اور یقینا ًیہ امر بھی ان قدیم اقوام کے فطرت انسانی پر کاربند ہونے کا ثبوت ہے،کیونکہ تقریبا ًہرآسمانی مذہب میں آسمان سے خاص تعلق پر زور دیا جاتا ہے نیز خالق و مالک کے آسمانوں میں موجودگی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اوریہ سکھایا جاتا ہے کہ اگر تم نیک کام کروگے اور برے کاموں سے دور رہوگے تو تم آسمان میں داخل ہوسکتے ہو یعنی آسمان کی بادشاہت میں داخلہ ایک عام معاملہ ہے۔

٭…ان قدیم اقوام کا بغور مطالعہ بتاتاہے کہ کسی ’’گروہ یا قبیلہ ‘‘ کی تشکیل میں رشتہ داری، زبان اور کسی خاص علاقہ سے تعلق وغیرہ اہم ہوتے تھے یعنی مذہبی وحدت کے باوجود اختلاف کا سبب بننے والے کئی عناصر تھے جیسے متفرق زبانیں، معاشرتی رہن سہن، زمینی خدوخال اور موسمی حالات وغیرہ ۔

ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مذاہب یا مذہب کے ایک گروہ کی تشکیل میں قریب قریب وہی اصول اور عوامل کار فرما ہوتے تھے جوایک خاندان یا قبیلہ میں بروئے کار لائے جاتے تھے یعنی فلاں میرا رشتہ دار ہے اور فلاں کے ذمہ فلاں مذہبی رسومات کی بجاآوری کی ذمہ داری ہے۔ لیکن مقامیت کے باوجود کچھ فرقے اپنی رسومات اور عقائد کی وسعت کی وجہ سے کئی علاقوں تک پھیلے ہوئے تھے یعنی ایک ہی رسم کی بجاآوری کرنے والے اور ایک جیسی اساطیر کے ماننے والے کئی آبادیوں میں تقسیم بھی تھے اور متحد بھی تھے اور اس کی دوسری بڑی وجہ ’’زمانہ خواب ‘‘کی اساطیری ہستیوں کی کئی علاقوں میں موجودگی اور وہاں کیے ہوئے کام بھی متفرق قبیلوں کو متحد کرنے کا سبب تھے۔

آسٹریلیا کے قدیم مذاہب کے مطالعہ کے طالب علم کی اصل پریشانی اور فکر علاقائی عبادات کے باہمی روابط اور متشابہات ہیں۔ اور بعض دفعہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ان عبادات سے اصل غرض کیا ہے اور ان کا باہمی فرق کیا ہے؟

علوم و راز

مبتدی کو محدود علم تک رسائی دی جاتی ہے۔آخر پر اصل راز منتقل کیے جاتے ہیں۔ مبتدی کی عبادات اور بزرگان قوم کی عبادات کا آپس میں تعلق اسی طرح ہے جیسے ایک سکھا رہا ہے اور دوسرا سیکھ رہا ہے۔ یعنی قبیلہ کے بڑے مرد جب ایک بچے کو DreamTimeکی باتیں بتاتے ہیں ، بالاہستیوں کے کارناموں پر اطلاع دیتے ہیں تو دراصل وہ خود بھی عبادت کررہے ہوتے ہیں اس طرح پرعبادت بھی کرتے ہیں اور تعلیم بھی دیتے ہیں یوں آسٹریلیا کے قدیم اقوام کی مذہبی زندگی ایک جاری نظام اور سلسلہ ہے۔ پھر مبتدی کی عبادت کے موقع پر تعلیم دینے والے بزرگان کے علاوہ کچھ ناظرین بھی ہوتے ہیں وہ بھی دراصل عبادت میں حصہ دار ہوتے ہیں اور دین فطرت کے نبی کریم ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشاد کی روشنی میں معاملہ اور واضح ہوجاتا ہے: یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہم مجلس لوگ بھی برکت سے محروم نہیں رہتے۔ (مسلم کتاب الذکر)

موت

انسانی زندگی کے مختلف المیوں میں سے آخری المیہ یا آخری مرحلہ’’ جسمانی موت ‘‘ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی ابتدائی عبادات کی رسومات اور وفات کی رسومات ایک جیسی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مذہبی زندگی شروع کرکے یعنی بیعت کرکے ایک شخص علامتی موت کے بعد ایک نئی زندگی پاتا ہے۔ اور ابری جنیز کا تصور ہے کہ جسمانی موت کے بعدبھی دوبارہ زندگی ملتی ہے۔ جسمانی طور پر مرنے کے بعد کی رسومات دراصل مردہ کی روحانی بقا اور ممکنہ پیدائش کے لحاظ سے ڈیزائن کی جاتی ہیں۔ بیعت اور وفات دونوں صورتوں کے بارہ میں لوگوں کا تصور ہے کہ ’’مافوق الفطرت ہستی‘‘ کی عطا کردہ زندگی کی طاقت ہی ایک زندگی سے اگلی زندگی کی طرف منتقلی کو ممکن بناتی ہے۔ یاد رہے کہ سارے براعظم آسٹریلیا میں وفات کی رسومات قدرے مختلف ہیں۔ کچھ تو متاخر قسم کی ہیں یعنی مردہ کی وفات کے بعد ایک وقت تک کچھ بھی نہیں کیا جاتا ہے لیکن تمام آسٹریلیا میں سب متفق ہیں کہ ان رسومات سے مراد فوت شدہ کو ایک نئی دنیا کی طرف روانہ کرنا ہے یہ روانگی فوت شدگان کی سرزمین کی طرف ہوتی ہے جسے بعض جگہ ’’فانیوں کا گھر‘‘کہا جاتا ہے۔ جہاں ارواح تجسیم نو (reincarnation) کا انتظار کرتی ہیں۔

ان قدیم لوگوں میںگرتے ہوئے ستارہ یعنی شہاب ثاقب کو موت کی نشانی سمجھاجاتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ موت کے بعد بھی زندگی کا پہیہ جاری اور رواں رہتا ہے یعنی جسمانی زندگی سے مکمل روحانی زندگی۔ اور پھر کچھ انتظار کے بعد ایک مقررہ وقت پر پھر سے جسمانی صورت اختیار کرلینا۔

مذہب یا مجموعہ توہمات؟

مضمون کے آخر پر تحریر ہے کہ آسٹریلیا کی قدیم آبادی کی مذہبی زندگی پر تحقیق کرنے والوں نے افراط وتفریط کی راہ اپنائی ہے،مگر مذکورہ بالا مضمون کا یکجائی سے مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ حقیقت بین بین موجود ہے۔نہ تو یہ اقوام خالص توحید کے نظارے پیش کررہی ہیں اور نہ ہی محض کسی’’مجموعہ توہمات‘‘کی پیروکار نظر آتی ہیں۔ دراصل عوامی قصے کہانیاں اور سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات بھی مذہب کی تشکیل میں مددگار ہوا کرتی ہیں۔

نوٹ: اس مضمون میں بیان کردہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات حضورؒ کی کتاب ’’الہام ، عقل، علم اور سچائی‘‘ سے منقول ہیں۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button