خدا تعالیٰ نے یہ کھول کر سنا دیا ہے کہ عیسیٰ فوت ہوگیا ہے اور پھر دنیا میں نہیں آئے گا۔ ہاں اس کا مثیل آنا ضروری ہے
اگر یہ بات سچ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور چالیس برس دنیا میں ٹھہریں گے اور صلیب کو توڑ دیں گے اور عیسائیوں کے ساتھ لڑائیاں کریں گے تو وہ قیامت کو خدائے تعالیٰ کے حضور میں کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ جب تو نے مجھے وفات دی تو اس کے بعد مجھے کیا علم ہے کہ عیسائیوں نے کونسی راہ اختیار کی۔ اگر وہ یہی جواب دیں گے کہ مجھے خبر نہیں تو ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی جھوٹا نہیں ہوگا۔ کیونکہ جس شخص کو یہ علم ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ آیا تھا اور عیسائیوں کو دیکھا تھا کہ اس کو خدا سمجھ رہے ہیں اور اس کی پرستش کرتے ہیں اور ان سے لڑائیاں کیں اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے روبرو انکار کرتا ہے کہ مجھے کچھ بھی خبر نہیں کہ میرے بعد انہوں نے کیا کیا۔ اس سے زیادہ کاذب کون ٹھہر سکتا ہے۔ جواب صحیح تو یہ تھا کہ ہاں میرے خداوند مجھے عیسائیوں کی گمراہی کی خوب خبر ہے کیونکہ میں دوبارہ دنیا میں جاکر چالیس برس تک وہاں رہا اور صلیب کو توڑا پس میرا کچھ گناہ نہیں ہے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ مشرک ہیں تو مَیں اُس وقت ان کا دشمن ہوگیا۔ بلکہ ایسی صورت میں کہ جبکہ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس برس تک دنیا میں رہ چکے ہوں گے اور اُن سب کو سزائیں دی ہونگی جو اُن کو خدا سمجھتے تھے خدا تعالیٰ کا ایسا سوال اُن سے ایک لغو سوال ہوگا۔ کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہے۔ کہ اُس شخص نے اپنے معبود ٹھہرائے جانے کی اطلاع پاکر ایسے لوگوں کو خوب سزا دی تو پھر ایسا سوال کرنا اس کی شان سے بعید ہے۔ غرض جس قدر مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے یہ کھول کر سنا دیا ہے کہ عیسیٰ فوت ہوگیا ہے اور پھر دنیا میں نہیں آئے گا۔ ہاں اس کا مثیل آنا ضروری ہے۔ اگر اس قسم کی تصریح ملاکی نبی کے صحیفہ میں ہوتی تو یہود ہلاک نہ ہوتے۔ پس بلاشبہ وہ لوگ یہود سے بدتر ہیں کہ جو اس قدر تصریحات خدا تعالیٰ کے پاک کلام میں پاکر پھر حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کے منتظر ہیں۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ20تا 21)