ہستی باری تعالیٰ

اگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہم جنت میں جائیں گے یا دوزخ میں تو پھر ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟

سوال: اسی ملاقات میں ایک اور طفل نے حضورانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ پہلے سے جانتا ہے کہ ہم جنت میں جائیں گے یا دوزخ میں، اور اگر وہ جانتا ہے تو پھر ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جواب:دیکھوایک اللہ تعالیٰ کا علم ہے اور ایک ہمارا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ فلاں شخص دوزخ میں جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ ہر شخص کو رستہ بتاتا ہے کہ تم یہ نیک کام کرو گے تو جنت میں جاؤ گے۔یہ بُرے کام ہیں، یہ کروگے تو دوزخ میں جاؤ گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے انجام بخیر ہونے کی دعا مانگنی چاہیے کہ جب ہمارا مرنے کا وقت آئے تو اس وقت ہم اللہ کی باتوں پہ ایمان لانے والے ہوں تاکہ ہم جنت میں جائیں۔ یا ہماری ایسی کوشش ہو۔ قرآن شریف نے بھی ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ ہم اس وقت مریں جب اللہ تعالیٰ ہمارے سے راضی ہو۔ تو مقصد یہی ہے کہ ہم اُس وقت جنت میں جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔باقی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے وہ کسی کو بخش بھی دیتی ہے۔ ایک شخص کے بارے میں روایت میں آتا ہے کہ وہ بہت گناہ گار تھا، اس نے بے شمار قتل کیے ہوئے تھے، ننانوے قتل کیے ہوئے تھے۔ اس کو خیال آیا کہ میں بڑا بُرا آدمی ہوں، میں اپنی اصلاح کرلوں تاکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے اور میں جنت میں چلا جاؤں۔ وہ ایک مولوی کے پاس گیا۔اس نے اس سے پوچھا کہ میں نے اتنے قتل کیے ہیں، بہت گناہ گار ہوں۔ کیا میں جنت میں جا سکتا ہوں؟ اس نے کہہ دیا کہ نہیں تم جنت میں نہیں جاسکتے۔ تم دوزخ میں جاؤ گے ہی جاؤ گے۔ اس پہ اس نے اس کو بھی قتل کردیا کہ جہاں ننانوے قتل کیے ہیں ایک اور قتل کرو تا کہ سو پورے ہو جائیں۔ سو قتل کرنے کے بعد پھر اس نے کسی اور سے پوچھا کہ بھئی کوئی ایسا رستہ ہے جہاں میں اللہ کو راضی کرسکوں؟ اس شخص نے کہا ہاں فلاں شہر میں ایک شخص بیٹھا ہے وہ تمہیں صحیح رستہ بتا سکتا ہے، اس کے پاس جاؤ۔ جب وہ وہاں جا رہا تھا تو وہ راستے میں مر گیا، اس کو موت آگئی۔ جب وہ فوت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نےاس شہر کو جس سے وہ قتل کرکے نکلا تھا اس سے دور کردیا اور جس طرف وہ جا رہا تھا اس کو اس کے قریب کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک تمثیلی زبان استعمال کی۔ اور پھر فرشتوں کو کہا کہ جاؤ اور بتاؤ اس کے متعلق کیا فیصلہ ہے۔دونوں فرشتے آئے ایک دوزخ میں لے جانے والا اور ایک جنت میں لے جانے والا۔اب دونوں لے جانے والوں میں جھگڑا ہو گیا۔ جو دوزخ میں لے جانے والا فرشتہ تھا وہ کہتا تھا کہ اس نے سو قتل کیے ہیں میں نے اللہ تعالیٰ سے کہہ کر اس کو دوزخ میں ڈلوا دینا ہے۔ جو جنت میں لےجانے والا تھا وہ کہتا تھا کہ نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے کہ جا کر اس کا راستہ ناپو۔ اس نے کہا اچھا۔ پھر فیصلہ یہ ہوا کہ ہم فاصلہ ناپتے ہیں اگر تو یہ اس شہر کے قریب ہوا جہاں یہ اپنے گناہ بخشوانے کےلیے جا رہا تھا تو یہ جنت میں چلا جائے گا اور اگر یہ اس شہر کے قریب ہوا جہا ں سے یہ قتل کر کے نکل رہا تھا تو دوزخ میں جائے گا۔ پھر جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے وہ فاصلہ کم کردیا اور جب فاصلہ ناپا گیا تو اس شہر کے وہ زیادہ قریب ہو گیا جہاں وہ گناہ بخشوانے کےلیے جا رہا تھا۔ اور صرف ایک بالشت کا فاصلہ تھا، ایک ہاتھ کا، (اس موقعہ پر حضور انور نے اپنے ہاتھ کی بالشت بنا کر اطفال کو دکھاتے ہوئے فرمایا)صرف اتنا فاصلہ اس طرف کم تھا اور دوسری طرف زیادہ تھا۔اور اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا اور جنت میں لے گیا۔تو یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے۔اورایک دوسری روایت بھی ہے کہ ایک شخص نے کسی کو کہا کہ کیا میں بخشا جاؤں گا؟ اس نے کہا نہیں، تم بہت گناہ گار آدمی ہو، تم نہیں بخشے جا سکتے۔ تو اللہ تعالیٰ نے وہ جو نیک آدمی تھا، بڑی نمازیں پڑھنے والا تھا، اپنے آپ کو بڑا نیک سمجھتا تھا، اس کو کہا کہ تم کون ہوتے ہو فیصلہ کرنے والے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں جائے گا۔پھرقسمت سے دونوں ایک ہی وقت میں اکٹھے مرگئے۔اورپھر جب اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوئے تواللہ تعالیٰ نے اس نیک آدمی کو جس نے گناہ گار آدمی کو کہا تھا کہ تم دوزخ میں جاؤ گے اور میں جنت میں جانے والا ہوں، میری گارنٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا تمہاری گارنٹی کہاں سے آ گئی؟ چلو تمہیں میں دوزخ میں ڈالتا ہوں اور جس کو تم کہہ رہے تھے کہ دوزخ میں جاؤ گے اورجنت میں نہیں جاؤ گے اس کو میں جنت میں ڈالتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمانیت تو یہ ہے۔ اس لیے ہمارا کام یہ ہے کہ ہم کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا علم بھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر چیز پہ قادر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن بھی ہے، اس کی رحمانیت بھی ہے۔اور اللہ تعالیٰ غفور بھی ہے، بخشنے والا بھی ہے۔ تو آخر میں آکر اللہ تعالیٰ ا پنے فیصلے کو بدل کے تقدیر بدل بھی سکتا ہے۔جب اس میں ہر قدرت ہے تو اس کو یہ قدرت بھی ہے کہ وہ اپنا فیصلہ بدل دے۔ اس لیے اگر تم نے یہ کہہ دیا کہ جی اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم نے دوزخ میں جانا ہے تو چلو گناہ کرتے رہو کوئی بات نہیں۔ فلاں کام کرتے رہو، حرام چیزیں کھاتے رہو اور سور کھاتے رہو اور شراب پیتے رہو اور گناہ کرتے رہو تو کچھ نہیں ہو گا۔ اب اتنا کچھ کرلیا ہے، اللہ نےہمیں کہاں بخشنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے نہیں، کوشش کرو، کوشش کرو میں آخر میں بھی تمہیں بخش سکتا ہوں۔ اس لیے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ شروع میں ہی بخش دے اور پھر انسا ن یہ دعا مانگے کہ میرا انجام بخیر ہو اور میں آخر تک نیکیاں ہی کرتا رہوں۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے ناں؟ اللہ تعالیٰ مالک ہے اس کو ہر چیز کااختیار ہے۔ وہ آخر میں آکے تمہیں بخش بھی سکتا ہے۔ تم نے کہہ دینا ہے کہ میری تقدیر کا فیصلہ ہو گیا میں تو گناہ گار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا اگر میں سو قتل کرنے والے کو بخش سکتا ہوں تو تمہیں بھی بخش سکتا ہوں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button