یادِ رفتگاں

رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

(پروفیسر نصیر حبیب۔ لندن)

(بیاد سید طالع احمد شہید)

بلاشبہ سید طالع احمد آل رسولؐ اور آل مسیح موعوؑد کی اعلیٰ روایات کا وارث اور امین تھا لیکن سب سے بڑھ کر وہ ’’اپنے خلیفہ سے پیار کرنے والا تھا‘‘

سر سید احمد خان کا یہ خیال تھا کہ دین کا احیا بھی جدید تعلیم کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ۔لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ کی ترقی سائنس کی وجہ سے ہوئی حالانکہ…ان کی ترقی محض اخلاق کی وجہ سے ہوئی۔‘‘

( تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 581)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اس خیال کی تائید مشہورمورخ ٹائن بی بھی کرتا ہے(Civilization on trial Page 187)۔بہرحال سرسید احمد خان نے1875ء میں مدرسہ علی گڑھ کی بنیاد رکھی اور اس کے مقاصد یوں بیان کیے:’’ہمارے دائیں ہاتھ میں قرآن ہوگا اور بائیں ہاتھ میں سائنس اور لاالہ الا اللہ کا تاج ہمارے سروں پر ہوگا ‘‘

(Ausaf Ali, Modern Muslim Thought Vol 2 page 467)

لیکن بقول شاعر:

وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں

قرآن کو اس طرح ہاتھ میں لیا گیا کہ اطلاع دی گئی

’’قرآن کی تعلیمات …کا نسل انسانی کی اجتماعی ،تہذیبی سیاسی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘( بحوالہ سرسید سے اقبال تک: مصنف قاضی جاوید) اور لا الہ الا اللّٰہ کا تاج سروں پر کیا رکھا تھا علی گڑھ کالج میں ایک اینٹی گاڈ(Anti God) سوسائٹی قائم کی گئی جس کی خبر سن کر اقبال کی نیند اڑ گئی (مکاتیب اقبال: نذیر نیازی) ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا وی لیڈر کسی پیغام کو کان تک پہنچاتے ہیں جب کہ ماموران الٰہی کان تک بھی پہنچاتے ہیں اور اپنی قوت قدسیہ کے زور اور ذریعہ سے دل تک بھی پہنچاتےہیں۔‘‘

( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورہ جمعہ صفحہ 410 )

یہی وجہ ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام الٰہی تائید و نصرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق سلسلہ احمدیہ کی بنیاد رکھتے ہیں تو باوجود اس امر کے کہ آپؑ کے ارادت مندوں کے حصے میں جدید یونیورسٹیوں کے ایوان نہیں آتے بلکہ مسجد کا گوشہ آتا ہے لیکن ایک ایسا انقلاب برپا ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر

وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ

کا نظارہ سامنے آ جاتا ہے۔ آپؑ کی قائم کردہ جماعت قرآن کریم کو اس طرح ہاتھ میں لیتی ہے کہ بقول حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ :’’ اگر جنت میں بھی مجھ سے پوچھا جائے گا کہ کون سی نعمت چاہیے تو میں کہوں گا مجھے قرآن دے دیا جائے ۔‘‘

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جو کہ اسیروں کی رستگاری کا موجب بنتے ہیں اپنی سیاسی بصیرت سےمحمد علی جناح صاحب جیسے کہنہ مشق سیاستدان کی راہ نمائی کرتے ہیں۔(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 620)ان سے جب ان کی تعلیم کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو آپؓ فرماتے ہیں میں تو صرف قرآن پڑھا ہوا ہوں۔(تفسیر کبیر سورۃ العنکبوت صفحہ 640) اور جماعت خلفائے کرام کی راہ نمائی میں قرآن کو ایسے ہاتھ میں لیتی ہے کہ دنیا کی 75سے زیادہ زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنے کا اعزاز حاصل کر تی ہے۔

لا الہ الا اللّٰہ کا تاج اس طرح سر پر سجایا کہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہید ؓکو احمدیت سے انکار کے عوض جان، مال، عزت اور اولاد کی سلامتی کی ضمانت دی جاتی ہے لیکن آپؓ فرماتے ہیں میرا ایک خدا ہے جبکہ تمہارے دو خدا ہیں۔

(مجدد اعظم جلد دوم صفحہ 950)

سر داد نہ داد دست در دست یزید

یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسی کا فیض تھا کہ سنگریزے اور کنکر نایاب ہیرے بن گئے اور جو ہیرے تھے کبریت احمر میں ڈھل گئے ۔ آپؑ کی جماعت نے نہ صرف آپؑ کی زندگی میں بلکہ آپؑ کے بعد بھی صدق و صفا کے اعلیٰ نمونے قائم کر دیے جنہیں دیکھ کر اپنے تو اپنے غیر بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔چنانچہ جماعت کے خلاف 1953ءکے فسادات ہوں یا 1974ءکا ظلم وستم، 1984ءکے استبدادی قوانین ہوں یا 2010ءمیں معصوم احمدیوں کا قتل عام، جماعت نے ہمیشہ صدق و صفا کے اعلیٰ نمونے دکھائے۔اور احمدیت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتی گئی۔

ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است

زیر آں گنج کرم بنہادہ است

بلاشبہ سیدطالع احمد بھی ان نایاب ہیروں میں ایک ہیرا تھا۔اس کے دائیں ہاتھ میں قرآن تھا بائیں ہاتھ میں سائنسی علوم تھے اور سر پر لا الہ الا اللّٰہکا تاج تھا ۔جس نے اپنی زندگی اعلائے کلمۃ الحق کہنے کے لیے وقف کردی۔وہ پیارے خلیفہ سے اس طرح وابستہ ہوگیا جیسے شاخ درخت سے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے تھے جو شاخ درخت سے وابستہ ہوتی ہے تھوڑے سے پانی سے سر سبز و شاداب رہتی ہے لیکن اگر اسے کاٹ کر پانی میں پھینک دیا جائے تو وہ باوجود پانی کی فراوانی کے اپنی شادابی کھو دے گی ۔سید طالع احمد اس راز کو پا گئے تھے ۔پیارے خلیفہ کی اطاعت اور محبت اس کے دل کی گہرائیوں میں اس طرح رچ بس گئی تھی

’’برگ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم‘‘

آپ نے سائنس میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ پھر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق جرنلزم کی تعلیم حاصل کی اور آپ کا تقرر ایم ٹی اے میں ہوا ۔اور آپ اپنے پیارے امام کی راہ نمائی میں دنیا کو اس عافیت کے حصار کی طرف بلا رہے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس وقت قائم فرمایا تھا جب دنیا مادی طاقت کے نشے میں سرشار تھی۔

برطانوی وزیراعظم گائیڈ سٹون کہتا تھا کہ اگر آسمان بھی گرا تو ہم اپنی سنگینوں کی نوک پر تھام لیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان پُر غرور لیڈروں کو انتباہ کیا کہ’’کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد کو نہیں آئے گا ‘‘اور اس انتباہ کے سات سال بعد دنیا ایک عالم گیر جنگ کی لپیٹ میں آگئی۔ انتباہ کا سلسلہ قدرت ثانیہ کے ادوار میں بھی جاری رہا۔چنانچہ خلافت خامسہ کے عہد میں بھی یہ انتباہ کبھی خطابات ، خطوط اور کبھی نجی ملاقاتوں میں ارباب بست وکشاد کو کیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی حسین تعلیمات کا تعارف ایسے دلنشین اور موثر انداز میں کروایا گیا کہ سامعین کے دل کے تاروں کو چھو گیا ۔

نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے

ایک ذرا چھیڑ تو دے مضراب حیات

مغرب کی روح اندر سے بے چین ہے اور پیغام حق کی تلاش میں ہے۔

میری روح کی حقیقت میرے آنسوؤں سے پوچھو

میرا مجلسی تبسم میرا ترجماں نہیں ہے

مغرب کی روح میں ذوق وشوق آگہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پیغام حق کس طرح پہنچایا جائے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کے سلسلے میں نہایت بصیرت افروز راہ نمائی فرمائی ۔خدام الاحمدیہ کی ایک مجلس میں خلیق کوثی صاحب نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے تبلیغ کے سلسلہ میں راہ نمائی چاہی آپ نےفرمایا ’’ہر ایک کو تبلیغ اس کے پس منظر میں کریں ‘‘ آپ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ۔ مجھے یاد آیا ایک مرتبہ پنجابی شاعر شیو کمار بٹالوی کا انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا وہ ذکر کر رہے تھے کہ جاپان میں ایک تصوّر پایا جاتا ہے جس سے متاثر ہو کر کوئی نوجوان اپنے جسم کو سخت ترین ورزش کے ذریعے خوبصورت اور مضبوط بناتا ہے اور 28 سال کی عمر میں یہ سوچتے ہوئے خود کشی کر لیتا ہے کہ اگلی دنیا میں اس کا جسم اسی طرح قائم رہے گا۔ وہ بھی اس خیال سے متاثر نظر آرہے تھے بعد میں ان کا جلد انتقال ہو گیا ۔ جیسا کہ انہوں نے کہا تھا

شِخر دوپہر سر تے میرا ڈھل چلیا پرچھاواں

کاش کوئی ان کو حضرت مسیح موعود ؑکی کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں درج سورت المومنون کی تفسیر بھجوا دیتا جس کے مطابق اگلے جہان میں تعمیر جسم نہیں بلکہ تعمیر روح کام آئے گی، کیونکہ جو لوگ وجہ اللہ میں محو ہو کر مرتے ہیں وہ بباعث اتصال کے جو ان کو حضرت عزت سے ہو جاتا ہے دوبارہ زندہ کیے جاتے ہیں اور ان کی زندگی خدا کی زندگی کا ایک ظل ہوتا ہے۔(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ سورت القصص صفحہ 245) سید طالع احمد شہید کو اس پیغام حق کو پہنچانے کا مکمل شعور و آگاہی تھی۔

سید طالع احمد نے ان ملاقاتوں، خطابات اور انٹرویوز کا ریکارڈ بڑی محنت سے جمع کیا اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ دستاویزی فلم کی صورت میںایم ٹی اے پر پیش کیا۔آج کل دنیا ایک نظریاتی خلا کے دَور سے گزر رہی ہے ۔آج حقیقت وہی ہے جسے کوئی کہنہ مشق صحافی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ پیش کر دے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پیش کرنے والے کو بھی اس کی سچائی پر ایمان نہیں ہوتا ۔لیکن سید طالع احمد کے پاس نہ صرف ازلی ابدی سچائی کا نور تھا بلکہ وہ جان و دل سےاس سچائی پر فدا تھا لہٰذا جس درد و سوز اورآرزو مندی سے اس نے اس پیغام حق کو پہنچایا وہ آنے والی نوجوان نسل کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حادثے کے بعد بہت سے اس معیار کے پیدا کر دے۔‘‘

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24 ستمبر 2021ء)

سید طالع اس چھوٹی سی عمر میں متاع بے بہا کو پا گیا کہ پیارےامام نے فرمایا ’’ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہو گیا۔‘‘ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے۔کبریت احمر جب حاصل ہو جائے تو کیمیا ہوتی ہے۔اس کی ایک چٹکی بہت سے تانبے اور کانسی کو زر خالص بنا دیتی ہے۔

(کشف المحجوب۔ ضیاء القرآن پبلیکیشن صفحہ 51)

سید طالع احمد ایک نایاب ہیرے میں ڈھل گئے۔جو مرتبہ شہادت پر فائز ہونے کے بعد تب و تاب جاودانہ رہے گا۔سید طالع احمد کے پاس وہ کیا نسخہ نایاب تھا ؟ایک بار ایک دیوبندی عالم مولانا عبید اللہ سندھی صاحب نے جو حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کی سلسلہ احمدیہ کے لیے بے لوث خدمات سے بہت متاثر تھے آپؓ کی وفات پر کہا:’’آخر دہلی کا تھا ناں اور اچھے خاندان کی اعلیٰ روایات کا وارث۔‘‘

(افادات، ملفوظات پروفیسر محمد سرور)

بلاشبہ سید طالع احمد آل رسولؐ اور آل مسیح موعوؑد کی اعلیٰ روایات کا وارث اور امین تھا لیکن سب سے بڑھ کر وہ ’’اپنے خلیفہ سے پیار کرنے والا تھا‘‘ وہ اطاعت کےجذبہ سے سرشار تھا ۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’وہ مجھے بہت پیارا تھا۔ ہر وقت اس فکر میں رہتا تھا کہ کب خلیفہ وقت کے منہ سے کوئی بات نکلے اور میں اس پر عمل کروں‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ستمبر 2021ء)

یہی وہ جذبہ اطاعت تھا جس کی بدولت سید طالع احمد صاحب نے رہِ یار کو قدم قدم یادگار بنا دیا۔اور

ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً (الفجر:29)

کا مقام حاصل کر لیا۔آخر اپنے پیارے حضور کی دل و جاں سے اطاعت کرنے والا تھا۔

سید طالع یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں بقول شاعر

ایتھے بیٹھ کسے نئیں رہنا

کوئی اج گیا کوئی جاوے کل وے

لیکن جس دھج سے کوئی شہادت گہہ الفت میں قدم رکھتا ہے وہ شان سلامت رہتی ہے ۔ آپ نے اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جان دی۔ مقام شہادت پہ فائز ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروزکامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رخصت کیا اور مولائے کل ختم الرسل سرورِ کائناتؐ نے آپ کا استقبال کیا۔ یہ سعادت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے !

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button