ایشیا (رپورٹس)حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ مجلس انصار اللہ بنگلہ دیش کی (آن لائن) ملاقات

بار بار توجہ دلانے کا ہمیں حکم ہے اور یہی حکم اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا تو اسی حکم پہ اب ہم نے چلنا ہے

امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 16؍جنوری 2021ء کو نیشنل عاملہ مجلس انصار اللہ بنگلہ دیش کے ممبران کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔ حضورِانور نے اس ملاقات کو اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق بخشی جبکہ آن لائن شاملین نے جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کے مرکز مسجد دارالتبلیغ، ڈھاکہ سے شرکت کی۔

60 منٹ پرمشتمل اس ملاقات میں جملہ حاضرین کو حضورِانور سے بات کرنے، اپنے شعبہ جات کی سرگرمیوں کے حوالہ سے رپورٹ پیش کرنے اور حضورِانور سے راہنمائی حاصل کرنےکا موقع نصیب ہوا۔

حضورِانور نے مجلس انصار اللہ کے جملہ اراکین کو قرآن کریم کی تعلیم عام کرنے کے حوالہ سے راہنمائی فرمائی نیز نماز باجماعت کی ادائیگی کے حوالہ سے 100 فیصد انصار کو نمازی بنانے کا ٹارگٹ عطا فرمایا۔

حضورِانور نے اراکین مجلس انصار اللہ کو فعال رکھنے کے حوالہ سے فر مایا کہ ایسے انصار جن کے پاس سائیکل ہے وہ روزانہ سائیکل چلائیں۔ گاڑیاں اور دیگر سواریاں استعمال کرنے کی بجائے، یہ بہتر ہے کہ مجلس انصار اللہ کے جوان انصار جو صف دوم کے ہیں، اپنے دفاتر تک جانے کے لیے سائیکل استعمال کریں اور اگر ممکن ہو تو ورزش کی غرض سے بعض دوسرے اوقات میں بھی سائیکل استعمال کریں۔

ایک ناصر نے سوال پوچھا کہ ہم اخلاقی لحاظ سے کیسے ترقی کر سکتے ہیں ؟

حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں طریقہ بتایا ہے کہ تمہارا،جو انسان کی پیدائش کا مقصد ہے وہ عبادت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کا حق ادا کرتے ہوئے کی جائے،پانچ وقت کی نمازیں ہیں، اگر پانچ وقت کی نمازیں ادا کی جائیں اور اس کا حق ادا کیا جائے،اللہ کے آگے رو کے، جھک کے دعا کی جائے،سجدوں میں دعا کی جائے،اپنے گناہوں کی غلطیوں کی معافی مانگی جائے،اپنی نسل کی بہتری کے لیے دعا کی جائے اور اپنی روحانی ترقی کے لیے دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے تم اپنے مقصدِ پیدائش کو پورا کرنے والے ہو۔ میں دعائیں قبول کرتا ہوں۔ تو ذاتی بہتری کے لیے یہی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مانگو۔ ہمارا تو یہی مقصد ہے۔ ہر کام جو ہے دعا سے ہونا چاہیے اور یہی انسان کی پیدائش کا مقصد ہے۔

ایک ناصر نے سوال کیا کہ حضور بعض احباب ایسے ہیں جن کو جب نظامِ وصیت میں شامل ہونے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم متقی نہیں ہیں اس لیے ہم اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔ پیارے آقا، اس سلسلہ میں ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟

حضورِانور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اس بارے میں مَیں نے جو شروع میں جبکہ وصیت کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی تھی، اس وقت بھی مَیں نے اس بارے میں یہی کہا تھا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں ہم تو متقی نہیں، ہم نیک نہیں،ہم وصیت کس طرح کریں،ہم تو وصیت کی شرائط پہ پورا نہیں اترتے تو اس وقت مَیں نے یہی بتایا تھا،اس وقت بھی اور ہمیشہ یہی کہتا ہوں، کئی مجالس میں کہہ چکا ہوں، پہلے تو یہ بات ہے کہ رسالہ الوصیت پڑھیں۔ جب ایک انسان رسالہ الوصیت پڑھتا ہے تو اس کو احساس ہوتا ہے کہ مجھے کس معیار کا احمدی ہونا چاہیے۔ پھر اس کے بعد جب وہ وصیت کرتا ہے تو اس کے بعد وہ کوشش کرتا ہے کہ میں اس معیار پہ پہنچوں۔ یہ کہہ دینا کہ میں اس معیار کا نہیں ہوں اس لیے وصیت نہیں کروں گا تو پھر ساری عمر نہ وہ کوشش کرے گا نہ وہ کبھی اچھا، نیک اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ تو یہ تو ایک ذریعہ ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تم لوگ وصیت بھی کرو گے تو تم لوگوں کی اس طرف توجہ پیدا ہو گی،اور وصیت کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلافت کے ساتھ ایک تعلق جوڑا ہے۔ جب انسان وصیت کرتا ہے اور اس کے لیے پھر نیکیاں اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے،نیکیاں اپنانے کی کوشش کرتا ہے،نیکیاں کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اس کا معیار، روحانی معیار بھی بڑھتا ہے اور پھر اس کا خلافت کے ساتھ تعلق اور وفا کا تعلق بھی بڑھتا ہے اور پھر وہ ایک سچا اور پکا احمدی ہوتا ہے۔ نہیں تو یہ سادہ ایک عہد ہے کہ مَیں دین کو دنیا پہ مقدم رکھوں گا، میں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو قربان کرنے کے لیے تیار رہوں گا۔ وہ اپنے مال کو تھوڑا سا مال ہے اس کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقویٰ کے بڑھانے کا ذریعہ،طریقہ بتایا ہے اس کو اپنانے کے لیے تیار نہیں تو پھر وہ کس طرح عہد کر سکتا ہے،کھڑا ہو کے انصار اللہ کا عہد دہرا دیتا ہے مَیں یہ کر دوں گا مَیں وہ کر دوں گا۔ تو انصاراللہ کو یہ بتانا ہو گا کہ تم لوگ اپنے عہد پہ پورا اسی وقت اترو گے جب ہر نیکی کو کرنے کی کوشش کرو گے اور نیکیوں کو کرنے کے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نظام وصیت کو جاری کر کے فرمایا ہے جس میں روحانی معیار کو اونچا کرنا بھی ہے اور مالی قربانی بھی ہے اور پھر اس کے ساتھ خلافت کے ساتھ وفا کا تعلق بھی ہے۔ تو جب آپ اس طرح سمجھائیں گے تو ان کو سمجھ آئے گی، نہیں تو پھر انسان تو ڈھیلا ہی رہتا ہے۔ انسان کہے گا مَیں تو نیک نہیں، مَیں تو متقی نہیں، میں نیک کام کس طرح کر سکتا ہوں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسی کام کے کرنے کے لیے تو وصیت کا نظام جاری ہوا ہے کہ تم اس میں شامل ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہیں نیکی اور تقویٰ کی توفیق بھی عطا فرمائے گا۔

ایک اور ناصر نے پوچھا کہ پیارے حضور بعض انصار جماعتی کاموں میں حصہ نہیں لیتے اور مجلس کے کاموں میں بھی شامل نہیں ہوتے۔ ان کو بار بار توجہ دلائی جاتی ہے۔تو اس سلسلہ میں ہم کون سا لائحہ عمل اختیار کریں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ یہی حکم ہے بار بار توجہ دلانا۔ اور بار بار توجہ ہی دلاتے رہنا چاہیے۔ ان کو بتائیں کہ تم احمدی ہو اور احمدی کے کچھ فرائض ہیں اور کچھ اس کی ڈیوٹیز ہیں جس پر اس نے عمل کرنا ہے تو یہی حکم ہے ہمیں۔ ذَکِّرکا حکم ہے ہمیں۔ نصیحت کرنے کا حکم ہے ہمیں۔ بار بار توجہ دلانے کا ہمیں حکم ہے اور یہی حکم اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا تو اسی حکم پہ اب ہم نے چلنا ہے اور نصیحت اسی لیے کی جاتی ہے اور بار بار کی جاتی ہے تا کہ توجہ پیداہوتی رہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اپنی طرف سے کوشش کرتے رہنا اور توجہ دلاتے رہنا۔ چھوڑنا نہیں جب تک کہ کوئی انسان یہ کہتا ہے کہ میں احمدی ہوں اور جماعت میں شامل ہوں۔ ٹھیک ہ؟بعض سست ہوتے ہیں۔ ان کی سستیوں کو اسی طرح دور کیا جا سکتا ہے کہ ان کو توجہ دلائی جاتی رہے اور بار بار ان کو توجہ دلائی جاتی رہے پیار سے توجہ دلائی جاتی رہے ان کو یہ احساس نہ پیدا ہو کہ ہم پر کوئی سختی کر رہا ہے یا ہم جائیں گے تو ہمارے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے گا۔ اگر پیار سے محبت سے سمجھاتے رہیں، چاہے وہ انصار بھی ہو گئے ہوں تو وہ آپ کے پروگراموں میں حصہ لیں گے۔

دوسرے یہ کہ یہی انصار ہیں جن کی عورتیں بھی ہیں ان کے بچے بھی ہیں۔ اگر شعبہ تربیت فعال ہو گا۔ شعبہ تربیت کا کام ہے کہ ان کو توجہ دلائے، ان کی تربیت کرے تاکہ وہ اپنے بچوں کی بھی تربیت کر سکیں۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ کا کام ہے، لجنہ کا کام ہےکہ وہ بھی اُس خاندان کے اپنی اپنی مجلس کے ممبران کو توجہ دلاتے رہیں۔ جب خاندان میں ایک concerted effortہو جائے گی، ہر طرف سے ایک مشترکہ اور ایک ٹھوس کوشش ہو گی تو پھر تربیت کی طرف انصار کو بھی توجہ پیدا ہو گی، لجنہ کو بھی ہو گی، خدام اور انصار اور اطفال کو بھی ہو گی۔ تو ایسے لوگ جو بالکل ہی نہیں آتے پھر اس فیملی کے ساتھ تربیت کے لیے انصار خدام اور لجنہ اور جماعتی نظام سب کو مل کے توجہ کرنی چاہیے اور ان کو توجہ دلانی چاہیے لیکن یہی ہے کہ نصیحت کرتے جاؤ،کرتے جاؤ اور ہر طبقے کا احمدی اور جس جس مجلس کا وہ ممبر ہے اس مجلس کے ذریعہ سے بھی اس خاندان میںان کو توجہ دلائی جائے۔ ہو سکتا ہے بچہ باپ کی تربیت کا باعث بن جائے، بیوی خاوند کی تربیت کا باعث بن جائے اور پھر اس طرح انصار اللہ میں بھی آپ کو تربیت کے جو ایشوز ہیں وہ اتنے نہیں اٹھیں گے اور پھر خود انصار کو توجہ دلائیں کہ اگر تم توجہ نہیں دو گے تو تمہارے بچے اور تمہاری بیوی بھی جماعت سے دور ہٹ جائیں گے اور اس کا تمہیں نقصان ہو گا اور اس کے تم ذمہ دار ہو گے اور خدا تعالیٰ کے سامنے اس کے تم جوابدہ ہو گے۔ تو پیار سے، حکمت سے سمجھاتے رہیں۔ جو الفاظ میں نے کہے ہیں وہ بھی اگر کہیں لیکن پیار سے کہیں توا مید ہے ان شاء اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ اثر پڑے گا۔باقی سارے برابر نہیں ہوتے، کچھ زیادہ وقت لیتے ہیں کچھ کم وقت لیتے ہیں لیکن ہمارا کام یہ ہے، جو ہمیں نصیحت، حکم ہے قرآن کریم کا اس کے اوپر عمل کرتے چلے جانا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button