خدائے تعالیٰ کی یہ عادت نہیں ہے کہ کوئی شخص دوبارہ دنیا میں آوے
پھر اس کے بعد یہ فاضل یہودی جس کی کتاب میرے پاس ہے اپنی اس دلیل پر بڑا فخر کر کے پبلک کے سامنے اپیل کرتا ہے کہ کیا ایسے مفتری کو کوئی قبول کر سکتا ہے جو تاویلوں سے کام لیتا ہے اور اپنے اوستاد یوحنا کو خواہ نخواہ الیاس ٹھہراتا ہے۔ پھر اس کے بعد اس نے بڑا جوش ظاہر کیا ہے اور ایسے تحقیر کے الفاظ سے حضرت مسیح کو یاد کرتا ہے۔ جن کی نقل ہم اس جگہ کر نہیں سکتے۔ اور اگر قرآن نازل نہ ہوا ہوتا تو اس حجت میں بظاہر یہود حق بجانب معلوم ہوتے تھے کیونکہ ملاکی نبی کے صحیفہ میں درحقیقت یہ الفاظ نہیں ہیں کہ سچے مسیح کے پہلے مثیل الیاس آئے گا۔ بلکہ صاف لکھا ہے کہ اس مسیح سے پہلے خود الیاس کا دوبارہ آنا ضروری ہے۔ اس صورت میں اگرچہ عیسائی حضرت مسیح کی خدائی کے لئے روتے ہیں۔ مگر نبوت بھی ثابت نہیں ہو سکتی۔ اور یہودی سچے معلوم ہوتے ہیں۔ پس یہ احسان قرآن شریف کا عیسائیوں پر ہے کہ حضرت مسیح کی سچائی ظاہر کردی۔
اس جگہ ایک سوال باقی رہتا ہے اور وہ یہ کہ جس حالت میں ملاکی نبی کے صحیفہ میں صاف لفظوںمیں لکھا ہے کہ جب تک الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آوے تب تک وہ سچا مسیح جس کا بنی اسرائیل کو وعدہ دیا گیا ہے دنیا میں نہیں آوے گا۔ تو پھر اس صورت میں یہود کا کیا قصور تھا جو اُنہوں نے حضرت مسیح کو قبول نہیں کیا اور اس کو کافر اور مُرتد اور ملحد قرار دیا۔ کیا ان کی صحت نیت کے لئے یہ کافی نہیں ہے۔ کہ کتاب اللہ کی نص کے موافق انہوں نے عملدرآمد کیا۔ ہاں اگر ملاکی نبی کے صحیفہ میں مثیل الیاس کے دوبارہ آنے کا ذکر ہوتا تو اس صورت میں یہود ملزم ہو سکتے تھے۔ کیونکہ یہ امر زیادہ بحث کے لائق نہیں تھا کہ یحییٰ نبی کو مثیل الیاس قرار دیا جاوے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہود خوب جانتے تھے کہ خدائے تعالیٰ کی یہ عادت نہیں ہے کہ کوئی شخص دوبارہ دنیا میں آوے اور اس کی کوئی نظیر پہلے سے موجود نہیں تھی۔ لہٰذا یہ صرف ایک استعارہ تھا جس طرح اور صدہا استعارات خدائے تعالیٰ کی کتابوں میں استعمال پاتے ہیں۔ اور ایسے استعارات سے یہود بے خبر نہ تھے۔ پھر علاوہ اس کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تائیداتِ الٰہیہ بھی شامل تھیں اور فراست صحیحہ کے لئے کافی ذخیرہ تھا کہ یہود ان کو شناخت کر لیتے اور ان پر ایمان لاتے مگر وہ دن بدن شرارت میں بڑھتے گئے اور وہ نور جو صادقوں میں ہوتا ہے وہ ضرور انہوں نے حضرت عیسیٰ میں مشاہد کر لیا تھا مگر تعصب اور بخل اور شرارت نے ان کو نہ چھوڑا۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سوال تو صرف یہود کے بارہ میں ہوتا ہےجن کو پہلے پہل یہ ابتلا پیش آیا تھا۔ مگر مسلمان اگر تقویٰ کو اختیار کرتے تو قرآن شریف نے اس ابتلا سے اُن کو بچا لیا تھا۔ کیونکہ صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ عیسیٰ فوت ہوگیا۔ اور نہ صرف یہی بلکہ سورۂ مائدہ میں صاف طور پر سمجھا دیا تھا کہ وہ دوبارہ نہیں آئے گا کیونکہ آیت
فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ(المائدۃ:118)
میں یہی ذکر ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا تو نے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے ماننا تو حضرت عیسیٰ جواب دیں گے کہ یا الٰہی اگر مَیں نے ایسا کہا ہے تو تجھے معلوم ہوگا۔ کیونکہ تیرے علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ مَیں نے تو صرف وہی کہا تھا جو تو نے فرمایا تھا۔ پھر جبکہ تونے مجھے وفات دے دی تو پھر صرف تو ہی ان کا نگہبان تھا مجھے اُن کے حال کا کیا علم تھا۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ19تا 20)