الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

صحابہؓ کاعشق رسول ﷺ

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ ستمبر و اکتوبر 2013ء میں صحابہ کرام کے عشق رسولﷺ کے موضوع پر جلسہ سالانہ یوکے 2013ء کے موقع پر کی جانے والی ایک تقریر شامل اشاعت ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور مہاجرین اورانصارمیں سے سبقت لے جانے والے اوّلین اور وہ لوگ جنہوں نے حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے اوراس نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیارکی ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔وہ ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں۔یہ بہت ہی عظیم کامیابی ہے۔ (التوبۃ:100)

بطحاءکی وادیوں سے جب وہ چاندچہرہ طلوع ہواتو ایک بار جب کوئی اس کی محبت کا جام پی لیتا تو کوئی دکھ،کوئی تکلیف،کوئی اذیت اس محبت کانشہ اتارنے میں کامیاب نہ ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ کے تیرہ سالہ ظلم وستم کے دَورمیں صحابہ کرامؓ، مردہوں یاعورت،عشق کی اس خارزار وادی میں چھلنی قدموں اور زخم زخم جسموں کے ساتھ چلتے رہے،گھسٹتے رہے، یہاں تک کہ اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھوتے رہے۔ مکہ کے ظالم ہاتھ جوظلم کرتے کرتے تھک جایاکرتے غصہ میں آکرکہاکرتے کہ تم تومحمدؐ کے عاشق ہوگئے ہو۔ ہرچندکہ وہ طنزاً یہ جملہ کہتے لیکن بخداکتنی حقیقت تھی اس جملے میں۔ وہ واقعی عاشق تھے اُس کے منہ کے۔ اپنے آقا کی اُلفت کی ایک نظر اُن کی تمام ترکلفتوں کو کافور کردیتی۔ ان عشاقِ صادق میں ایک سے بڑھ کرایک اپنے عشق و وفا میں نمایاں نظر آتاہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اسی جذبۂ عشق کاذکر یوں فرماتے ہیں: ’’گالیاں سنتے تھے، جان کی دھمکیاں دے کر ڈرائے جاتے تھے اور سب طرح کی ذلّتیں دیکھتے تھے پر کچھ ایسے نشۂ عشق میں مدہوش تھے کہ کسی خرابی کی پروانہیں رکھتے تھے اور کسی بلا سے ہراساں نہیں ہوتے تھے… ایسے نازک زمانہ میں وفاداری کے ساتھ محبت اور عشق سے بھرے ہوئے دل سے جو دامن پکڑا جس زمانہ میں آئندہ کے اقبال کی تو کیا امید، خود اس مرد مصلح کی چند روز میں جان جاتی نظر آتی تھی۔یہ وفاداری کا تعلق محض قوت ایمانی کے جوش سے تھا جس کی مستی سے وہ اپنی جانیں دینے کے لئے ایسے کھڑے ہوگئے جیسے سخت درجہ کا پیاسا چشمہ شیریں پر بے اختیار کھڑا ہوجاتاہے۔‘‘

(ازالۂ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 152-151حاشیہ)

جب نبی اکرمﷺ کو مکہ سے ہجرت کاحکم ہواتو ابوبکرؓ کو اپنے آقا کی محبت ورفاقت میں اپنی جوان بیٹیوں اور بیٹوں، اپنی پیاری بیوی اوراپنے نابینا بوڑھے باپ کا بھی خیال نہ رہا۔بے اختیار پکار اٹھے یا رسول اللہ ! صُحبۃً۔ مجھے اپنے ساتھ ضرور رکھیے گا۔ پھر ہجرت کایہ سفر، زندگی اور موت کی ایک دوڑ تھی۔لیکن ان مواقع پربھی عشق ومحبت کی کئی تصویریں نقش ہوئیں۔ وہ غارِ ثور جوسانپوں اوربچھوؤں اور موذی حشرات کی آماجگاہ تھی، ابوبکرؓ جیسے عاشق جاں نثارنے اپنے ہاتھوں سے اس کوصاف کیا۔ اس کے ہر سوراخ کو بندکیا۔ اور اپنی رانوں پرنبی اکرمؐ کا سرِ مبارک رکھ کر اپنے محبوب آقا سے درخواست کی کہ آپؐ کچھ دیرکے لئے آرام فرمالیں۔ اور اس دوران کسی سوراخ سے بچھو نکلا اور آپؓ کو ڈنک مارا تو محبت و وفاکایہ پُتلا اپنی ٹانگ تک کونہ ہلاتا کہ کہیں آپؐ کے آرام میں خلل واقع نہ ہو۔ لیکن قوتِ برداشت جواب دینے لگی تو آنکھوں سے دو آنسو آپؐ کے جسد اطہر پرگرے۔ پوچھا: ابوبکر!کیاہوا؟ماجراعرض کیاتو آنحضورﷺ نے اپنالعاب مبارک ان زخموں پرلگایا۔

نبی اکرم ﷺ جب مدینہ پہنچے تو شہر کی عورتیں، مرد اور بچے سب دیوانہ وار شہرسے باہرنکل آئے اورخوشی سے گیت گاگاکر آپؐ کا استقبال کیاکہ گویادنیاجہان کی نعمتیں اُن کومل گئی ہوں۔ پھر مدینہ والے بھی آپؐ کے عشق میں اس قدرفناہونے لگے کہ جب کبھی آپؐ باہر کہیں تشریف لے جاتے تو پیچھے رہ جانے والے آپؐ کی جدائی کے غم سے بےچین ہوجاتے۔ عورتیں خیریت سے واپسی کی منّتیں مانتیں۔ آپؐ سے والہانہ محبت کے نتیجہ میں اطاعت وفرمانبرداری کایہ عالم تھا کہ ایک بار مسجدمیں خطاب فرماتے ہوئے آپؐ نے فرمایابیٹھ جاؤ! توگلی سے گزرنے والے ایک صحابی وہیں بیٹھ گئے۔ کسی نے کہا کہ یہ حکم تو مسجدوالوں کے لئے تھا۔ کہا جب میرے کانوں میں آپ کی آوازپڑی کہ بیٹھ جاؤتو کیسے ممکن ہے کہ میں اس پر عمل نہ کروں۔

اسی طرح ایک مجلس میں شراب کے جام چڑھائے جارہے تھے ۔ ایک مٹکاابھی ختم ہواتھا اور دومٹکے اورباقی تھے کہ کسی نے اعلان کیاکہ مجھے محمد ﷺ نے بھیجاہے کہ آج سے شراب حرام کی جاتی ہے۔ نشہ کی حالت میں ایک نے کہاکہ کوئی یہ اعلان کررہاہے کہ شراب حرام کردی گئی ہے۔ دوسرے نے کہا کہ جاکرتفصیل معلوم کرکے آؤ۔اس پرایک صحابی اٹھے اور مٹکوں کوتوڑتے ہوئے کہاکہ پہلے نبی اکرم ﷺ کی آوازپرلبیک کہیں گے پھرتفصیل معلوم کریں گے۔

عشق کا ایک اہم تقاضا ادب واحترام بھی ہے چنانچہ نبی اکرم ﷺ کی مجلس میں صحابہؓ نظریں نیچی کیے ہوئے ایسے خاموش بیٹھتے کہ جیسے ان کے سروں پرپرندے بیٹھے ہوئے ہوں۔اور محبت و وارفتگی کایہ عالم کہ آپؐ کے پس خوردہ کاتبرک لینے کویوں لپکتے جیسے جان کی بازی ہی لگا دیں گے۔

کفارمکہ کا ایک رئیس جب گفت و شنید کی خاطر صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کی طرف آیا تو واپس جاکرکہا کہ اے سردارانِ قریش! میں بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار میں گیاہوں۔ نجاشی کے دربار بھی دیکھے، قیصرکے درباروں کی شان وشوکت بھی دیکھی، کسریٰ کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ بھی دیکھے ،لیکن خداکی قسم کسی بھی بادشاہ کی عظمت اور اس سے والہانہ عشق ومحبت کا ایسا نظارہ کہیں نہیں دیکھا جیسامحمدؐ کے ساتھ اس کے صحابہ کے دلوں اور آنکھوں میں مَیں نے مشاہدہ کیاہے۔بخدا جب وہ وضو کرتاہے تو اس کے پانی کو نیچے گرنے کے بجائے اپنے ہاتھوں پرلینے کے لئے جھپٹتے ہیں۔ اورجب وہ بولتاہے تو ساری آوازیں دَم توڑدیتی ہیں۔ اور حدّادب سے نگاہیں اس کے حضورجھکی رہتی ہیں۔

صحابہؓ آپؐ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بےتاب رہتے۔ اگرکسی بیماری یاعذرکی وجہ سے آپؐ کبھی مسجدمیں تشریف نہ لاسکتے تو بےقرارہوکر رونے لگ جاتے۔

صحابہؓ کی محبتیں بھی عجیب تھیں اور عشق بھی نرالے !!

ابومحذورؓ نام کے ایک نوجوان لڑکے تھے۔ایک بار نبی اکرم ﷺ نے پیارسے ان کے سرپرہاتھ پھیرا تو ساری عمر پیشانی کے ان بالوں کونہیں کٹوایا کہ نبی اکرم ﷺ کے مبارک ہاتھوں نے ایک بارچھؤاتھا۔

قبیلہ بنوغفار کی ایک لڑکی کسی جنگ میں شریک ہوئی اور اسے آپؐ کے ساتھ ایک سواری پرسفرکرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔جنگ ختم ہونے پر اموالِ غنیمت تقسیم ہوئے تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے ایک ہاراُس کوپہناتے ہوئے خودگرہ لگائی۔ اس لڑکی کی محبت کااندازدیکھیے کہ ساری عمراس نے وہ گرہ نہیں کھولی۔ اوریہ وصیت کی کہ مرنے کے بعد بھی کوئی اس کونہ کھولے اورساتھ ہی دفن کردیا جائے۔

اپنے آقا ؐکی محبت میں صحابہ ایسے فناتھے کہ آپؐ کی وفات کے بعدوہ ہر اُس جگہ جاتے کہ جہاں انہوں نے اپنے آقا کوکبھی جاتے دیکھا۔ہروہ کام کرتے جو انہوں نے اپنے مطاع کوکرتے دیکھا۔ عبداللہ بن عمرؓ ایک سفرکے دوران اپنی سواری سے نیچے اترے، کچھ دُورجاکرزمین پربیٹھے جیسے پیشاب کرنے کے لیے کوئی بیٹھتا ہے۔ اور کچھ دیربعد واپس چلے آئے۔ ساتھیو ں نے پوچھا کہ خیریت تو تھی کہ آپ وہاں گئے،بیٹھے اور یونہی واپس چلے آئے۔تووہ نم آنکھوں سے کہنے لگے کہ ایک بار اسی جگہ پرنبی اکرم ﷺ نے اپنی سواری کوروکاتھا اور وہاں جاکر پیشاب کیاتھا۔مجھے اس وقت یہ حاجت تونہ تھی لیکن میراآقا یہاں بیٹھا تھااس لیے میں نے نہ چاہاکہ یہاں سے یونہی گزرجاؤں۔

یہ صحابہ وہ عاشق تھے کہ جن میں سے ہرایک کادل محمدؐ کی یادبن کر دھڑکتا تھا۔ فدائیت کایہ جذبہ ایسا تھا کہ ابوبکرکے بیٹے نے ایک بار کہاکہ اباایک جنگ میں آپ میری تلوار کے نشانے پرتھے لیکن مَیں نے آپ پروارنہ کیا۔توابوبکرکہنے لگے کہ بیٹا!اگرتم میرے وارتلے آتے تو کبھی بچ نہ پاتے۔

مال دینا کلیجہ نکالنے کے مترادف ہے۔ان عاشقوں نے اپنے جگرگوشوں کے ساتھ ساتھ اپنامال ودولت بھی اس کے قدموں میں ڈھیرکردیاکہ ؎

جان و مال و آبرو حاضر ہیں تیری راہ میں

حضرت عثمان غنیؓ ،حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعدبن معاذؓ ان چندایک صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے اپنی جائیدادیں اور باغات حضورؐکی خدمت میں پیش کردیے۔ حضرت ابوبکرؓ اپنے گھرکا سارا اثاثہ لے کر حاضر ہوگئے تو حضرت عمرؓ نے اپنا نصف مال حضورؐکی خدمت میں پیش کردیا۔ وہ غریب لوگ جوچندمٹھی جَو یا آٹا گھر میں رکھتے تھے، جب وہ دومٹھیاں جَو، اپنے محبوب کی نذر کو لے آتے تو وہ محبوب بھی کتنا دل نواز وذرّہ نواز تھا کہ مٹھی بھرجَوکوایسے پیار اور قدر کی نظرسے دیکھتاکہ جیسے ہیرے جواہرات ہوں۔

کچھ ایسے غریب صحابہ جن کے پاس کچھ بھی نہ ہوتا تو وہ مزدوری کرتے،کسی یہودی کے کنویں سے پانی نکال نکال کراس کے کھیت کوسیراب کرتے اور اجرت میں جوکھجوریں ملتیں وہ حضورؐ کی خدمت میں نذرکے طورپر پیش کرتے۔ یہ ان صحابہ کے دلی جذبے تھے اور خدانے ان کے عاشقانہ جذبوں کوقبول کیا۔ وہ خودان کاخریدار بن گیا اوران کے بدلہ میں جنّات عدن کے سرٹیفکیٹ تو دیے ہی لیکن اس دنیامیں بھی اس کے اجر بخشے۔ وہ صحابہ خودکہتے ہیں کہ خداکی قسم! اس زمانے میں دی ہوئی ایک ایک کھجورکے بدلے بعد میں خدانے ہمیں ایک ایک لاکھ درہم ودیناردیے۔

بلکہ یہ عاشق تو اپنی جانوں کے نذرانے لیے آپؐ کے ساتھ میدان جنگ میں جانے کوسعادت اور اعزاز جانتے۔ عورتیں اپنے باپ اوراپنے سہاگ رسول اللہ کی محبت میں قربان ہونے کے لیے ساتھ بھیجتیں۔ اپنے جگرکے ٹکڑوں کو، اپنے آنگن کی رونق اولادوں کو اپنے ہاتھوں سے سجاکر روانہ کرتیں اور کہتیں کہ دیکھو اس پیارے پرقربان ہوجانا لیکن اس کوخراش تک نہیں آنی چاہیے۔

کفارمکہ کی طرف سے جب مدینہ پرحملہ کرنے کاعلم ہواتوآپؐ نے نہ چاہا کہ مدینہ والے کسی تکلیف کا سامناکریں ا س لیے آپؐ نے مناسب سمجھا کہ مدینہ سے باہرجاکر ان کے حملہ کاجواب دیاجائے۔ اورمعاہدہ کی روسے مدینہ والوں کے لیے ضروری بھی نہ تھا کہ وہ آپؐ کے ساتھ جائیں۔چنانچہ جب صحابہ کو آپؐ نے مشورہ کے لیے جمع کیاتو مدینہ کی بستی کے ان عاشقوں کے ایک ترجمان سعدبن معاذؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ!جب یہ معاہدہ ہوا تھا تب ہم ابھی عشق ومحبت کی لذت ِحرارت سے ناآشنا تھے۔اب تویہ عشق دل کی گہرائیوں تک سرایت کرچکاہے۔ آپؐ جہاں پسند فرمائیں وہاں چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہوں گے۔ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے بائیں بھی لڑیں گے۔ آپؐ کے آگے بھی لڑیں گے آپؐ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ ہماری لاشوں کونہ روند ڈالے۔

جبلِ اُحُداسی عشق ووفا کی داستان کاگواہ ہے۔ عشق ومحبت کی جوداستانیں اس کے دامن میں رقم ہوئیں وہ کبھی نہ بھولنے والی ہیں۔تبھی تو نبی اکرم ﷺجب بھی اُحُدپہاڑ کودیکھتے توفرماتے جَبَلُ حِبُّنَا وَنُحِبُّ۔ یہ وہ پہاڑ ہے جوہم سے محبت کرتاہے اورہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

جنگ اُحُد میں جب ایک وقت آیا کہ کفارکے پُرزور حملے سے صحابہ سیلاب میں تنکے کی طرح بہنے لگے تو ایسے میں حضورﷺ نے مسلمانوں کو آواز دے کریہ فرمایا کہ اس وقت کون ہے جومجھ پراپنی جان نچھاور کرے؟ اس آواز نے عاشقوں کو دیوانہ بنادیا۔ ایک انصاری صحابی زیاد بن سَکَن اپنے چندساتھیوں کو لے کر آپؐ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور ایسی بے جگری سے لڑے کہ دشمن کی یلغار کو پسپا کردیا اور خود بھی سب کے سب شہیدہوگئے۔ کچھ دیر بعد حضورؐ نے صحابہ سے فرمایا: زیاد کو میرے پاس لاؤ۔ حضرت زیاد کے سب ساتھی شہیدہوچکے تھےلیکن خداکی تقدیر نے ایک خاص مقصدکے لیے ان کے چھلنی بدن میں جان کوروک رکھاتھا۔شاید کہ آنحضرت ﷺ اپنے اس جاںنثار عاشق کو اس فدائیت کی ایک جزا دیناچاہتے تھے۔ چنانچہ آنحضور ﷺ کے ارشاد پر جب صحابہؓ نے حضرت زیادؓ کے چورچوربدن کوحضورکے قریب ڈال دیا توفرمایا اس کو اَور قریب کرو۔صحابہ نے تعمیل کی تو فرمایا اسے اورقریب کرو۔یہاں تک کہ جب وہ آپ کے عین قدموں میں لٹا دیے گئے تو آنحضورﷺ نے اپناپاؤں آگے بڑھایا اور زیادنے اپنی زندگی کے آخری سانس اس طرح لیے کہ اپنے آقا کے پاؤں پراس عاشق کاسرتھا۔

ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمروؓ ایک جنگ میں لڑتے ہوئے شہیدہوگئے۔ ان کی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود آنحضرت ﷺ کویہ خبردی کہ جب عبداللہ شہادت کے بعدخدا کی جناب میں حاضر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا کہ بتا آج تیری رضاکیاہے؟ اس پرانہوں نے عرض کیا: میری رضا توبس یہی ہے کہ تُو مجھے ایک بارپھر زندہ کردے اورمَیں محمدمصطفیٰ ﷺ کے ساتھ تیری راہ میں پھر مارا جاؤں، تُوپھرمجھے زندہ کردے اورمَیں رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اسی طرح پھر مارا جاؤں۔

اس صحابی کی قلبی کیفیت کی آنحضرت ﷺ کوخبردے کر دراصل اللہ تعالیٰ آپ کویہ پیغام دے رہا تھا کہ اے سب سے بڑھ کرمجھ سے محبت کرنے والے دیکھ! تیراعشق بھی کیسا ہم نے اپنے عارف بندوں کے دلوں میں بھردیا ہے کہ عالم گزران سے گزرجانے کے بعد بھی تیراخیال اُنہیں ستاتا ہے اور تجھے میدان جنگ میں تنہا چھوڑ کرچلے جانے پر کس درجہ کبیدہ خاطرہیں کہ تیرے مقابل پر انہیں جنت کی بھی حرص نہیں۔ان کی جنت توبس یہی ہے کہ بےشک تیزتلواروں سے باربارکاٹے جائیں، برچھیوں سے ان کے جسم چھلنی کیے جائیں مگر تیرے ساتھ رہیں، پھرتیرے ساتھ رہیں، پھر تیرے ساتھ رہیں۔ان عاشقوں کے رُوئیں رُوئیں سے یہ آوازآتی تھی ؎

اے شخص تُو جان ہے ہماری

مر جائیں اگر تجھے نہ چاہیں

سو بار مریں تو تیری خاطر

سو بار جیئیں تو تجھ کو چاہیں

اسی گھرانے کی ایک خاتون کاعشق دیکھیے۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ مَیں میدان جنگ کی طرف حالات معلوم کرنے جارہی تھی کہ راستے میں مجھے عبداللہ بن عمرو کی بہن ہند اونٹ کی مہارپکڑے مدینہ کی طرف جاتے ہوئے ملی۔ مَیں نے اس سے پوچھا کہ میدان جنگ کی کیاخبرہے؟ اُس نے جواب دیا الحمدللہ ، سب خیریت ہے۔ حضرت محمدﷺ بالکل خیریت سے ہیں۔ اتنے میں میری نظر اونٹ پر پڑی جس پرکچھ لداہواتھا۔ مَیں نے پوچھا یہ اونٹ پرکیاہے؟ کہنے لگی میرے خاوند عمرو بن جموح کی لاش ہے، میرے بھائی عبداللہ بن عَمروکی لاش ہے اور میرے بیٹے خلّاد کی لاش ہے۔یہ کہہ کرالحمدللہ الحمدللہ کہتے ہوئے مدینہ کی طرف چل دی۔

پھر ایک جنگ کے بعد آنحضور ﷺ کے ارشاد پر ایک صحابی تلاش کرتے ہوئے جب سعد بن ربیعؓ کے پاس پہنچے تو سعدنے انہیں کہاکہ مجھے اٹھاؤ نہیں کہ مَیں ان زخموں سے اب بچنے والا نہیں۔ ہاں ایک پیغام لیتے جاؤ کہ میری طرف سے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بصد ادب سلام عرض کرنا اورعرض کرنا کہ سعدبن ربیع کی یہ آرزواور دعا ہے کہ جتنے بھی خدا کے نبی گزرے ہیں ان کی آنکھیں اپنی قوم سے جتنی ٹھنڈی ہوئی ہیں۔ ان سے بڑھ کرہماری طرف سے اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے۔ اور میری قوم اورقبیلے کوبھی میری طرف سے سلام کہنا اوریہ بھی کہنا کہ جب تک آنحضور ﷺ تم میں موجودہیں اس مقدّس امانت کی حفاظت کرنا تم پرفرض ہے۔ یادرکھنا کہ جب تک ایک شخص بھی زندہ تمہارے اندر موجود ہے تو اگرتم نے اس حفاظت میں کوئی کوتاہی کی تو قیامت کے دن خداکے حضور کوئی عذرقابل قبول نہیں ہوگا۔ اوریہ کہہ کر حضرت سعدؓ اپنے مولاکے حضورحاضرہوگئے۔

قرآن کریم کی سورت عبس کی آیات 34 تا 40کے تناظر میں آنحضورﷺ کے عشق و محبت نے صحابہ کی زندگیوں میں ایک قیامت برپاکردی تھی کہ خاوندکوبیوی کا اور بیوی کوخاوندکاہوش نہیں رہا۔ باپ بیٹے کوقربان کر رہا تھااور بہن بھائی کی قربانی دے رہی تھی اور سب کے سب ایک ہی جان پرنچھاورہوتے چلے جارہے تھے۔ صحابہ کے عشق کایہ والہانہ جذبہ ہی تھاکہ جب نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوگئی تو وہ یہ ماننے کوہی تیارنہ تھے کہ آپؐ فوت ہوجائیں گے۔صحابہؓ جب تدفین سے فارغ ہوکرآئے تو حضرت فاطمہؓ نے اسی عشق ومحبت کے ڈوبے ہوئے حزین دل کے ساتھ صحابہ سے پوچھا کہ مجھے بتاؤ توسہی تم نے محمدؐ کو مٹی میں دفن کرنا گوارا کیسے کرلیا۔

غم کے مارے یہ عشاق صحابہ حضرت حسانؓ کایہ شعر گلیوں میں پڑھتے ہوئے روتے رہتے ؎

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِریْ فَعَمِی عَلَیْکَ النَّاظِرُ

مَنْ شَآءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ

اے کہ دل وجان سے عزیزترہمارے محبوب! تُوتو میری آنکھ کی پتلی تھا اب تیرے وفات پاجانے کی وجہ سے میری آنکھ اندھی ہوگئی ہے۔صرف تُوہی ایک ایساوجودتھا جس کے متعلق مجھے موت کاخوف تھا۔اب تیری وفات کے بعد خواہ کوئی مرے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔

یہ لوگ جب تک زندہ رہے اسی محبت کے دم سے زندہ رہے۔اور اسی آرزو کے سہارے جیتے رہے کہ آج نہیں تو کل عنقریب ہم اپنے محبوب آقا کے پاس حاضر ہوجائیں گے ؎

اے محبت عجب آثار نمایاں کردی

زخم و مرہم برہِ یار تو یکساں کردی

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’صحابہؓ کی نظیر دیکھ لو دراصل صحابہ کرام کے نمونے ایسے ہیں کہ کُل انبیاء کی نظیر ہیں … صحابہ کرامؓ کاگروہ عجیب گروہ قابلِ قدر اور قابلِ پیروی گروہ تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 45،44 مطبوعہ ربوہ)

ایک اورجگہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے نبی کریمؐ نے جوجماعت بنائی تھی۔ان میں سے ہرایک زکی نفس تھا۔ اور ہرایک نے اپنی جان کودین پرقربان کردیاہواتھا ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا۔جومنافقانہ زندگی رکھتاہو۔سب کے سب حقوق اللہ اور حقوق العباد کوادا کرنے والے تھے۔ سو یاد رکھو اس جماعت کوبھی خداتعالیٰ انہیں کے نمونہ پرچلانا چاہتاہے۔اورصحابہؓ کے رنگ میں رنگین کرنا چاہتاہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 408 مطبوعہ ربوہ)

پس اے احمدیو! خوشخبری ہو کہ آج خداکے فرستادے نے پھر یہ نوید سنائی ہے ؎

مبارک وہ جو اَب ایمان لایا

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ان عشاق صحابہؓ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’صدق اور راستی کے تمام اجزا بہ ہیئت اجتماعی ان کے وجود میں جمع ہو گئے۔ اور اُن کے دلوں میں پرہیزگاری کے نور چمک اٹھے اور اُن کے پیشانی کے نقشوں میں محبت مولیٰ کے بھید ایک چمکیلی صورت میں نمو دار ہو گئے اور اُن کی ہمتیں دینی خدمات کے لئے بلند ہو گئیں … وہ ایک قوم ہے جنہوں نے کبھی جنگ کے میدانوں سے تخلّف نہ کیا اور زمین کی انتہائی آبادی تک زمین پر قدم مارتے ہوئے پہنچے۔ اُن کی عقلیں آزمائی گئیں۔ اور ملک داری کی لیاقتیں جانچی گئیں۔ سو وہ ہر ایک امر میں فائق نکلے اور علم اور عمل میں سبقت کرنے والے ثابت ہوئے۔ اور یہ معجزہ ہمارے رسول خاتم النبیّین ﷺ کا ہے اور حقیقتِ اسلام پر ایک صریح دلیل ہے … پس اے خدا! اس نبی پرسلام اور درودبھیج اوراس کے آل پرجومطہراور طیب ہیں۔اوراس کے اصحاب پر جودن کے میدانوں کے شیراور راتوں کے راہب ہیں اوردین کے ستارے ہیں۔خداکی خوشنودی ان سب کے شامل حال رہے۔‘‘

(نجم الہدیٰ روحانی خزائن،جلد14 صفحہ17و 44-41)

………٭………٭………٭………

ایک نعتیہ مشاعرہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍مئی 2013ء میں مجلس انصار اللہ مقامی ربوہ کے زیرانتظام منعقد ہونے والے ایک نعتیہ مشاعرہ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ مجلس کی صدارت مکرم پروفیسر مبارک احمد عابد صاحب نے کی۔ تلاوت قرآن کریم اور حضرت مسیح موعودؑ کے نعتیہ فارسی کلام کے بعد سٹیج سیکرٹری نے مندرجہ ذیل اشعار سے مشاعرہ کا آغاز کیا:

سر بزم تیرا ہی ذکر ہے تیرا ذکر سب میں ہے مشترک

ہے جفاؤں کا، ہے وفاؤں کا، تیرا ذکر کتنا عجیب ہے

جو چلا تو حدِ خیال سے مَیں بہت ہی دُور نکل گیا

جو پلٹ کے دیکھا تو ہم نفس میرے پاس ہے تُو قریب ہے

اس مشاعرے میں شامل چند شعراءکرام کے نعتیہ کلام میں سے بعض چنیدہ اشعار ذیل میں ہدیۂ قارئین ہیں۔

٭…… مکرم میر انجم پرویز صاحب:

اے مجسم کرم ، اے رسالت مآبؐ

تیری رحمت ہے بے پایاں و بے حساب

سب جہانوں پہ تیرے کرم کے سحاب

تجھ سے ہر ذرۂ زندگی فیض یاب

٭…… مکرم ڈاکٹر محمد عامر خان صاحب:

وہ نبیوں میں اکمل تریں ہے یقیناً

وہی سب سے روشن جبیں ہے یقیناً

نبی ہے وہ نبیوں کا سردار بھی ہے

نبوت کا روشن نگیں ہے یقیناً

٭…… مکرم نسیم چودھری صاحب:

شاہا! مَیں وجہ خلق سماء و زمیں لکھوں

اکمل صفات تجھ کو مَیں کیا کیا نہیں لکھوں؟

ارض و سما میں زندگی بھی تیرے دم سے ہے

تجھ کو مَیں کائنات کا مسند نشیں لکھوں

٭…… مکرم انور ندیم علوی صاحب:

برتر گمان و وہم سے عظمت رسولؐ کی

دونوں جہاں میں چھائی ہے رحمت رسولؐ کی

پر جبرائیل کے بھی جہاں پہنچ کر جلیں

انساں تو کیا فرشتے بھی صلّ علیٰ کہیں

٭…… مکرم قریشی عبدالصمد صاحب:

دہر میں حُسنِ محمدؐ سے فضائیں مہکیں

اس زمیں تابہ فلک ساری ضیائیں مہکیں

ان کے آنے سے کھلے پھول بیابانوں میں

ان کے آنے سے زمانے کی ہوائیں مہکیں

٭…… مکرمہ صاحبزادی امۃ القدوس بیگم صا حبہ کا کلام مکرم صغیر احمد صاحب نے ترنم کے ساتھ پیش کیا:

وہ جو احمدؐ بھی ہے اور محمدؐ بھی ہے

وہ مؤیَّد بھی ہے اور مؤیِدّ بھی ہے

وہ جو واحد نہیں ہے پہ واحد بھی ہے

اک اسی کو تو حاصل ہوا یہ مقام

اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام

٭…… مکرم عبدالسلام صاحب:

منتظر جس کے تھے سب جود و کرم کے واسطے

وہ عرب کا ناز، وہ رحمت عجم کے واسطے

آگیا جس دم وہ تکمیل حرم کے واسطے

باندھ کے بستر چلا شیطاں عدم کے واسطے

٭…… مکرم عابد صاحب سٹیج سیکرٹری:

عکس شمس و قمر ، نُور افلاک کا

رنگ ، خوشبو ، دھنک ، جلوہ لولاک کا

یہ زمیں آسماں ہے کرم آپ کا

کہکشاں بھی تو ہے نقش پا آپ کا

مرحبا مرحبا خاتم الانبیاء

٭…… مکرم پروفیسر مبارک احمد عابد صاحب صدر مجلس:

ہر ایک صاحب عرفاں کی ذات کا قبلہ

ترا وجود ہے ساری صفات کا قبلہ

خدا نما بھی تمہی اور باخدا بھی تمہی

تمہی ہو قائم و دائم نجات کا قبلہ

تُو دو جہاں کے لیے رحمت مجسّم ہے

تُو اس جہت سے بھی ہے شش جہات کا قبلہ

اور ایک دوسری نعت میں سے انتخاب:

خدا کے بعد تُو ہی سب سے ارجمند آقاؐ

ہر ایک مقام کی رفعت سے تُو بلند آقاؐ

جو آج ہیں، جو کبھی تھے، جو آئندہ ہوں گے

کسی کا دل نہ یہاں تجھ سا دردمند آقاؐ

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button