متفرق مضامین

غلام اور لونڈی کے حقوق … آنحضرتﷺ کی تعلیم اور اسوہ کی روشنی میں

(م۔ ا۔ شہزاد)

رحمۃ للعالمین نے غلام اور لونڈی کا ایک حق یہ بھی قائم فرمایا کہ ان سے بلاامتیاز محبت کی جائے اور کسی بھی رنگ میں نہ انہیں حقیر سمجھا جائے اور نہ ہی نفرت کی جائے

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس زمانے میں حضور نبی اکرمﷺ مبعوث ہوئے اس زمانے میں انسانوں کی غلامی کا رواج تھا۔ طاقتور قو میں یا قبائل حملہ آور ہو کر جسے چاہتے قید کر کے غلام بنالیتے تھے۔ مملکت ہائے روم اور یونان اور ایران وغیرہ میں لاکھوں غلام دکھ اور مصیبت کی زندگی کاٹ رہے تھے اور کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں تھا اور بحیثیت مجموعی ان کی حالت جانوروں سے بڑھ کر نہیں تھی۔ اس زمانے میں عرب کے ملک میں بھی ہزار ہا غلام پائے جاتے تھے۔ امرا کی امارت میں غلاموں کی تعداد بھی گویا ایک ضروری حصہ سمجھی جاتی تھی اور عرب کے لوگ خصوصیت کے ساتھ غلاموں کو سخت حقیر وذلیل خیال کرتے تھے۔ اور جیسا بھی ظالمانہ سلوک چاہتے تھے ان سے کرتے تھے۔ عرب میں غلاموں کو کوئی پوزیشن حاصل نہیں تھی۔ کوئی شہری حقوق انہیں حاصل نہیں تھے۔ آقا اُن کو مارڈالتے تو ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ کیونکہ وہ اپنے آقاؤں کی ملکیت سمجھے جاتے تھے۔ اُس وقت کوئی قانون نہیں تھا جو اُن کی حفاظت کر سکتا۔ محسنِ انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو جن طوقوں سے نجات دلائی ان میں ایک غلامی کا طوق بھی ہے۔ آپﷺ کے ذریعہ غلامی کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا۔ وہ معاشرہ جہاں غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا، وہاں آپﷺ نے غلاموں کو آقا کے برابرلاکھڑا کیا۔ اسلام کا قانونِ غلامی وہ واحد قانون ہے جس نے نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کا جامع تصور دیا بلکہ وہ شخصی اغراض اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شروع دن سے ان حقوق کا محافظ اور علمبردار بھی ہے اور اس نے غلام اور آقا کے درمیان مساوات، یکسانیت اور باہمی رحم دلی اور ہمدردی کا ایسا تعلق پیدا کردیا ہے جس سے عظمتِ اسلام کی ایسی دلکش اور خوبصورت تصویر صاف جھلکتی دکھائی دیتی ہے جو دھوکا، فراڈ، مبالغہ اور لوگوں کے لیے ملمع ساز ی سے یکسر پاک ہے۔ آپﷺ کے طفیل غلام اور لونڈی کو جو حقوق حاصل ہوئے آئیے ان حقوق کا مطالعہ شریعت ِمحمدی اور اسوہ محمدﷺ کی روشنی میں کرتے ہیں:

نیکی اور احسان کا سلوک

آنحضرتﷺ نے جب خدا سے الہام پاکر رسالت کا دعویٰ کیا تو آپﷺ کی ابتدائی تعلیمات میں یہ بات بھی داخل تھی کہ غلاموں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا سلوک ہونا چاہیے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نےغلاموں اور لونڈیوں سے نیک سلوک کرنا ان کا حق قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی ……وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ (النساء: 37)

ترجمہ: اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتاہے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کا سلوک کرو اور اپنے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ ………اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ۔

مشرک پر فوقیت

شریعت محمدیہ نے مسلمان لونڈی اورغلام کا یہ حق قائم فرمایا ہے کہ اسے آزادمشرک پر فوقیت دی جائے۔ اور انہیں معاشرے کا باعزت فرد بنایا جائے۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:

وَ لَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ حَتّٰی یُؤۡمِنَّ ؕ وَ لَاَمَۃٌ مُّؤۡمِنَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکَۃٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ ۚ وَ لَا تُنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤۡمِنُوۡا ؕ وَ لَعَبۡدٌ مُّؤۡمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکُمۡ…۔

(البقرہ: 222)

اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ اور یقیناً ایک مومن لونڈی، ایک (آزاد) مُشرکہ سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں کیسی ہی پسند آئے۔ اور مُشرک مَردوں سے (اپنی لڑکیوں کو) نہ بیاہا کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ اور یقیناً ایک مومن غلام، ایک (آزاد) مشرک سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں کیسا ہی پسند آئے۔

اس آیت میں علاوہ اس کے کہ غلاموں کی پوزیشن کو نمایاں طورپر مضبوط کیا گیا ہے۔ آزاد مسلمان مردوں اور عورتوں اور مسلمان لونڈیوں اور غلاموں کے باہمی شادیوں کے لیے دروازہ کھولا گیا ہےتاکہ اس مساویانہ اور رشتہ دارانہ اختلاط کے نتیجہ میں غلاموں کی حالت جلد تر اصلاح پذیر ہوسکے۔

چار سے زائد شادیوں کا حق

قرآن کریم میں یہ بھی حکم دیا گیا ہےکہ چار بیویوں کی انتہائی اور استثنائی حد کے پورا ہوچکنے کے بعد بھی اگر کسی مسلمان کے لیے غلام عورت کے ساتھ رشتہ کرنے کا سوال پیدا ہو تو یہ چار کی حد بندی اس کے رستے میں روک نہیں ہوگی اور وہ ہر حالت میں غلام عورت کے ساتھ رشتہ کرسکے گا۔ (النساء: 4)تاکہ غلاموں کی حالت کی اصلاح کا رستہ کسی صورت میں بھی مسدود نہ ہونے پائے۔

(سیرت خاتم النبیین جلد 1 صفحہ433)

پھر فرمایا:

لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنۡۢ بَعۡدُ… اِلَّا مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ۔ (الاحزاب: 53)

اس کے بعد تیرے لئے (اور) عورتیں جائز نہیں … مگر وہ مستثنیٰ ہیں جو تیرے زیرِ نگیں ہیں۔

غلامی کے عام احکام میں غلام اور لونڈی کے معاملے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی جو حقوق غلاموں کے ہیں وہی لونڈیوں کے بھی ہیں۔ البتہ یہ فرق ضرور ہےکہ لونڈیوں کو اچھی تعلیم و تربیت دینے اور انہیں آزادکر کے اپنے عقد میں لے لینے کے بارے میں اسلام نے زیادہ تاکیدکی ہے۔ اور جب تک لونڈیاں غلامی کی حالت میں رہیں اس وقت تک ان کے لیے بھی یہ پسند کیا گیا ہے کہ آزاد لوگ ان کے ساتھ رشتے کریں تاکہ اس رشتہ دارانہ اختلاط کے نتیجے میں غلاموں کے تمدن و معاشرت میں جلد تر اصلاح پیدا ہو سکے اور اسی غرض و غایت کے ماتحت لونڈیوں کا معاملہ تعدادازدواج کی انتہائی حد بندی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہےتاکہ غلاموں اور لونڈیوں کے تمدن ومعاشرت میں اصلاح کے مواقع زیادہ سے زیادہ تعداد میں کھلے رہیں۔

پردے میں نرمی

حضور نبی کریمﷺ پر نازل ہونے والی عالمی شریعت میں غلاموں کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ

وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ… لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ… اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ …۔ (النور: 32)

اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ … اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے… یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لئے…۔

قرآن کریم کے اس حکم سے ظاہر ہوتاہے کہ غلاموں کے متعلق اسلامی تعلیم کا اصل منشا یہ تھا کہ مسلمان انہیں بالکل اپنے قریبی عزیزوں کی طرح سمجھیں۔ حتیٰ کہ مسلمان عورتیں اپنے غلاموں سے پردہ بھی نہ کریں تاکہ غیریت کا احساس بالکل جاتارہے اور رشتہ داروں کا سااختلاط پیدا ہو جائے۔

شادی کا انتظام

بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد مجرد زندگی گزارنے میں جو مفاسد ہیں، اسلام ان سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس لیے وہ جس طرح دوسرے لوگوں کو شادی کا حکم دیتا ہے اسی طرح غلاموں کے لیے بھی شادی کو ناگزیرقرار دیتاہے۔ اس لیے آقا پر ذمہ داری عائد کی کہ ان کی شادی کی فکر کریں اور اس میں حیلے بہانے تلاش نہ کریں۔ غلام اگر مرد ہے تو آقا اس کے حق میں جو بہتر سمجھے جائز حدود میں رہ کر اس کی شادی کرائے۔ اگر باندی ہے توآقا اپنے تصرف میں رکھے یا اسے آزاد کرکے اس سے خود شادی کرلے یا دوسری جگہ کرا دے۔ قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے:

وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ۔

(النور: 33)

اور تمہارے درمیان جو بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کراؤ اور اسی طرح جو تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے نیک چلن ہوں ان کی بھی شادی کراؤ۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی بنا دے گا اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

یعنی جو غلام بیویاں رکھنے کے قابل ہوں جوان ہوں تواُن کی شادیاں کرو۔ اسی طرح اپنی لونڈیوں کی بھی شادی کردوکیونکہ نہ معلوم وہ کب آزاد ہوں اور کب انہیں ازدواجی زندگی بسر کرنے کا موقعہ ملے۔ یہ شریعت محمدیہ ہی تھی جس نے ان غلاموں کو شادی کا حق دیا جبکہ آج کل کا انٹرنیشنل قانون بھی ان غلام قیدیوں کے پاس ان کی پہلی بیویوں کو بھی نہیں آنے دیتا کجایہ کہ خود ان کی شادی کا انتظام کریں۔ (تفسیر کبیر جلد6 صفحہ 309)مگر شریعت محمدیہ کہتی ہے کہ جو کچھ خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ۔ جو کچھ خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔ اور پھر ان میں سے جو شادی کے قابل ہوں ان کی شادی کردو تاکہ انہیں بھی سکونِ قلب حاصل ہو سکے۔

آزادزندگی

آزادی اور خودمختاری بنیادی انسانی حقوق میں سے ایسا حق ہے جسے ہر مذہب اور ہر قوم نے تسلیم کیا ہے۔ لیکن غلامی کے اس فرسودہ اور تنگ نظری کے نظام نے غلاموں اور لونڈیوں کو اس حق سے بھی محروم کیا ہوا تھا۔ آپﷺ ان مظلوموں کے لیے رحمت بن کر آئے اور ان کو حق آزادی دلانے کے لیے رات دن کوشاں رہے یہ آپﷺ کی انہی عظیم الشان کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ان بے کس و بے یارومددگار کمزوروں کو آزاد فضا میں اپنی مرضی کی زندگی جینے کا حق میسر ہوا۔ غلاموں کو حق آزادی دلانا اسلام اور بانیٔ اسلام کا اصل نصب العین تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے جبکہ ابھی آنحضرتﷺ کے دعویٰ کی ابتدا ہی تھی اور آپﷺ مکہ میں مقیم تھے آپﷺ پر یہ خدا کی وحی نازل ہوئی:

وَ مَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا الۡعَقَبَۃُ۔ فَکُّ رَقَبَۃٍ۔ (البلد: 13تا14)

اور تجھے کس نے بتایا ہے کہ چوٹی کیا (ہے اور کس چیز کا نام) ہے؟ (چوٹی پر چڑھنا غلام کی) گردن چھڑانا ہے۔

پھر فرمایا:

وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ …وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ…۔

(البقرہ: 178)

بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے … اور مال دے اس کی محبت رکھتے ہوئے اقرباءکو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو نیز گردنوں کو آزاد کرانے کی خاطر۔

حضر ت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نےفرمایا جس شخص نے بھی کسی مسلمان شخص کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر ایک عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو آگ سے بچائے گا۔

(بخاری کتاب العتق باب فی العتق و فضیلہ حدیث 2517)

ایک اور حدیث میں آتاہے کہ حضرت براء بن عازبؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یارسول اللہﷺ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ بس میں اس سے سیدھاجنت میں چلا جاؤں۔ آپﷺ نے فرمایا تم نے لفظ تو مختصر کہے ہیں مگر بات بہت بڑی پوچھی ہے۔ تم ایسا کرو کہ غلام آزاد کرو اور اگر خود اکیلے آزاد نہ کر سکو تو دوسروں کے ساتھ مل کر آزاد کرو۔

(بیہقی شعب الایمان بحوالہ مشکوٰۃ کتاب العتق3384)

غلامی سے نجات

اسلام وہ مذہب ہے جس نے کسی بھی شخص کو محض نسل، وطن، رنگ، زبان اور دین و مذہب کی بنیاد پر غلام بنانا حرام قرار دیا ہے۔ جب مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے نے ایک قبطی کو بلا وجہ مارا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برسرعام اس کو سزا دی اور ساتھ ہی گورنر کو قہرآلود نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فرمایا: ’’متی استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا‘‘یعنی ’’تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام بنانا شروع کیا ہے، جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔ ‘‘اسلامی شریعت میں نہایت واضح اور منصوص طور پر یہ حکم موجود ہے کہ کسی آزاد انسان کو اس کی جائز آزادی سے محروم کر کے غلام بنانا ایک سخت ممنوع اور حرام فعل ہے جس کے متعلق قیامت کے دن خداکے حضور سخت مواخذہ ہوگا۔ چنانچہ حدیث میں آتاہے: حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے مَیں قیامت کے دن جنگ کروں گا۔ اوّل وہ شخص جو میرا واسطہ دے کر کسی سے کوئی عہد باندھتا ہے اور پھر غداری کرتا ہے۔ دوسرے وہ جو کسی آزادشخص کو غلام بناتاہے اور اسے فروخت کرکے اس کی قیمت کھا جاتاہے اور تیسرے وہ جو کسی شخص کو کام پر لگاتاہے اور پھر اس سے کام تو پورا لے لیتا ہے مگر اس کی مزدوری اسے نہیں دیتا۔

(بخاری کتاب البیع باب اثم من باع حرا حدیث نمبر2227)

دوسری روایت میں یوں آتاہے کہ حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ تین قسم کے لوگ ہیں جن کی نماز میرے حضور ہرگز قبول نہیں ہوگی اور میں ان سے قیامت کے دن لڑوں گا۔ ایک وہ شخص جو میرا واسطہ دے کر کسی سے کوئی عہد باندھتاہے اور پھر بدعہدی کرتاہے۔ دوسرے وہ جو اسے غلام بناتاہے جسے خدانے آزاد رکھا ہے۔ تیسرے وہ جو مزدور سے کام لیتاہے اور پھر اس کی مزدوری نہیں دیتا۔

(ابوداؤد بروایت فتح الباری جلد 4صفحہ346)

یہ حدیثیں حدیث کی اس قسم میں داخل ہیں جو محدثین کی اصطلاح میں حدیث قدسی کہلاتی ہے۔ یعنی جو ہوتی تو آنحضرتﷺ کی زبان مبارک سے ہے مگر اس میں حکم اور الفاظ خدا کے ہوتے ہیں۔ پس اس واضح اور صریح تعلیم سے ثابت ہوتاہے کہ اسلام کسی کو یہ حق نہیں دیتاکہ کسی آزاد انسان کو اس کی جائز آزادی کے حق سے محروم کر کے حقیقی طور پر غلام بنا لیا جائےجو ایک انتہائی درجہ کا ظلم ہے جس کے ارتکاب کی کوئی دیانت دار شخص جرأت نہیں کر سکتا۔

مارنے کی ممانت

بانیٔ اسلامؐ نےغلاموں کے جسمانی حقوق کے ساتھ معنوی حقوق کے تحفظ کی بھی ضمانت دی۔ چنانچہ ان کی توہین اور تحقیر کرنا اور انہیں مارنا حرام قرار دیا۔ عرب لوگ غلاموں کو جانوروں کی طرح مارتے تھے۔ غلاموں کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ غلاموں کو مارنے اور بلاوجہ ستانے میں یہ لوگ لذت محسوس کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک خاص کھیل میں غلام آقا کے حکم سے ہارنے والے غلام کی بوٹی بوٹی کردیتا تھا اور تماشائی اس پر داد شجاعت دیتے تھے۔ ( اسلام اور جدید ذہن کے شبہات، صفحہ61)رسول کریمﷺ نے اس بات سے سختی سے منع کیااور فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے غلام کو مارے تواللہ کو یاد کرلے۔ یعنی مارنے والا اللہ سے خوف کرے۔ (جامع الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ماجاء فی اداب الخادم)آپﷺ نے غلاموں اور لونڈیوں کا یہ حق قرار دے دیا کہ اگر کوئی انہیں سزا دے تو اس کے کفارے کے طور پر انہیں آزاد کر دے۔ چنانچہ حضرت سوید بن مقرنؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس صرف ایک غلام تھا۔ ہم میں سے کسی کو کسی بات پر غصہ آیا تو اس نے غلام کو طمانچہ رسید کر دیا۔ رسول کریمﷺ کو علم ہو اتو آپﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس غلام کو آزادکر دیں۔ (مسلم کتاب الایمان حدیث 1657، سنن الترمذی حدیث 1542) معاویہ بن سوید روایت کرتے ہیں کہ میرے گھر ایک غلام تھا، میں نے اس کو مارا، پھر والد کے خوف سے گھر سے بھاگ گیا، ظہر کے وقت آیا اور والد کے پیچھے نماز پڑھی۔ بعد نماز والد نے مجھ کو اور غلام کو بلایا، غلام کو حکم دیا کہ تم اپنا بدلہ لے لو۔ اس نے مجھ کو معاف کردیا۔ اس کے بعد والد نے یہ واقعہ بیان کیا کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ہمارے خاندان بنی مقرن میں صرف ایک غلام تھا، ہم میں سے کسی نے اس کو ماردیا۔ رسولﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: اس کو آزادکردو۔ لوگوں نے عرض کیا اس کے سوا ہمارے پا س اور کوئی خادم نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا، جب تک دوسرے خادم کا انتظام نہ ہوجائے اس سے کام لو، لیکن جیسے ہی انتظام ہوجائے اس کو آزاد کردو۔

( صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب صحبة الممالیک وکفارة من یطعم عبدہ۔سنن ابوداوٴد، کتاب الادب، باب فی حق المملوک)

اس بات کی مزید وضاحت اور اس امرکا ثبوت کہ اسلام نے غلام کو سزا دینے کو اس کی آزادی کا ذریعہ بیان کیا ہے حضرت عمرؓ کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کو مارے اور پھر آزاد کر دے تو اسے اس کے اس فعل کا کوئی ثواب نہیں ہوگا۔ کیونکہ غلام کا آزاد کیا جانا اسلام میں مالک کے غلام کو مارنے کے فعل کی سزا قرار پاچکا ہے۔ (مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالک) حضرت ابومسعود بدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار کسی وجہ سے میں نے اپنے غلام کو مارا اس وقت میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی: ’’دیکھو ابو مسعودیہ کیا کرتے ہو‘‘مگر غصےکی وجہ سےمیں نے اس آواز کو نہ پہنچانا اور غلام کو مارتا ہی گیا۔ اتنے میں وہ آواز میرے قریب آگئی اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرتﷺ یہ آواز دیتے ہوئے میری طرف آرہے ہیں۔ آپﷺ کو دیکھ کر میری چھڑی میرے ہاتھ سے گر گئی۔ آپﷺ نے فرمایا ابو مسعود اللہ تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جو تمہیں اس غلام پر ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا یا رسول اللہ میں اللہ کی رضا کے لیے اس غلام کو آزاد کرتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہارے منہ کو جھلستی۔

(مسلم کتاب الایمان)

عمر بن الحکمؓ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی لونڈی کے بارے میں عرض کیا کہ وہ میری بکریا ں چراتی ہے۔ ایک دن ایک بکری گم ہوگئی۔ مَیں نے سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ بھیڑیے نے کھالیا۔ مجھے بہت افسوس ہوا، انسان ہی تھا غصہ آگیا اور لونڈی کے چہرے پر تھپڑ ماردیا۔ کیا اسی آن اس کوآزاد کردوں؟ رسول اللہﷺ نے اس کو بلاکر پوچھا: اللہ کہاں ہے، اس نے کہاآسمان پر۔ پھر پوچھا: مَیں کون ہوں، اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیںﷺ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس کو آزاد کردو۔ ( موطا امام مالک، کتاب العتق والولاء، باب مایجوز من العتق فی الرقاب الواجبة) ایک روایت میں ہے کہ ایک لونڈی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پا س آئی۔ اس کو اس کے مالک نے آگ سے جلاکرزخمی کردیا تھا، حضرت عمرؓ نے اس کو آزاد کروادیا۔

(موطا امام مالک، کتاب العتق والولاء،باب عتق امہات الاولادوجامع القضا فی العتاقة)

غلطیوں کو معاف کرنا

جس طرح ایک عام آدمی سے کوئی غلطی ہوسکتی ہے، اسی طرح غلاموں سے غلطیوں کا صادر ہونا کوئی مستبعد نہیں۔ مگر یہ منصفانہ بات نہیں کہ عام آدمیوں کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا جائے اور غلاموں سے کوئی غلطی سرزد ہوتو تازیانے لگائیں جائیں۔ نبی اکرمﷺ کی تعلیمات میں یہ وصف بھی نظر آتا ہے کہ آپؐ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اگر غلام سے بھی کوئی غلطی ہوجائے تو اسے سزا دینے کے بجائے معاف کردیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضورﷺ کی خدمت میں آیا اور دریافت کیا کہ ہم غلاموں کو کتنی بار معاف کردیا کریں۔ آپﷺ اس کی بات سن کر خاموش رہے۔ اس نے پھر کہا کتنی مرتبہ اسے معاف کریں، آپﷺ اب بھی خاموش رہے۔ جب اس نے تیسری بار یہی سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’ہر روز ستّر مرتبہ اسے اس کی غلطی پر معاف کردیا کرو۔ ‘‘( سنن ابوداوٴد، کتاب الادب، باب فی حق المملوک) کیااسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب یا شریعت نے اپنے غلاموں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہوگا اور اپنے ماننے والوں سے کہا ہوگا کہ اسے اتنی بار معاف کردیا کرو۔ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ مالک کے لیے پنکھا جھلنے کے دوران اگر خادم کو ذراسی اونگھ آگئی تو اسے اس گستاخی کی پاداش میں مار مار کر موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔

( المصالح العقلیہ صفحہ254)

بنیادی ضروریات کا انتظام

اسلام آقا پر لازم قرار دیتا ہے کہ وہ غلام کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ اگر اسے سواری کی ضرورت ہو تو اسے سواری مہیا کرے۔ پھر اخراجات کی یہ ذمہ داری اس کی محنت کا معاوضہ نہیں بلکہ اسلام اسے غلام کا بنیادی حق قرار دیتا ہے۔ نیز آقا کے لیے حرام قرار دیا کہ وہ غلام کو ایسے کام کی مشقت دے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔ آپ نے فرمایا:

’’لِلْمَمْلُوْکِ طَعَامِهِ وَکِسْوَتِهِ وَلَا يُکَلِّفُ مِنَ العَمَلِ إِلَّا مَا يَطِيْق‘‘(مسلم: 1662)

غلام کو کھلاؤ اور پہناؤ اور اسے وہ کام نہ دو جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔

خادم کے تین حق

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خادم کے مالک پر تین حق ہیں۔ اوّل یہ کہ جب وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اسے جلدی نہ ڈالے۔ دوسرے کھانا کھاتے ہوئے اسے کھانے سے نہ اُٹھائے اور تیسرے اسے بھوکا نہ رکھے بلکہ سیر کرکے کھانا کھلائے۔

(مجمع الزوائدلھیثمی جلد8صفحہ299)

غلام تمہارے بھائی ہیں

رسول اکرمﷺ نے فرمایا تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو (یعنی غلام ہو) تو اسے چاہیے کہ اسے وہی کھانا دے جو وہ خود کھاتاہے۔ اور اسے ویسا ہی لباس دے جیسا وہ خود پہنتاہےاور تم اپنے غلاموں کو ایسا کام نہ دیا کرو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر کبھی ایسا کام دو تو پھر اس کام میں خود ان کی مدد کیا کرو۔

(بخاری کتاب العتق باب المعاصی من امر الجاہلیۃ)

آپﷺ کی اس تعلیم اور تر بیت کا یہ اثر تھا کہ صحابہ اس حد تک لفظاً لفظاً اس پرعمل کرتے تھے کہ دیکھنے والے حیران ہوتے۔ حضرت عبادہ بن ولیدؓ صحابیٔ رسولؐ ابوالیسرسے ملے۔ اس وقت ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا ہم نے دیکھا کہ ایک دھاری دار چادر اور ایک یمنی چادر انہوں نے لی ہوئی تھی۔ اور ایک دھاری دار چادراور ایک یمنی چادران کے غلام نے لی ہوئی تھی۔ مَیں نے کہا چچا آپ نے ایسا کیوں نہ کیا کہ اپنے غلام کی دھاری دار چادر خود لے لیتے اور اپنی یمنی چادر اسے دے دیتے تاکہ آپ دونوں کے بدن پر ایک طرح کا جوڑا تو ہوتا۔ کہتے ہیں حضرت ابوالیسرؓ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا، میرے لیے دعا کی اور کہا بھتیجے میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے اور میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میرے اس دل نے اسے اپنے اندر جگہ دی ہے رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ اپنے غلام کو وہی کھانا کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو۔ اور وہی لباس پہناؤجو تم خود پہنتے ہو۔ مَیں اس بات کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں کہ میں دنیا کے اموال میں سے اپنے غلام کو برابر کا حصہ دے دوں بہ نسبت اس کے کہ قیامت کے دن میرے ثواب میں کوئی کمی آئے۔

(مسلم کتاب الزہدباب قصۃ ابی الیسر)

دوسری روایت میں تصریح ہے ابوذرؓ اور ان کے غلام کی چادر ایک جیسی تھی(تہبند دونوں کے مختلف تھے) معرور نے ان سے کہا کہ اے ابو ذرؓ اگر آپ اپنے غلام کی چادرلے کر اپنا تہبند بناتے تو آپ کی پوری پوشاک بن جاتی اور غلام کو آپ کوئی اور کپڑا دے دیتے۔ ابو ذرؓ نے کہا میں نے ایک دفعہ ایک شخص کو (جو غلام تھا) جس کی ماں عجمی تھی ماں (کی عجمیت ) کا طعنہ دیا تو اُس نے حضورﷺ کے پاس میری شکایت کردی۔ آپﷺ نے فرمایا یہ بھی تمہارے بھائی ہیں جن پر اللہ نے تمہیں فضیلت دی ہے۔ پس جس کو اس کا غلام موافق نہ ہو اسے بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو۔

(ابوداؤدکتاب الادب باب134)

معرور بن سویدؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ کے صحابی حضرت ابوذرغفاریؓ کو دیکھا کہ جیسے اُن کے کپڑے تھے، ویسے ہی اُن کے غلام کے تھے اس کی وجہ پوچھی کہ آپ کےکپڑے اور آپ کے غلام کے کپڑے ایک جیسے کیوں ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں ایک دفعہ رسول کریمﷺ کے زمانہ میں ایک شخص کو اس کی ماں کا طعنہ دیا جو لونڈی تھی اس پر رسول کریمﷺ نے فرمایا: تُو تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک کفر کی باتیں پائی جاتی ہیں۔ غلام کیا ہیں تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری طاقت کا ذریعہ ہیں خدا تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت وہ کچھ عرصے کے لیے تمہارے قبضے میں آجاتے ہیں۔ پس چاہیے کہ جس کا بھائی اس کی خدمت تلے آجائے وہ جو کچھ خود کھاتا ہے اُسے کھلائے اور جوکچھ خود پہنتا ہے اُسے پہنائے۔ اور تم میں سے کوئی شخص کسی غلام سے ایسا کام نہ لے جس کی اُسے طاقت نہ ہو اور جب تم انہیں کوئی کام بتاؤ تو خود بھی ان کے ساتھ مل کر کام کیا کرو۔ (مسلم کتاب الایمان)

غلام کے ساتھ مل کر کھانا کھاؤ

غلاموں کو کھانے کے لیے بس اتناہی دیا جاتا تھا جس سے ان کی سانس برقرار رہے اور ان سے مشقت کے کام اتنے لیے جاتے تھےکہ وہ بے دم ہوکر رہ جاتے۔ لیکن یہ اسلام کا کارنامہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم اپنے غلاموں کو وہی کھلاوٴ اور پہناوٴ جو تم خود کھاتے اور پہنتے ہو۔

ایک اَور موقع پر نبی کریم ؐنے فرمایا کہ خادم یا غلام جب کھانا لائے اُسے بھی ساتھ بٹھا کر اس میں سے کھلاؤ۔ اگر وہ نہ مانے تو کچھ کھانا ہی دےدو کہ اس نے کھانا تیار کرتے ہوئے گرمی اور دھواں کھایا ہے۔ (ابن ماجہ کتاب الاطعمة باب 19)پھرفرمایاتم ان غلاموں کی اپنی اولاد کی طرح عزت کرو اور جو خود کھاتے ہو اس میں سے ان کو کھلاؤ۔ (بخاری کتاب العتق باب 16)ہر انسان الگ الگ خصوصیت اور صلاحیت کا حامل ہے۔ کوئی اپنی خوبیوں سے بہت جلد اپنے مالک کا محبوب بن جاتا ہے اور کوئی ایسا کرنے میں ناکام ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے نفرت کی جائے اور اس کے ساتھ زیادتی کی جائے۔ غلاموں کے اندر بھی ایساہوسکتا ہے، اس کی بناپر ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرناچاہیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جو غلام تمہارے منشا کے مطابق ہو اس کو تم وہی کھلاوٴ اور پہناوٴ جو تم خود کھاتے اور پہنتے ہو اور جو غلام منشاکے برعکس ہو اس کو بیچ دو اور اللہ کے بندوں کو عذاب نہ دو۔ ‘‘

(سنن ابوداوٴد، ابواب الادب، باب فی الحق المملوک)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غلاموں کے ساتھ کھانے پینے میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے آپؐ کے خادم حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میری ماں ام سلیمؓ نے ایک ٹوکری میں کھجور یں دے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ حضورﷺ گھر پر نہیں تھےبلکہ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کی دعوت پر اس کے ہاں تشریف لے گئے تھے جس نے حضورؐ کا کھانا کیا ہوا تھا۔ مَیں وہاں پہنچا تو حضورؐ کھانا تناول فرمارہے تھے۔ آپؐ نے مجھے بھی کھانے میں شریک ہونے کے لیے فرمایا۔ کھانے میں گوشت اور کدو کا ثرید تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ حضور کو کدو بہت پسند ہیں۔ چنانچہ مَیں کدو کے ٹکڑے اکٹھے کر کے حضورؐ کے قریب کرنے لگا (اور آپؐ تناول فرماتے رہے) ہم کھانا کھا چکے تو حضورؐ واپس اپنے گھر تشریف لائے۔ مَیں نے کھجور کی ٹوکری حضورؐ کے سامنے رکھ دی۔ آپؐ اس میں سے کھاتے بھی جاتے اور تقسیم بھی فرماتے جاتے تھے۔ جب وہ ٹوکری آپ نے بانٹ دی۔ تب وہاں سے اُٹھے۔

(ابن ماجہ کتاب الاطعمة باب 26)

غلام کو غلام کہہ کر نہ پکاراجائے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کی عزت نفس قائم کرنے کےلیے ایک انسان ہونے کے ناطے سے ان کی تکریم کی ہدایت کی آپﷺ نے غلاموں کے لیے بڑے ہی خوبصورت القاب وضع کیے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ’’تم میں سے کوئی ’میرا غلام‘یا ’میری لونڈی‘نہ کہے اور نہ غلام ’میراربّ‘کہے۔ مالک کو ’میرے بچے‘، ’میری بچی‘کہنا چاہیے اور غلام کو چاہیے کہ ’میراسردار‘یا’سردارنی‘کہے۔ کیوں کہ تم سب مملوک ہو اور ربّ تو سب کا اللہ تعالیٰ ہے۔ ‘‘(سنن ابوداوٴ، کتاب الادب، باب لایقال المملوک ربی وربتی)حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے غلام سے یہ نہ کہے کہ اپنے ربّ کو کھانا کھلا اور اپنے ربّ کو وضوکرا، اور اپنے ربّ کو پانی پلا بلکہ یوں کہے سیدی، مولائی، یعنی میرے آقا اسی طرح تم میں سے کوئی اپنے غلام کو’اے میرے غلام‘، ’اے میری لونڈی ‘کہہ کر نہ پکارے بلکہ یہ کہے ’اے میرے نوجوان لڑکے‘ یا ’اے نوجوان لڑکی‘ یا کہے ’اے میرے بچے‘۔

(بخاری کتاب العتق حدیث نمبر2552)

فرائض میں نرمی

پھر غلام اپنے آقا کی جو خدمت انجام دیتا ہے اس کے عوض شریعت نے اس سے بعض شرعی احکام ساقط کردیے ہیں۔ مثال کے طورپر غلام پر جمعہ اور حج اور بعض دیگر احکام فرض نہیں ہیں۔

عائلی زندگی میں آزادی

نبی کریمﷺ نے غلاموں اور لونڈیوں کے عائلی حقوق کا بھی تحفظ فرمایا۔ اسلام سے پہلے غلامی در غلامی کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ غلام اور لونڈیاں اپنی عائلی زندگی میں بھی غلام تھے۔ انہیں طلاق کا اختیاربھی حاصل نہیں تھا۔ ایسی بھی شہادت ملتی ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے اپنے غلاموں کی شادی تو کردیتے تھے، مگر اپنے تصرف سے جب چاہا ان میں تفریق کرادی اور غلاموں کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا۔ آپ نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا۔ (سنن ابوداوٴد، کتاب الطلاق، باب فی المملوکة تعتق وہی تحت حرا اوعبد، کتاب الجہاد، باب فی عبیدالمشرکین یلحقون بالمشرکین)آپﷺ نے غلاموں اور لونڈیوں کو اپنی عائلی زندگی کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے کر ان کا یہ حق بھی قائم فرمادیا۔ روایت میں آتاہے کہ ایک غلام آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہﷺ میرے آقا نے اپنی لونڈی کے ساتھ میری شادی کر دی مگر اب وہ چاہتا ہے کہ ہمارے نکاح کو فسخ کر کے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر دے۔ آپﷺ نے لوگوں کو مخاطب ہو کر فرمایا!یہ کیا بات ہے کہ تم لوگ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کی شادی کرتے ہو۔ اور پھر خود ہی اپنی مرضی سے ان میں علیحدگی کرانا چاہتے ہو۔ سن لو ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا طلاق دینے کا حق صرف خاوند کو ہے تم اپنے غلاموں کو طلاق دینے پر مجبور نہیں کر سکتے۔

(ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق العبد)

بہترین تعلیم وتربیت

نبی اکرمﷺ نے نہ صرف غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی کی تعلیم دی بلکہ آزادی سے پہلے ان کا یہ حق بھی قائم کیا کہ ان کواچھی تعلیم وتربیت دی جائے۔ چنانچہ آپﷺ اس بارے میں فرماتے ہیں: اگر کسی کے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے اچھی تعلیم دے اور اس کی اچھی طرح تربیت کرے پھر اسے آزاد کر کے اس کے ساتھ شادی کرے تو ایسا شخص خدا کے حضور دہرے ثواب کا مستحق ہوگا۔

(بخاری کتاب النکاح باب اتحاذالسراری)

غلام اور آقا ایک دوسرے کے وارث

بانی اسلامﷺ نے غلام اور آقاکو ایک دوسرے کی وراثت کا حق بھی عطا کر دیا۔ یعنی اگر غلام بے وارث مرتا تو اس کا ترکہ اس کے آزاد کرانے والے کو جاتا تھا اور اگر مالک بے وارث رہ جاتا تو اس کا ورثہ اس کے آزادکردہ غلام کو ملتا تھا۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا آزادشدہ غلام لاوارث مرجائے تواس کا ترکہ آزادکروانے والے کو ملے گا۔

(بخاری کتاب العتق باب بیع الولاء وھبۃ)

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں ایک شخص فوت ہوگیا اور اس کا کوئی وارث نہیں تھا سوائے ایک غلام کے جسے اس نے آزادکردیا تھا تو نبی کریمﷺ نے اس شخص کا ترکہ اس غلام کو دے دیا۔ (ترمذی ابواب الفرائض)چونکہ اس حق وراثت کی بنیاد مالی اور اقتصادی خیالات پر مبنی نہیں تھی بلکہ اصل منشامالک اور آزادکردہ غلام کے تعلق کو قائم رکھنا تھا اس لیے آنحضرتﷺ نے یہ حکم جاری فرمایا کہ یہ حق موروثیت کسی صورت میں بھی بیع یا ھبہ وغیرہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے آزادکردہ غلام اور آقا کے حق موروث کی خریدو فروخت اور اس کے ھبہ وغیرہ سے منع فرمایا۔

(بخاری کتاب العتق باب بیع الولاء وھبۃ)

اموال زکوٰۃ میں حق

آنحضرتﷺ کے ذریعہ نازل ہونے والی اسلامی تعلیم میں سلطنت اسلامی کا یہ فرض قرار دیا کہ وہ قومی بیت المال میں سے ایک معتدبہ حصہ غلاموں کو آزادکرانے میں صرف کرے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے: صدقات تو محض محتاجوں اور مسکینوں اور اُن (صدقات) کا انتظام کرنے والوں اور جن کی تالیفِ قلب کی جا رہی ہو اور گردنوں کو آزاد کرانے اور چٹی میں مبتلا لوگوں اور اللہ کی راہ میں عمومی خرچ کرنے اور مسافروں کے لئے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فرض ہے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔ (التوبہ: 60)اس آیت کی رو سے اسلامی سلطنت کا فرض مقرر کیا گیا کہ وہ زکوۃ کے محاصل میں سے غلاموں کی آزادی پر روپیہ خرچ کرے۔

حق مکاتبت

شریعت محمدیہ میں غلاموں اور لونڈیوں کا ایک حق مکاتبت کے نام سے موسوم ہے جس میں مالک اس بات کا پابند اور مجبور ہے کہ اگر کوئی غلام اپنے حالات کے لحاظ سے آزادی کی اہلیت کو پورا کر چکا ہو تووہ اس سے مناسب رقم پیدا کرنے کی شرط کر کے اسے آزاد کر دے۔ اس بارے میں فرمانِ الٰہی ہے: اے مسلمانو! تمہارے غلاموں میں سے جو غلام تم سے مکاتبت کا عہد کرنا چاہیں تمہارا فرض ہے کہ ان سے مکاتبت کا عہد کر کے انہیں آزادکردو بشرطیکہ وہ آزادی کے اہل بن چکے ہوں اور ایسی صورت میں تمہارا یہ بھی فرض ہے کہ اس مال میں سے انہیں بھی حصہ دو جو دراصل تو خدا کا ہے مگر خدا نے اس مکاتبت کے نتیجہ میں تمہیں عطاکیا ہے۔ …(النور: 34)

اس بات کی مزید وضاحت اور تائید کے لیے کہ مکاتبت مالک کی مرضی پر منحصر نہیں تھی بلکہ یہ غلام کا وہ حق ہے جو اسلامی حکومت اسے دلاتی ہے اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرتﷺ کے ایک صحابی حضرت انسؓ کا ایک غلام تھا جس کا نام سیرین تھا اس نے حضرت انسؓ کے ساتھ مکاتبت کرنی چاہی مگر حضرت انسؓ نے یہ خیال کر کے کہ میرے پاس بہت روپیہ ہے مجھے مکاتبت کے روپے کی ضرورت نہیں مکاتبت سے انکار کر دیا۔ اس پر سیرین نے حضرت عمرؓ کے پاس شکایت کی۔ حضرت عمرؓ نے سیرین کی شکایت سن کر حضرت انسؓ کو حکم دیا کہ وہ مکاتبت کریں۔

(بخاری کتاب المکاتبت)

حضرت یحیٰ بن کثیر سے روایت آتی ہے کہ آنحضرتﷺ فرمایا کرتے تھے کہ یہ جو قرآن کریم میں آتاہے کہ ’’اگر تم غلاموں میں بھلائی پاؤ تو تمہارا فرض ہے کہ تم مکاتبت سے انکار نہ کرو۔ ‘‘اس میں بھلائی سے مراد پیشہ وغیرہ کی اہلیت ہے یعنی مقصود یہ ہے کہ ایسے غلاموں کے ساتھ مکاتبت ضروری ہو جاتی ہےجوکوئی پیشہ یاکام وغیرہ جانتے ہوں یا جلد سیکھ سکتے ہوں تاکہ وہ آزادی حاصل کرنے کے بعد سوسائٹی پر کسی قسم کے بوجھ کا باعث نہ بنیں۔ (ابو داؤد بحوالہ تفسیر ابن کثیر زیر تفسیر آیت مکاتبت)آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نصرت کو اپنے اوپر ایک حق کے طور پر قرار دے لیا ہے۔ اوّل مکاتب غلام جو اپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کی فکر میں ہے۔ دوسرا وہ شادی کرنے والا شخص جو اپنی عفت بچانے کی نیت رکھتاہے اور تیسرا مجاہد فی سبیل اللہ۔

(ابن ماجہ ابواب العتق باب المکاتب)

غلاموں سے محبت

رحمۃ للعالمین نے غلام اور لونڈی کا ایک حق یہ بھی قائم فرمایا کہ ان سے بلاامتیاز محبت کی جائے اور کسی بھی رنگ میں نہ انہیں حقیر سمجھا جائے اور نہ ہی نفرت کی جائے۔ سیرت نبوی کا مطالعہ کریں تو جگہ جگہ ایسی مثالیں نظر سے گزرتی ہیں کہ آپﷺ نے غلاموں کی حد درجہ توقیر فرمائی اور ان کے ساتھ شفقت ومحبت کا معاملہ کیا ہے۔ آپؐ کی محبت اس مظلوم طبقے کے لیے اتنی گہری اور وسعت لیے ہوئے تھی کہ غلام آپﷺ کی جگہ اپنے والدین کی محبت کو ہیچ پاتے تھے۔ حضرت زید بن حارثہؓ حضر ت ام المو منین خدیجہؓ کے غلام تھے، جو انہوں نے نبی کریمﷺ کی خدمت کےلیے پیش کردیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا اور اس قدرشفقت اور محبت کا سلوک فرمایا کہ جب زیدؓ کے حقیقی والدین ان کو لینے کےلیے آئے تو باوجودیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ کو اختیار دے دیا کہ آپ والدین کے ساتھ واپس وطن جانے کےلیے آزاد ہومگر زیدؓ نے ان کے ساتھ جانے سے ا نکار کردیا۔ اور بزبان حال ثابت کیا کہ ہزار آزادی رسول اللہؐ کی غلامی پر قربان ہے۔ نبی کریمؐ نے عربوں کے دستور کے خلاف معزز قبیلہ قریش کی خاتون اپنی پھوپھی زاد بہن زینبؓ کی شادی اس آزادکردہ غلام سے کر کے ثابت کردیا کہ آپؐ کے نزدیک عزت کا معیار تقویٰ تھا۔ اگرچہ اختلافِ مزاج کے باعث یہ شادی کامیاب نہ ہوسکی تو آپ نے حضرت امّ ایمنؓ سے زیدؓ کی شادی کروائی۔ جن سے اسامہؓ پیدا ہوئے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ42دارالفکر بیروت)

رسول اللہﷺکو حضرت اسامہؓ سے بھی بہت محبت تھی۔ ایک دفعہ گھر میں ایسا ہوا کہ اسامہؓ کی ناک بہہ رہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ناک صاف کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ دیکھ کر عرض کرتی ہیں۔ حضور میں جو حاضر ہوں آپ رہنے دیں میں اس کی ناک صاف کردیتی ہوں۔ آپؐ فرماتے نہیں اور پھر خود اسامہؓ کی ناک صاف کرتے۔ اپنے نواسے امام حسین اور غلام زادے اسامہؓ کو گود میں لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔ (بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب 18) آپؐ کمال محبت سے فرمایا کرتے اسامہؓ لڑکی ہوتی تو میں اسے زیور پہناتا۔ عمدہ عمدہ کپڑے پہناتا۔ (ابن ماجہ کتاب النکاح باب 49)

غلاموں کے حقوق کا فکر

غلام اور لونڈی اس بات کا بھی حق رکھتے ہیں کہ ان کے حقوق کی بجاآوری کی فکر کی جائے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غلاموں کی ہر وقت فکر رہتی تھی کہ مبادا انہیں کوئی اذیت پہنچائے اور ان کی حق تلفی کرے۔ ہر وقت آپ اپنے اصحاب کو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔ حضور نبی اکرمﷺ کہ آخری الفاظ جو آپﷺ کی زبانِ مبارک سے سنے گئے اس حال میں کہ آپﷺ پر نزع کی حالت طاری تھی یہ تھے کہ

اَلصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ

یعنی اے مسلمانو! تمہیں میری آخری وصیت یہ ہے کہ نماز اور غلاموں کے متعلق میری تعلیم کو نہ بھولنا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی ذکر مرضی رسولﷺ )

غیروں کا اعتراف

مشہوراطالوی مستشرق پروفیسر ڈاکٹر وگلیری نے لکھا ہے: ’’غلامی کا رواج اسی وقت سے موجود ہے جب سے انسانی معاشرے نے جنم لیا اور اب تک بھی باقی ہے۔ مسلمان خانہ بدوش ہوں یا متمدن ان کے اندر غلاموں کی حالت دوسرے لوگوں سے بدرجہا بہتر پائی جاتی ہے۔ یہ ناانصافی ہوگی کہ مشرقی ملکوں میں غلامی کا مقابلہ امریکہ میں آج سے ایک سوسال پہلے کی غلامی سے کیا جائے۔ حدیث نبوی کے اندر کس قدر انسانی ہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں: ’’یہ مت کہو کہ وہ میرا غلام ہے بلکہ یہ کہو کہ وہ میرالڑکا ہے اور یہ نہ کہو کہ وہ میری لونڈی ہے بلکہ یہ کہو کہ وہ میری لڑکی ہے۔ ‘‘اگر تاریخی لحاظ سے ان واقعات پرغور کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ آنحضرتﷺ نے اس باب میں بھی عظیم الشان اصلاحیں کی ہیں۔ اسلام سے پہلے قرضہ نہ ادا ہونے کی صورت میں بھی ایک آزاد آدمی کی آزادی کے چھن جانے کا امکان تھا لیکن اسلام کے آنے کے بعد کوئی مسلمان کسی دوسرے آزاد مسلمان کو غلام نہیں بناسکتا تھا۔ آنحضرتﷺ نے غلامی کومحدود ہی نہیں کیا بلکہ آپ نے اس بارے میں اوامرونواہی جاری کیے اور مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ قدم بڑھاتے رہیں حتی کہ وہ وقت آجائے جب رفتہ رفتہ تمام غلام آزاد ہوجائیں۔ ‘‘

(اسلام پر نظرصفحہ41 اُردو ترجمہ An Interpretation of Islam )

سرولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمد میں مسلمانوں کے اسیرانِ بدر کے ساتھ سلوک کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی حکومت میں اہالیانِ مدینہ اور وہ مہاجرین جنہوں نے یہاں اپنے گھر بنالیے تھے کے پاس جب (بدر کے) قیدی آئے تو انہوں نے ان سے نہایت عمدہ سلوک کیا۔ بعد میں خود ایک قیدی کہاکرتا تھا کہ ’’اللہ رحم کرے مدینہ والوں پر۔ وہ ہمیں سوار کرتے تھے اور خودپیدل چلتے تھے۔ ہمیں کھانے کے لیے گندم کی روٹی دیتے تھے جس کی اس زمانے میں بہت قلت تھی اور خود کھجوروں پرگزاراکرتے تھے۔ ‘‘اس لحاظ سے یہ بات تعجب خیز نہیں ہونی چاہیے کہ بعد میں جب ان قیدیوں کے لواحقین فدیہ لے کر انہیں آزاد کروانے آئے۔ ان میں سے کئی قیدیوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا اور ایسے تمام قیدیوں کو رسول اللہؐ نے فدیہ لیے بغیر آزاد کردیا۔ ‘‘

(The life of Mahomet By Sir William Muir Vol.1 Page242)

اسلامی تعلیم کا اثر

رسول اللہﷺ کے غلام تو آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی آپ کے ایسے عاشق تھے کہ یہ دنیا تو کیا اگلے جہاں میں بھی آپ کی غلامی کے لیے ترستے تھے۔ آپ کے آزاد کردہ غلام ثوبان کو ایک روز یہی خیال آیا تو روتا ہوا آیا کہ اگلے جہان میں جب آپؐ بلند درجوں پر ہوں گے آپؐ کے دیدار کیسے ہوسکیں گے؟ فرمایا : انسان کو جس سے محبت ہواس کی معیت بھی عطاکی جاتی ہے۔ (الدرالمنثورللسیوطی سورت النساءزیر آیت ومن یطع اللّٰہ والرسول)حضرت ابو ہریرہؓ جو اسلام لانے کے بعد ہر وقت آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔ اور آپﷺ کی غلاموں کے حقوق کے متعلق تعلیم کو اکثر سنتے رہتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھےکہ اُس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہؓ کی جان ہے اگر اللہ کے رستے میں جہاد کا موقع مجھے نہ مل رہا ہوتا اور حج کی توفیق نہ مل رہی ہوتی اور میری بڑھیاماں زندہ نہ ہوتی جس کی خدمت مجھ پر فرض ہے تو مَیں خواہش کرتا کہ میں غلامی کی حالت میں مروں۔ کیونکہ رسول کریمﷺ غلام کے حق میں نہایت ہی نیک باتیں فرمایا کرتے تھے۔

(صحیح بخاری کتاب العتق حدیث نمبر 2548)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button