واقعہ بنو قریظہ اور مستشرقین کا منفی پروپیگنڈا
اسلام میں خدا تعالیٰ نے ’’ تکمیل ایمان کے لیے دو ہی باتیں رکھی ہیں تعظیم لِاَمرِاللہ اور شفقت علیٰ خلقِ اللہ ‘‘( حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 63)
لہٰذا ایمان کا بہت بڑا جزو شفقت علیٰ خلقِ اللہ ہے۔گویا انسان کی نجات کا مدار ایمان کی ان دونوں باتوں پر ہے۔(ایضاً 45) گویا جو شخص ان دونوں باتوں کی برابر رعایت نہیں رکھتا وہ کامل مومن نہیں ہو سکتا۔(ایضاً 63)جو دین شفقت علیٰ خلقِ اللہ کو مدارِ نجات کے لیے ایک اہم اصول قرار دے رہا ہے اس میں حقوق العباد پر کس قدر زور دیا گیا ہوگا۔اس سلسلے میں ہمارے راہ نما اور آقاومطاع شفیع المذنبین رحمۃللعالمین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی دعوت عالمگیرتھی۔آپﷺ انسانیت کی فلاح ونجات کے لیے آئے تھے۔آپؐ نے دنیا کو پہلا تحریری آئین عطا کیا۔جس میں مسلمانوں، معاہدوں اور ذمّیوں کے حقوق تفصیل سے بیان کیے گئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قوموں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاست میں اخلاقی اصول متعارف کروائے اور اللہ تعالیٰ کو اختیار کا مالک اور اپنے آپ کو خدا کا رسول قرار دیا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جو اللہ کے احکامات اور قوانین لوگوں کے لیے ہیں و ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہیں۔(The first written constitution by Dr Muhammad Hamidullah: page 12)
چنانچہ میثاقِ مدینہ کے مطابق یہودیوں کو سیاسی اور مذہبی حقوق دیے گئے۔لیکن بنو قریظہ نے اس معاہدےکا پاس نہ کیا اور بغاوت و غداری کے مرتکب ہوئے۔جس پر انہیں انہی کے اختیار کردہ حَکَم کےذریعے انہی کی کتاب کے مطابق سزا دی گئی لیکن اس پر مستشرقین طرح طرح کےاعتراض کرتے ہیں۔چنانچہ کیرن آرمسٹرانگ واقعہ بنو قریظہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
The massacre of qurayza is a reminder of the desperate condition of Arabia during Muhammad‘s life time. Of course we are right to condemn it without reserve.(Karen Armstrong: Muhammad: Phonix press.1991:p 208 )
لیکن یہ مستشرقین انصاف کا خون کرتے ہیں۔ایک طرف تو وہ اس واقعہ کا تجزیہ اس کے حقیقی تناظر میں نہیں کرتے۔جب مسلمان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، نہ صرف ان کی جانیں خطرے میں تھیں بلکہ خواتین کی عزت و حرمت کو بھی یہودیوں کی غداری کی وجہ سے خطرہ لاحق تھا۔بنو قریظہ غداری کے مرتکب ہوئے جس کی سزا آج کی دنیا میں بھی موت ہے۔
لیکن مستشرقین اس سے قطع نظر کرلیتے ہیں کہ رچرڈ شیر دل صلیبی جنگ کے دوران 3 ہزار مسلمانوں کو جان کی امان کا وعدہ کرتا ہے بعد میں انہیں تہ تیغ کر دیتا ہے۔مستشرقین اس سے بھی قطع نظر کرلیتے ہیں کہ اگست 1945ء میں امریکہ جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گراتا ہے جس کے نتیجے میں ہیرو شیما میں ستر ہزار سے لے کر ایک لاکھ چالیس ہزار اور ناگاساکی میں ستّر ہزار شہری اذیت ناک حالت میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں جب کہ ان کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ایسا دردناک نظارہ تھا کہ مائیں اپنے زخمی بچوں کو گود میں لے کر دیوانوں کی طرح بھاگ رہی تھیں۔
(American literature in context after 1929: by Philip R Yannella)
اسی طرح خلیجی جنگ کے موقع پر جب ایک خاتون محقق انکشاف کرتی ہے کہ تیرہ ہزار شہری امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بمباری کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ہیں تو اس خاتون محقق کو اس انکشاف کی پاداش میں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔
(Mishafel Otterman,Erasing Iraq.P,137)
Even the innocent children were not spared, “ Michael Haas has documented a number of instances in which war crime were committed against children by the U.S forces , including in placing of children in the same prison alongside adults at Abu Gharib, where rapes were reported of both male and female children. (Henry A Giroux , Heart of Darkness , Taylor & Francis , 2010. Page 66)
چنانچہ جب ہم واقعہ بنو قریظہ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ غیبی تصرفات کی وجہ سے آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم اس فیصلہ سے بالکل الگ رہے۔ ابن اسحاق کے مطابق بنو قریظہ کا محاصرہ 25 روز تک جاری رہا۔
(سیرت ابن اسحاق ترجمہ انگریزی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس صفحہ 461)
تب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس درخواست بھیجی کہ آپ ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کو بھیج دیں۔آپﷺ نے ابو لبابہؓ کو ان کے پاس بھجوا دیا وجہ یہ تھی کہ حضرت ابو لبابہ ؓکے اہل و اولاد اور مال ان لوگوں کے درمیان تھا۔( امام قسطلانی المواہب جلد اول صفحہ327)
لہٰذا یہود انہیں اپنا ہمدرد سمجھتے تھے۔ جب یہودیوں نے ابو لبابہؓ کو دیکھا تو مرد کھڑے ہو گئےاور عورتیں اور بچے ان کے پاس روتے ہوئے آئےتو انہیں افسوس ہوا۔تب انہوں نے ابو لبابہ ؓسے پوچھا کہ کیا ہم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیں؟ ابو لبابہ ؓنے کہا ہاں اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے ہاتھ سے گردن کی طرف اشارہ کیا اور قتل ہونے کا اشارہ دےدیا۔ابولبابہ ؓ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ میرے قدم وہاں سے ہلتے مجھے احساس ہوگیا کہ میں نے اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کی ہے۔آپؓ نے اپنے آپ کو مسجد نبویؐ کے ستون سے باندھ لیا اور عہد کیا کہ میں اس جگہ کو نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے۔
(سیرت ابنِ اسحاق۔انگریزی ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس صفحہ 462)
لہٰذا یہود ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق خواہش مند ہوئے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو فیصلہ کر یں گے وہ ہمیں منظور ہوگا۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو بلا بھیجا۔وہ گدھے پر سوار جب مسجد کے قریب پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لوگ آپ کے فیصلہ کے خواہشمند ہیں حضرت سعدؓ نے کہا : ان میں جو لڑنے والے ہیں انہیں آپﷺ قتل کر دیں اور ان کے بال بچوں کو قید کر لیں۔آپ ﷺ نے فرمایا تم نے اللہ کے فیصلے ہی کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔( صحیح البخاری جلد ہشتم ضیاء الاسلام پر یس صفحہ 275)
چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس میں بالکل دخل نہیں دے سکتے تھے کیونکہ آپﷺ وعدہ فرما چکے تھے کہ آپ بہرحال اس فیصلہ کے پابند رہیں گے اور پھر چونکہ اس فیصلہ کا اثر بھی صرف آپ کی ذات پر نہیں پڑتا تھا اس لیے آپ اپنا یہ حق نہیں سمجھتے تھے کہ اپنی رائے سے خواہ وہ کسی عفو وکرم کی طرف مائل ہو اس فیصلہ کو بدل دیں۔ یہی خدائی تصرف تھا جس کی طاقت سے متاثر ہوکر آپﷺ کے منہ سے بے اختیار طور پر یہ الفاظ نکلے،
قَد حَکَمْتَ بِحُکْمِ اللّٰہ۔
(سیرت خاتم النبیینؐ،حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓایم۔اے صفحہ 601)
لہٰذا یہود کا فیصلہ انہی کے جرم ،انہی کی خواہش اور انہی کی کتاب کے مطابق ہوا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:’’رحم کے باعث عدل کو چھوڑنا نہ چاہیے اور جرائم کی سزا سے درگزر نہ کرنا چاہیے یہود نے دغا دی ،بد عہدی کی ،عین شہر کا امن کھو دیا۔مسلمانوں کی توحید اور موسیٰ اور تورات کی تعلیم کو بت پرست قوم کے مقابلہ میں بھلا دیا‘‘(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ 397)
کارلائل کہتا ہے: ’’سچ ہے شریر کا سو مرتبہ قتل ہونا بہتر ہے کہ وہ بے گناہوں کو اغوا کرے۔‘‘( ایضاً)
لہٰذا انہیں وہ سزا ملی جس کے وہ مستحق تھے۔یہ الگ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی بھی رحم اور معافی کی اپیل ہوئی تو آپﷺ نے منظور فرمائی۔
لیا ظلم کا عفو سے انتقام
عَلَیْکَ الصَّلوٰۃُ عَلَیْکَ السَّلَام