متفرق مضامین

حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حالاتِ زندگی

(شیخ رفیق احمد طاہر۔ یوکے)

(ماخوذ از’’نبیوں کا سردار‘‘تصنیف حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ)

آپؐ کا نام محمدؐ تھا۔ جس کے معنی تعریف کیے گئےکے ہیں۔ آپؐ کے والد صاحب کا نام عبد اللہ اور والدہ ماجدہ کانام آمنہ تھا۔ آپؐ 570ء میں پیدا ہوئے۔’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر درود بھیجا اور سلامتی بھیجی۔ یہ الفاظ صرف آنحضرتؐ کے نام کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔

آپؐ کی آمد سے پہلے عربوں کے حالات

اس وقت عرب قوم بہت زیادہ جہالت اور گناہوں میں مبتلا تھی جیسے شِرک، بُت پرستی، جوا، شراب نوشی، لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا یا گلا گھونٹ کر مار دینا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت لمبی لمبی خونریز جنگیں، غلاموں اور لونڈیوں کا رواج۔ عرب قوم میں کچھ خوبیاں بھی تھیں۔ وہ لوگ مہمان نواز تھے، بہت بہادر تھے، ان کا پیشہ زیادہ تر تجارت تھا۔

حالاتِ زندگی (نبوت سے پہلے)

آپؐ کی پیدائش سے پہلے آپؐ کے والد صاحب وفات پا چکے تھے۔6سال کی عمر میں والدہ بھی وفات پا گئیں۔ چونکہ آپؐ کی پیدائش سے پہلے آپؐ کے والد صاحب وفات پا چکےتھے اس لیے آپؐ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے دادا عبد المطلب نے لی۔ لیکن جب آپؐ کی عمر 8 برس ہوئی تو دادا بھی وفات پا گئے۔ پھر آپؐ کے چچا ابو طالب نے آپؐ کی پرورش کا ذمہ لیا۔ آپؐ بچپن ہی سے کھیل تماشوں سے نفرت کرتے تھے۔ بلکہ آپؐ کو سوچنے اور فکر کرنے کی عادت تھی۔ جوانی میں قدم رکھتے رکھتے آپؐ صادق اور امین یعنی سچ بولنے والے اور امانت دار مشہور ہوچکے تھے۔ جب آپؐ کی عمر پچیس(25) سال ہوئی تو آپؐ کی شادی حضرت خدیجہ ؓسے ہوئی۔ اس وقت حضرت خدیجہ ؓکی عمر چالیس سال تھی۔

آنحضورﷺ جب تیس (30) برس کی عمر کو پہنچے تو آپؐ کی طبیعت عبادتِ الٰہی کی طرف زیادہ راغب ہونے لگی۔ چنانچہ آپؐ چند روز کا راشن ساتھ لے کر غارِ حرا میں تشریف لے جاتے اور سب سے الگ ہو کر اپنے خُدا کو یاد فرماتے۔

نبوت کی ذمہ داری

جب آپؐ کی عمر مبارک چالیس (40) برس کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو منصبِ نبوت عطا فرمایا۔ جب آپؐ پر پہلی وحی غارِ حرا میں نازل ہوئی تو آپؐ بہت گھبرائے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو تسلی دی اور فرمایا کہ آپؐ رشتہ داروں کے ساتھ حُسنِ سلوک فرماتے ہیں۔ مظلوموں کی مدد فرماتے ہیں۔ مہمانوں کی مہمان نوازی فرماتے ہیں، سارے اعلیٰ اخلاق پر آپ عمل کرتے ہیں۔ اس لیے اللہ آپؐ کو کبھی ضائع نہیں فرمائے گا۔

اسلام کی ابتدا

آپؐ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہؓ تھیں۔ پھر آپؐ کے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ اور آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت علی ؓآپ پر ایمان لائے۔ حضرت ابوبکرؓ جو شہر سے باہر گئے تھے واپسی پر جب آنحضرتﷺ کے دعوے کا علم ہوا تو فوراً آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایمان لے آئے۔ یہ تھی مومنوں کی چھوٹی سی جماعت جو شروع میں آنحضرتﷺ کو عطا ہوئی۔

مخالفتوں کا آغاز

جب بھی کوئی نبی خدا تعالیٰ سے خبر پاکر نبوت کا دعویٰ کرتا ہے توایمان لانے والے بہت کم ہوتے ہیں لیکن مخالفت کرنے والے بہت زیادہ۔ چنانچہ آنحضرتﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کو بہت زیادہ تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں۔ حضرت بلالؓ کو گرم ریت پر لٹایا جاتا اور آپ پر بھاری پتھر رکھ دیا جاتا تاکہ آپ ہل نہ سکیں۔ جب آپ کو اسلام سے انکار کرنے کو کہا جاتا تو آپ جواب میں اَحَدْ اَحَدْ کا نعرہ لگاتے یعنی اللہ ایک ہے۔ اس پر آپ کو مار مار کر لہولہان کر دیا جاتا۔ حضرت خبابؓ لوہار تھے۔ آپ کو آپ کی بھٹّی کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹا دیا جاتا۔ یہاں تک کے کوئلے آپ کے بدن سے نکلنے والے خون سے ٹھنڈے ہو جاتے۔ خود آنحضرتﷺ پر خاک پھینکی جاتی۔ آپؐ پر پتھر برسائے جاتے۔ آپؐ کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔

ایک دفعہ آپؐ کے گلے میں چادر ڈال کر اتنے زور سے کھینچا کہ آپؐ کی آنکھیں باہر نکل آئیں اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ وہاں پہنچ گئے اور آپؐ کو چھڑوایا۔ مسلمانوں کا مقاطعہ بھی کیا گیا۔ سارے مسلمانوں کو شعبِ ابی طالب میں محصور ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ وہاں ان سب نے 3سال انتہائی تکلیف میں گزارے۔

ہجرت

مکّہ والوں کے مظالم سے تنگ آکر، خدا تعالیٰ کی اجازت سے حضرت نبی کریمﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کا فیصلہ فرمایا۔ کفار کو جب آپؐ کے روانہ ہونے کی خبر ملی تو آپؐ کا تعاقب کیا گیا۔ آپؐ نے غار ثور میں پناہ لے رکھی تھی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ کفار کھوج لگاتے لگاتے غار ثور تک پہنچ گئے۔ لیکن خُدا تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کے آگےپردہ ڈال دیا اور وہ لوگ غار کے اندر جھانکے بغیر واپس چلے گئے۔

جب مکہ والے آپؐ کی تلاش میں ناکام رہے تو انہوں نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی انہیں زندہ یا مردہ واپس لائے گا اسے سو(100) اونٹنیاں انعام میں دی جائیں گی۔ چنانچہ سُراقہ بن مالک نے تلاش کرتے کرتے آپؐ کو پا لیا۔ جب اس کا گھوڑا آپؐ کے قریب پہنچا تو گھوڑے نے بہت زور سے ٹھوکر کھائی۔ سُراقہ نیچے گر گیا۔ اس نے اپنے تیر سے فال نکالی جوکہ اس کے خلاف نکلی۔ لیکن انعام کے لالچ میں اس نے دوبارہ گھوڑا دوڑانے کی کوشش کی لیکن گھوڑے کو دوبارہ ٹھوکر لگی اور اس کے پاؤں ریت میں دھنس گئے۔ سُراقہ نے پھر فال نکالی۔ فال پھر بھی اس کے خلاف ہی نکلی۔ گویا کہ خُدا تعالیٰ نے خود ہی آنحضرتﷺ اور آپؐ کے ساتھی حضرت ابوبکرصدیقؓ کی حفاظت کا سامان کیا۔ اس موقع پر آنحضرتﷺ نے سُراقہ سے یہ کہا کہ ’’سُراقہ تمہارا کیا حال ہو گا جب کِسریٰ کے سونے کے کنگن تیرے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے۔‘‘چنانچہ یہ عظیم پیش گوئی حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں پوری ہوئی۔

بہرحال آنحضرتﷺ بخیریت مدینہ پہنچ گئے اور مدینہ کے مسلمانوں نے آپؐ کا عظیم الشان استقبال کیا۔ ہجرت کے اسی واقع کے ساتھ ہی سنِ ہجری کا آغاز ہوا۔

غزوۂ بدر

ہجرت کے صرف تیرہ(13) ماہ بعد کفار کے 1,000 سے زائد مسلح افراد سے، بے سروسامان 313 مسلمانوں کا بدر کے مقام پر آمنا سامنا ہوا۔اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ کفار کے بہت سارے سردار جن میں ابو جہل بھی شامل تھا، ہلاک ہوئے۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے اپنے سے تین گُنا تعداد والے لشکر کو شکست دی۔ جس کی خبر آنحضرتﷺ پہلے ہی مسلمانوں کو بتا چکے تھے۔ اسی جنگ کے موقع پر انصارمدینہ نے آنحضرتﷺ کو مخاطب کر کے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے۔’’ہم آپؐ کے آگے بھی لڑیں گے، آپؐ کے پیچھے بھی لڑیں گے، آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک ہماری لاشوں پر سے نہ گزرے۔‘‘یاد رہے کہ غزوہ اس جنگ یا جنگ کی نیت سے کیے جانے والے سفر کو کہتے ہیں جس میں آنحضرتﷺ نے شرکت فرمائی ہو۔

غزوۂ اُحُد

کفار کے لشکر نے بدر کے میدان میں شکست کھانے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ اگلے سال دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہوں گے۔ چنانچہ اگلے سال ابو سفیان کی قیادت میں 3,000 سپاہیوں کا لشکر مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ جبکہ مسلمانوں کی تعداد صرف 700تھی۔ ان میں سے 50 سپاہی ایک درہ کی حفاظت کےلیے مقرر کیے گئے اور انہیں تاکید کی گئی کہ خواہ کچھ بھی حالات ہوں اس درّہ کو نہیں چھوڑنا۔ باقی 650 صحابہ کا لشکر بے سرو سامانی کی حالت میں اپنے سے تقریباً پانچ گنا لشکرکے ساتھ مقابلہ پر آیا اور انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ درّے پر مقرر 50سپاہیوں میں سے اکثر نے درّے کو چھوڑ دیااورسمجھا کہ ا ب لڑائی ختم ہو چکی ہے اور دشمن بھاگ چکا ہے۔ کفار نے درّےکو خالی پا کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا۔ جس سے مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچا۔ خود آنحضرتﷺ بھی زخمی ہوئے اور کئی مسلمان شہید ہوئے۔

غزوۂ خندق

ہجرت کے پانچویں سال تقریباً 20 ہزار کفار کالشکر مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ اس جنگ میں کفار کے بہت سارے گروہ اور قبیلے اکٹھے ہوکر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اس لیے اس جنگ کو جنگ احزاب بھی کہتے ہیں۔ مدینہ کے ایک طرف بہت بڑے بڑے ٹیلے تھے۔ایک طرف باہم جڑے ہوئے مکانات تھے اورایک طرف باغات وغیرہ تھے۔ایک طرف کھلا میدان تھا۔اسی میدان کی طرف سے حملہ کا زیادہ خطرہ تھا۔ چنانچہ حضرت سلمان فارسی ؓ کے مشورہ پر آنحضرتﷺ نے اس طرف خندق کھودنے کا فیصلہ فرمایا۔ مسلمانوں نے دن رات مشقّت اور تکلیفیں برداشت کرتے ہوئےدشمن کے پہنچنے سے پہلے خندق کھود دی۔ جسے پار کر کے حملہ کرنا کفار کےلیے بہت مشکل تھا۔ دشمن کئی روز تک کھلے میدان میں لشکر کے ساتھ قیام پذیر رہا۔ ایک روز خدا کی تقدیر سے زور آور آندھی چلی جس سے کفار کے خیمے اُکھڑ گئے۔جو آگ انہوں نے روشن کر رکھی تھی ہوا کے زور سے بجھ گئی او ر وہ سب کے سب ناکام ہو کر واپس لوٹ گئے اور ان کے دلوں پر رعب بیٹھ گیا کہ مسلمانوں کو بچانے والا ان کا خدا ہے۔

فتح مکہ

غزوۂ خندق کے بعد اسلام نے تیزی سے ترقی کرناشروع کر دی۔ مدینہ کے اردگرد کے قبائل کی اکثریت مسلمان ہوگئی۔ خداتعالیٰ نے مسلمانوں کا رعب قائم فرما دیا۔ چنانچہ سنہ 8؍ہجری کو آنحضرتﷺ دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مکہ سے باہر یہ لشکر قیام پذیر ہوا۔آنحضرتﷺ کے حکم سے ہر خیمے کے باہر آگ روشن کی گئی۔جس سے مسلمانوں کے لشکر کا رعب اور بھی بڑھ گیا۔ کفار کی بھی آنکھیں کھلیں کہ وہ مسلمان جنہیں اذیتیں دے کر ہجرت کےلیے مجبور کر دیا گیا تھا۔ آج ان کی تعداد میں ہزاروں گُنا اضافہ ہو چکا ہے۔ انہیں احساس ہوا کہ یقیناً مسلمانوں کے عقائد ہم سے بہتر ہیں اور ان کا خدا ہمارے بتوں کے مقابل پر ان کی مدد کرنے پر زیادہ قادر ہے۔ کفار کا سردار ابو سفیان جب آنحضرتﷺ کی خدمت میں امن کی درخواست لے کر پہنچا۔اس نے مسلمانوں کو باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو اطاعت اور تنظیم کے اس مظاہرے نے اس کے دل پر بہت اثر کیا۔ آنحضرتﷺ نے ابوسفیان سے فرمایا: اے ابو سفیان کیا ابھی بھی یہ حقیقت تجھ پر روشن نہیں ہوئی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ابوسفیان کے وفد میں دو ساتھی اور بھی تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور پھر ابو سفیان بھی مسلمان ہو گیا۔ کفار کے سردار کے مسلمان ہونے کے بعد اس کی درخواست پر سارے مکہ والوں کو امن کی ضمانت دے دی گئی۔ چنانچہ دنیا کی اس عظیم الشان فتح میں کوئی خون ریزی نہ کی گئی۔ آنحضرتﷺ نے ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘یعنی آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی کا اعلان فرماکر اپنے سخت ترین دشمنوں کو معاف فرمادیا۔ کسی سے انتقام نہ لیا اور دنیا کے سامنے ایک ایسی مثال قائم کر دی۔ جس کی نظیر پیش کرنا نا ممکن ہے۔

حجۃ الوداع آپؐ کی وفات اور خلافت کا قیام

سن 9؍ہجری کو آپؐ نے آخری حج فرمایا اور حج کے موقع پر ایک تاریخی خطبہ بھی ارشاد فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمام دنیا کے انسان برابر ہیں۔ گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، کسی قوم کو دوسری قوم پر کوئی فضیلت نہیں۔بحیثیت انسان سب برابر ہیں۔ آپؐ نے عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تلقین فرمائی۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ کسی انسان کی جان لینا یا مال پر قبضہ کرنا حرام ہے اور آپؐ نے فرمایا یہ حکم قیامت تک کےلیے ہے۔ آپؐ نے جنگی قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی نصیحت فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لیے ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔

اس حج سے واپسی کے بعد آنحضرتﷺ چند روز بیمار رہنے کے بعد وفات پا گئے۔اس وقت آپؐ کی عمرمبارک 63برس تھی۔ آخری نصیحت جو آپؐ نے فرمائی وہ خدائے واحد کی پرستش کے متعلق تھی۔ آخری عبادت جس کےلیے آپؐ نے کوشش فرمائی وہ نماز کے قیام کی تھی اور آخری الفاظ جو آپؐ کی زبانِ مبارک سے ادا ہوئے وہ یہ تھے ’’اِلی الرَّفیق الاعلیٰ‘‘یعنی میں اپنے اعلیٰ دوست کی طرف جا رہا ہوں۔ آپؐ کی وفات کے بعد مسلمانوں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو خلیفہ چُنا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button