خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم اکتوبر2021ء

حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کا دائرہ دُور دراز علاقوں کی سرحدوں کو چھونے لگا۔ اسلامی سلطنت مشرق میں دریائے جیحون اور دریائے سندھ سے لے کر مغرب میں افریقہ کے صحراؤں تک اور شمال میں ایشیائے کوچک کے پہاڑوں اور آرمینیا سے لے کر جنوب میں بحرالکاہل اور نوبہ تک ایک عالمی ملک کی شکل میں دنیاکے نقشہ پر نمودار ہوئی۔

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

جنگِ فَرَمَا، فتحِ بِلْبِیْس، فتحِ اُمْ دُنَیْن، معرکۂ فُسْطَاطْ، تسخیرِ اسکندریہ، فتحِ بَرْقَہ و طرابلس وغیرہ کا تفصیلی بیان نیز مستشرقین کی جانب سے حضرت عمرؓ کے حکم پر اسکندریہ کی لائبریری جلانے کے واقعہ کا تفصیلی تجزیہ

یاد رکھیں کہ یہ مصائب اور مشکلات جو ہیں ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والے ہونے چاہئیں اور یہی فتوحات کا پھر ذریعہ بنتے ہیں۔ اگر ان باتوں میں ہم صرف ڈر کے پیچھے پیچھے رہتے رہیں اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں تو پھر ترقی نہیں ہو سکتی۔ ہاں جب ترقیات مل جائیں اور مصائب ختم ہو جائیں تب بھی ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ سے رہنا چاہیے لیکن ان دنوں میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے اور ہمیں اپنی روحانی ترقی اور روحانی بہتری کی طرف توجہ دینی چاہیے

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم اکتوبر2021ء بمطابق یکم اخاء1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک موقع پر ایک تقریر میں تبلیغ کے بارے میں جب بیان فرما رہے تھے تو اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وفات کے بعد جو لڑائیاں ہوئی ہیں ان میں اکثر اوقات مسلمانوں کی قلت ہوتی تھی۔

شام کی لڑائی

میں سپاہیوں کی بہت کمی تھی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ دشمن بہت زیادہ تعداد میں ہے۔ اس لئے اَور فوج بھیجنے کا بندوبست فرما دیں۔ حضرت عمرؓ نے جائزہ لیا تو آپؓ کو نئی فوج کابھرتی کرنا ناممکن معلوم ہوا کیونکہ عرب کے اِردگرد کے قبائل کے نوجوان یا تو مارے گئے تھے یا سب کے سب پہلے ہی فوج میں شامل تھے۔ آپؓ نے مشورہ کے لئے ایک جلسہ کیا اور اس میں مختلف قبائل کے لوگوں کو بلایا اور ان کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک قبیلہ ایسا ہے جس میں کچھ آدمی مل سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک افسر کو حکم دیا کہ وہ فوراً اس قبیلہ میں سے نوجوان جمع کریں اور حضرت ابوعبیدہؓ کو لکھا کہ چھ ہزار سپاہی تمہاری مدد کے لئے بھیج رہا ہوں جو چند دنوں تک تمہارے پاس پہنچ جائیں گے۔ تین ہزار آدمی تو فلاں فلاں قبائل میں سے تمہارے پاس پہنچ جائیں گے اور باقی تین ہزار کے برابر عَمرِو بنِ مَعْدِی کَرِب کو بھیج رہا ہوں۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے ایک نوجوان کو اگر تین ہزار آدمی کے مقابلہ میں بھیجا جائے تو وہ کہے گا کہ کیسی خلافِ عقل بات ہے۔ کیا خلیفہ کی عقل ماری گئی ہے۔ ایک آدمی کبھی تین ہزار کا مقابلہ کر سکتا ہے! لیکن ان لوگوں کے ایمان کتنے مضبوط تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ کو حضرت عمرؓ کا خط ملا تو انہوں نے خط پڑھ کر اپنے سپاہیوں سے کہا خوش ہو جاؤ کل عَمرِو بنِ مَعْدِی کَرِب تمہارے پاس پہنچ جائے گا۔ سپاہیوں نے اگلے دن بڑے جوش کے ساتھ عَمرِو بنِ مَعْدِی کَرِب کا استقبال کیا اور نعرے لگائے۔ دشمن سمجھا کہ شاید مسلمانوں کی مدد کے لئے لاکھ دو لاکھ فوج آرہی ہے اس لئے وہ اِس قدر خوش ہیں حالانکہ وہ اکیلے عَمرِو بنِ مَعْدِی کَرِب تھے۔ اس کے بعد وہ تین ہزار فوج بھی پہنچ گئی اور مسلمانوں نے دشمن کو شکست دی حالانکہ تلوار کی لڑائی میں ایک آدمی تین ہزار کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’زبان کی لڑائی میں تو ایک آدمی بھی کئی ہزار لوگوں کو اپنی بات پہنچا سکتا ہے مگر وہ لوگ خلیفۂ وقت کی بات کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ حضرت عمرؓ نے عَمرِو بنِ مَعْدِی کَرِب کو تین ہزار سپاہیوں کا قائم مقام بنا کر بھیجا تو سپاہیوں نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ اکیلا آدمی کس طرح تین ہزار کا مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ اسے تین ہزار کے برابر ہی سمجھا اور بڑی شان و شوکت سے اس کا استقبال کیا۔ مسلمانوں کے اِس استقبال کی وجہ سے دشمن کے دل ڈر گئے اور وہ یہ سمجھے کہ شاید لاکھ دو لاکھ فوج مسلمانوں کی مدد کو آگئی ہے اس لئے میدانِ جنگ سے ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ شکست کھا کر بھاگ نکلے۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’سرِدست ہمیں بھی اس طرح اپنے دل کو اطمینان دینا ہوگا۔‘‘

(سپین اور سسلی میں تبلیغِ اسلام اور جماعت احمدیہ ۔ انوار العلوم جلد 18 صفحہ 359-360)

یہ آپؓ بتا رہے تھے کہ یورپ میں سپین میں اور سسلی وغیرہ میں تبلیغ کس طرح کرنی ہے۔ اس ضمن میں یہ واقعہ بیان کیا۔ اب

فتوحاتِ مصر

کا ذکر کرتا ہوں۔ اس میں ایک جنگِ فَرَمَا تھی۔ ’فَرَمَا‘ مصر کا ایک مشہور شہر تھا۔ یہ بحیرہ روم اور پَلُوْزِی کے دہانے کے قریب جو دریائے نیل کی سات شاخوں میں سے ایک شاخ تھی ایک پہاڑی پر آباد تھا۔

(سیدنا حضرت فاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل مترجم حبیب اشعر صفحہ556-557 اسلامی کتب خانہ اردو بازار کراچی)

علامہ شبلی نعمانی کے مطابق بیت المقدس کی فتح کے بعد حضرت عَمرِو بِن عاصؓ کے اصرار پر حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو چار ہزار کا لشکر دے کر مصر کی طرف روانہ کیا لیکن ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ اگر مصر پہنچنے سے پہلے میرا خط ملے تو واپس لوٹ آنا۔ عَرِیْش پہنچے تھے کہ حضرت عمرؓ کا خط پہنچا۔ اگرچہ اس میں آگے بڑھنے سے روکا تھا لیکن چونکہ شرطیہ حکم تھا اس لیے حضرت عمروؓ نے کہا کہ اب تو ہم مصر کی حد میں آچکے ہیں اور عَرِیْش سے چل کر فَرَماَ پہنچے۔

(ماخوز ازالفاروق از شبلى نعمانى صفحہ160 دار الاشاعت کراچی 1991ء)

اسلامی جنگوں پر مشتمل ایک کتاب ہے اَلْاِکْتِفَاء۔ اس میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمرو بن عاصؓ رَفَحْ مقام تک پہنچے تو آپؓ کو حضرت عمرؓ کا خط ملا تھا لیکن آپؓ نے اس ڈر سے کہ اس خط میں واپس لوٹنے کا حکم نہ ہو جیسا کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا قاصد سے خط نہ لیا اور چلتے رہے یہاں تک کہ آپ رَفَحْ اور عَرِیْش کے درمیان ایک چھوٹی بستی میں پہنچے اور اس کے متعلق پوچھا۔ بتایا گیا کہ یہ مصر کی حدود میں ہے۔ پس آپؓ نے خط منگوایا اور اسے پڑھا اور اس میں لکھا تھا کہ آپ کے ساتھ جو مسلمان ہیں انہیں لے کر واپس لوٹ آئیں تو آپ نے اپنے ہمراہ لوگوں سے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ یہ مصر میں ہے۔ انہوں نے کہا جی ہاں۔ تو آپؓ نے کہا کہ امیر المومنینؓ نے حکم دیا ہے کہ اگر مجھے ان کا خط مصر کی سرزمین تک پہنچنے سے پہلے مل جائے تو میں واپس لوٹ آؤں اور مجھے یہ خط مصر کی سرزمین میں داخل ہونے کے بعد ملا ہے۔ پس اللہ کا نام لے کر چلو۔ اور ایک اَور روایت میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرو بن عاصؓ فلسطین میں تھے اور وہ بلا اجازت اپنے ساتھیوں کو لے کر مصر چلے گئے۔ یہ بات حضرت عمرؓ کو ناگوار گزری۔ پس حضرت عمرؓنے انہیں خط لکھا۔ حضرت عمرؓ کا خط حضرت عَمروؓکو اس وقت ملا جب وہ عَرِیْشکے قریب تھے۔ پس آپ نے وہ خط نہ پڑھا یہاں تک کہ آپ عَرِیْشپہنچ گئے۔ پھر آپ نے خط پڑھا۔ اس میں لکھا تھا کہ عمر بن خطاب ؓکی طرف سے عمرو بن عاصؓ کے نام۔ اَماَّ بَعْدُ، یقینا ًتم مصر اپنے ساتھیوں کے ساتھ گئے ہو اور وہاں رومیوں کی بڑی تعداد ہے اور تمہارے ساتھ تھوڑے لوگ ہیں۔ میری عمر کی قسم! اللہ تمہارا بھلا کرے۔ بہتر ہوتا اگر تم انہیں ساتھ نہ لے جاتے۔ پس اگر تم مصر نہیں پہنچے تو واپس لوٹ آؤ۔

(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہؐ… جلد2صفحہ324-325 استخلاف عمر بن الخطاب۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1420ھ)

اس سفر میں فَرَمَا سے پہلے اسلامی لشکر کی کسی بھی رومی سپاہی سے ملاقات نہ ہوئی تھی بلکہ جگہ جگہ مصریوں نے ان کا استقبال کیا تھا اور سب سے پہلے فرما میں محاذ آرائی ہوئی تھی۔ یہ تو مختلف روایتیں ہیں لیکن وہی روایت صحیح لگتی ہے کہ عَرِیْش مصر کی حدود میں پہنچنے کے بعد ان کو خط ملا۔ نہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ بہانے بنائے جائیں کہ ہم مصر پہنچیں گے تو خط کھولوں گا۔ بہرحال جب وہ مصر پہنچ گئے تھے تو پھر آگے بڑھنا تھا کیونکہ پھر مومن کا قدم پیچھے نہیں اٹھتا۔ رومیوں نے یہ خبر پاکر کہ حضرت عمروؓ کے ساتھ آنے والی فوج معمولی تعداد اور ناقابلِ ذکر جنگی تیاریوں میں ہے زیادہ دنوں تک محاصرہ نہیں کر سکتے جبکہ ہم ان سے زیادہ تعداد رکھتے ہیں اور اس کی تیاری کر رہے ہیں اور انہیں پست کر کے لے جائیں گے۔ تو رومیوں نے یہ خیال کیا اور وہ شہر میں قلعہ بند ہو گئے۔ ادھر حضرت عمرو بن عاصؓ کو رومیوں کی عسکری قوت کا علم ہو چکا تھا کہ اسلحہ اور تعداد میں کئی گنا ہم پر بھاری ہیں۔ چنانچہ آپؓ نے فَرَمَا پر قابض ہونے کے لیے منصوبہ بنایا کہ اچانک حملہ کر کے فصیل کے دروازوں کو کھول دیا جائے یا پھر اس وقت تک صبر کے ساتھ محاصرہ جاری رکھا جائے جب تک کہ شہریوں کی خوراک ختم نہ ہو جائے اور بھوک سے بےتاب ہو کر باہر نہ نکل آئیں۔ چنانچہ محاصرہ کر لیا۔ ادھر مسلمانوں کا محاصرہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا تھا اور ادھر رومی بھی اپنی ضد سے پیچھے نہ ہٹ رہے تھے۔ اس طرح محاصرہ کئی مہینے جاری رہا۔ کبھی کبھی رومی فوج باہر آتی اور دو چار جھڑپیں کر کے پیچھے ہٹ جاتی۔ ان جھڑپوں میں مسلمان ہی غالب رہتے۔ ایک دن رومی افواج کی ایک جماعت بستی سے باہر نکل کر مسلمانوں سے لڑنے نکلی۔ مقابلہ میں مسلمان غالب رہے اور رومی ہزیمت کھا کر بستی کی طرف بھاگے۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور دوڑنے میں کافی تیز روی کا ثبوت دیا اور کچھ لوگوں نے دروازوں تک رومیوں کے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں پہنچ کر فصیل کا دروازہ کھول دیا اور فتحِ مبین کا رستہ صاف کر دیا۔

(ماخوذ از سیدنا عمر بن خطاب از الصلابی، مترجم اردو صفحہ755,756الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)

فتح بِلْبِیْس،

یہ کس طرح ہوئی۔ فَرَمَا کے بعد حضرت عمرو بن عاصؓ نے بِلْبِیْسکا رخ کیا تو رومی فوج نے آپؓ کا راستہ روک لیا۔ بِلْبِیْس فُسْطَاطْ سے تقریباً تیس میل دور شام کے رستے پر ایک شہر ہے۔ بہرحال رستہ روک لیا تا کہ مسلمان بَابِلْیُون کے قلعہ تک نہ پہنچ سکیں۔ بَابِلْیُون نام قدیم لغت میں دیارِ مصر کے لیے استعمال ہوتا ہے بالخصوص جہاں فُسْطَاطْ آباد ہوا اسے پہلے بَابِلْیُون کہا جاتا تھا۔ رومی فوج یہیں لڑنا چاہتی تھی لیکن حضرت عمرو بن عاصؓ نے ان سے کہا تم اس وقت تک جلدی نہ کرو جب تک ہم اپنی بات تمہارے سامنے رکھ نہ دیں تا کہ کل عذر و معذرت کی کوئی بات نہ رہ جائے۔ پھر کہا کہ تم اپنے پاس سے ابو مریم اور اَبُومَرْیَام کو میرے پاس سفیر بنا کر بھیجو۔ چنانچہ وہ لوگ لڑنے سے رک گئے اور ان دونوں سفیروں کو بھیج دیا۔ یہ دونوں سفیر اہل بِلْبِیْس کے راہب تھے۔ حضرت عمروؓ نے ان کے سامنے اسلام لانے یا جزیہ دینے کی تجویز رکھی اور ساتھ اہلِ مصر کے بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی پیش کیا کہ تم مصر کو فتح کرو گے۔ وہ ایسا ملک ہے جہاںقِیراط کا نام چلتا ہے۔ پس جب تم اسے فتح کر چکو تو اس کے رہنے والوں سے احسان کا سلوک کرنا کیونکہ ان کے لیے ذمہ داری اور صلہ رحمی ہے یا فرمایا کہ ذمہ داری اور مُصَاہْرَت ہے۔ ان دونوں سفیروں نے یہ بات سن کر کہا یہ بہت دور کا رشتہ ہے، اسے انبیاء ہی پورا کر سکتے ہیں۔ ہمیں جانے دو۔ ہم واپس آ کے بتائیں گے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے کہا مجھ جیسے شخص کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا ہے۔ میں تمہیں تین دن کی مہلت دیتا ہوں آپ لوگ اچھی طرح معاملے پہ غور کر لیں۔ دونوں سفیروں نے کہا کہ ایک دن کی اَور مہلت دے دیں۔ آپ نے انہیں مزید ایک دن کی مہلت دے دی۔ دونوں سفیر لوٹ کر قِبْطِیوں کے سردار مَقُوقَس اور شاہ روم کی طرف سے مصرکے حاکم اَرْطَبُون کے پاس آئے اور مسلمانوں کی بات ان کے سامنے رکھی۔ اَرْطَبُون نے ماننے سے انکار کر دیا اور جنگ کا پختہ ارادہ کر کے راتوں رات اس نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اَرْطَبُون کے اس لشکر کی تعداد بارہ ہزار بیان کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد اس معرکے میں شہید ہوئی اور رومیوں کے ایک ہزار سپاہی قتل اور تین ہزار سپاہی گرفتار ہوئے اور اَرْطَبُون میدان چھوڑ کر بھاگ گیا اور بعض نے کہا کہ وہ اسی جنگ میں مارا گیا۔ مسلمانوں نے اسے اس کے لشکر سمیت اسکندریہ تک شکست دی۔ مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمان بِلْبِیْس میں ایک مہینہ تک رہے۔ اس دوران لڑائی ہوتی رہی اور آخر میں فتح مسلمانوں کو ہوئی لیکن اس امر میں ان کا اختلاف ہے کہ یہ جنگ شدید تھی یا کم۔

(سیدنا عمر بن خطاب از صلابی مترجم صفحہ 757-758 مطبوعہ الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان )

(ماخوذ از حضرت عمرفاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل مترجم حبیب اشعرصفحہ 564-565 اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور)

(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسو ل اللّٰہؐ… جزء2 صفحہ346 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1420ھ)

(معجم البلدان جلد1 صفحہ567 بِلْبِیْس۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(اٹلس فتوحات اسلامیہ جلد2 صفحہ225 دار السلام الریاض 1428ھ)

اس جنگی کشمکش کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو

مسلمانوں کی دانش مندی اور اخلاقی برتری کی دلیل

ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ جب بِلْبِیْس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی تو اس میں مَقُوقَس کی لڑکی گرفتار ہوئی جس کا نام اَرْمَانُوسہ تھا۔ وہ اپنے باپ کی چہیتی بیٹی تھی۔ اس کا باپ قُسْطَنْطِیْن بِن ہِرَقْل سے اس کی شادی کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس شادی پر راضی نہیں تھی۔ اس لیے وہ اپنی خادمہ کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے بِلْبِیْسآئی ہوئی تھی۔ بہرحال جب مسلمانوں نے اسے گرفتار کیا تو حضرت عمرو بن عاصؓ نے تمام صحابہ کرامؓ کی ایک مجلس بلائی اور انہیں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا کہ

هَلْ جَزَاءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ (الرحمٰن:61)

کیا احسان کی جزا احسان کے سوا کچھ اَور بھی ہو سکتی ہے؟ پھر اس آیت یعنی

هَلْ جَزَاءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ

کے حوالے سے کہا کہ مَقُوقَس نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہدیہ بھیجا تھا۔ میری رائے ہے کہ اس لڑکی اور اس کے ساتھ جو دیگر خواتین ہیں اور اس کے خدمت گزار ہیں اور جو مال ہمیں ملا ہے وہ سب کچھ مَقُوقَس کے پاس بھیج دو۔ سب نے عَمرو بن عاصؓ کی رائے کو درست قرار دیا۔ پھر عَمرو بن عاصؓ نے مَقُوقَس کی بیٹی اَرْمَانُوسہ کو اس کے تمام جواہرات، دیگر خواتین اور خدمت گزاروں کے ساتھ نہایت عزت و احترام سے اس کے باپ کے پاس بھیج دیا۔ واپس ہوتے ہوئے اس کی خادمہ نے اَرْمَانُوسہ سے کہا ہم ہر طرف سے عربوں کے گھیرے میں ہیں۔ اَرْمَانُوسہ نے کہا میں عربی خیمے میں جان اور عزت کو محفوظ سمجھتی ہوں لیکن اپنے باپ کے قلعہ میں اپنی جان کو محفوظ نہیں سمجھتی۔ پھر جب وہ اپنے باپ کے پاس پہنچی تو اس کے ساتھ مسلمانوں کا برتاؤ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔

(سیدنا عمر بن خطاب از علی محمد صلابی ، اردو مترجم صفحہ 758-759 مطبوعہ الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)

پھر

اُمْ دُنَیْن

ایک جگہ ہے، وہاں کی فتح کا ذکر ہے۔ بِلْبِیْس کی فتح کے بعد حضرت عمرو بن عاصؓ صحرا کی سرحد پر پیش قدمی کرتے ہوئے اُمْ دُنَیْن کی بستی کے قریب جا پہنچے جو دریائے نیل پر خلیج تراجان کے منبع کے پاس واقع تھی۔ یہ خلیج سویز کے قریب شہر مصر کو بحیرہ روم سے ملاتی تھی جہاں آج کل قاہرہ کا محلہ ازبکیہ ہے وہیں اس زمانے میں اُمْ دُنَیْن کی بستی تھی جسے رومیوں نے قلعہ بند کر رکھا تھا۔ اس کے قریب دریائے نیل کا گھاٹ تھا اور اس گھاٹ پر بہت سی کشتیاں کھڑی رہتی تھیں۔ یہ بستی بَابِلْیُون کے شمال میں تھی جو شہر مصر کا سب سے بڑا قلعہ تھا۔ اس لحاظ سے اُمْ دُنَین کو مصریوں کے اس محبوب علاقے کی، جو گذشتہ زمانوں کے فرعونوں کا دارالحکومت بھی رہ چکا تھا، سب سے پہلی دفاعی چوکی کہا جا سکتا ہے۔ اُمْ دُنَین کے قریب جا کر مسلمانوں نے پڑاؤ ڈالا۔ رومیوں نے قلعہ بَابِلْیُونمیں اپنی بہترین فوج پہنچا دی تھی اور اُمْ دُنَین کے قلعہ کو خوب اچھی طرح مضبوط کر کے جنگ کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ جاسوسوں کی خبروں سے حضرت عمرو بن عاصؓ کو اندازہ ہو گیا کہ ان کی فوج قلعہ بَابِلْیُونکی فتح یا اس کے محاصرے کے لیے ناکافی ہے۔ انہوں نے ایک قاصد کے ہاتھ ایک خط مدینہ بھیجا اور اس میں اپنے سفر مصر کے حالات، قلعوں کی تفصیلات اور ان پر حملہ کرنے کے لیے کمک کی ضرورت کا اظہار کیا۔ ادھر فوج میں یہ اعلان کرا دیا کہ امدادی فوجیں بہت جلد پہنچنے والی ہیں۔ اس کے بعد اُمْ دُنَین کی طرف بڑھے اور اس کا محاصرہ کر کے قلعہ میں غذائی اور فوجی ضروریات کے سامان کی رسد روک دی۔ قلعہ بَابِلْیُون میں جو رومی تھے انہوں نے ادھر آنے کی کوشش نہ کی کیونکہ بِلْبِیْسمیں اَرْطَبُونکا حشر دیکھ چکے تھے اور وہ جانتے تھے کہ عربوں سے کھلے میدان میں لڑنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اُمْ دُنَین کی فوجیں البتہ کبھی کبھار نکلتیں اور ناکام جھڑپوں کے بعد واپس ہو جاتیں۔ کئی ہفتے اسی طرح گزر گئے۔ اسی اثنا میں خبر ملی کہ بارگاہِ خلافت سے پہلی امدادی فوج روانہ کر دی گئی اور وہ آج کل میں پہنچا چاہتی ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں کی ہمت اور طاقت میں اضافہ ہو گیا۔

(حضرت عمرفاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل مترجم حبیب اشعرصفحہ567-570 اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور)

حضرت عمرؓ نے اسلامی لشکر کی مدد کے لیے چار ہزار سپاہی بھیجے۔ حضرت عمرؓنے ہر ہزار آدمی پر ایک امیر مقرر کیا۔ان امراء کے نام حضرت زبیر بن عوامؓ، حضرت مقداد بن اسودؓ، حضرت عُبادہ بن صامتؓ اور حضرت مَسْلَمَہ بن مُخَلَّدؓ تھے۔ ایک قول کے مطابق حضرت مَسْلَمَہ بن مُخَلَّدؓ کی جگہ خَارِجَہ بن حُذَافَہ امیر تھے۔ حضرت عمرؓنے یہ کمک بھیجنے کے ساتھ حضرت عمرو بن عاصؓ کو خط لکھا کہ اب تمہارے ساتھ بارہ ہزار مجاہدین ہیں۔ یہ تعداد کمی کی وجہ سے کبھی مغلوب نہیں ہو گی۔ رومی جنگجو قبطیوں کو ساتھ لے کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلے۔ دونوں فوجوں میں شدید لڑائی ہوئی۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے حکمت عملی سے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصہ کو جَبَلِ اَحْمَر کے قریب ایک جگہ پر ٹھہرا دیا۔ دوسرے حصے کو اُمْ دُنَین کے قریب دریائے نیل کے کنارے ایک جگہ پر ٹھہرا دیا اور فوج کا بقیہ حصہ لے کر دشمن کے مقابلے پر نکلے۔ جس وقت دونوں فوجوں میں سخت لڑائی ہو رہی تھی جَبَلِ اَحْمَر میں چھپی فوج نے نکل کر پیچھے سے حملہ کر دیا جس سے دشمن کا فوجی نظام درہم برہم ہو گیا اور وہ اُمْ دُنَین کی طرف بھاگے۔ وہاں اسلامی فوج کا دوسرا حصہ تیار تھا۔ اس نے ان کا راستہ روک دیا۔ اس طرح رومی فوج مسلمانوں کی تینوں فوجوں کے درمیان پھنس گئی اور دشمن کو شکست ہوئی۔

(سیدنا عمر بن خطابؓ از علی محمد الصلابی مترجم صفحہ 759مطبوعہ الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان )

متفرق فتوحات کے بارے میں ذکر ہے کہ اُمْ دُنَین کی فتح کے بعد سب سے پہلے فَیُّوْم کے علاقے پر حضرت عمرو بن عاصؓ نے فتح حاصل کی اور اس علاقے کا سردار اس لڑائی میں قتل ہو گیا۔

(ماخوذ از سیدنا حضرت عمر فاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل مترجم حبیب اشعرصفحہ571-572 اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور)

پھر عَیْنُ الشَّمْسِ میں مسلمانوں کا رومیوں سے مقابلہ ہوا۔ اس سے قبل آٹھ ہزار مجاہدین کا لشکر بطور کمک حضرت عمرو بن عاصؓ سے آ ملا جس کی کمان حضرت زبیر بن عوامؓ کے ہاتھ میں تھی اور اس میں حضرت عُبادہ بن صامتؓ، حضرت مِقداد بن اسوؓد اور مَسْلَمَہ بن مُخَلَّد وغیرہ بھی تھے۔ اس جنگ میں بھی مسلمانوں نے فتح حاصل کی۔ اس کے بعد فَیُّوم کے پورے صوبہ پر مسلمانوں نے فتح حاصل کی۔ مسلمانوں کی فوج کے ایک حصہ نے صوبہ مَنُوْفِیَہ کے دو شہروں اِثْرِیْب اور مَنُوفْ پر فتح پائی۔

(سیدنا حضرت عمر فاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل مترجم حبیب اشعرصفحہ573 و579 اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور)

(اٹلس فتوحات اسلامیہ جلد2 صفحہ229 دار السلام الریاض 1428ھ)

معرکہ قلعہ بَابِلْیُون یا فُسْطَاطْ کی فتح

کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت عمرو بن عاصؓ اُمْ دُنَین کی فتح کے بعد قلعہ بَابِلْیُونکی طرف بڑھے اور اس کا زبردست محاصرہ کیا۔ اب اس علاقے کا نام فُسْطَاطْ ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عربی میں خیمے کو فُسْطَاطْ کہتے ہیں۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے قلعہ کو فتح کرنے کے بعد جب یہاں سے کوچ کرنے کا حکم دیا تو اتفاق سے ایک کبوتر نے حضرت عمروؓ کے خیمے میں گھونسلا بنا لیا تھا۔ جب ان کی نظر اس پر پڑی تو انہوں نے حکم دیا کہ اس خیمے کو یہیں رہنے دو اور حضرت عمروؓ نے اسکندریہ سے واپس آ کر اسی خیمے کے قریب شہر بسایا اس لیے یہ شہر فُسْطَاطْ کے نام سے مشہور ہو گیا۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ150-151 دار الاشاعت کراچی2004ء)

قلعہ میں محافظ دستے کی تعداد کا اندازہ پانچ سے چھ ہزار تک لگایا جاتا تھا اور وہ ہر طرح سے مسلح تھے۔ حضرت عمروؓ نے قلعہ بَابِلْیُون کا محاصرہ شروع کیا۔ اسکندریہ کے بعد یہ بہت مضبوط قلعہ تھا اور پکی اینٹوں سے بنایا ہوا تھا اور چاروں طرف سے دریائے نیل کے پانیوں سے گھرا ہوا تھا چونکہ دریائے نیل پر واقع تھا اور جہاز اور کشتیاں قلعہ کے دروازے پر آ کر لگتی تھیں اس لیے سرکاری ضرورتوں کے لیے نہایت مناسب مقام تھا۔ عرب اس مضبوط قلعہ پر حملہ کرنے کے لیے ضروری آلات سے لیس نہ تھے نہ وہ اس کے لیے تیار تھے۔

(سیرت عمر فاروقؓ از محمد رضا صفحہ 264-265 مکتبہ اسلامیہ 2010ء)

حضرت عمروؓ نے اول اس کا محاصرہ کرنے کی تیاریاں کر لیں۔ مَقُوقَس جو مصر کا فرمانروا تھا وہ حضرت عمرو بن عاصؓ سے پہلے قلعہ میں پہنچ چکا تھا اور لڑائی کا بندوبست کر رہا تھا۔ حضرت زبیرؓنے گھوڑے پر سوار ہو کر خندق کے چاروں طرف چکر لگایا اور جہاں جہاں ضرورتیں تھیں مناسب تعداد کے ساتھ سوار اور سپاہی متعین کیے۔ یہ محاصرہ مسلسل سات ماہ تک جاری رہا اور فتح و شکست کا فیصلہ نہ ہوا۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ150دارالاشاعت کراچی2004ء)

اس دوران رومی فوج کبھی کبھی قلعہ سے باہر آ کر جنگ بھی کرتی لیکن پھر واپس چلی جاتی۔ اس دوران مَقُوقَس اپنے سفیروں کو مصالحت اور دھمکانے کی غرض سے حضرت عمرو بن عاصؓ کے پاس بھیجتا رہا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضرت عُبادہ بن صامتؓ کو بھیجا اور مصالحت کرنے کے لیے صرف تین شرائط لگا دیں کہ اسلام لاؤ ،جزیہ دو یا پھر جنگ ہو گی اور کہا کہ اس کے علاوہ کسی بات پر صلح نہیں ہو سکتی۔ نہ صلح کرنا۔ مَقُوقَس نے جزیہ دینا منظور کر لیا اور اس سلسلہ میں ہرقل سے اجازت مانگنے کے لیے خود ہرقل کے پاس گیا لیکن ہرقل نے اسے ماننے سے انکار کر دیا بلکہ مَقُوقَس سے سخت ناراض ہوا اور اس کو سزا دیتے ہوئے جلا وطن کروا دیا۔

(سیدنا عمر بن خطابؓ شخصیت اور کارنامے از علی محمد صلابی اردو ترجمہ صفحہ 760الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)

(ماخوذ از سیدنا حضرت عمر فاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل مترجم حبیب اشعرصفحہ582 و584 و 590اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور)

جب قلعہ بَابِلْیُون کی فتح میں زیادہ تاخیر نظر آئی تو حضرت زبیر بن عوامؓ کہنے لگے کہ اب میں اپنی جان اللہ کے رستہ میں ہبہ کرنے جا رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی سے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا۔ یہ کہہ کر ننگی تلوار لی اور سیڑھی لگا کر قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے۔ چند اَور صحابہ نے بھی آپ کا ساتھ دیا۔ فصیل پر چڑھ کر سب نے ایک نعرہ لگایا اور ساتھ ہی تمام فوج نے بھی نعرہ لگایا جس سے قلعہ کی زمین دہل گئی۔ عیسائی سمجھ گئے کہ مسلمان قلعہ کے اندر گھس آ ئےہیں وہ بدحواس ہو کر بھاگے اور حضرت زبیرؓ نے فصیل سے اتر کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور تمام فوج اندر آ گئی اور لڑتے لڑتے قلعہ کو فتح کر لیا۔

(سیدنا عمر بن خطابؓ شخصیت اور کارنامے از علی محمد صلابی اردو ترجمہ صفحہ 760الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ150دار الاشاعت کراچی2004ء)

حضرت عمرو بن عاصؓ نے انہیں اس شرط پر امان دے دی کہ رومی فوج اپنے ساتھ چند دنوں کی خوراک لے کر یہاں سے نکل جائے اور قلعہ بَابِلْیُون میں جو ذخیرہ اور جنگی اسلحہ ہے انہیں ہاتھ نہ لگائیں کیونکہ وہ مسلمانوں کے اموالِ غنیمت ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمرو بن عاصؓ نے قلعہ بَابِلْیُون کے گنبدوں اور بلند اور مستحکم دیواروں کو توڑ دیا۔

(سیدنا عمر بن خطابؓ شخصیت اور کارنامے از علی محمد صلابی اردو ترجمہ صفحہ 760الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)

قلعہ بَابِلْیُون کی فتح کے بعد اسلامی فوج نے مصر میں مختلف علاقوں اور قلعوں پر فتوحات حاصل کیں جن میں سب سے نمایاں طَرْنُوْط، نَقْیُوسْ، سُلْطَیْس، کِرْیُون وغیرہ ہیں۔

(سیدنا حضرت عمر فاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل مترجم حبیب اشعرصفحہ608،605،603،602اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور)

اسکندریہ کی فتح

کس طرح ہوئی؟ اس بارے میں لکھا ہے کہ فُسطاط کی فتح کے بعد حضرت عمرؓ نے اسکندریہ کی فتح کی بھی اجازت دے دی۔ اسکندریہ اور فُسْطَاطْکے درمیان مقام کِرْیُونمیں رومیوں کے ساتھ شدید جنگ ہوئی جس میں مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اس کے بعد اسکندریہ تک رومی سامنے نہ آئے۔ مَقُوقَس جزیہ دے کر صلح کرنا چاہتا تھا لیکن رومیوں نے اس پر دباؤ ڈالا جس کے نتیجہ میں مَقُوقَس نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو پیغام بھیجا کہ وہ اور قِبطی قوم اس جنگ میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں اس میں کوئی ضرر نہ پہنچے۔ قِبطی اس معرکے سے الگ رہے جبکہ انہوں نے اسلامی فوج کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کے لیے راستہ ہموار کرنے لگے اور پل مرمت کرنے لگے۔ اسکندریہ کے محاصرہ میں بھی قبطی لوگ مسلمانوں کو رسد مہیا کرتے رہے۔ اسکندریہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس وقت مسلمانوں نے اسکندریہ کو فتح کیا اس وقت اس شہر کو دارالحکومت کی حیثیت حاصل تھی۔ قسطنطنیہ کے بعد بازنطینی رومی بادشاہت کا دوسرا بڑا شہر مانا جاتا تھا۔ مزید برآں دنیا کا سب سے پہلا تجارتی شہر تھا۔ بازنطینی یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر اس شہر پر مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا تو اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔ اسی پریشانی کی حالت میں ہرقل نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر عرب اسکندریہ پر غالب آ گئے تو رومی ہلاک ہو جائیں گے۔ اسکندریہ میں ہرقل نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بنفس نفیس تیاری کی تھی لیکن تیاری کے دوران مر گیا اور اس کا بیٹا قسطنطینبادشاہ بنا۔ اسکندریہ اپنی فصیلوں کی استواری، ضخامت، محل وقوع اور محافظوں کی کثرت کی وجہ سے دفاعی اعتبار سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتا تھا۔ اسکندریہ کا محاصرہ نو ماہ تک جاری رہا۔ حضرت عمرؓ کو تشویش ہوئی اور حضرت عمرؓنے خط لکھا کہ شاید تم لوگ وہاں رہ کر عیش پرست ہو گئے ہو ورنہ فتح میں اس قدر دیر نہ ہوتی۔ اس پیغام کے ساتھ مسلمانوں میں جہاد کی تقریر کرو اور حملہ کرو۔ حضرت عمرؓ کا یہ خط سنانے کے بعد حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضرت عُبادہ بن صامِت ؓکو بلایا اور عَلَم ان کے سپرد کیا۔ مسلمانوں نے نہایت شدید حملہ کیا اور شہر فتح کر لیا۔ اسی وقت حضرت عمروؓ نے مدینہ قاصد روانہ کیا اور اس کو کہا کہ جس قدر تیز جا سکو جاؤ اور امیرالمومنین کو خوشخبری سناؤ۔ قاصد اونٹنی پر سوار ہوا اور منزلیں طے کرتے ہوئے مدینہ پہنچا۔ چونکہ دوپہر کا وقت تھا تو اس خیال سے کہ یہ آرام کا وقت ہے، بارگاہ خلافت میں جانے سے پہلے سیدھا مسجد نبویؐ کا رخ کیا۔ اتفاق سے حضرت عمرؓ کی لونڈی ادھر آ نکلی اور پوچھا کہ کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ قاصد نے کہا اسکندریہ سے آیا ہوں۔ اس لونڈی نے اسی وقت جا کر خبر دی اور ساتھ ہی واپس آئی اور کہا کہ چلو تم کو امیرالمومنینؓ بلاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ بغیر انتظار کے خود چلنے کے لیے تیار ہوئے اور چادر سنبھال رہے تھے کہ قاصد پہنچ گیا۔ فتح کا حال سن کر زمین پر گرے اور سجدہ شکر ادا کیا۔ آپؓ اٹھ کر مسجدمیں آئے اور منادی کرا دی کہ الصلوٰة جَامِعَہ۔یہ سنتے ہی سارا مدینہ امڈ آیا۔ قاصد نے سب کے سامنے فتح کے حالات بیان کیے۔ بعدازاں قاصدحضرت عمرؓکے ساتھ ان کے گھر گیا۔ اس کے سامنے کھانا پیش کیا گیا۔ پھر حضرت عمرؓ نے قاصد سے پوچھا کہ سیدھے میرے پاس کیوں نہیں آئے؟ اس نے کہا کہ میں نے سوچا کہ آپؓ آرام کر رہے ہوں گے۔ فرمانے لگے تم نے میرے متعلق یہ کیوں گمان کیا؟ میں دن کو سوؤں گا تو خلافت کا بار کون اٹھائے گا؟

اسکندریہ کی فتح کے ساتھ سارا مصر فتح ہو گیا۔

ان معرکوں میں کثرت سے قیدی بنائے گئے۔ حضرت عمرؓنے تمام قیدیوں کے متعلق حضرت عمروؓ کو بذریعہ خط ارشاد فرمایا کہ سب کو بلا کر کہہ دو کہ ان کو اختیار ہے کہ مسلمان ہو جائیں یا اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ اسلام قبول کریں گے تو ان کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں ورنہ جزیہ دینا ہو گا جو تمام ذمیوں سے لیا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا یہ فرمان جب قیدیوں کے سامنے پڑھا گیا تو بہت سے قیدیوں نے اسلام قبول کیا اور بہت سے اپنے مذہب پر قائم رہے۔ جب کوئی شخص اسلام کا اظہار کرتا تو مسلمان اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے تھے اور جب کوئی شخص عیسائیت کا اقرار کرتا تھا تو تمام عیسائیوں میں مبارکباد کا شور اٹھتا تھا اور مسلمان غمگین ہوتے تھے۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ162تا165 دار الاشاعت کراچی 1991ء)

(ماخوذ از سیدنا عمر بن خطابؓ از الصلابی اردو ترجمہ صفحہ760تا764الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)

اسکندریہ کی لائبریری

جلائے جانے کا واقعہ بھی بعض مستشرقین بڑے زورشور سے بیان کرتے ہیں۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اسکندریہ کی اس فتح کے ضمن میں مخالفین بالخصوص عیسائی مصنفین کی طرف سے ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اسکندریہ میں موجود ایک بہت بڑے کتب خانے کو جلانے کا حکم دیا تھا اور اس اعتراض کے ساتھ گویا یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان نعوذ باللہ کس قدر علم و عقل کے مخالف تھے اور اسکندریہ میں موجود اتنے بڑے کتب خانے کو جلا دیا کہ چھ ماہ تک آگ جلتی رہی حالانکہ عقل و نقل دونوں اعتبار سے یہ اعتراض سراسر بناوٹی اور جعلی معلوم ہوتا ہے کیونکہ جس قوم کو اس کے رب اور راہنما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو کہ

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلٰى كُلِّ مُسْلِمٍ

کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے

(سنن ابن ماجہ افتتاح الکتاب فی الایمان وفضائل الصحابۃ والعلم باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم حدیث نمبر 224)

اور جس نے یہ حکم دیا ہو کہ

اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّيْنِ

کہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے

(کنزالعمال جزء10صفحہ138 کتاب الباب الاول فی الترغیب فیہ حدیث 28697مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

اور جن کے لیے قرآن کریم میں علم و عقل اور تدبر و تفکر کے لیے درجنوں احکام و آیات موجود ہوں ایسے لوگوں پر کتب خانے کوجلانے کا الزام لگانا عقل اور درایت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے محققین جن میں خود عیسائی اور یورپین محقق شامل ہیں انہوں نے اس بات کی تردید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسکندریہ کے کتب خانے کو جلائے جانے کا واقعہ سراسر بناوٹی اور جعلی قصہ ہے۔ چنانچہ مصر کے ایک عالم محمد رضا اپنی تصنیف ’سیرت عمر فاروقؓ‘ میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسکندریہ میں آگ لگنے کا جو اعتراض کیا جاتا ہے اس کا ذکر اَبُوالْفَرْج مَلَطِیّ نے کیا ہے۔ اس نے یہ واقعہ تاریخ کی ایک کتاب ’مُخْتَصِرُ الدُّوَل‘ میں کیا ہے۔ یہ مؤرخ 1226ء میں پیدا ہوا اور 1286ء میں فوت ہوا۔ اس نے لکھا ہے کہ فتح کے وقت یُوْحَنَّا اَلنَّحْوِی نامی ایک شخص جو قِبطی پادری تھا اور مسلمانوں میںیحییٰ کے نام سے مشہور ہوا، اعتقاد کے لحاظ سے عیسائیوں کے فرقہ یعقوبیہ سے اس کا تعلق تھا اور بعد میں عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے رجوع کر لیا۔ اس نے عمرو بن عاصؓ سے خزائنِ ملوکیت میں سے حکمت کی کتب مانگیں تو حضرت عمرو بن عاصؓ نے جواب دیا کہ حضرت عمرؓسے اجازت کے بعد ہی کچھ بتانے کے قابل ہوں گا۔ ویسے تو یہ بالکل جھوٹی کہانی ہے لیکن پھر بھی اعتراض کو ردّ کرنے کے لیے بیان کر دیتا ہوں۔ حضرت عمرؓنے لکھا کہ آپؓ نے جن کتابوں کا ذکر کیا ہے اگر تو ان کا مواد اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق ہے تو پھر جو کچھ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے وہ ہمارے لیے کافی ہے اور ان کتابوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں اور اگر ان کا مواد اللہ تعالیٰ کی کتاب کے خلاف ہے تو پھر ان کتابوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ لہٰذا آپ ایسی کتابیں ضائع کرا دیں۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے اسکندریہ کے حماموں پر ان کتابوں کی چھانٹی شروع کر دی اور انہیں ان بھٹیوں میں جلا دیا۔ اس طرح وہ کتابیں چھ ماہ میں ختم ہو گئیں۔

اس روایت کا ذکر نہ تاریخ طبری میں ہے نہ ابنِ اثیر میں ہے، نہ یعقوبی اور کِنْدِی میں، نہ ابن عبدالحَکَمْ اور بَلَاذَرِی میں اور نہ ہی ابنِ خلدون نے اس کا ذکر کیا ہے۔

صرف ابوالفَرَجْ نے تیرھویں صدی عیسوی کے نصف اور ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں کسی مصدر کا ذکر کیے بغیر اسے لکھا ہے۔

پروفیسر بٹلر نے یوحنا نحوی کے بارے میں تحقیق کی اور لکھا ہے کہ وہ سن 642ء میں جس میں لائبریری کو آگ لگنے کا ذکر ہے زندہ ہی نہیں تھا۔ دائرۂ معارف برطانیہ نے ذکر کیا ہے کہ یوحنا پانچویں صدی کے اواخر اور چھٹی صدی کے اوائل میں زندہ تھا اور یہ بھی معلوم ہے کہ مصر ساتویں صدی کے اوائل میں فتح ہوا تھا۔ اس بنا پر پروفیسر بٹلر نے درست کہا ہے کہ وہ اس وقت فوت ہو چکا تھا۔ یہ یعنی جس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ تو اس واقعہ سے جو غلط رنگ میں ہی بےشک بیان کیا جاتا ہے اس سے بہت پہلے فوت ہو چکا تھا۔ پھر یہ کہ ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن نے پروفیسر اسماعیل کی سند سے اپنے رسالے ’’تاریخ عمرو بن عاصؓ‘‘ میں یہ تحریر کیا ہے کہ اس وقت دارِ کتب اسکندریہ یعنی اسکندریہ کی جو لائبریری تھی وہ موجود ہی نہیں تھی کیونکہ اس کے دو حصوں میں سے ایک بڑے حصے کو یُوْلیوس قیصر (جولیس قیصر، جولیس سیزر (Julius Caesar)) کے لشکروں نے بلا قصد، بغیر کسی مقصد کے اور بلا وجہ سن 47 ق م میں جلا دیا تھا اور اس کی دوسری قسم بھی اسی طرح مذکورہ زمانے میں معدوم ہو گئی تھی اور یہ واقعہ تِیُوفِل (Teofill) پادری کے حکم پر چوتھی صدی میں ہوا۔

پروفیسر بٹلر لکھتا ہے کہ

ابوالفرج کا قصہ تاریخی اساس سے محض بے سروپا ہے اور مضحکہ خیز ہے۔

اگر کتابیں جلانی ہوتیں تو وہ مختصر سی مدت میں ایک دفعہ ہی جل سکتی تھیں اور اگروہ چھ ماہ میں جلائی گئیں تو ان میں سے بہت سی چوری بھی ہو سکتی تھیں۔ عربوں کے متعلق معروف نہیں کہ انہوں نے کسی چیز کو تلف کیا ہو۔ گِبَن (Gibbon) نے لکھا ہے کہ اسلامی تعلیمات اس روایت کی مخالفت کرتی ہیں کیونکہ اس کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ جنگ میں یہودیوں اور عیسائیوں کی ملنے والی کتب کو جلانا جائز نہیں اور جہاں تک علم، فلسفہ، شعر اور دین کے دیگر علوم کی کتب کا تعلق ہے تو اسلام نے ان سے استفادہ کرنا جائز قرار دیا ہے۔ مسلمانوں نے مفتوحہ علاقوں میں گرجوں اور ان کی متعلقہ چیزوں کو نقصان پہنچانے سے منع کیا بلکہ ذمیوں کو بھی حریت دینیہ کی اجازت دی تھی تو کیا عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ امیر المومنین، اسکندریہ کا کتب خانہ جلا دینے کا حکم دیں گے۔

(ماخوذ از سیرت عمر فاروقؓ از محمد رضا صفحات 294 تا 297مکتبہ اسلامیہ لاہور2010ء)

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اپنی کتاب ’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘ میں اس اعتراض کا ذکر کر کے جواب دیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ فَیْلُونَسْ حکیم اور فاضل اجل کی عرض پر عمرو سپہ سالار فوج نے امیرالمومنین عمر خلیفہ ثانیؓ سے اس کتب خانے کے بارے میں ارشاد پوچھا تو خلیفہ نے لکھا فی الفور جلا دیے جاویں۔ چھ مہینے تک وہ حمام گرم ہوتے رہے۔ آپ لکھتے ہیں یہ لوگ یہ کہتے ہیں ۔ یہ تو اعتراض صرف پادری صاحبان کی کاسہ لیسی کا نتیجہ ہے۔ اس میں حقیقت کوئی نہیں۔ وَاِلَّا ناظرین غور کریں۔ حضرت خلیفہ اولؓ فرماتے ہیں کہ اول یہ کہ اگر اسلام کی عادات میں یہ ہوتا تو اسلام والے پھر خلیفہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے عہد سعادت مہد میں یہود اور عیسائیوں کی پاک کتب کو جلاتے کیونکہ وہی دونوں مذاہب، ہاں پاک کتابوں والے مذاہب مذہبِ اسلام کے پہلے مخاطب تھے۔ پھر مجوس پر اسلام کا پورا تسلط ہوا مگرکوئی تاریخ نہیں بتاتی کہ اسلام نے ان کی کتابیں جلائیں۔ اگر یہ فعل اسلام یا خلفائے اسلام کا داب ہوتا یعنی ان کی عادت ہوتی تو اس کے ارتکاب کے اسباب ہمیشہ اسلام میں موجود ہوتے اور اسلام کو اس میں کوئی چیز مانع نہیں تھی۔ حضرت خلیفہ اولؓ فرماتے ہیں: دوسری بات یہ کہ اگر مذہبی کتابوں کا جلانا اسلامی بادشاہوں اور عوام اسلام کا کام ہوتا تو یونانی فلسفہ، یونانی طب، یونانی علوم کے ترجمے عربی زبان میں محال ہوتے۔ سوئم یہ کہ اگر کتابوں کا جلانا اسلامی لوگ اختیار کرتے تو ضرور تھا کہ مکذب براہین احمدیہ، جو براہین احمدیہ کی تکذیب کر رہا ہے، اس کے جواب میں حضرت خلیفہ اول لکھ رہے ہیں ناں کہ اپنے ملک سے کوئی نظیر دیتے اور انہیں اسکندریہ میں سمندر پار نہ جانا پڑتا۔ یہاں لکھتے کہ ہندوستان میں کون سی کتابیں جلی ہیں۔ چہارم یہ کہ سات سو برس سے زیادہ اسلام نے ہندوستان میں سلطنت کی اور اس عرصہ میں بھگوت، رامائن، گیتا،مہابھارت اور ان کے مثل لِنگ پُرَان (Ling Puran)، مَارْکُنْڈِی (Markundi) مشہور کتابیں ہیں جو آج تک مذہبی کتابیں اور مقدس پُسْتَک یقین کی جاتی ہیں۔ کسی کے جلانے کی خبر کان میں نہیں پہنچی بلکہ ان کتابوں میں سے بعض کے ترجمے ہوئے۔ پس تعجب آتا ہے کہ ان ہندوؤں نے کیونکر سمجھ لیا کہ مسلمان ان کی پُسْتَکَوْں کو جلاتے ہیں۔ انصاف سے سوچو۔

(ماخوذ ازتصدیق براہین احمدیہ جلد اوّل صفحہ 203-204)

اس اعتراض کے جواب میں ’تصدیق براہین احمدیہ‘ میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ نے بھی نوٹ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت تک جبکہ اس واقعہ کی تحقیق نہ کی گئی تھی اور صحیح حالات روشنی میں نہ آئے تھے یہ الزام مسلمانوں کو دیا جاتا تھا مگر اب منصف مزاج اور حق پسند علماء میں ایسے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں جو یہ ناحق الزام مسلمانوں کو دیتے ہوں۔ اس الزام کی وجہ زیادہ تر تعصب یا ناواقفیت پر مبنی تھی اور اس وقت بھی جب یہ الزام لگانے والے کے پاس کوئی صحیح سند موجود نہ تھی یعنی اس قصہ کے بیان کرنے والے دو مؤرخ اس واقعہ سے پانچ سو اسّی برس بعد پیدا ہوئے اور کوئی پہلی سند ان کے پاس موجود نہ تھی۔ سینٹ کرائے (Saint Croix) جس نے اسکندریہ کے کتب خانے کی تحقیق میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں اس روایت کو بالکل جھوٹا ٹھہرایا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ

یہ کتابیں جولیس سیزر (Julius Caesar) کی لڑائی میں جل گئی تھیں۔

چنانچہ پلوٹارک (Plutarch) بھی ’لائف آف سیزر‘ میں لکھتا ہے کہ جولیس سیزرنے دشمنوں کے ہاتھوں میں پڑ جانے کے خوف سے اپنے جہازوں کو آگ لگا دی اور وہی آگ بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی کہ اس نے اسکندریہ کے مشہور کتب خانۂ عظیم کو بالکل جلا دیا۔

ہیڈن (Haydn) نے اپنی کتاب ڈکشنری آف ڈیٹس ریلیٹنگ ٹو آل ایجز (Dictionary of Dates Relating to all Ages) میں جہاں اس غلط روایت کو درج کیا ہے وہاں اپنی تحقیقات سے یہ نوٹ لکھا ہے کہ یہ قصہ بالکل مشکوک ہے۔ حضرت عمرؓ کا قول ’’اگر وہ کتابیں مخالفِ اسلام ہیں تو جلا دینی چاہئیں‘‘ مسلمانوں نے تسلیم نہیں کیا۔ اس قول کو بعض نےتِھیُوْفِلَسْ (Theophilus) اسکندریہ کے بشپ سے منسوب کیا ہے جو 391ء میں ہوا اور بعض نے اسے کارڈینل جیمینیز (Cardinal Jimenez) کے ماتھے لگایا ہے جو 1500ء میں تھا۔ پھر لکھتے ہیں کہ ہمارے مشہور جوان مرد ڈاکٹر لَائِٹْنَر (Dr. Leitner) نے اپنی کتاب سِنین الاسلام میں اس غلط روایت کی پیروی کی ہے اور افسوس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو اپنی تحقیقات میں دھوکا ہوا ہے۔

ڈریپر صاحب، جان ولیم ڈریپر (John William Draper) نے مشہور کتاب میں پہلے اس قول کو غلط راویوں سے نقل کیا ہے لیکن بعد میں جا کر اس قول کی غلطی کو تسلیم کیا ہے اور لکھا ہے کہ درحقیقت یہ کتابیںجولیس سیزرکی لڑائی میں جل گئی تھیں اور اب کامل یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قول بالکل بے اصل اور محض فسانہ ہے۔ اگر رونے کے لائق ہے تو یہ سچا واقعہ ہے، اگر جس بات پہ افسوس کرنا چاہیے، رونا چاہیے تو یہ واقعہ سچا ہے کہ متعصّب کارڈینل جیمینیز (Cardinal Jimenez) نے اسّی ہزار عربی قلمی کتابیں گرناڈا (Granada) کے میدانوں میں برباد کرنے والی آگ کے شعلوں کے حوالے کر دی تھیں۔ جب سپین کو انہوں نے مسلمانوں سے چھینا اور عیسائیوں کا قبضہ ہوا تو وہاں غرناطہ کی لائبریری سے اسّی ہزار کتابیں انہوں نے جلائی تھیں۔ یہ ہے اصل رونے کا مقام بجائے اسلام پہ الزام لگانے کے۔ دیکھو۔ Conflict Between Religion and Science (ماخوذ از تصدیق براہین احمدیہ جلد اوّل صفحہ 203 حاشیہ)اس میں یہ حوالہ درج ہے۔ تو بہرحال یہ لائبریری کے جلانے کا حوالہ تھا جس کا الزام لگایا جاتا ہے۔

پھر فتح بَرْقَہ و طرابلس وغیرہ کا ذکر

ہے۔ مصر فتح کر لینے اور وہاں امن و امان قائم ہوجانے کے بعد عمرو بن عاصؓ مغرب کی سمت بڑھے تا کہ ادھر سے مفتوحہ علاقوں کے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ کیونکہ بَرْقَہ اور طرابلس میں روم کی کچھ فوج قلعہ بند تھی اورموقع ملنے پر لوگوں کو ورغلانے سے وہ مصر میں مسلمانوں پر دھاوا بول سکتے تھے۔ اسکندریہ اور مراکش کے درمیان جو علاقہ ہے اس کوبَرْقَہ کہتے ہیں۔ اس علاقے میں کئی شہر اور بستیاں آباد ہیں۔ چنانچہ عمرو بن عاص بائیس ہجری میں اپنی فوج لے کر بَرْقَہ کی طرف چلے۔ اسکندریہ سےبَرْقَہ تک کا راستہ نہایت سرسبزو شاداب اور گھنی آبادی والا تھا۔ اس لیے وہاں تک پہنچنے میں آپ کو دشمن کی کسی سازش کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور جب وہاں پہنچے تو لوگوں نے جزیہ کی ادائیگی پر مصالحت کر لی۔ اس کے بعدبَرْقَہ کے لوگ خود بخود والی مصر کے پاس جاتے اور اپنا خراج جمع کرا آ تے ۔ مسلمانوں کی طرف سے کسی کو ان کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ یہ لوگ مغرب میں سب سے زیادہ سادہ لوگ تھے۔ ان کے یہاں کوئی فتنہ و فساد نہیں تھا۔

عمرو بن عاص یہاں سے نکلے تو طرابلس کی طرف بڑھے جو محفوظ و مضبوط قلعوں والا شہر تھا۔ وہاں رومی فوج کی بہت بڑی تعداد مقیم تھی۔ اس نے مسلمانوں کی آمدکی خبر سن کر اپنے قلعوں کے دروازے بند کر دیے اور مجبوراً مسلمانوں کے محاصرے کو برداشت کرنے لگے۔ یہ محاصرہ ایک ماہ تک جاری رہا لیکن مسلمانوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ طرابلس کے عقب میں شہر سے متصل سمندر بہتا تھا اور سمندر اور شہر کے درمیان کوئی فصیل قائم نہیں تھی۔ مسلمانوں کی ایک جماعت کو یہ راز معلوم ہو گیا اور پیچھے سے سمندر کی طرف سے شہر میں داخل ہو گئی۔ انہوں نے زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ اب فوج کے سامنے اپنی اپنی کشتیوں میں بھاگ کر پناہ لینے کے علاوہ کوئی اَور راستہ نہیں تھا۔ وہ جونہی پیچھے بھاگے پیچھے سے عمرو بن عاصؓ نے ان پر حملہ کر دیا۔ ان میں سے اکثر تہ تیغ کر دیے گئے سوائے یہ کہ جو کشتیوں سے بھاگ نکلے۔ شہر میں موجود سامان اور جائیداد کو مسلمانوں نے مال غنیمت کے طور پر حاصل کیا۔

طرابلس سے نمٹنے کے بعد عمرو بن عاص نے اپنی فوج کو قرب و جوار میں پھیلا دیا۔ آپ کا ارادہ تھا کہ مغرب کی سمت فتوحات مکمل کرکے تیونس اور افریقہ کا رخ کریں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں سیدنا عمر بن خطابؓ کے پاس خط لکھا جبکہ حضرت عمرؓ اسلامی لشکر کو نئے محاذ پر بھیجنے سے ہچکچاتے تھے اور خاص طور پر ایسی حالت میں جبکہ شام سے طرابلس تک تیزی سے فتوحات کے باعث مفتوحہ علاقوں کی طرف سے ابھی بالکل مطمئن نہ ہوئے تھے۔ اس لیے آپ نے اسلامی لشکر کو طرابلس میں ٹھہر جانے کا حکم دیا۔

حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت

کا دائرہ دور دراز علاقوں کی سرحدوں کو چھونے لگا۔ اسلامی سلطنت مشرق میں دریائے جِیْحون اور دریائے سندھ سے لے کر مغرب میں افریقہ کے صحراؤں تک اور شمال میں ایشیائے کوچک کے پہاڑوں اور آرمینیا سے لے کر جنوب میں بحرالکاہل اور نُوْبَہ تک ایک عالمی ملک کی شکل میں دنیاکے نقشہ پر نمودار ہوئی۔ نُوْبَہمصر کا جنوبی علاقہ ہے جو بہت وسیع و عریض ہے جس میں مختلف اقوام ادیان اور ملل اور تہذیب و تمدن نے زندگی پائی تھی۔ یعنی اسلامی حکومت نے مصر کے علاقے میں ہی نہیں بلکہ یہ جو پورا علاقہ مسلمانوں کے زیر اثر تھا اور وہاں مختلف اقوام تھیں، مختلف تہذیب و تمدن تھے، ان سب نے اسلام کے سایہ عدل اور رحمت میں امن اور سکون کی زندگی گزاری۔ وہ دین اسلام جس نے اپنے عقائد اور عبادات اور تہذیب و تمدن کے مخالفین کو ہزاروں مخالفتوں کے باوجود اس دنیا میں مکمل حقوق عطا کیے اور ان کی زندگی کا پورا پورا احترام کیا۔

(سیدنا عمر بن خطابؓ شخصیت اور کارنامے از محمد صلابی صفحہ 765-766)

(معجم البلدان جلد1 صفحہ462 برقہ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(معجم البلدان جلد5 صفحہ357 نوبہ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

جنگوں کے دوران مسلمانوں کی عبادات کا رنگ

کیسا ہوتا تھا؟ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’دنیا میں ہر چیز قدم بہ قدم ترقی کرتی ہے۔ بڑے بڑے کام بھی یکدم نہیں ہوجایا کرتے بلکہ آہستہ آہستہ ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی سارے مسلمان تہجد نہیں پڑھتے تھے آہستہ آہستہ انہیں عادت ڈالی جا رہی تھی حتی کہ پھر وہ زمانہ آیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جنگ کے دنوں میں بھی جب کہ ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی‘‘ بعض دفعہ ’’چھوڑ دیتے تھے، مسلمان تہجد پڑھتے تھے۔ ممکن ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنگ کے دنوں میں تہجد کے لئے اٹھا کرتے ہوں مگر یہ ثابت ہے کہ’’ بعض دفعہ ’’نہیں بھی اٹھتے تھے لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسلمان جنگ کے دنوں میں بھی تہجد پڑھتے تھے حتیٰ کہ ایک دفعہ جب ہرقل نے ان پر شب خون مارنے کا ارادہ کیا تو اس پر خوب بحث ہوئی اور آخر یہی فیصلہ ہوا کہ نہ مارا جائے کیونکہ مسلمانوں پر شب خون مارنا بے سود ہے۔ اس لئے کہ وہ تو سوتے ہی نہیں بلکہ تہجد پڑھتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ترقی کی علامت ہے جو ابتدا میں نہ تھی۔ شروع شروع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے لئے بہت تحریک و تحریص کی ضرورت پیش آتی تھی مگر بعد میں آہستہ آہستہ کمزور بھی اس کے عادی ہو گئے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 13صفحہ 189)

خلفائے راشدین کے دور میں ہونے والی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں کہ

’’اسلام نے صرف مقابلہ کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ بعض مصلحتوں کے ماتحت ظلم کو برداشت کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔

چنانچہ جہاں اللہ تعالیٰ کی طر ف سے یہ اجازت ہے کہ اگر تمہیں کوئی شخص تھپڑ مارے تو تم بھی اسے تھپڑ مارو۔ وہاں اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر تم مقابلہ کرنا مصلحت کے خلاف سمجھو تو تم چپ رہو اور تھپڑ کا تھپڑ سے جواب مت دو۔ پس وہ دلیل جو عام طور پر ان جنگوں کے متعلق پیش کی جاتی ہے اس سے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ پر دشمن کے الزام کا دفاع تو ہو جاتا ہے۔ یہ تو پتہ لگ جاتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے ظلم نہیں کیا بلکہ قیصر نے ظلم کیا۔ حضرت عمرؓ نے ظلم نہیں کیا بلکہ کسریٰ نے ظلم کیا۔ حضرت عثمانؓ نے ظلم نہیں کیا بلکہ افغانستان اور بخارا کی سرحد پر رہنے والے قبائل اور کردوں وغیرہ نے ظلم کیا لیکن اس امر کی دلیل نہیں ملتی کہ حضرت ابوبکرؓ نے ان کو معاف کیوں نہ کر دیا؟ حضرت عمرؓ نے ان کو معاف کیوں نہ کر دیا؟ حضرت عثمانؓ نے ان کو معاف کیوں نہ کر دیا؟ جب وہ مقابلے کے لئے نکلے تھے تو وہ قیصر سے کہہ سکتے تھے کہ تمہاری سپاہ سے فلاں غلطی ہو گئی ہے اگر اس کے متعلق تمہاری حکومت ہم سے معافی طلب کرے تو ہم معاف کر دیں گے اور اگر معافی طلب نہ کرے تو ہم لڑائی کریں گے۔ انہوں نے قیصر کے سامنے یہ پیش نہیں کیا کہ تم سے یا تمہاری فوج کے ایک حصہ سے فلاں موقع پر ظلم ہوا ہے اور چونکہ ہماری تعلیم یہ بھی ہے کہ دشمن کو معاف کر دو اس لئے اگر تم معافی مانگو تو ہم معاف کرنے کے لئے تیار ہیں بلکہ جب اس نے ظلم کیا وہ‘‘ (مسلمان) ’’فوراً اس کے مقابلے کے لئے‘‘ (جنگ کے لئے) ’’کھڑے ہو گئے اور پھر اس کے مقابلہ کو جاری رکھا‘‘ اس مقابلے کو جاری رکھا۔ ’’جب کسریٰ کے سپاہیوں نے عراقی سرحد پر حملہ کیا تو سیاسی طور پر اس کے بعد صحابہؓ اور کسریٰ کے درمیان جنگ بالکل جائز ہو گئی لیکن اخلاقی طور پر حضرت عمرؓ کسریٰ کو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ شاید تم نے اس حملے کا حکم نہ دیا ہو بلکہ سپاہیوں نے خود بخود حملہ کر دیا ہو اس لئے ہم اس حملہ کو نظر انداز کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ تم ہم سے معافی مانگو اور اس فعل پر ندامت کا اظہار کرو مگر انہوں نے ایسانہیں کیا۔ اسی طرح حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانہ میں دشمنوں کو یہ نہیں کہا کہ تم نے ظلم تو کیا ہے لیکن چونکہ ہمارا مذہب ظلم کی معافی کی بھی تعلیم دیتا ہے اس لئے ہم تمہیں معاف کرتے ہیں بلکہ وہ فوراً اس ظلم کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور لشکر بھیجے، لڑائی کی اور پھر اس لڑائی کو جاری رکھا۔ آخر اس کی کیا وجہ تھی؟‘‘ حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں ’’اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سوائے اس کے اَور کوئی نہیں تھی کہ حضرت ابوبکرؓ جانتے تھے کہ جب بھی بیرونی خطرہ کم ہوا اندرونی فسادات شروع ہو جائیں گے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قیصر نے حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے حملہ کیا ہے تا مسلمان اس مصیبت کے ذریعہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں اور اپنے اندر نئی زندگی اور نیا تغیر پید اکریں۔ حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ کسریٰ نے حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے حملہ کیاہے تا کہ مسلمان غافل، سست ہو کر دنیا میں منہمک نہ ہو جائیں بلکہ ہر وقت بیدار اور ہوشیار رہیں۔ حضرت عثمانؓ جانتے تھے کہ بعض قبائل نے مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے حملہ کیا ہے تا کہ مسلمان بیدار ہوں اور ان کے اندر ایک نئی روح اور ایک نئی زندگی پیدا ہو۔‘‘

(خطبات محمود جلد 30 صفحہ 175-176)

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک خطبہ میں یہ بیان فرمایا تھا۔ اس بنیاد پر حضرت مصلح موعودؓ نے اس میں آگے پھر یہ بھی اعلان فرمایا ہے، جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ مصائب آتے ہیں، مشکلات میں سے گزرنا پڑتا ہے تا کہ روحانی ترقی ہو۔ اور اس اصول کو اگر ہم آج بھی یاد رکھنا چاہتے ہیں تو پھر یاد رکھیں کہ یہ مصائب اور مشکلات جو ہیں ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والے ہونے چاہئیں اور یہی فتوحات کا پھر ذریعہ بنتے ہیں۔ اگر ان باتوں میں ہم صرف ڈر کے پیچھے پیچھے رہتے رہیں اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں تو پھر ترقی نہیں ہو سکتی۔ ہاں جب ترقیات مل جائیں اور مصائب ختم ہو جائیں تب بھی ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ سے رہنا چاہیے لیکن ان دنوں میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے اور ہمیں اپنی روحانی ترقی اور روحانی بہتری کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہی لکھا ہے کہ اگر ہم نے اس بات کو نہیں سمجھا تو کچھ نہیں سمجھا اور یہی بات ہر ایک احمدی کے لیے آج کل بھی سمجھنے والی ہے۔

(الفضل انٹر نیشنل سیرت النبیؐ نمبر26 اکتوبر 2021ءصفحہ 5تا10)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button