محترم میجر عبدالحمید شرما صاحب کی سیرت اورحالات زندگی
میرے والد مرحوم مکرم میجر عبد الحمید شرما صاحب کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقفِ جدید کے تحت تھرپارکر سندھ میں خدمات بجا لانے کا موقع ملا۔1983ءسے لے کر5سال تک بطور نائب ناظم ارشاد وقف جدید رہے جس دوران تھرپارکر میں دورے کرنے، تربیت کے پروگرام منعقد کرنے، چھوٹے چھوٹے شفاخانے کھولنے اور دینی مدرسے کھولنے کی توفیق ملی۔ الحمد للہ
ابی جان 1924ءمیں قادیان میں حضرت منشی عبدالرحیم شرماصاحب رضی اللہ عنہ سابق کشن لال صاحب اور حضرت عائشہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ اپنے والدین کے نو بچوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے والدین کے مالی حالات ان تمام خاندانوں کی طرح کمزور تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا کر اپنا سب کچھ چھوڑ کر مسیح الزماں کے در پر آ بسے تھے۔ آپ کے والد صاحب اسلام احمدیت قبول کرنے سے پیشتر ریاست پٹیالہ کے ایک کھاتے پیتے ہندو برہمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن قادیان دارالامان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح پاک علیہ السلام پر ایمان لاتے ہوئے اور غربت کی پروا نہ کرتے ہوئے ایک پاک خاندان کی بنیاد رکھی۔آج اس خاندان کی شاخیں دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیل چکی ہیں اور کسی نہ کسی رنگ میں خلیفۂ وقت کی راہ نمائی میںدین اسلام و احمدیت کی خدمت میں مشغول ہیں۔
محترم والد صاحب نے قادیان کے پاکیزہ ماحول میں اور گھر میں ایسے والدین کے سائے میں بچپن گزارا جو صحابہ میں سے تھے اور جن کے علاوہ گھر میں ایک ایسا پرشفقت وجود بھی تھا جنہوں نے خود اسلام اور احمدیت کو تحقیق کر کےقبول کیا یہ آپ کی دادی جان تھیں جن کا نام حمیدہ نو مسلمہ سابقہ جمنا دیوی تھا۔آج ہم بہن بھائی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم نے جو دین اسلام واحمدیت کی غیرت اور محبت آپ کی ذات میں دیکھی وہ اس بچپن کی تربیت کی بدولت تھی اس تربیت میں قادیان کے فرشتہ صفت صحابہ کرام ؓکا بھی بہت بڑا کردار تھا۔ہمارے والدین ہمارے بچپن میں گھر میں ان صحابہ کرام ؓکا ذکر کیا کرتے تھے جو ان کے ہمسائے میں اور قرب و جوار کے محلوں میں رہتے تھے۔آج ہم ان صحابہ ؓکے حالات زندگی جماعت کی تاریخی کتب میں پڑھتے ہیں اور ان کی پاکیزہ زندگی کے واقعات کو اپنی تقاریر میں بچوں کی تربیت کی خاطر بیان کرتے ہیں جبکہ ہمارے والدین ان کے ساتھ ساتھ رہ کر اپنی زندگیوں کا وہ دور گزار گئے جس کی برکت سے ان کی نسلیں مستفید ہو رہی ہیں۔
ہماری دادی جان حضرت عائشہ بیگم صاحبہؓ کے بچپن کا بہت سا وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں گزرا اور شادی ہو جانے کے بعد آپ کا آنا جانا حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے گھرانے میں تھا جہاں آپ نے ان کی اولاد کو دودھ پلایا۔ان حالات کی بدولت حضرت صاحبزادہ صاحبؓ دادا جان کی اولاد کی تربیت اور بہتری کے لیے ہمیشہ مدد اور مشوروں سے نوازتے۔چنانچہ ہمارے تایا جان محترم عبدالکریم شرما صاحب اور والد صاحب کو فوج میں بھجوانے کا مشورہ اور انتظام آپ نے ہی فرمایا۔ بعد میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشاد پر اور حضرت دادا جان کی دیرینہ خواہش کو پورا کرتے ہوئے ہمارے تایا جان فوج سے مستعفی ہوکر تبلیغ اسلام احمدیت کے لیے افریقہ روانہ ہو گئے۔ جبکہ والد صاحب نے ریٹائرڈ ہونے تک فوج کی ملازمت کی، دوران ملازمت 1944ء میں آپ کی شادی ہماری والدہ محترمہ کنیز احمد صاحبہ، صاحبزادی محترم غلام نبی صاحب سابق ایڈیٹرالفضل قادیان سے ہوئی۔ اس کے بعد جب 1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو آپ اپنے تمام خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے اور فوج میں باقاعدہ بھرتی ہوئے۔آپ کا پہلا عہدہ سیکنڈ لیفٹیننٹ کا تھا اس کے ساتھ ہی آپ کو فوج میں کافی آسائشیں میسر آگئیں۔ہمارے دادا جان آپ کو وردی میں دیکھتے تواللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کرتے اور مسرت کا اظہار کرتے۔
ابی جان کی روز مرہ زندگی ہم بچوں کے سامنے تھی جسے ہم اپنے بچپن کے معصوم دَور میں پہچان چکے تھے کہ آپ ہمارے اردگرد میں بسنے والے فوج کےآفیسرز سے یکسر مختلف تھے جس کے نتیجے میں ہمارے گھر کا ماحول بھی دوسرے فوجی گھرانوں سےمختلف تھا۔ہمارے گھر کا ماحول کس لحاظ سے مختلف تھا اب خاکسار اس کا ذکر کرے گی۔
یاد رہے کہ ہمارا گھر حضرت دادا جان کے لگائے گئے اس شجر کی شاخ تھا جسے آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد قادیان کی پاک بستی میں لگایا اور اس کی آبیاری کی۔ اس شجر کی حفاظت ہمارے ابی جان نے کیسے کی اورا سے ہرا بھرا رکھنے کی خاطر کس طرح جدوجہد کی اس کا ذکر کرنا یہاں مقصود ہے۔اور ان کے احسانوں کو یاد کرنا اور اللہ تعالیٰ سےدعا کرنا کہ رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا۔ ہمارے لیے واجب ہو جاتا ہے۔
اولاد کی تربیت کرنے کے بارے میں ابی جان کے کچھ اصول تھے جنہیں وہ کسی صورت میں نظرانداز نہیں کرتے تھے۔ جن میں نماز کی پابندی، قرآن پاک کی تلاوت، وقت کی پابندی، تعلیمی ذمہ داریوں کو بہتر رنگ میں ادا کرنا وغیرہ شامل تھا۔لیکن اس کے علاوہ بچوں کی دلچسپیوں اور سپورٹس وغیرہ کو بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے یعنی دینی اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کی خاطر ہماری تمام ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔ہمارے بھائی شام کے وقت فوجی کلبز میں باقاعدہ سکواش ، گھڑ سواری ، تیراکی اور دیگر گیمز کرتے اور ویک اینڈز میں اپنے علاقے کے گراؤنڈ میں دوستوں کے ساتھ کرکٹ وغیرہ کھیلتے۔ ہم لڑکیوں کے لیے گھر کے لان میں بیڈمنٹن کا انتظام کروا رکھا ہوتا۔اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ ہم لڑکیاں کمروں میں بند ہو کر رہیں بلکہ شام کے وقت تازہ ہوا میں کھیل کود میں وقت گزارا کریں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جب ابی جان اپنے بچوں کی تعلیمی ذمہ داریوں سے فارغ ہوئے تو اپنی زندگی وقف کرنے کی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوئے۔چنانچہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو زندگی وقف کرنے کی درخواست کی تو آپ نے ابی جان کی درخواست قبول فرماتے ہوئے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پرخدمت انجام دینے کا موقع عطا فرمایا جسے ابی جان نے ایک سال تک ادا کیا۔ اس کے بعد حضورؒنے آپ کو تحریک وقف جدید کے تحت تھرپارکر اور مٹھی کے علاقوں میں غریب اور دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے بھجوا دیا۔
آپ کو جماعت کی طرف سے ایک جیپ بھی مہیا کی گئی جسے آپ نے موبائل ہومیوپیتھک ڈسپنسری کے طور پراس خدمت کے لیے استعمال کیا۔ایک زمانے میں جو آپ نے ہومیوپیتھی اپنے بچوں کے لیے سیکھی تھی اب اللہ تعالیٰ آپ کے اس ہنر کوغریب انسانیت کے لیےاستعمال کرنے کے سامان پیدا فرما رہا تھا اور آپ کی زندگی وقف کرنے کی خواہش پوری فرما رہا تھا۔ آپ کا تقرر 1983ءسے1988ءتک بطور نائب ناظم ارشاد وقف جدید ہوا۔آپ کے فرائض میں، تھرپارکر میں دورے کرنا، تربیت کےپروگرام منعقد کرانا، چھوٹے چھوٹے شفا خانے کھولنا اور دینی مدرسے کھولنے کے متعلق توجہ مبذول کرانا تھا۔
آپ نے انتہائی جانفشانی سے تقریباً پانچ سال تھرپارکر، مٹھی اور نگر پارکر کے صحراؤں میں گزارے۔اس زمانے میں وہاں پانی اور کھانے پینے کے ساتھ ساتھ رہائش کا کوئی انتظام نہ تھا۔لیکن آپ ایک جانباز فوجی بھی رہ چکےتھے اور ان حالات کا مقابلہ کرنا جانتے تھے اس لیے آپ نےذرا بھی ہمت نہ ہاری۔ آپ کے پاس ایک فوجی بیگ ہوتا تھا جس میں آپ اپنی ضرورت کی کچھ چیزیں رکھتے اور سارا سارا دن صحراؤں میں ہومیوپیتھک کی موبائل ڈسپنسری لیے اس علاقے میں بسنے والے نادار ہندوؤں کا علاج کرتے اور تبلیغ کرتے۔رات کھلے آسمان تلے ریت کے ٹیلوں پر اپنے بچوں کے لیے دعائیں کرتے ہوئے گزارتے۔ایک دفعہ آپ سویڈن آئے ہوئےتھے۔ آپ نے خاکسار کو تھرپارکر کے وقف کے دوران کا ایک واقعہ بتایا کہ ایک رات آپ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی بخشش کے لیے بہت دعا کی اور التجا کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں بتا دے کہ آیا ان کی بخشش ہوگئی۔ تب رات کو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ریت کے ٹیلے پر انگلی سے لکھا ہے ’’کریم بخش‘‘۔
جب آپ رخصت پر گھر ربوہ آتے تو وہی فوجی بیگ پاس ہوتا۔ آپ کا لباس کسی صحرائی مسافر کا سا ہوتا اور صحت بہت کمزور ہوگئی ہوتی لیکن جذبہ ہمیشہ کی طرح بلند ہوتا۔ کچھ دن آرام کرتے اس دوران امی جان ان کے کہنے پر بہت ساری مختلف سبزیاں سکھا کر اور کپڑے دھوکر ابی جان کے حوالے کر دیتیں جنہیں آپ خود اپنے بیگ میں پیک کر تے۔ آپ تھرپارکر میں یہ سبزیاں ابال کر اپنا کھانا بنا لیتے یہی آپ کی خوراک تھی۔
آپ جماعت کے مالی معاملات میں اس قدر محتاط تھے کہ سن کر روح سرشار ہو جاتی ہے۔ ہمارے بھائی عزیزم ودود احمد شرما صاحب اس بارے میں بتاتے ہیں کہ’’1985ءمیں مَیں کراچی میں چیف انجینئر کے امتحان کی تیاری کے لیے مقیم تھا محترم ابی جان تھر پار کر، نگر پارکر کے علاقے میں جماعتی خدمات ادا کر رہے تھے، وہ جماعتی ضروریات کا سامان خریدنے کراچی آتے تو خاکسار کے پاس قیام کرتے۔تھرپارکر کے علاقے میں گرم موسم اور کھانے پینے اور رہنے کی مناسب جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی صحت کمزور ہوگئی ہوتی اور سر پر پھوڑے نکلے ہوتے۔ بہت اصرار کرتا کہ کچھ دن رہ کر صحت بہتر ہونے پر چلے جائیں مگر آپ جلد از جلد کام ختم کر کے واپس جانے پر ہی اصرار کرتےاور جماعتی اخراجات کو بچانے کی خاطر کراچی سے حیدرآباد چودھری نعمت اللہ، ڈائریکٹر انڈس ٹیکسٹائل کی گھر سواری جو کیکڑا کے نام سے منسوب تھی ( یہ فوج کے پرانے ٹرک تھے جنہیں مل خرید کر سندھ کی آمدورفت کے لیے استعمال کرتی تھی) کاانتظار کرتے، جو ہفتے میں کچھ دن ہی چلتی تھی دو سے تین دن میں تھرپارکر پہنچاتی، راستے میں صحرا میں قیام ہوتا۔ایک دفعہ خاکسار نے ان کی ڈائری دیکھی۔ اس میں کام کے علاوہ جماعتی اخراجات کا حساب تھا، جو پائی پائی کے درجہ تک تھا۔جماعت کی ایمبولینس خریدنے میں کراچی کی جماعت کے علاوہ خاکسار کی بھی تھوڑی بہت کاوش شامل تھی، آپ نے اتنی باریک بینی سے جھان بین کی کہ کئی دفعہ خاکسار بھی تھک کر اکتا جاتا۔
اس زمانے میں اس علاقے میں جوہڑ کا پانی پینے کو ملتا اسی سے ہر قسم کے جانور اور انسان پانی پیتے تھے۔ آپ پہننے کو موٹے کھدر کے کپڑے استعمال کرتے جو اس علاقے کی آب و ہوا کے لیے مناسب ہیں۔‘‘
ہمارے بڑے بھائی مکرم شکور احمد شرما صاحب سویڈن سے محترم والد صاحب کے لیےہمیشہ صحرا میں پہننے والے جوتے، جرابیں اور Swiss army knife کے علاو ہ کچھ اور ضرورت کا سامان بھیجا کرتےجو ان کے بہت کام آتا رہا۔اللہ تعالیٰ بھائی صاحب کے حق میں ابى جان کی صحراؤں میں کی ہوئی دعائیں قبول فرمائے آمین۔
ہمارے بھائی ودود احمد شرما صاحب محترم والد صاحب کے بارے میںبتاتے ہیں:’’ابی جان اپنی ملازمت کے دوران ایمان داری کے پہلو کو بہت باریکی سے یاد رکھتے۔جب ہم کھاریاں کینٹ نئے نئےآئے اور سکول جوائن کیے ابھی دو تین دن ہی ہوئے تھے، شام کو ہم لان میں بیڈ منٹن کھیل رہے تھے کہ ہمارے سکول کےپرنسپل صاحب ابی جان سے ملنے آئے۔ وہ دونوں لان میں ایک طرف بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ پندرہ بیس منٹ بعد ابی جان کھڑے ہو گئے اور جوشیلی آواز میں جسے وہ دبانے کی پوری کوشش کر رہے تھے پرنسپل کوکہہ رہے تھے کہ’’اگر تم ان بچوں کے پرنسپل نہ ہوتے تو میں تمہیں دھکے دے کر گھر سے نکال دیتا۔‘‘پرنسپل صاحب فوراً اٹھ کر چلے گئے۔خاکسار ہکا بکا رہ گیا ابی جان سے پوچھنے کی جرأت بھی نہ ہوئی کہ آخر ہوا کیا۔ امی جان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پرنسپل صاحب ابی جان کو اپنے کسی آدمی کے لیے چار پانچ چھاؤنیوں کی تعمیر کا ٹھیکہ دلوانے کی سفارش کروانا چاہتے تھے اس علاقے کی تعمیر کے ٹھیکے ابی جان کے دفتر سے جاری ہوتے تھے۔ ہم نے سوچا کہ سکول میں اب ہماری خیر نہیں مگر پرنسپل صاحب نے کچھ نہ کہا۔‘‘
یہاں خاکسار یہ عرض کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ ہمارے تین بھائی اور ایک چھوٹی بہن اسی سکول میں جہاں مذکورہ پرنسپل صاحب تعینات تھے تعلیم پا رہے تھے جن میں سے دو بھائی مکرم ودود احمد اورمکرم محمود احمد بڑی کلاسوں میں تھے یہ دونوں ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلیم اور سپورٹس میں اوّل نمبر پر رہتے تھے مکرم ودود احمد تو کچھ سال سکول کے Prefect student رہے۔ اس وجہ سے سکول کی طرف سے ملنے والا ایک خاص بیج ان کے یونیفارم کا حصہ ہوتا تھا۔ اس روز اگر ابی جان پرنسپل صاحب کی اس لالچ میں سفارش کر دیتے تاکہ وہ ان کے بچوں کو اچھے رزلٹ دیں تو ان کے بچے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ان تعلیمی کامیابیوں سے ہمکنار نہ ہوتے اور اگر ہو بھی جاتے توان کامیابیوں میں کوئی برکت اور دلی راحت شامل نہ ہوتی جو ہمارے والدین کو ہر روزملتی تھی۔
اسی طرح ہمارے بھائی ودود احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ“ایک دفعہ ہمارے ایک متمول رشتہ دار ہمارے گھر آئے، ابی جان ریٹائرڈ ہونے والے تھے انہوں نے ابی جان سے کہا کہ ابھی تک انہوں نے اپنا ذاتی گھر کیوں نہیں بنایا، آپ بولے کہ وہ پانچ کوٹھیاں بنا رہے ہیں۔ ان کے پانچ بیٹے ہیں جن کو وہ اعلیٰ تعلیم دلوا رہے ہیں،وہ کہنے لگے آپ تو تعمیراتی ٹھیکے دلواتے ہیں آپ کا گھر تو منٹوں میں کھڑا ہوسکتا ہے، ابی جان کہنے لگے کہ وہ بچوں کو حرام نہیں کھلا سکتے۔‘‘
ہمارے بھائی ڈاکٹر محمود احمد شرما صاحب بیان کرتے ہیں کہ’’جن دنوں خاکسار میڈیکل کالج کے تیسرے سال کا طالب علم تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں گھرربوہ آیا ہوا تھا جب چھٹیاں ختم ہو گئیں تو واپس جانے کی تیاری کر رہا تھا۔اس زمانے میں ابی جان ابھی تھرپارکر میں وقف جدید کے تحت جماعتی خدمات ادا کر رہے تھے۔آپ بھی واپس جانے کے لیے تیار تھے۔آپ نے فرمایا کہ میں ان کے ساتھ سفر کرسکتا ہوں کیونکہ آپ کو جماعت کی طرف سے جیپ اور ڈرائیور ملا ہوا تھا جس پر آپ نے روانہ ہونا تھا۔ہم نے صبح کے وقت سفر شروع کیا سخت گرمیوں کے دن تھے۔ ہم دوپہر کے کھانے کے لیے جھنگ رکے۔ ابی جان نے میرے کھانے کے پیسے خود اپنی جیب سے ادا کیے، پھراپنی جیب سے ایک نوٹ بک نکالی اس میں اپنے اور ڈرائیور کے کھانے کی رقم درج کی۔ ملتان سے تھوڑا پہلے جیپ میں پٹرول ڈالنے کے لیے رکے، پہلے کی طرح آپ نے نوٹ بک نکالی اور فوراً قیمت کا اندراج کیا میں نے دیکھا کہ آپ نے اس نوٹ بک میں ہر بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا جماعتی خرچ تاریخ اور وقت کے ساتھ لکھ رکھا تھا۔ اس طور پر ابی جان جماعتی اخراجات کرتے وقت احتیاط کرتے تھے۔
میرا ذاتی خیال ہےکہ ابی جان اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنے کے بارے میں بہت مضبوط تھے خاص طور پر اس وقت جب ہم میں سے کوئی سپورٹس یا پڑھائی میں خاص کامیابی حاصل کرتا تو بڑے وقار سے اپنی خوشی کا اظہار کرتے جبکہ امی جان انتہائی بھرپور طریقے سے خوشی کا اظہار کرتیں۔امی جان ہر سال کھاریاں کینٹ کے سکول میں ہماری سالانہ کھیلوں اورتقسیم انعامات کی تقاریب میں شرکت کرتیں۔ آپ ہمیشہ ایک بڑا بیگ اپنے ساتھ لاتیں کیونکہ آپ جانتی تھیں کہ ان کے بیٹے پڑھائی اور کھیلوں میں بہت سے انعامات جیتیں گے۔ آپ بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کرتیں۔یہ ان کا بچوں کی تعریف کرنے اور حوصلہ بڑھانے کا انداز تھا۔ یہاں خاکسار ابی جان کی ایک ایسی صفت بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے جس کا میں نے ذاتی طور پر خود مشاہدہ کیا ہے۔ابی جان قرآن پاک کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش فرماتے تھے۔
ہمارے سب سے چھوٹے چچا جان محترم عبدالحفیظ شرما صاحب اس وقت وفات پا گئے تھے جب ان کااکلوتا بیٹا عزیزم ڈاکٹر مبشر احمد شرما صاحب( واقف زندگی افریقہ) چھوٹے تھے اور تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ابی جان ہر سال دادا جان کی زرعی اراضی کی پیداوار میں سے چچا جان مرحوم کا حصہ ان کے بیٹے کو ادا کر دیا کرتے تھے۔ان کی تعلیم وتربیت کا خیال کرتے اور شفقت کا سلوک کرتے۔ اور بعد میں جب اراضی سب وارثین کی مرضی کے مطابق فروخت کی توجہاں سب بہن بھائیوں کوشرح کے مطابق ان کا حصہ ادا کیا وہیں عزیزم ڈاکٹر مبشرشرما صاحب کو بھی فراموش نہیں کیا۔ ان کا یہ عمل ہمیں قرآن پاک کے مندرجہ ذیل حکم پر عمل پیرا ہوتا دکھائی دیتا ہے:وہ تجھ سے یتامی کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ تو کہہ دے( کہ) ان کی اصلاح بہت اچھا کام ہے اور یہ کہ تم ان سے مل جل کر رہو تو(اس میں کوئی حرج نہیں) کیونکہ وہ تمہارے بھائی ہی ہیں اور اللہ فساد کرنے والے کواصلاح کرنے والے کے مقابلہ میں خوب جانتا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا۔ اللہ یقیناً غالب(اور)حکمت والاہے۔‘‘(البقرۃ:230)
ہماری بہن محترمہ امۃ الودود صاحبہ اہلیہ مکرم محمود احمد ورک صاحب کی اپنے والدین کی کچھ یادیں:’’ہمارے ابی جان کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ ان کے سب بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور دینی طور پر بھی پیچھے نہ رہیں، اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے آپ بہت دعائیں کرتے، بہت جدوجہد، نگرانی اور محنت کرتے۔ جب خاکسار MScکرنا چاہتی تھی تو والد صاحب ریٹائرڈ ہو چکے تھے اور چار بہن بھائی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے میں مصروف تھے۔مالی حالات کافی کمزور تھے ایسے وقت میں امی جان نے مشورہ دیا کہ اس نے BSc کر لی ہے کافی ہے اس نے کوئی نوکری تو کرنی نہیں لیکن ابی جان نے اجازت دے دی اور خاکسارکو خود فیصل آباد لے جاکر داخلہ کروایا اور تمام انتظام کیا۔ پڑھائی کے بعد جب خاکسار نوکری کرنے کی خاطر کراچی گئی تو اس کے لیے بھی ہر طرح کی مدد کی۔ایک ماہ تک کراچی میں میری خاطر قیام کیا اور رہائش کا مناسب انتظام کیا، تنخواہ ملنے پر چندہ عام کا حساب کر کے باقاعدگی سے ادا کرنے کی تلقین فرمائی نیزنماز اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی تاکید فرمائی۔ مارکیٹ کا راستہ بتایا جہاں سے میں خریداری کر سکتی تھی۔ واپس جاکر اپنے خطوط میں دعائیں لکھ کر بھیجتےجنہیں نماز کے بعد پڑھتے رہنے کی تلقین فرمائی۔ہم نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ ہماری بنیادی ضروریات، تعلیم اور پیارومحبت میں بچوں اور بچیوں کے حقوق میں ہمارے والدین نےکوئی فرق رکھا ہو، ہاں جہاں تک تربیت کا تعلق ہے اس میں لڑکیوں کی تربیت کے لیے امی جان کی ذمہ داریوں میں دخل اندازی نہیں کرتے تھے لیکن جب آپ سختی کرتیں تو انہیں نرمی اختیار کرنے کی درخواست ضرور کرتے۔ ہماری بہن بشریٰ احمد اہلیہ محترم شیخ طاہر احمد صاحب مرحوم 1975ء میں یورپ جاکر آرٹس کی تعلیم حاصل کرنے نیز بہتر مستقبل کے لیے جانا چاہتی تھیں تو ابی جان نے نہ صرف انہیں اجازت دی، مالی انتظام کیا بلکہ پوری طرح خود اعتمادی پیداکرکے انہیں یورپ روانہ کیا یہ نہیں فرق کیا کہ وہ ایک لڑکی ہونے کے ناطے اس کی حقدار نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ابی جان نے ہم بچوں کی ذہنی اور جسمانی حالت کے مطابق تربیت کرنے کی کوشش کی یہاں ہماری بہن بشریٰ احمد اہلیہ محترم شیخ طاہر احمد صاحب کے بارے میں کچھ حالات مثال کے طور پر بیان کرنا چاہتی ہوں۔ ہماری بہن کی شخصیت میں خود اعتمادی کےساتھ مشکلات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ آپ نے ہی پیدا فرمایا تھا۔ہماری بہن نے ابی جان کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر اس کام میں ان کے حکم کی تعمیل کی جسے کرنے کے لیے آپ انہیں فرماتے۔چنانچہ آپ کہا کرتے’’یہ میرا چھٹا بیٹا ہے‘‘ جب ان کے میاں محترم شیخ طاہر احمد صاحب مرحوم ایک جان لیوا بیماری کا شکار ہوئے تو ابی جان نے ان کی ہر قدم پر ہمت بڑھائی یہ خاکسار نے بھی دیکھا کہ آپ کی دعاؤں اور ہمت بڑھانے کی بدولت ہماری بہن نے ان مشکل حالات کا مقابلہ کیا۔ آپ بہت فکر بھی کرتے تھے کہ کیسے چار بچوں کے ساتھ بیمار شوہر کو سنبھالتی ہو گی۔ ہمارے بہنوئی محترم شیخ طاہر احمد صاحب مرحوم بہت غریب پرور، نیک دل، بہت باہمت اور صابر انسان تھے،آپ خلوص دل سے جماعت کی خدمت کرنے والے تھے۔ ابی جان نے جب زندگی وقف کی تو کہا کرتے تھے کہ وہ بھی ریٹائرڈ ہونے کے بعد اسی طرح زندگی وقف کردیں گے۔ ابی جان کے ان تمام احسانوں کا بدلہ تو اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے ہم تو اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام کے لیے دعا کرسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قبول فرمالے آمین ثم آمین۔
ہم پر ابی جان کا ایک ایسا عظیم احسان ہے کہ جس کا ہماری نسل پر اللہ کے فضل سے تربیتی لحاظ سے بہت گہرا اثر ہو رہا ہے۔ایک بارخاکسار اس وقت پاکستان گئی جب میرا بیٹا عزیزم کاشف محمود ڈیڑھ سال کا تھا ابی جان نے کہا کہ اسے وقف نو کی تحریک میں شامل کرو۔
میں نے ہچکچاہٹ دکھائی اور کہا کہ اس کے لیے تو بچے کی پیدائش سے پہلے نام لکھوایا جاتا ہے۔ اب تو وقت نکل گیا ہے۔ آپ نے کہا کہ نہیں اپنے میاں کو فون کرو کہ وہ حضور اقدس کی خدمت میں درخواست کریں۔چنانچہ ان کی درخواست پر پیارے حضور نے از راہ شفقت عزیزم کاشف محمود ورک کا وقف قبول فرمایا۔اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بطور مبلغ سلسلہ سویڈن میں خدمت کر رہا ہے۔‘‘
ہماری سب سے چھوٹی بہن محترمہ فوزیہ شہنازشرما صاحبہ اہلیہ مکرم مظفر احمد صاحب شرما شہید (حال کینیڈا)نے ابی جان کے بارے میں مندرجہ ذیل یادداشت بیان کی ہے:’’بہت بچپن سے ہی ہم ابی جان کی تلاوت کی پیاری آواز سن کر بیدار ہوتے۔ آپ کی تلاوت سن کر ایک خاص روحانی تحفظ کا احساس ہوتا یوں محسوس ہوتا کہ جیسے ہم ایک پر تحفظ حصار میں ہیں جہاں کوئی غم اور پریشانی نہیں آ سکتی۔ آپ ترجمہ بھی( اردو یا انگلش میں) بعض اوقات اونچی آواز میں پڑھتے تاکہ ہم بھی سنیں۔ ہم نے کبھی انہیں لمبی نیند میں وقت بے وقت سوتے ہوئے نہیں دیکھا آپ ہمارے بعد سوتے اور ہم سے بہت پہلے بیدار ہو جاتے۔ ابی جان کو قرآن پاک سے عشق تھا آپ نے ایک بار ذکر کیا کہ جب آپ نے بہت نوجوانی میں انگلش آرمی جوائن کی تو فوجی بیرکس میں رہائش ہوتی تھی۔ آپ کے کمرے میں ایک ہندو فوجی بھی رہائش پذیر تھا اس نے اپنے انگریز فوجی افسر کو آپ کے بارے میں شکایت کی کہ آپ ساری رات قرآن پاک پڑھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سو نہیں سکتا۔اس نے آپ سے جواب طلبی کی آپ نے فرمایا کہ وہ تو اس بات سے قطعی لاعلم ہیں۔ ابی جان نے قرآن پاک کا جو حصہ حفظ کر رکھا تھا وہ ان کے ذہن میں محفوظ ہونے کی وجہ سے لاشعوری طور پر نیند میں ہر رات اپنا دور پورا کرتا رہتا تھا۔ گویا آپ کی نیند کا وقت بھی روحانیت سے پر تھا۔
ابی جان کی وفات 19؍اپریل 2003ء کو ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جنت الفردوس میں انہیں مقام عطا فرمائے اور ہمیں ان کی نیکیوں کوجاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
آخر پر خاکسار گزارش کرتی ہے کہ اگر قارئین کے پاس ابی جان مکرم میجر عبد الحمید شرما صاحب مرحوم سے متعلق ذاتی یادداشتیں ہوں تو میرے بھانجے مکرم کاشف محمود ورک صاحب (مبلغ سلسلہ ) سے رابطہ کرکے ان کو محفوظ کرنے میں ہماری مدد فرمائیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ رابطہ کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
0046704231701
kashif.virk@ahmadiyya.se
٭…٭…٭