متفرق

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر84)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

ابتلا ء اور اس کی غرض

’’یہ بیہودہ باتیں نہیں ہیں بلکہ جب سے نبوت کا سلسلہ جاری ہوا ہے یہی قانون چلا آیا ہے۔قبل از وقت ابتلاء ضرور آتے ہیں تا کچوں اور پکوں میں امتیاز ہو اور مومنوں اور منافقوں میں بین فرق نمودار ہو۔ اسی لیے خداتعالیٰ نے فرمایا ہے۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ(العنکبوت:3)

یہ لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتنا ہی کہنے پر نجات پا جائیں کہ ہم ایمان لائے اور ان کا کوئی امتحا ن نہ ہو۔ یہ کبھی نہیں ہوتا۔ دنیا میں بھی امتحان اور آزمائش کا سلسلہ موجود ہے۔ جب دنیاوی نظام میں یہ نظیر موجود ہے تو رو حا نی عالم میں یہ کیوں نہ ہو۔بغیر امتحان اور آزمائش کے حقیقت نہیں کھلتی۔ آزمائش کے لفظ سے یہ بھی دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کوجوعالم الغیب اور یَعْلَمُ السِّرَّوَاَخْفَی ہے، امتحان یا آزمائش کی ضرورت ہے اور بدوں امتحان اورآزمائش کے اس کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ ایساخیال کرنا نہ صرف غلطی بلکہ کفر کی حد تک پہنچتاہےکیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان صفات کا انکار ہے۔ امتحان یا آزمائش سے اصل غرض یہ ہوتی ہےکہ تا حقائق مخفیہ کا اظہار ہو جاوے اور شخص زیر امتحان پر اس کی حقیقت ایمان منکشف ہو کر اسے معلوم ہو جاوے کہ وہ کہاں تک اللہ کے ساتھ صدق و اخلاص و وفا رکھتا ہے اور ایسا ہی دوسرے لوگوں کو اس کی خوبیوں پراطلاع ملے۔پس یہ خیال باطل ہےاگر کوئی کہے کہ اﷲ تعالیٰ جو امتحان کرتا ہے تو اس سے پایا جاتا ہے کہ اس کو علم نہیں۔ اس کو تو ذرہ ذرہ کا علم ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ ایک آدمی کی ایمانی کیفیتوں کے اظہار کے لئے اس پر ابتلا آویں اور وہ امتحان کی چکی میں پیسا جاوے۔کسی نے کیا اچھا کہا ہے۔

ہر بلا کیں قوم راحق دادہ اند

زیرآں گنج کرم بنہادہ اند

ابتلاؤں اورامتحانوں کا آنا ضروری ہے۔ بغیر اس کے کشفِ حقائق نہیں ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 30)

تفصیل: اس حصہ ملفوظات میں فارسی کا درج ذیل شعرآیاہے۔

ہَرْبَلَا کِیْں قَوْم رَاحَق دَادِہ اَند

زِیْرِ آں گَنْجِ کَرَم بِنِہَادِہ اَند

ترجمہ:۔ ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لئے مقدر کی ہے اس کے نیچے رحمتوں کاخزانہ چھپا رکھاہے۔

*۔مولاناعبدالحق صاحب رامہ کی تحقیق کے مطابق مولانا روم کے کلام میں یہ شعراس طرح ملتاہے۔

ہَرْبَلَا کِیْں قَوْم رَا حَقْ دَادِہ اَسْت

زِیْرِآںْ گَنْجِ کَرَمْ بِنِہَادِہْ اَسْت

اس کا ترجمہ وہی ہے جو اوپرتحریر کیا جاچکا ہے۔یعنی ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لئے مقدر کی ہے اس کے نیچے رحمتوں کاخزانہ چھپا رکھاہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button