افریقہ (رپورٹس)حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نائیجیریا سے تعلق رکھنے والی احمدی طالبات کی (آن لائن) ملاقات

ایک اچھے لیڈر کو امانت دار ہونا چاہیے اور ہر معاملے میں عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے، محنت کرنے کی عادت ڈالیں، اپنے ملک ، عوام اور قوم سے مخلص رہیں

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 26؍ستمبر 2021ء کو نائیجیریا کی احمدی طالبات، ممبرات لجنہ اماء اللہ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضور انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوزسے رونق بخشی جبکہ طالبات نے لجنہ ہال اجوکورو، لیگوس( نائیجیریا )سے آن لائن شرکت کی۔

ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد ممبرات لجنہ اماء اللہ کو دوران ملاقات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اپنے عقائد اور عصر حاضر کے حوالے سےسوالات پوچھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

ایک ممبر لجنہ نے سوال کیاکہ جن گناہوں کا انسان عادی ہوگیا ہوتا ہے ان سے کس طرح بچا جاسکتا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے پنجوقتہ نمازوں میں دعا کریں کہ اللہ آپ کو جملہ شیطانی حملوں اور شیطانی چیزوں سے محفوظ رکھے۔ ہم آج کل کی دنیا میں اس قدر گندی چیزوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ آج انٹرنیٹ، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا کی ایسی کشش ہے جو سیدھا راستہ نہیں ہے۔ ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ پر دکھائے جانے والے اکثر پروگرام ہمیں سیدھے راستے سے اور حقیقی اسلامی تعلیمات سے دور ہٹا رہے ہیں اور (ایسے پروگراموں کی) کشش کے باعث ہم پھر ان چیزوں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ اس لیے پہلی چیز یہ ہے کہ اللہ سے مدد طلب کی جائے، صرف اللہ ہی ہمیں شیطان سے بچا سکتا ہے۔ اسی لیے ہم اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم پڑھتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان سے بچا جو مردود ہے۔ پھر پنجوقتہ نمازوں میں باقاعدگی سے اپنے لیے دعا کریں کہ اللہ آپ کو، آپ کے بہن بھائیوں کو، آپ کے خاندان کے افرادکو اور احباب جماعت کو بچائے، اس طرح آپ اپنی دعاؤں میں وسعت پیدا کر سکتی ہیں۔ یوں آپ صرف خود کو نہیں بچا رہی ہوں گی بلکہ اپنے اردگرد اور ماحول کو بھی بچانےوالی ہوں گی۔ پھر استغفار کثرت سے پڑھیں۔ اس کو معمول بنا لیں کہ آپ روزانہ جس قدر ہو سکے استغفار پڑھا کریں۔ پھر ٹیلی وژن یا انٹر نیٹ یا سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے غیر معیاری پروگرامز دیکھنے سے بھی بچیں۔ تو اس طرح آپ خود کو بچا سکتی ہیں۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ اپنا دینی علم بھی بڑھانے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے قرآن کریم پڑھیں اور دیکھیں کہ قرآن کریم میں کیا احکامات دیے گئے ہیں۔ انہیں لکھیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے اور کس چیز سے بچنا ہے۔ اور اپنے آپ کو پھر ان چیزوں سے روکیں۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ، آج کے دور میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے تاکہ وہ دین اسلام کی تجدید کریں اور ہمیں قرآن کریم کی حقیقی تعلیم اور آنحضرتﷺ کی سنت بتائیں اور احادیث بتائیں۔ اس طرح آپ نے بہت سی چیزوں کی تشریح اپنی کتب میں فرمائی ہے۔ اس لیے جو کتاب بھی انگریزی میں مہیا ہو، جس کا انگریزی ترجمہ ہو چکا ہے، اس کتاب کا کچھ حصہ روزانہ پڑھنے کی کوشش کریں۔ اس طرح آپ اپنا دینی علم بھی بڑھا سکتی ہیں۔ بہر حال ہمیں محنت کرنی پڑے گی تاکہ ہم اپنے آپ کو برائیوں سے بچا سکیں اور آج کل کے گناہوں سے، بصورت دیگر شیطان کا حملہ اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ ہم صرف اپنی کوشش اور محنت سے خود کو نہیں بچا سکتے۔ ہمیں اس حوالہ سے اللہ سے راہنمائی اور مدد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے، اس حوالہ سے شادی شدہ جوڑوں کے لیے پیارے حضور کی کیا نصیحت ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو، لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو اپنی برداشت کا پیمانہ بڑھانا ہوگا ، دیکھیں آپ یہ نہیں کہہ سکتیں کہ طلاق کی شرح صرف کسی ایک یعنی لڑکا یا لڑکی کی وجہ سے اوپر جا رہی ہے۔ دونوں میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔ اچھی شادی شدہ زندگی گزارنے کےلیے ضروری ہے کہ اپنے برداشت کے معیار کو بلند کریں۔ اور اپنے زوج (بیوی یا شوہر) کی ہر کمزوری سے صَرفِ نظر کریں۔ مرد بھی صرفِ نظر کرے اور عورت بھی صرفِ نظر کرے۔ اور اچھی چیزوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں صرف بری صفات کا مالک ہے۔ ہر ایک میں اچھی اور بری صفات ہوتی ہیں۔ مردوں میں بھی اچھی صفات ہوتی ہیں ، عورتوں میں بھی اچھی صفات ہوتی ہیں۔ مردوں میں بھی کمزوریاں ہوتی ہیں اور عورتوں میں بھی کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ اس لیے اگر آپ اس حقیقت کو سمجھ جائیں کہ ہمیں ایک دوسرے کی کمزوریوں سے صرف نظر کرنی ہے تو طلا ق کی شرح کم ہو جائے گی اور آپ ایک اچھی شادی شدہ زندگی گزارنے والے ہوں گے۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو پُر امن ماحول میں پروان چڑھائیں۔ اس لیے اپنے بچوں کو ایسا ماحول دیں جو ان کے لیے بہتر ہے۔ جو ان کی بڑھوتری کے لیے ساز گار ہے۔ اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب میاں بیوی پر امن اور دوستانہ ماحول میں ایک خوشگوار زندگی گزاررہے ہوں گے۔

ایک اور ممبر لجنہ نے عرض کیا کہ حضور آپ دنیا کے سب سے زیادہ مصروف شخص ہیں اس کے باوجود اپنے وقت کو نہایت حکمت سے صرف کرتے ہیں ، برائے کرم ہمیں بتائیں کہ آپ اپنا وقت کس طرح اتنے احسن رنگ میں صرف کرتے ہیں اور ہمیں نصیحت بھی فرمائیں کہ بطور طالبات ہم اپنا وقت کس طرح بہترین طریق پر استعمال کر سکتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ آپ ایک طالبہ ہیں۔ صبح جلدی بیدار ہونےکی کوشش کریں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ اور اگر آپ کو مجبوراً رات کو دیر سے سونا پڑے تو ٹھیک ہے ورنہ جتنی جلدی ہو سکے سونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Early to bed and early to rise, makes a man healthy, wealthy and wise

(جلدی سونا اور جلدی اٹھنا، انسان کوصحت مند، دولت مند اور سمجھدار بنا دیتا ہے۔)

بعد ازاں حضور انورنے فرمایا کہ پھر اللہ سے مدد طلب کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی زندگی صحیح نہج پر گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنے آپ کو منظّم کرنے کی توفیق دے۔ نمازوں کے بعد ، آپ کو ایک طالب علم کے طور پر چھ گھنٹے کی نیند پوری کرنی چاہیے۔ کم از کم چھ گھنٹے کی نیند پوری کریں۔ اور اس کے بعد اپنے آپ کو پڑھائی میں اور دیگر مصروفیات میں مصروف رکھیں۔ جو آپ نے دن کے دوران کیا ہے وہ آپ (بالعموم)نہیں جانتے ، اس لیے دن کے آغاز سے ہی جو بھی آپ کررہے ہیں وہ لکھتے جائیں۔ اگر آپ چھ بجے جاگے ہیں ، مجھے نہیں پتہ کہ آپ کےپاس نماز کا کیا وقت ہے ، بہرحال نمازفجر کے وقت اٹھے، تو لکھیں کہ میں اتنے بجے اٹھی۔ پھر نماز ادا کی۔ کچھ تلاوت کی ، قرآن کریم کی چند آیات کی تلاوت کی یا کس سپارہ کی تلاوت کی۔ پھر جو کا م کیا، جیسے ناشتہ کیا، یونیورسٹی جانے کی تیاری کی ، یونیورسٹی گئی۔یونیورسٹی جانے میں ایک گھنٹہ لگا، اگر آپ ہوسٹل میں رہائش پذیر ہیں تو الگ بات ہے۔ اس وقت سے اس وقت تک یونیورسٹی میں رہی۔ پھر گھر واپسی ہوئی۔ اپنے اسباق دہرائے ، نمازیں ادا کیں ، یہ کیا ، یہ کیا۔ جو بھی آپ نے دن میں کیا ہو وہ ضرور لکھیں۔ اس طرح آپ کو پتہ ہوگا کہ یہ آپ کا روزانہ کا پلان ہے۔ میں نے کتنا وقت اچھے اور تعمیری کاموںمیں صرف کیا۔ اور اتنا وقت میں نے فلمیں دیکھنے میں، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ دیکھنے میں ضائع کیا ہے۔ اس طرح آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ نے کون سی اچھی چیزیں کی ہیں۔ کون سی ایسی چیزیں تھیں جو روزمرہ روٹین میں ضروری نہیں تھیں۔ اور آپ اس کو کس طرح سے manageکر سکتے ہیں۔ اس لیے ایک ہفتے کے لیے آپ کو اپنا پروگرام یا پلان، صبح سے شام تک کا ضرور لکھنا چاہیے۔ آپ کو پتہ لگے گا کہ کون سی تعمیری چیزیں ہیں اور کون سی تخریبی چیزیں ہیں۔ اس طرح آپ سیکھ جائیں گے اور آہستہ آہستہ وقت کے بہترین استعمال کا آپ کوپتہ لگ جائے گا۔

ایک ممبر لجنہ نے پوچھا کہ حضور انور طالبات کو احمدیہ مسلم جماعت کی کون سی کتب پڑھنے کی تلقین فرمائیں گے۔

حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھنی چاہیے۔ یہ آپ کو اسلامی تعلیمات سے تفصیلی آگاہی دے گی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف کتب سےمختلف موضوعات پر بعض اقتباسات کا مجموعہ ہے، جو چند جلدوں میں اکٹھا کیا گیاہے جس کا نام ‘Essence of Islam’ ہے۔ تو ان کتب کو پڑھیں۔ ہر جلد میں مختلف موضوعات ہیں اور آپ اپنی پسند کا کوئی موضوع لے سکتی ہیں ، اس طرح آپ کا دینی علم حاصل کرنے کا شوق بڑھے گا۔

ایک دوسری ممبر لجنہ نے سوال پوچھا کہ ایک لیڈر میں کون سی خوبیاں ہونی چاہیے تاکہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ بن سکے۔

حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، اگر آپ کا مطلب ایک سیاسی لیڈر ہے یا آپ کے ملک کا لیڈر ہے تو پھر انہیں امانتدار ہونا چاہیے۔ انہیں لوگوں کی تکلیف کا خیال ہونا چاہیے۔ اور اگر وہ عوام کے پیسوں سے صرف اپنی خواہشات پوری کریں اور اپنے ملک میں اور دیگر ممالک میں بینک بیلنس بڑھائیں تو وہ اچھے لیڈر نہیں ہیں۔ اگر آپ اچھے لیڈر ہیں تو پھر آپ کو پوری طرح امانت دار ہونا چاہیے۔ اور اپنے لوگوں کا خیال رکھنے والا ہو نا چاہیے۔ یہ بہترین صفات ہیں۔ اور انصاف سے بھی کام لیں۔ اس لیے ایک اچھے لیڈر کو امانت دار ہونا چاہیے اور ہر لحاظ سے پوری طرح عدل پر قائم ہونا چاہیے، محنتی ہونا چاہیے، قوم اور وطن کا مخلص ہونا چاہیے۔ یہی خوبیاں ہیں۔ اگر آپ کے لیڈر میں یہ خوبیاں ہیں تو وہ ایک اچھا لیڈر ہے۔ اور اگر نہیں ہیں ، تو میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں احمدیوں کو اچھے لیڈرز کے طور پر سامنے آنا چاہیے تاکہ آپ اپنا ملک بہترین طریقے سے چلا سکیں۔

اگر آپ روحانی لیڈر کی بات کر رہے ہیں تو ایک روحانی لیڈرمیں بھی ایسی ہی خوبیاں ہونی چاہئیں۔ اگر یہ جماعت کے لیڈر کی بات ہے، آپ کے امیر کی بات ہے، آپ کے صدر جماعت کی بات ہے، تو ان میں بھی ایسی ہی خوبیاں ہونی چاہئیں۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے فرمایا کہ اب ملاقات کا وقت ختم ہو گیاہے، جن کو سوال پوچھنے کا موقع نہیں ملا، وہ آئندہ پوچھ سکیں گی انشاء اللہ۔ جب بھی ہمیں موقع ملے گا۔ اللہ حافظ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button