تاریخ احمدیت

سپین میں مسجد بشارت کا سنگِ بنیاد رکھے جانے کی دلوں کوگرما دینے والی تفصیلات

9؍اکتوبر 1980ء: چودھویں صدی اسلامی کے آخری سال…انتہائی مبارک تقریب سعید، انتہائی مبارک دن، انتہائی مبارک گھڑی

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے بنیادی اینٹ رکھنے کے بعد حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو دنیا کی تمام احمدی مستورات کی طرف سے اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی

[یہ رپورٹ کتاب‘‘دورۂ مغرب۱۴۰۰ھ’’سے اخذکی گئی ہے۔حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ نے چودھویں صدی ہجری کے آخری سال 1400ھ مطابق 1980ء میں خالص دینی اغراض و مقاصد کے لیے پورے چار ماہ دنیا کے تین بر اعظموں میں پھیلے ہوئے تیرہ ممالک کا جو دورہ فرمایا اس کی تفصیلی رپورٹ جناب مسعود احمد خان صاحب دہلوی مدیر روزنامہ الفضل ربوہ اپنے موقر روزنامہ کو بھیجتے رہے جو بالاقساط شائع ہوتی رہی اور بعد ازاں کتابی صورت میں بھی شائع ہوکر مستند دستاویز کا درجہ پا گئی۔]

اسلام کی نشأةثانیہ میں 9؍اکتوبر 1980ء (بمطابق28؍ ذی القعدہ 1400ھ۔ بروز جمعرات)کا دن انتہائی برکتوں ، انتہائی خوشیوں اور انتہائی مسرتوں سے معمور دن تھا جبکہ حضرتِ مہدی علیہ السلام کے تیسرے اور مقدس نافلہ سیدنا حضرت حافظ صاحبزادہ مرزانا صر احمد صاحبؒ نے درد مندانہ اور عاجزانہ دعاؤں کے پر کیف ماحول میں اسلامی عظمتِ رفتہ کے شہر قرطبہ سے 32 کلومیٹر کے فاصلہ پر قصبہ پیدروآباد (PEDRO ABAD) میں خدائے واحدو یگانہ کی عبادت اور اس کی حمد کے لیے مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔

سپین میں اسلام کے احیا کے لیے سات سو چوالیس (744) سال بعد یہ سب سے پہلی مسجد ہے جس کی تعمیر کی سعادت جماعت احمدیہ کو حاصل ہوئی۔ تا خدائے واحد کی توحید اس زمین پر پھیلے اور ہسپانوی قوم ایک دفعہ پھر توحید کے نور سے منور ہو کر اس فخر الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی اختیار کر کےسلامتی اور امن کی زندگی بسر کر سکے۔

امریکہ،سویڈن،ناروے،ڈنمارک،سوئٹزرلینڈ، نائیجیریا، انگلستان، ہالینڈ، ایران اور پاکستان کے ممالک کے احمدی احباب اس بابرکت تقریب میں شامل ہونے کے لیے تشریف لائے۔

آج عید ہے

حضورؒ نے اہلِ خانہ کو ہدایت فرمائی کہ آج کے روز کوئی ملاقات نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور disturbance ہو۔ آپ نے فرمایا تھا کہ میں سارا وقت دعاؤں میں گزارنا چاہتا ہوں ۔ چنانچہ حضور ؒساڑھے تین بجے صبح سے قبل کے وقت سے ہی دعاؤں میں مصروف رہے۔ اڑھائی بجے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒہوٹل سے باہر تشریف لائے اور مولوی کرم الٰہی ظفر صاحب سے فرمایا:‘‘خوش ہوں آج عید کا دن ہے۔’’

پیدروآباد ۔ میڈرڈ سے قرطبہ جانے والی شاہراہ پر واقع ہے اور قرطبہ سے 34 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ مسجد کے لیے خریدی گئی زمین کا کل رقبہ 15کنال کے قریب ہے۔ زمین کے دونوں طرف سڑک گزرتی ہے۔ ایک طرف میڈرڈ کو جانے والی شاہراہ ہے اور دوسری طرف گاؤں کو جانے والی پختہ سڑک ہے۔ اونچی جگہ ہے جہاں سے اردگرد کا سارا علاقہ نظر آتا ہے۔ جماعت احمدیہ سپین کے احباب نے بہت ہی محنت اور مستعدی سے کام کیا۔ کئی روز تک وقار عمل کر کے مسجد کے علاقہ کو صاف کیا۔

جب حضور ؒپیدرو آباد تشریف فرما ہوئے تو سب سے پہلے زمین کے رقبہ کا جائزہ لیا۔ پھر حضورؒ نے ظہر و عصر کی نماز پڑھائی۔ مکرم منیر الدین شمس صاحب نے اذان کہی۔ حضور ؒکے ارشاد پر مکرم کمال یوسف صاحب نے ظہر کی نماز کی اقامت کہی اور عصر کی اقامت سید محمود احمد ناصر صاحب نے کہی۔ ہر دل خدا کی حمد سے معمور اور رقت کے جذبات سے بھرپور تھا۔ خداتعالیٰ سے رو رو کر عاجزانہ دعائیں کیں کہ خدا اسلام کو ایسا غلبہ عطا کرے جو قیامت تک باقی رہے۔

مسجد کا سنگِ بنیاد

ٹھیک 3 بج کر40 منٹ پر سیدنا حضر ت خلیفة المسیح الثالثؒ اس جگہ پہنچے جہاں مسجد کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ مکرم سید محمود احمد صاحب ناصؔر بنیاد کے پتھر (slab) کو جو تقریباً بارہ انچ چوڑا ، بارہ انچ لمبا اور ڈیڑھ انچ موٹا تھا، تھامے ہوئے تھے۔حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی کے ساتھ بنیاد کےپتھر کو برکت دی۔ پھر فرمایا: میں کچھ وقت دعا کروں گا پھر بنیاد رکھوں گا۔

چنانچہ حضورؒ نے حسبِ ذیل آیات قرآنیہ اور دعائیں پڑھیں اس وقت ہر آنکھ سے آنسو رواں تھے اور ہر دل میں انتہائی رقت طاری تھے۔

وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ۔

(البقرة: 128تا129)

رَبَّنَا اسْتَجَبْتَ دُعَاءَ اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ (عَلَیْھمَا السَّلَامُ) وَ بَعَثْتَ فِیْنَا رَسُوْلاً تَلَی عَلَیْنَا آیَاتِکَ وَ عَلَّمْنَا الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ زَکَّانَابِقُوَّتِہِ الْقُدْسِیَة وَ اَحْیَانَا بِحَیَاتِہِ الْاَبْدِیَّةِ وَ نَوَّرَنَا بِنُوْرِہِ الْاَتَمِّ الَّذِیْ وَسِعَ الزَّمَانَ وَ الْمَکَانَ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ. رَبَّنَا بِفَضْلِکَ آتَیْتَنَا عَقْلًا سَلِیْمًا وَ قَلْبًا مُنِیْبًا فَنَجْھَدُ اَنْ لَا نَرْغَبَ عَنْ مِلَّةِ اِبْرَاھِیْمَ وَ لَا عَنْ دِیْنِ الْمُصْطَفٰی خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ . رَبَّنَا قُلْتَ أَسْلِمُوْا۔أَسْلَمْنَا یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ۔ أَسْلَمْنَا یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔

(قرآنی دعا اپنے الفاظ میں)

پھر حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں:

رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ ۔رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدۡتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخۡزِنَا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّکَ لَا تُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ۔ فَاسۡتَجَابَ لَہُمۡ رَبُّہُمۡ اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی۔

(آل عمران:194تا196)

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ۔ (آل عمران :9)

ان آیات اور دعاؤں کا ترجمہ صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے پر شوکت اور پر سوز آواز میں پڑھ کر سنایا جبکہ اس کا سپینش زبان میں ترجمہ مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے کیا۔ حضورؒ ابھی بنیاد میں نیچے اترے ہی تھے کہ ساری فضا اللہ اکبر۔ اسلام زندہ باد۔ احمدیت زندہ باد۔ طارق بن زیاد زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔

سب سے پہلا نعرہ مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے لگایا۔ اس کے بعد نعروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کو ایک فتحِ عظیم حاصل ہوئی ہے اور ایک بہت بڑا محاذ جیت لیا گیاہے۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے بنیادی اینٹ رکھنے کے بعد حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو دنیا کی تمام احمدی مستورات کی طرف سے اور پھر حضور کے ارشاد پر حسبِ ذیل دوستوں کو اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

سید محمود احمد صاحب ناصر امریکہ۔ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب لندن۔ کمال یوسف صاحب ناروے۔ نسیم مہدی صاحب سوئٹزرلینڈ۔ منصور احمد خاں صاحب مغربی جرمنی۔ لئیق منیر صاحب مغربی جرمنی ۔ مسٹر سوین ہینسن (Mr Svend Hansen) ڈنمارک، منیر الدین صاحب سویڈن، اللہ بخش صادق صاحب ہالینڈ، منیر الدین شمسؔ صاحب لندن، صالح محمد خان صاحب، سردار منیر احمد صاحب لندن، آرکیٹیکٹ۔ پیدروآباد کی سب سے معمر عورت Sra Madalen A Lope Ruiz، سب سے چھوٹا بچہ Jose Osuna Salina، مولوی کرم الٰہی صاحب ظفؔر، مولوی عبد الستار صاحب، قرطبہ کے سپینش احمدی محمد احمد صاحب، عبد الرحمٰن صاحب، صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب نائب صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب پرائیویٹ سیکرٹری۔

اس دوران سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒکی اقتدا میں تمام حاضرین لاالہ الا اللہ۔ لا الہ الا اللہ پڑھ رہے تھے۔

سنگِ بنیاد کی تقریب کے دوسرے حصہ میں عطا الٰہی صاحب ابن مولوی کرم الٰہی صاحب ظفؔر نے تلاوتِ قرآن پاک جبکہ طارق احمد بھٹی صاحب نے نظم پڑھی۔

حضورؒ نے احباب کو انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجد کی تعمیر کا کام اپنی حقیقت کے لحاظ سے بہت اہم کام ہے۔ مسجد خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنائی جاتی ہے۔ مسجد ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ وہ غریب ہوں یا امیر ۔ پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ۔پیدروآباد کے رہنے والے ہوں یا ہزروں میل دور پاکستان میں مقیم ہوں۔ بلحاظ انسان سب برابر ہیں۔ حضور ؒنے فرمایا اسلام ہمیں باہم محبت اور الفت سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں انکساری سکھاتا ہے۔اور بتاتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے وقت ہمیں مسلم اور غیر مسلم میں کسی قسم کی کوئی تمیز روا نہیں رکھنی چاہیے۔ انسانیت کا یہی تقاضا ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ میرا پیغام صرف یہ ہے کہ Love for All Hatred For None یعنی سب کے ساتھ پیار کرو، نفرت کسی سے نہ کرو۔ حضور ؒکا یہ پیغام اہالیان پیدرو آباد کے لیے بہت مسرت کا باعث ہوا۔ جس کا اظہار انہوں نے تالیاں بجا کر کیا۔ آخر پر حضورؒ نے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو۔نیک اور سعادت مند اولاد میں بہت بہت ترقی ہو۔ ان کی عمروں میں اور صحت میں برکت دے اور زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی ہو۔

حضور ؒکے خطاب کے بعد پیدرو آباد کے میئر نے حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒکو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا This is your village کہ یہ گاؤں آپ ہی کا ہے۔ ہم ہر لحاظ سے آپ کے تابعدار ہیں اور آپ کو یہاں آنے اور مسجد بنانے کو مبارکباد دیتے ہیں۔

پریس کانفرنس

اس موقعہ پر ایک پریس کانفرنس بھی ہوئی۔ ریڈیو اور ٹی وی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔اس سوال کے جواب میں کہ آپ نے مسجد کے لیے پیدرو آباد کی جگہ کو کیوں انتخاب کیا؟حضور ؒنے فرمایا کہ ہم نے اس جگہ کو نہیں چنا بلکہ خدا تعالیٰ نے چنا ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں۔

مقامی احباب کا شوق

پیدرو آباد کے مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان آہستہ آہستہ سینکڑوں کی تعداد حضورؒ کے اردگرد جمع ہو گئے اور جلد ہی ایسی صورتِ حال پیدا ہوگئی کہ نقل و حرکت مشکل ہوگئی۔ حال یہ تھا کہ جہاں بھی اور جس سمت میں حضورؒ تشریف لے جاتے آپ کے گرد جمگھٹے کی صورت ہو جاتی۔ یوں معلوم ہوتا کہ ہر شخص حضور ؒکے قرب کا متمنی ہے ان میں سے شاید کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو انگریزی بول سکتا ہو۔ لیکن ان کے چہروں کی بشاشت اور ان کی آنکھوں کی چمک سے ا ن کی محبت کے جذبات کچھ ایسے رنگ میں ان کی قلبی کیفیات کو ظاہر کر رہے تھے جس کے بیان سے زبان عاجز تھی۔

وہ بادشاہ ہے

حضور ؒجب مستورات کے حصہ میں جہاں حضرت بیگم صاحبہ اور دیگر احمدی خواتین اور دوسری خواتین جمع تھیں، تشریف لے گئے تو پیدروآبادکی کم عمر بچیوں نے وہاں ایک دائرہ بنا کر اور خوشی سے تالیاں بجا بجا کر گانا اور اچھلنا کودنا شروع کردیا۔ اور اس کے ساتھ یہ فقرہ بھی کہنا شروع کیا۔ El-Rey El-Rey یعنی He is king, He is king۔

آرکیٹیکٹ سے ملاقات

شام چھ بجے اس گاؤں سے واپس روانگی ہوئی۔اسی روز شام کو حضورؒنے José Luis Lope y López de Regoآرکیٹکٹ سے ملاقات فرمائی۔ اور مسجد کے نقشہ و تعمیر کے متعلق تفصیلاً ہدایات دیں۔ آرکیٹیکٹ حضورؒ سے ملاقات سے بہت خوش تھا اور حضور کی نورانی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا۔

سنگِ بنیاد رکھنے کی اس تقریب سے دل اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء سے بھرپور تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ‘‘ناصر دین’’ کی تضرعات کو قبولیت کا شرف بخشا۔ چنانچہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے اور اسی کے نام کی سربلندی کے لیے احیائے اسلام کی ایک نئی صبح کا سپین کی سر زمین میں آغاز ہوا۔ فالحمد للہ علیٰ ذلک۔

(ماخوذ از دورہ مغرب ۱۴۰۰ھ۔ صفحہ 528تا549)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button