یادِ رفتگاں

مولانا سلطان محمود انور صاحب کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

(’م م محمود‘)

خلافت کے چمن کا وہ شجر تھا اور ثمر وَر تھا

1989ء میں خاکسارگیارہ سال کی عمرمیں جب حصولِ علم کی غرض سے سندھ سے ربوہ آیا تو ہرجمعہ کے روز تیارہوکرنمازِجمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجدِ اقصیٰ جایاکرتا۔مسجدِ اقصیٰ میں جو بزرگ شخصیت خطبہ دیا کرتی، نہ تواُن کے نام سے واقفیت تھی اورنہ ہی اُن کی شخصیت سے شناسائی۔تاہم بچپن کی کم علمی اور خطبات اور تقاریرکے مضامین کو بہت زیادہ نہ سمجھنے کے باوجود مسجدِ اقصیٰ میں ہر جمعہ منبر پر ایستادہ خطبہ دینے والے ان بزرگ کااندازِ بیاں دل کو بہت بھاتاتھا۔اور قرآن ،حدیث اورکتبِ سلسلہ سے ماخوذ مضامین اس عمدگی سے بیان کرتے کہ مجھ سانوعمر بھی کسی حدتک نفسِ مضمون کو جان لیتاتھا۔کچھ عرصہ کے بعدمعلوم ہواکہ مسجد اقصیٰ میں جمعہ کےروزاپنےخطبہ میں دل کو موہ لینے والی اس شخصیت کانام مولانا سلطان محمود انور ہے اور آپ ناظر اصلاح وارشاد مرکزیہ ہیں۔

خاکسارجب واپس سندھ چلاگیاتوکچھ عرصے بعدجلسہ سالانہ عمرکوٹ ومیرپورخاص کے موقع پرآپ سندھ تشریف لائے۔آپ کے خطاب کے دوران قلبی جذبات کی وہی کیفیت تھی جو چندسال قبل بچپن میں ربوہ میں سنے گئے خطباتِ جمعہ کے دوران ہواکرتی تھی۔بعدازاں جب خاکسارنے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیاتوربوہ میں مختلف تقاریب کے دوران آپ کی پُرتاثیرتقاریرسننے کاموقع ملتارہا۔خاکسارکویادہے کہ جامعہ احمدیہ میں خاکسارٹیپ ریکارڈرپرایک کیسٹ بالعموم باربار سناکرتاتھا جومولاناکی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر ایک تقریرتھی۔اس تقریرکی ابتدا میں آپ نے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے ارشاد پر1928ء میں جلسہ ہائےسیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آغازاورانعقاد کی وجہ بیان فرمائی تھی۔اوربتایاکہ جماعتِ احمدیہ کی جانب سے شروع کیے گئےان جلسہ ہائے سیرت النبیؐ کے باعث ہندوستان میں بھی ان جلسوں کا آغاز ہوا۔اس تقریرکے باربارسننے کی وجہ ایک تو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کاموضوع تھا اور دوسرا مولانا کا انتہائی دلنشیں انداز۔جسے سن کربالعموم ذہن میں غالب کایہ مصرع آجایاکرتا

ذکر اُس پری وَش کا اور پھر بیاں اپنا

خاکسارجامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعدجب جماعتِ احمدیہ سمندری میں تعینات تھاتوآپ حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ کے سلام کاتحفہ پہنچانے کی غرض سے ضلع فیصل آبادتشریف لائے۔چنانچہ دو مختلف دن خاکساراپنے حلقہ کے احبابِ جماعت سے ملاقات کروانے کی غرض سے آپ کے ہمراہ رہا۔اس دوران آپ خاکسارکی درخواست پراس عاجزکےگھربھی تشریف لائےاورکھانابھی تناول فرمایا۔ اس دورے کے دوران آپ نے خاکسارکوبہت سے ایمان افروزواقعات بھی سنائے۔ان واقعات کے سنتے ہوئےجوامر خاکسارکے لیے سب سے زیادہ ایمان کاباعث ہوتا وہ یہ کہ آپ اپنی ذات پرخداتعالیٰ کے فضلوں کا جوبھی ذکرکرتے اُس کی وجہ برکاتِ خلافت بیان فرماتے۔

اس دورے میں ایک دن آپ نے جمعہ سمندری کی مسجدمیں ادا کیا۔آپ کےہمراہ محترم نائب ناظر صاحب بیت المال آمدبھی تھے۔خاکسارجمعہ سے قبل آپ سے جمعہ پڑھانے سے متعلق باقاعدہ درخواست نہ کر سکا تھا۔ سنتوں کی ادائیگی کے بعدخاکساراس انتظار میں تھاکہ ہر دو بزرگان میں سے نہ جانے کون جمعہ پڑھائے گاتواچانک اشارہ سے مولانانے خاکسار کو بلایا اور کہنے لگے کہ آپ مقامی امام ہیں اس لیے آپ سے اجازت لینی ہے کہ کیاآج جمعہ محترم نائب ناظر صاحب پڑھادیں۔خاکسارآپ کے اس تربیت کے اندازپربے حدحیران ہوااوربوجہ ادب یہ نہ عرض کرسکاکہ آپ مجھ سے بہترعلم رکھتے ہیں کہ مرکزی نمائندہ ہی بدرجہ اولیٰ حق رکھتاہے۔خاکسارنےآہستگی سے کہہ ڈالاکہ ‘‘آب آمدتیمم برخاست’’آپ بہت محظوظ ہوئے۔

اسی طرح اس دورے کے دوران ایک گھرمیں بیٹھےتھے کہ ایک دوست آپ کو بتانے لگے کہ اُن کا نکاح آپ نے پڑھایا ہے۔جبکہ ایک اوردوست نے اُسی وقت کہاکہ اُن کایاغالباً اُن کے کسی عزیزکانکاح آپ نے پڑھایاہواہے۔جس پرمولوی صاحب نے خاکسارکی جانب دیکھتے ہوئے کہاکہ‘‘ہُن تسی رہ گئے ہو ’’یعنی اب تم ہی رہ گئے ہوکیاتمہارانکاح بھی میں نے پڑھایاہے۔جس پرخاکسارنے عرض کی کہ آپ نےمیراتونہیں ہاں میرے امی ابو کا نکاح پڑھایاہے۔جس پر آپ بہت لطف اندوزہوئے۔

نکاحوں کےاعلان سے یادآیاکہ آپ 2004ء میں جب ہماری فارغ التحصیل کلاس کےریفریشرکورس پرتشریف لائے تونصیحتاً فرمایا کہ ایک مربی جب بھی کوئی تقریر، درس یاخطبہ دے تواُسے مکمل تیاری کرکے دینا چاہیے۔فرمانے لگے کہ میرے اعلان کردہ نکاحوں کے اعلانات کی تعدادغالباً ہزاروں میں ہولیکن اب بھی جب نکاح کااعلان کرناہوتونکاح کی مسنونہ آیات ضرورسامنے رکھتاہوں۔

اللہ تعالیٰ اس مخلص خادمِ سلسلہ وجودکواعلیٰ علیین میں جگہ عطافرمائے۔

خدا رحمت کُنَد ایں عاشقانِ پاک طینت را۔آمین

آخرمیں خاکسارآپ کے بارے میں اپنا ایک منظوم کلام پیش کرتاہے

بیادِ مولانا سلطان محمود انورصاحب

خلافت کے چمن کا وہ شجر تھا اور ثمر ور تھا

فقط سلطاں نہ تھا یہ سچ ہے وہ محمود و انور تھا

جدا جو ہو گیا ہم سے خلافت کا وہ خادم تھا

نبھایا اس نے عہد اپنا وہ دل سے جس پہ قائم تھا

مبلّغ بھی وہ پائے کا مربی بھی مؤثر تھا

عجب مشّاق و ماہر تھا بہر صورت مدبّر تھا

زباں سے پھول جھڑتے تھے وہ منبر پر جب آتا تھا

نہایت دلنشیں باتیں وہ حکمت سے بتاتا تھا

نظارت ہو وہ درویشوں کی یا ہو رشتے ناطے کی

بجا لایا وہ خوبی سے ملی جو ذمّہ داری بھی

خلافت سے وفاداری نمایاں اُس کی خوبی تھی

اسی باعث رضائے باری حاصل اُس کو رہتی تھی

وہ کہتا تھا خدا کی دین ہے اُس کی عطایا ہے

خلافت کاہی سایہ ہے یہ میں نے جو بھی پایا ہے

کروں میں اُس کی خوبی کا زباں سے تذکرہ کیونکر

محاسن جس کے بتلائے ہیں آقا نے کہیں بڑھ کر

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button