متفرق مضامین

جنّا ت کی حقیقت (قسط پنجم)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

علماء اور مفسّرین کے مضحکہ خیز عقائد ،تاویل و استدلال کے مقابل

اِمامِ آخرالزّمانؑ اور آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ حقائق و معارف

علمائے امت کی کتب اور کتب تفاسیر میں جنات کا ذکر

(گذشتہ سے پیوستہ)محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جِنّات کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

’’ وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الۡجِنَّ وَ خَلَقَہُمۡ

اور انہوں نے اللہ کا شریک ٹھہرا لیا جِنّات کو، حالانکہ اُسی نے انہیں پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جیسے انسان کو پیدا کیا ہے ، اسی طرح اُس نے جِنّات کوبھی پیدا کیا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ جِنّات کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے،اور وہ اپنی خداداد طبعی صلاحیتوں کی وجہ سے کائنات میں وسیع پیمانے پر رسائی رکھتے ہیں ۔ آج انسان نے اربوں ڈالر خرچ کرکے خلاؤں کے جس سفر کو ممکن بنایا ہے ، ایک عام جِنّ کے لئے ایسا سفر معمول کی کارروائی ہو سکتی ہے ۔ مگر ان تمام کمالات کے باوجود یہ جِنّ ہیں تو اللہ ہی کی مخلوق۔ اسی طرح فرشتے اپنی تخلیق اور صلاحیتوں کے لحاظ سے جِنّات سے بھی بڑھ کر ہیں ، مگر پیدا تو انہیں بھی اللہ ہی نے کیا ہے۔ لہٰذا انسان، جِنّات اور فرشتے سب اللہ کی مخلوق ہیں ، اور ان میں سے کسی کا بھی الوہیت میں ذرّہ برابر حصہ نہیں۔‘‘

(بیان القرآن ،از ڈاکٹر اسرار احمد حصہ سوم ، صفحہ 62۔ ایڈیشن جولائی 2011ء۔ انجمن خدام القرآن پشاور)

سورۃ الانعام کی آیت 129کی تشریح میں بیان کرتے ہیں :

’’(وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ۚ یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ قَدِ اسۡتَکۡثَرۡتُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ)

اور جس دن وہ جمع کرے گا ان سب کو اور فرمائے گا ، اے جِنّوں کی جماعت ! واقعۃً تم نے تو انسانوں میں سے بہتوں کو ہتھیا لیا ۔ وہ جو تمہارے بڑے جِنْ عزازیل نے کہا تھا

(وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ)

اور تو ان کی اکثریت کو شکر کرنے والا نہیں پائے گا۔تو واقعی بہت سے انسانوں کو تم نے ہتھیا لیا ہے۔ یہ گویا ایک طرح کی شاباش ہوگی ، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو دی جائے گی۔

( وَ قَالَ اَوۡلِیٰٓؤُہُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ)

اور انسانوں میں سے جو ان کے ساتھی ہوں گے وہ کہیں گے۔ اس پر جِنّوں کے ساتھ انسانوں کی غیرت ذرا جاگے گی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہہ دیا ہے کہ جِنّات نے ہمیں ہتھیا لیا ہے، شکار کر لیا ہے ۔ اس پر وہ بول اٹھیں گے

(رَبَّنَا اسۡتَمۡتَعَ بَعۡضُنَا بِبَعۡضٍ)

اے ہمارے پروردگار ہم آپس میں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے ۔ ہم ان سے اپنے کام نکلواتے رہے، اور یہ ہم سے مفادات حاصل کرتے رہے ۔ ہم نے جِنّات کو اپنا مؤکّل بنایا ۔ ان کے ذریعہ غیب کی خبریں حاصل کیں اور کہانت کی دکانیں چمکائیں۔

(وَّ بَلَغۡنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیۡۤ اَجَّلۡتَ لَنَا)

اور اب ہم اپنی اس مدت کو پہنچ چکے ہیں جو تونے ہمارے لئے مقدر کر دی تھی۔

(قَالَ النَّارُ مَثۡوٰٮکُمۡ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ)

اللہ فرمائے گا اب آگ ہے تمہارا ٹھکانہ ، تم اس میں ہمیشہ ہمیش رہو گے ، سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔

(اِنَّ رَبَّکَ حَکِیۡمٌ عَلِیۡمٌ)

یقیناً آپ کا رب حکیم اور علیم ہے۔‘‘

پھر آیت نمبر 131 کی تفسیر میں رقمطراز ہیں :

’’(یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ)

اے جِنّوں اور انسانوں کی جماعت ! کیا تمہارے پاس نہیں آگئے تھے رسول تم ہی میں سے ، جو سناتے تھے تمہیں میری آیات۔اب چونکہ یہ بات جِنّ و اِنس دونوں کو جمع کرکے کہی جارہی ہے ، تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ جو انسانوں میں سے رسول ہیں، وہی جِنّات کے لئے بھی رسول ہیں ۔‘‘

(بیان القرآن ،از ڈاکٹر اسرار احمد حصہ سوم ، صفحہ 79،78۔ایڈیشن جولائی 2011ء۔ انجمن خدام القرآن پشاور)

’’قصص القرآن‘‘ کے مصنف مولانا محمد حفظ الرحمن سیُو ہاروی بیان کرتے ہیں :’’جِنّ خدائے تعالیٰ کی مستقل مخلوق ہے، جس کی حقیقتِ تخلیق سے ہم پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔اور نہ عام انسانی آبادی کی طرح وہ ہمیں نظر آتے ہیں لیکن قرآن عزیز نے جو تصریحات اس مخلوق کے متعلق کی ہیں وہ ہمارے لئے ضروری قرار دیتی ہیں کہ ہم یہ اعتقاد اور یقین رکھیں کہ وہ بھی انسان کی طرح مستقل مخلوق ہیں، اور اُسی کی طرح شریعت کے مکلف بھی ۔ ان میں توالد و تناسل کا بھی سلسلہ ہے اور ان میں نیک و بد بھی ہیں ۔ قرآن عزیز کی یہ آیات ان ہی حقائق کو واضح اور ظاہر کرتی ہیں۔’’ اور نہیں پیدا کیا ہم نے جِنّ اور انسان کو مگر تا وہ عبادت گزار ہوں‘‘۔(الذاریات 51، 57)۔ ’’اور اے پیغمبر سب لوگوں کو جتا دو کہ میرے پاس خدا کی طرف سے اس بات کی وحی آئی ہے کہ جِنّات میں سے چند لوگوں نے مجھے قرآن پڑھتے سنا اور انہوں نے پیچھے اپنے لوگوں سے جاکر کہا کہ ہم نے عجیب طرح کا قرآن سنا جو نیک راہ دکھاتا ہے سو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم تو کسی کو اپنے پروردگارکا شریک ٹھہرائیں گے نہیں۔‘‘ (الجن72۔2تا3)۔ ’’ اور بلا شبہ کچھ ہم میں سے فرماں بردار ہیں اور کچھ بےانصاف۔(الجن15:72)

’’بے شک وہ شیطان اور اس کی ذریّت تم کو ادھر سے دیکھتے رہتے ہیں جدھرسے تم ان کو نہیں دیکھتے‘‘۔ (الاعراف7۔29)۔ ’’ اور تھا ابلیس جِنّات میں سے پس نافرمانی کی اس نے اپنے رب کی۔‘‘ (الکہف 51:18)۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان بھی’’جِنّ‘‘ ہی کی نسل میں سے ہے، اور ابلیس شیطان نے خدا تعالیٰ کے سامنے خود یہ اقرار کیا کہ اس کی تخلیق نار (آگ)سے ہوئی ہے ۔ مسطورہ بالا آیات کے علاوہ لفظ جِنّ، جان اور جنۃ بتیس مرتبہ قرآن حکیم کی اکتیس آیات میں مذکور ہوئے ہیں۔حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن عزیز اور نبی معصوم ﷺ نے ہم کویہ اطلاع دی ہےکہ ’’ملائکہ‘‘ اور ’’جِنّ‘‘ اگرچہ ہماری ان نگاہوں سے پوشیدہ ہیں، لیکن بلا شبہ وہ مستقل مخلوق ہیں ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مشاہدہ میں تو غلطی کا امکان بھی ہے اور بار ہا ہوتا رہتا ہے ، لیکن ’’وحیِ الٰہی ‘‘ اور ’’نبیِ معصوم‘‘ کی اطلاع میں غلطی کی مطلق گنجائش نہیں، لہٰذ ا ہمارا اِیمان ہے کہ وہ مستقل مخلوق ہے۔اس کے علاوہ عقلی اعتبار سے بھی ان کا مستقل مخلوق ہونا ناممکن نہیں ہے، بلکہ امکانِ عقلی کے دائرہ میں ہے۔ پس جو چیز عقل کے نزدیک ناممکن نہ ہو اور نقل یعنی ’’وحی الٰہی‘‘ اس کا یقین دلاتی ہو ، تو اس کا انکار ’’علم‘‘ اور ’’حقیقت‘‘ کا انکار ہے اور تنگ نظری اور ہٹ دھرمی کی زندہ مثال ہے۔ رہا یہ امر کہ وہ ہمارے مشاہدات و محسوسات سے باہر ہیں اور ہم ان کو نہیں دیکھتے تو یہ بھی انکار کی کوئی معقول وجہ نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ آج کی دوربینوں اور سائنس کے آلات سے پہلےہزاروں برس تک ہم کو وہ اشیاء محسوس نہیں ہوتی تھیں ، اور نہ آنکھیں ان کو دیکھ سکتی تھیں جن کا وجود اُس وقت بھی موجود تھا ، مگر آج وہ نظر بھی آتی ہیں اور محسوس بھی ہوتی ہیں تو کیا ہزاروں سال پہلے جن لوگوں نے ان کے وجود کا انکار کیا وہ حقیقی علم پر مبنی تھا یا کوتاہیِ علم اور ذرائع معلومات و تحقیقات سے ناواقفیت کا نتیجہ، اسی طرح ہم آج بھی بجلی، مقناطیس اور روشنی کی صحیح حقیقت سے نا آشنا ہیں، اور ان کو صرف ان کے آثارو علامات سے ہی پہچانتے ہیں۔‘‘

(قصصُ القرآن جلد اوّل، ازمولانا محمد حفظ الرحمن سیُو ہاروی۔صفحہ 47تا49۔ ناشر مکتبہ رحمانیہ لاہور)

محمد امداد حسین پیرزادہ اپنی آسان اور عام فہم تفسیرالقرآن میں لکھتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے، فرشتوں کو نُور سے اور ابلیس و جِنّات کو آگ سے پیدا فرمایا ہے۔ابلیس فرشتوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے سجدہ کرنے کے حکم میں شامل تھا اور جب اس نے سجدہ نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے سجدہ نہ کرنے کی وجہ دریافت فرمائی تو ابلیس نے جواب دیا کہ وہ آدم سے افضل ہے، کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا اور ابلیس کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ حالانکہ فضیلت کی یہ بات نہیں ہے کہ کون کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے اور کس نسل سے تعلق رکھتا ہے ۔ اصل میں افضل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتا ہے۔اس میں اختلاف ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا یا فرشتوں میں سے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فرشتوں میں سے نہیں تھا کیونکہ یہ نصِ قطعی ہے کہ ابلیس جِنّوں میں سے تھا ۔ (الکہف50:18) نیز فرشتے معصوم ہوتے ہیں ، جبکہ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ۔ فرشتے نوری مخلوق ہیں جبکہ ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا، اور فرشتوں کی اولاد نہیں ہوتی جبکہ جنّوں کا قبیلہ اور اولاد ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے پہلے جِنّوں کو زمین میں آباد فرمایا۔ جب انہوں نے آپس میں بغض و عناد کی وجہ سے فساد اور خونریزی کا بازار گرم کردیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ ان کو جنگلوں اور پہاڑوں میں بھگا دیا ۔ ان جِنّوں میں سے ایک ابلیس بھی تھا جو اس وقت ابھی بچہ تھا ور فرشتے اُس کو اپنے ساتھ لے گئے ، چنانچہ وہ فرشتوں کے ساتھ عبادت کرتا تھا اس لئے فرشتوں کے ساتھ اُسے بھی سجدہ کرنے کا حکم دیاگیا،ابلیس اسّی ہزار(80000) سال فرشتوں کے ساتھ رہااور بیس ہزار (20000) سال انہیں وعظ کرتا رہا ، اور وہ آسمانِ دنیا کا رئیس تھا ،نیز وہ فرشتوں کا مرشد بھی تھا اور ان سے زیادہ علم والا تھا ۔ وہ کبھی زمین پر، کبھی آسمان پر اور کبھی جنّت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اور اس وجہ سے اُسے غرور ہوگیا تھا کہ وہ فرشتوں سے افضل ہے۔‘‘

(امداد الکَرَم،از محمد امداد حسین پیرزادہ ۔جلد دوم تفسیر سورۃ الاعراف، صفحہ623۔ ایڈیشن 2013ء۔ ناشر الکرم پبلی کیشنز ،یوکے)

امام شرف الدین بوصیری کے ’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ کی شرح علامہ عمر بن احمد الخرپوتی نے لکھی ہے، اور اس کا اردو تر جمہ شاہ محمد چشتی صاحب نے کیا ہے۔اس قصیدہ کا شعر نمبر 65 یوں ہے:

وَالْجِنُّ تَھْتِفُ وَالْاَنْوَارُ سَاطِعَةٌ

والْحَقُّ یَظْھَرُ مِنْ مَعْنًی وَّمِنْ کَلِمٖ

ترجمہ:’’ جِنّ آپ کی نبوت کو غائبانہ آواز سے مان رہے ہیں ، اس کے انوار ہرطرف بکھر رہے ہیں ۔ اور اس کی سچائی دلوں اور زبانوں سے مانی جا رہی ہے‘‘۔’’ وَالْجِنُّ‘‘ انسانوں کے مقابلہ میں ہیں ، یہ ایک ایسا جوہر ِآگ ہے جو کئی قسم کی شکلیں بنا سکتا ہے ۔ اُسے جِنّ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ اور لغت میں جِنّ کا معنی پوشیدہ کرنا ہوتا ہے ۔ علماء فرماتے ہیں کہ جِنّوں کا آنکھوں سے اوجھل ہونا اللہ تعالیٰ کی ہم پر رحمت ہے ۔اور یونہی فرشتوں کا چھپاہونا بھی رحمتِ الٰہیہ ہے، جِنّوں کا اس لئے کہ ان کی شکلیں بہت زیادہ بری ہوتی ہیں ۔اگر لوگوں میں سے کوئی انہیں دیکھ لے تو مر جائے اور پاگل ہو جائے ۔ رہے فرشتے تو وہ یوں کہ بہت ہی خوبصورت ہوتے ہیں کہ اگر کوئی ان کی اصل شکل دیکھ لےتو وہ پاگل ہو جائے یا مر جائے۔ تم ایسا کوئی نہیں سنو گے جو انہیں دیکھنے کا حوصلہ رکھتا ہو ۔ یاد رہے کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ جِنّ تین قسم کے ہوتے ہیں ، ایک وہ جن کے پَر ہوتے ہیں جن سے ہوا میں اڑتے ہیں، ایک وہ جو سانپوں کی شکل میں ہوتے ہیں ، ایک وہ جو ہر وقت چلتے پھرتے اور سیر کرتے رہتے ہیں۔‘‘

(شرح قصیدہ بردہ شریف از علامہ عمر بن احمد الخرپوتی،مُترجّم شاہ محمدچشتی، صفحہ 332۔ ایڈیشن مارچ 2016ء۔ناشر پروگریسوْ بُکس اردو بازار لاہور)

علامہ غلام رسول سعیدی صاحب اپنی تفسیر تبیان القرآن میں بیان کرتے ہیں:’’سورۃ صٓ آیت 37میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے قوی جِنّات کو ان کے تابع کر دیا تھا ، ان میں سے بعض حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم کے مطابق قلعے اور اونچی اونچی عمارتیں بناتے تھے ، اور بعض ان کے حکم کے مطابق سمندر میں غوطے لگاتے تھے ۔ وہ جِنّات سمندر میں غوطہ لگا کر موتی، جواہر اور دوسری ایسی چیزیں نکال کر لاتے تھے جو زیورات میں کام آتی ہیں ۔ اور ایسے جِنّات بھی مسخر کئے جو اونچی اونچی عمارتیں بناتے تھے۔دوسری قسم کے ایسے جِنّات بھی مسخر کئے تھے جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے ، یعنی وہ بہت سرکش جِنّ تھے جن کو لوہے کی زنجیروں کے ساتھ جکڑ کر رکھا ہوا تھا تاکہ ان کو شر اور فساد سے روکا جاسکے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے انبیاء پر چھ وجوہ سے فضیلت دی گئی۔ مجھے جوامع الکلم عطا کئے گئے اور رعب سے میری مدد کی گئی اور میرے لئے غنیمتوں کوحلال کر دیا گیا اور تمام روئے زمین کو میرے لئے آلۂ تیمّم اورمسجد بنا دیا گیا ۔ اورمجھے تمام مخلوقات کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبیوں کو ختم کیا گیا ۔‘‘(صحیح مسلم حدیث نمبر 523)۔ اس حدیث سے یہ واضح ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ تمام مخلوق کے رسول ہیں اور تمام مخلوق میں ہوا اور جِنّات بھی شامل ہیں ۔ پس ہوا اور جِنّات بھی آپ کی امت ہیں ۔ اور رسول اپنی امت پر غالب اور متصرّف ہوتا ہے ۔ سو اس سے لازم آیا کہ جِنّات اور ہوائیں بھی آپ کے زیر تصرف ہیں اور جِنّات پر آپ کے تصرف کی واضح دلیل یہ حدیث ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گذشتہ شب ایک بہت بڑا جِنّ مجھ پر حملہ آور ہوا تاکہ وہ میری نماز فاسد کردے ۔پس اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پرقادر کر دیا۔ سومیں نے ارادہ کیا کہ میں اس کو مسجد کے ستونوں میں سےکسی ستون کے ساتھ باندھ دوں۔ حتیٰ کہ تم صبح کو اٹھو تو تم سب اس کی طرف دیکھ رہے ہو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی یہ دعا یاد آئی۔ اے میرے رب ! مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد کسی اور کے لائق نہ ہو۔پھر آپ نے اس کو دھتکارا ہوا چھوڑ دیا۔اس جگہ یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ ان دو آیتوں میں جن جِنّات کا ذکر کیا گیا ہے وہ بہت سخت کام کر لیتے تھے، اونچی عمارتیں بناتے تھے، سمندر میں غوطے لگاتے تھے اور بعض کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا جاتا تھا ۔ ان جِنّات کے جسم لطیف تھے یا کثیف تھے۔ اگر ان کے اجسام کثیف تھے تو ہم کو نظر آنے چاہیے تھے، کیونکہ جسمِ کثیف کو انسانی آنکھ دیکھ لیتی ہے ۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ کثافت کے باوجود نظر نہیں آتے تھے ، تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہوسکتا ہےہمارے سامنے بڑے بڑے پہاڑ اور جنگلات ہوں اور ہمیں نظر نہ آرہے ہوں۔ تو جس طرح یہ صحیح نہیں ، اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ ہمارے سامنے جِنّات جسمِ کثیف میں موجود ہوں اور ہمیں نظر نہ آرہے ہوں ۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ان جِنّات کا جسم لطیف ہے اور لطافت سختی کے منافی ہے ، تو پھر یہ کہنا صحیح نہیں ہو گا کہ وہ جِنّات قوت شدیدہ کے حامل ہیں اور وہ ان کاموں کو کر گزرتے ہیں جن پر عام بشر اور انسان قادر نہیں ہوتے ۔ کیونکہ جسمِ لطیف کا قوام بہت ضعیف ہوتا ہے اور معمولی سی مزاحمت کے بعد اس کے اجزا پھٹ جاتے ہیں ، لہٰذا وہ ثقیل اشیاء کو اٹھانے اور سخت کاموں کے کرنے پر قادر نہیں ہوگا۔ نیز جب ان جِنّات کا جسم لطیف ہوگا تو پھر ان کو طوق اور زنجیروں کے ساتھ جکڑنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ان جِنّات کے اجسام لطیف ہیں لیکن لطافت صلابت اور سختی کے منافی نہیں ہے ۔ پس چونکہ وہ اجسام لطیف ہیں اس لئے وہ دکھائی نہیں دیتے ، اور چونکہ ان میں صلابت اور سختی ہے اس لئے ان کو طوق اور زنجیروں کے ساتھ جکڑنا ممکن ہے ، اسی طرح ان کا بھاری چیزوں کو اٹھانا اور سخت اور دشوار کاموں کا کرنا بھی ممکن ہے۔ کیا یہ مشاہدہ نہیں ہے کہ سخت اور تیز آندھی بڑے بڑے تناور درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتی ہے ، اور مضبوط بجلی کے کھمبوں کو گرا دیتی ہے ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان جِنّات کے اجسام کثیف ہوں اور وہ سخت اور دشوار کاموں پر قادر ہوں ، اور ان کوطوق اور زنجیروں کے ساتھ جکڑنا بھی ممکن ہو ، اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں وہ لوگ دکھائی دیتے ہوں ، اور ہمارے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی حکمت کی وجہ سے ان کا دکھائی دینا ممتنع کر دیا ہو۔‘‘

(تبیان القرآن ،از علامہ غلام رسول سعیدی، جلد 10صفحہ 110تا113۔ ایڈیشن2005ء۔ رومی پبلی کیشنز لاہور)

مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ؕ قَالُوۡا شَہِدۡنَا عَلٰۤی اَنۡفُسِنَا وَ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ شَہِدُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰفِرِیۡنَ ۔ذٰلِکَ اَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ رَّبُّکَ مُہۡلِکَ الۡقُرٰی بِظُلۡمٍ وَّ اَہۡلُہَا غٰفِلُوۡنَ ۔وَ لِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوۡا ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعۡمَلُوۡنَ۔(الانعام: 131تا133)۔

اے جِنّوں کی جماعت اور انسانوں کی کیا نہیں پہنچے تھے تمہارے پاس رسول تم ہی میں سے کہ سناتے تھےتم کو میرے حکم اور ڈراتے تھے تم کو اس دن کے پیش آنے سے۔ کہیں گے کہ ہم نے اقرار کر لیا اپنے گناہ کا اور دھوکہ دیا دنیا کی زندگی نے اور قائل ہو گئے اپنے اوپر اس بات کے کہ وہ کافر تھے۔یہ اس واسطے کہ تیرا رب ہلاک کرنے والا نہیں بستیوں کو ان کے ظلم پر اور وہاں کے لوگ بے خبر ہوں، اور ہر ایک کے لئے درجے ہیں ان کے عمل کے ، اور تیرا رب بےخبر نہیں اُن کے کام سے… اس جگہ قابل غور بات یہ ہے کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے جِنّات اور انسانوں کی دونوں جماعتوں کو خطاب کر کے یہ فرمایا ہے کہ کیا ہمارے رسول تمہارے پاس نہیں پہنچے جو تمہاری ہی قوم سے تھے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح انسانوں کے رسول انسان اور بشر بھیجے گئے ، اسی طرح جِنّات کے رسول جِنّات کی قوم سے بھیجے گئے ہیں ۔ اس مسئلہ میں علماء تفسیر و حدیث کے اقوال مختلف ہیں ۔ بعض کا کہنا یہ کہ رسول اور نبی صرف انسان ہی ہوئے اور ہوتے چلے آئے ہیں ۔ جِنّات کی قوم میں سے کوئی شخص رسول بلا واسطہ نہیں ہوا ، بلکہ ایسا ہوا کہ انسانی رسول اور پیغمبر کا کلام اپنی قوم کو پہنچانے کے لئےجِنّات کی قوم میں کچھ لوگ ہوئے جو درحقیقت رسولوں کے قاصد اور پیغامبر ہوتے ہیں ، مجازی طور پر ان کو بھی رسول کہہ دیا جاتا ہے ۔ ان حضرات کا استدلال قرآن مجید کی اُن آیات سے ہے جن میں جِنّات کے ایسے اقوال مذکور ہیں کہ انہوں نے نبی کا کلام یا قرآن سن کر اپنی قوم کو پہنچایا مثلاً:

وَلَّوْااِلٰی قَوْمِھِمْ مُّنْذِرِیْنَ،

اور سورۃ جِنّ کی آیت

إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ

وغیرہ ۔لیکن ایک جماعت علماء اس آیت کے ظاہری معنی کے اعتبار سےاس کی بھی قائل کہ خاتم الا نبیا ء ﷺ سے پہلے ہر گروہ کے رسول اسی گروہ میں سے ہوتے تھے۔انسانوں کے مختلف طبقات میں انسانی رسول آتے تھے ، اور جِنّات کے مختلف طبقات میں جِنّات ہی میں سے رسول ہوتے تھے ۔ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کو سارے عالم کے انسانوں اور جِنّات کا واحد رسول بنا کر بھیجا گیا ، اور وہ بھی کسی ایک زمانہ کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام جِنّ و انس آپ کی اُمّت ہیں ، اور آپ ہی سب کے رسول و پیغمبر ہیں۔ائمہ تفسیر میں سے کلبیؒ اور مجاہدؒ وغیرہ نے اس قول کو اختیار کیا ہے کہ اس آیت سے ثابت ہے کہ آدم سے پہلے جِنّات کے رسول جِنّات ہی کی قوم میں سے ہوتے تھے، اور وہ بھی انسانوں کی طرح احکام شرع کے مکلّف ہیں۔ حضرت قاضی ثنا اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہندوستان کے ہندو جو اپنی وید کی تاریخ ہزار ہا سال پہلے کی بتلاتے ہیں ، اور اپنے مقتدا ءو بزرگ جن کو وہ اوتار کہتے ہیں اُسی زمانہ کے لوگوں کو بتاتے ہیں ، کچھ بعید نہیں کہ وہ یہی جِنّات کے رسول و پیغمبر ہوں اور انہی کی لائی ہوئی ہدایات کسی کتاب کی صور ت میں جمع کی گئی ہوں ۔ ہندوؤں کے اوتاروں کی جو تصویریں اور مورتیاں مندروں میں رکھی جاتی ہیں وہ بھی اسی انداز کی ہیں ،کہ کسی کے کئی چہرے ہیں اور کسی کے بہت سے ہاتھ ہیں ، کسی کے ہاتھی کی طرح سونڈ ہے جو عام انسانی شکلوں سے بہت مختلف ہیں اور جِنّات کا ایسی شکلوں میں متشکل ہونا کچھ مستعبد نہیں ۔ اس لئے کچھ بعید نہیں کہ ان کے اوتار جِنّات کی قوم میں سے آئے ہوئے رسول یا ان کے نائب ہوں ، اور ان کی کتاب بھی ان کی ہدایات کامجموعہ ہو ۔ پھر رفتہ رفتہ جیسے دوسری کتابوں میں تحریف ہو گئی اس میں بھی تحریف کرکے شرک و بت پرستی داخل کر دی گئی ہو۔اور بہر حال اگر وہ اصل کتاب اور رُسل جن کی صحیح ہدایات بھی موجود ہوتیں تو رسول کریم ﷺ کی بعثت اور رسالت ِ عامہ کے بعد وہ منسوخ اور ناقابل عمل ہی ہو جاتیں …تیسری آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسانوں اور جِنّات میں رسول بھیجنا اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف اور رحمت کا تقاضاہے کہ وہ کسی قوم پر ویسے ہی عذاب نہیں بھیج دیتا ،جب تک کہ پہلے ان کو انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ بیدار نہ کر دیا جائے اور ہدایت کی روشنی ان کے لئے نہ بھیج دی جائے ۔ چوتھی آیت کا مفہوم واضح ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانوں اور جِنّات میں ہر طبقہ کے لوگوں کے درجات مقرر ہیں ، اور یہ درجات ان کے اعمال کے مطابق ہی رکھے گئے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کی جزاء و سزا اُنہی اعمال کے پیمانہ کے مطابق ہوگی ۔‘‘

(معارف القرآن از مفتی محمد شفیع ، جلد سوم ،صفحہ 450تا 456۔ ایڈیشن مارچ 2005ء۔ ناشر ادارۃ المعارف کراچی )

پھر مفتی محمد شفیع صاحب سورت سبا میں مذکور حضرت سلیمان علیہ السلام کے جِنّات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:’’جِنّات کی تسخیر جو اس جگہ مذکور ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے ، اس میں تو کوئی سوال ہو ہی نہیں سکتا ۔ اور بعض صحابہ کرام کے متعلق جو روایات میں آیا ہے کہ جِنّات ان کے مسخّر اور تابع تھے تو یہ تسخیر بھی اسی قِسم کی تسخیر باذن اللہ تھی، جو بطور کرامت ان حضرات کو عطا کی گئی ۔ اس میں کسی عمل و وظیفہ کا کوئی دخل نہ تھا، جیسا کہ علامہ شر بینی نے تفسیر سراج المنیر میں اس آیت کی تحت میں حضرت ابوہریرہ، ابی بن کعب ، معاذ بن جبل، عمر بن خطّاب، ابو ایوب انصاری، زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ عنہم کے متعدد واقعات ایسے لکھے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جِنّات ان کی اطاعت و خدمت کرتے تھے ۔ مگر یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تھا کہ سلیمان علیہ السلام کی طرح کچھ جِنّات کو ان حضرات کا مسخّر بنا دیا ۔ لیکن جو تسخیر عملیات کے ذریعہ عاملوں میں مشہور ہے وہ قابل غور ہے کہ شرعاًاس کا کیا حکم ہے؟ قاضی بدر الدین شبلی حنفی جو آٹھویں صدی کے علماء میں سے ہیں انہوں نے جِنّات کے احکام پر ایک مستقل کتاب ’’آکام المرجان فی احکام الجان ‘‘لکھی ہے ۔ اس میں بیان کیا کہ جِنّات سے خدمت لینے کا کام سب سے پہلے حضرت سلیمان نے باذن اللہ بطور معجزہ کے کیا ہے ، اور اہل فارس جمشید بن اونجہان کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے جِنّات سے خدمت لی ہے۔اسی طرح آصف بن برخیاد وغیرہ جن کا تعلق حضرت سلیمان سے رہا ہے ان کے متعلق بھی استخدامِ جِنّ کے واقعات مشہور ہیں۔ اور مسلمانوں میں سب سےزیادہ شہرت ابو نصر احمد بن ہلال البکیل اور ہلال بن وصیف کی ہےجن سے استخدامِ جِنّات کے عجیب عجیب واقعات مذکور ہیں۔ ہلال بن وصیف نے ایک مستقل کتاب میں جِنّات کے کلمات جو انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کئے اور جو عہد و میثاق سلیمان علیہ السلام نے ان سے لئے ان کو جمع کر دیا ہے ۔ قاضی بدرالدین نے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ عام طور پر تسخیر جِنّات کا عمل کرنے والے عاملین کلماتِ کفریہ شیطانیہ سے اور سِحر سے کام لیتے ہیں ، جن کو کافر جِنّات و شیاطین پسند کرتے ہیں۔ اور ان کے مسخّر و تابع ہونے کا راز صرف یہ ہے کہ وہ ان کے اعمال کفریہ شرکیہ سے خوش ہو کر بطور رشوت کے ان کے کچھ کام بھی کر دیتے ہیں ۔ اور اسی لئے بکثرت ان عملیات میں قرآن کریم کو نجاست یا خون وغیرہ سے لکھتے ہیں ، جن سے کفار جِنّ اور شیاطین راضی ہو کر ان کے کام کر دیتے ہیں ۔ البتہ ایک شخص ابن الامام کے متعلق لکھا ہے کہ یہ خلیفہ معتضدباللہ کے زمانہ میں تھا ، جِنّات کو اس نے اسمائے الٰہیہ کے ذریعہ مسخر کیا تھا ، اس میں کوئی بات خلاف شرع نہیں (آکام المرجان صفحہ 100) خلاصہ یہ ہے کہ اگر جِنّات کی تسخیر کسی کے لئے بغیر قصد و عمل کے محض من جانب اللہ ہو جائے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام اور بعض صحابہ کے متعلق ثابت ہے تو وہ معجزہ یا کرامت میں داخل ہے ۔ اور جو تسخیر عملیات کے ذریعہ کی جاتی ہے اس میں کلمات کفریہ یا اعمال کفریہ ہوں اور صرف معصیت پر مشتمل ہوں تو گناہِ کبیرہ ہے۔‘‘

(معارف القرآن از مفتی محمد شفیع ، جلدہفتم ،صفحہ 265،266۔ ایڈیشن مارچ 2005ء۔ ناشر ادارۃ المعارف کراچی )

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button