افریقہ (رپورٹس)حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ ماریشس کی نیشنل عاملہ و لوکل قائدین کی (آن لائن) ملاقات

نوجوانوں کو نماز کی اہمیت کے بارے میں بتائیں، پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کے بارے میں جو ہر مسلمان پر فرض ہے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 27؍فروری 2021ء کو اراکین نیشنل عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ ماریشس نیز لوکل قائدین مجالس کو آن لائن ملاقا ت کے شرف سے نوازا۔

حضور انور اس ملاقات میں اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق افروز ہوئے جبکہ ممبران عاملہ نے دارالسلام مسجد Rose Hill (ہیڈ کوارٹرز احمدیہ مسلم جماعت ماریشس) سے آن لائن شرکت کی۔

60منٹ پر محیط اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ جس کے بعد جملہ اراکین عاملہ کو اپنے شعبہ جات کی رپورٹس پیش کرکے آئندہ کی مجوزہ پلاننگ بیان کرنے کا موقع ملا۔

مہتمم تربیت سے مخاطب ہو کر حضور انور نے نوجوانوں کو بنیادی اسلامی شعار کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ نوجوانوں کو نماز کی اہمیت کے بارے میں بتائیں۔ پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کے بارے میں جو ہر مسلمان پر فرض ہے۔ انہیں ان کی اہمیت قرآنی آیات، احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ جات سے بتائیں۔ نیز خلفائے احمدیت نے خدام کو جو ہدایات اس حوالہ سے بیان فرمائی ہیں، وہ بھی شامل کریں۔ یوں صرف ایک عشرہ تربیت منا لینے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ، وہ (خدام) چند دن نماز پڑھیں گے اور پھرویسے ہی ہو جائیں گے۔ ہر نوجوان کو ذاتی حیثیت میں نمازوں کی اہمیت کا ادراک ہونا چاہیے۔ اس حوالہ سے ممبران عاملہ کو اپنا نمونہ پیش کرنا چاہیے۔ جب تک آپ اپنا نمونہ پیش نہیں کریں گے لوگ آپ کی ہدایات پر عمل نہیں کریں گے۔

دورانِ ملاقات حضور انور نے مجلس اطفال الاحمدیہ کے معیار کبیر کے اطفال کی صحیح طریق پر تربیت کے حوالہ سے زور دیا۔ مہتمم اطفال سے مخاطب ہو کر حضور انور نے ان اطفال کے اخلاقی اور روحانی معیار کے بارے میں اپنی توقعات کا اظہار یوں فرمایا کہ ایسی عمر کے بچوں کے لیے آپ کو خاص پروگرامز ترتیب دینے چاہئیں، کیونکہ جب بچے اس عمر میں پہنچتے ہیں جو 14 یا 15 سال کی ہے تو عموماً ان کی ترجیحات بدلنے لگتی ہیں اور مذہبی اور جماعتی سرگرمیوں میں سستی دکھانے لگتے ہیں۔ ان کی دلچسپی دیگر امور میں بڑھنے لگتی ہے۔ اس لئے یہ بہت اہمیت کا حامل اور حساس وقت ہوتا ہے اور اطفال کی عمر ایسی ہوتی ہے جہاں آپ کو انہیں اپنے قریب رکھنا چاہیے۔ ہمیشہ انہیں دین کے ساتھ جوڑ کر رکھیں اور جماعتی سرگرمیوں میں مشغول رکھیں، جس قدر آپ انہیں مصروف رکھ سکتے ہیں۔

پھر مہتمم صاحب مال سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ وہ ایسے خدام سے جو ابھی کما نہیں رہے کتنا چندہ لیتے ہیں۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ سٹوڈنٹ اور ایسے خدام جو ابھی کما نہیں رہے ان سے ماہانہ 75 روپے فی خادم کے حساب سے چندہ لیتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے وہاں کی کرنسی کے مطابق ایک برگر اور بوتل کے ٹن کی قیمت دریافت فرمائی جس پر انہوں نے بتایا کہ برگر 150 روپے کا اور بوتل کا ٹن 25روپے کا ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پھر 75روپے ماہانہ ٹھیک ہے۔ پھر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ایسے خدام جو کچھ بھی نہیں کما رہے اور انہیں جیب خرچ بھی زیادہ نہیں ملتا۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔

ملاقات کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر اطفال کے حوالہ سے ایک ممبر نے سوال کیا جس پر حضور انور نے فرمایا کہ جہاں تک اطفال کا تعلق ہے تو میں نے مہتمم صاحب اطفال کو اس حوالہ سے تفصیل سے بتا د یاہے کہ 14 سے 15 سال کی عمر میں انہیں خاص توجہ کی ضرروت ہوتی ہے۔ یہ ایک نہایت حساس عمر ہے اور جب وہ خدام الاحمدیہ میں داخل ہوتے ہیں تو وہ خود کو بہت بڑا سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی لیے 12 سے 13 سال کی عمر میں وہ اطفال اور خدام کے پروگرامز میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں مگر 14 سال کی عمر کو پہنچتے ہی وہ اپنے آپ کو جماعتی پروگراموں سے دور کرنے لگتے ہیں۔ اور 15 سال کی عمرکو پہنچتے ہی وہ خود کو کافی بڑا سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ اب اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں۔ پھر خدام الاحمدیہ میں آتے ہی وہ خود کو بہت بڑا سمجھنے لگتے ہیں اور 18سال کے ہوتے ہی وہ خود کومکمل طور بالغ سمجھتے ہیں اور قانون بھی انہیں اجازت دیتا ہے کہ جو چاہیں کریں۔ اس عمر میں آپ کو ان کے لیے خاص پروگرامز ترتیب دینے ہوں گے اور انہیں جماعت سے منسلک کرنے اور رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ ان کی دلچسپی کے پروگرامز بنانے پڑیں گے۔ انہیں خدام الاحمدیہ کی سرگرمیوں میں شامل رکھنے کے لیے مختلف راستے اور ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔ ان سے پوچھیں کہ وہ کس قسم کی سرگرمیوں کو پسند کر تے ہیں اور اس کے مطابق اطفا ل الاحمدیہ اور خدام کے پروگرامز ترتیب دیں۔ محض رسمی قسم کے پروگرامز کی پیروی نہ کریں بلکہ نئے نئے پروگرام تلاش کریں۔ اطفال اور خدام کو ایک سوالنامہ دیں کہ ہم اپنی سرگرمیوں کو کس طرح بہتر کر سکتے ہیں۔ پھر اگر ان کی تجاویز جماعتی وسائل اور روایات کے اندر رہتے ہوئے قابل عمل ہوں تو پھر ان کے مطابق آپ اپنے پروگرام بنا سکتے ہیں۔ اس طرح آپ خدام اور اطفال کی ایک بڑی تعداد کو جماعتی سرگرمیوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ جس قدر خدام اور اطفال کو آپ جماعتی سرگرمیوں میں شامل کریں گے اتنا ہی آپ جماعت کے لیے مفید اثاثہ تیار کر رہے ہوں گے۔ اس طرح ان کو بھی خیال آئے گا کہ ضرور ا ن کی بھی کچھ اہمیت ہے جس کی وجہ سے ان سے پوچھا گیا ہے کہ وہ کون سی سرگرمیاں پسند کرتے ہیں۔ یوں 14 سے 15 سال کے اطفال سے بھی پوچھیں اور پھر جب وہ 16، 17 اور 18 سال کی عمر میں پہنچیں تو دوبارہ ان سے ان کی پسند کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھیں۔ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ خدام ضرور کسی نہ کسی کھیل میں مشغول ہوں، صرف گلیوں میں ہی نہ پھرتے رہیں اور محض indoor اور انٹرنیٹ کی کھیلیں ہی نہ کھیلتے رہیں۔ ان کو کچھ ورزشی کھیلوں میں حصہ لینا چاہیے، باہر نکلنا چاہیے اور گراؤنڈز میں جانے کا وقت مختص کرنا چاہیے جس میں وہ فٹ بال یا رگبی یا کرکٹ یا بیڈ منٹن یا ٹیبل ٹینس یا جو بھی وہ پسند کریں، کھیلیں۔ صرف ٹی وی اور ویڈیو گیمز پر ہی اپنا وقت نہ ضائع کرتے رہیں۔

ایک عاملہ ممبر نے سوال کیا کہ حضور اطفال اور خدام کی حاضری نماز جمعہ پر بہت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سکول جانا ہے۔

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ یہ مسئلہ تو ہر جگہ ہے، جب وہ سکول میں ہوں گے تو جمعہ نہیں پڑھ سکیں گے۔ لیکن چھٹیوں کے دوران انہیں جمعہ ادا کرنا چاہیے۔ یہ کیونکہ ایک حقیقی مسئلہ ہے اس لیے کوشش کریں کہ اگر کچھ اطفال یا خدام سکول میں اکٹھے جمعہ پڑھ سکتے ہیں تو پڑھ لیں۔ اگر اس کی اجازت ہے۔ یا سکول میں رابطہ کرکے پوچھیں کہ اگر وہ ان اطفال یا خدام کو کچھ فارغ وقت دے سکتے ہیں یا بریک دے سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی قریبی مسجد میں آکر جمعہ ادا کر لیں۔ حالات کا جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ آپ ان کے لیے کیا انتظام کر سکتے ہیں سکول سے جانے اور واپس چھوڑنے کا۔ یا اگر سکول کی انتظامیہ اس بات پر رضامند ہو جائے کہ انہیں 12 بجے کے بعد سکول سے چھٹی دے دی جائے تاکہ وہ جمعہ ادا کرلیں۔ یہ والدین کا بھی فرض ہے کہ اگر سکول کی انتظامیہ رضامند ہو جاتی ہے کہ وہ جمعہ کے دن آدھی چھٹی کر دیں گے تو والدین بچوں کو سکول سے لانے اور بروقت جمعہ کی ادائیگی کا انتظام کریں۔ سب سے پہلے سکول کی انتظامیہ سے بات کریں اور لازماًساتھ ہی والدین کو بھی اس میں شامل کریں۔ سکول کی انتظامیہ آپ سے پوچھ سکتی ہے کہ آپ کون ہوتے ہیں جمعہ کے دن آدھی چھٹی یا بریک کی بات کرنے والے جب تک والدین آپ کے ساتھ نہ کھڑے ہوں۔ اس لیے جماعت کے سیکرٹری تربیت، لجنہ کی سیکرٹری تربیت، مہتمم تربیت اور مہتمم اطفال کے ساتھ مل کر ایک مکمل پروگرام بنائیں کہ ہم اس مسئلہ کو کیسے حل کر سکتے ہیں۔ اگر سکول کی انتظامیہ آپ کے ساتھ تعاون کرے اور بریک دینے پر رضامند ہوجائے تو بہت اچھی بات ہے۔ بصورت دیگر اس کا کچھ نہیں کیا جاسکتا اور آپ کو کم از کم اطفال کو چھٹیوں میں جمعہ کی ادائیگی کی طرف بھر پور توجہ دلانی چاہیے کہ ہر طفل ضرور جمعہ ادا کرے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button