کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

خدا نے بعض مسلمانوں کو یہود قرار دیدیا ہے

قرآن شریف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن کریم نے نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰؑ قرار دیا بلکہ آیت

کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ(النور:56)

میں تمام سلسلہ خلافت محمدیہ کوسلسلہ خلافت موسویہ کا مثیل قرار دیا ہے۔ پس اس صورت میں قطعاً و وجوباً لازم آتا ہے۔کہ سلسلۂ خلافتِ اسلامیہ کے آخر میں ایک مثیل عیسیٰؑ پیدا ہو اور چونکہ اوّل اور آخر کی مشابہت ثابت ہونے سے تمام سلسلہ کی مشابہت ثابت ہو جاتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کی کتابوں میں جابجا انہیں دونوں مشابہتوں پر زور دیا گیا ہے بلکہ اوّل اور آخر کے دشمنوں میں بھی مشابہت ثابت کی گئی ہے جیسا کہ ابوجہل کو فرعون سے مشابہت دی گئی ہے اور آخری مسیح کے مخالفین کو یہود مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ سے اور آیت

کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ

میں یہ بھی اشارہ کر دیا ہے۔ کہ آخری خلیفہ اس امت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسے زمانہ میں آئے گا۔ جو وہ زمانہ اپنی مدّت میں اس زمانہ کی مانند ہوگا۔ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے تھے۔ یعنی چودہویں صدی کیونکہ کَمَاکا لفظ جس مشابہت کو چاہتا ہے اس میں زمانہ کی مشابہت بھی داخل ہے تمام فرقے یہودیوں کے اس بات پر متفق ہیں۔ کہ عیسیٰؑ بن مریم نے جس زمانہ میں دعویٰ نبوت کیا وہ زمانہ حضرت موسیٰ سے چودھویں صدی تھی۔ اور عیسائیوں میں سے پروٹسٹنٹ مذہب والے خیال کرتے ہیں۔ کہ پندرھویں صدی موسوی سے کچھ سال گزر چکے تھے جب حضرت عیسیٰؑ نے دعویٰ نبوت کیا۔ اور پروٹسٹنٹ کا قول یہودیوں کے متفق علیہ قول کے مقابل پر کچھ چیز نہیں۔ اور اگر اس کی صحت مان بھی لیں تو اس قدر قلیل فرق سے مشابہت میں کچھ فرق نہیں آتا۔ بلکہ مشابہت ایک قلیل فرق کو چاہتی ہے۔ ایسا ہی قرآن شریف کی رُو سے سلسلہ محمدیہ سلسلہ موسویہ سے ہر ایک نیکی اور بدی میں مشابہت رکھتا ہے۔ اسی کی طرف ان آیتوں میں اشارہ ہے۔ کہ ایک جگہ یہود کے حق میں لکھا ہے۔

فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ(الاعراف:130)۔

دوسری جگہ مسلمان کے حق میں لکھا ہے۔

لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ(یونس:15)۔

ان دونوں آیتوں کے یہ معنی ہیں کہ خداتمہیں خلافت اور حکومت عطا کر کے پھر دیکھے گا کہ تم راستبازی پر قائم رہتے ہو یا نہیں۔ ان آیتوں میں جو الفاظ یہود کیلئے استعمال کئے ہیں وہی مسلمانوں کیلئے۔ یعنی ایک ہی آیت کے نیچے ان دونوں کو رکھا ہے۔ پس ان آیتوں سے بڑھ کر اِس بات کیلئے اور کونسا ثبوت ہو سکتا ہے کہ خدا نے بعض مسلمانوں کو یہود قرار دیدیا ہے۔ اور صاف اشارہ کر دیا ہے کہ جن بدیوں کے یہود مرتکب ہوئے تھے یعنی علماء اُن کے۔ اس اُمّت کے علماء بھی انہیں بدیوں کے مرتکب ہونگے۔ اور اسی مفہوم کی طرف آیت

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ(الفاتحہ :7)

میں بھی اشارہ ہے کیونکہ اس آیت میں باتفاق کل مفسرین مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ سے مُراد وہ یہود ہیں جن پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انکار کی وجہ سے غضب نازل ہوا تھا اور احادیث صحیحہ میں مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ سے مُراد وہ یہود ہیں جو موردِ غضب الٰہی دنیا میں ہی ہوئے تھے۔ اور قرآن شریف یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ یہود کو مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ ٹھہرانے کیلئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان پر لعنت جاری ہوئی تھی۔ پس یقینی اورقطعی طور پر مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ سے مراد وہ یہود ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سُولی پر ہلاک کرنا چاہا تھا۔ اب خدا تعالیٰ کا یہ دُعا سکھلانا کہ خدایا ایسا کر کہ ہم وہی یہودی نہ بنجائیں جنہوں نے عیسیٰؑ کو قتل کرنا چاہا تھا صاف بتلا رہا ہے کہ اُمّت محمدیہ میں بھی ایک عیسیٰ پیدا ہونے والا ہے۔ ورنہ اس دُعا کی کیا ضرورت تھی۔

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ12تا 14)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button