قرآن کریم

حکیمانہ ترتیب

(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ, حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ)

سورہ النحل رکوع 1آیت 7میں بیان کردہ ترتیب کی حکمتوں اورمصلحتوںکی دو وجوہ

اللہ تعالیٰ سورہ النحل کے پہلے رکوع میں انسانوں پر اپنے ہر قسم کے دینی و دنیوی انعامات گناتا ہوا مویشیوں اور پالتو چارپایوں کا ذکر کرکے فرماتا ہے کہ لوگو ! تم نے غور نہیں کیا کہ یہ مویشی اور چارپائے تمہارے لئے کس قدر مفید اور نافع ہیں؟ دیکھو کسی جانور پر تم سوار ہو کرقطع مسافت کی مشقتوں سے بچتےہواور کسی کا گوشت کھا کر بھوک کی سختی سے نجات پاتے ہو اور کسی کا دودھ پی کر اپنی زندگی قائم رکھتے ہو اور کسی کے چمڑے کے لباس سے سردی اور گرمی سے محفوظ رہتے ہو اور بہت سے مالی فائدے گنا کر پھر ان کے ذہنی فائدہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے…

اور تمہارے لئے ان (مویشیوں )میں زینت ہے جب تم انہیں شام کوچرا کرواپس لاتے ہو اور جب تم انہیں صبح کو

چرانے کے لئے لے جاتے ہو۔

(سورہ النحل رکوع 1آیت 7)

یعنی تم دیکھتے نہیں کہ تمہارے مویشی جب جنگل سے چر کر واپس آتے ہیں یا چرنے کے لئے جنگلوں، میدانوں اور کھیتوں میں صبح کے وقت جاتے ہیں تو تم انہیں دیکھ دیکھ کر پھولے نہیں سما تے اور اپنے ہم جنسوں میں بیٹھے فخر کرتے ہو کہ ہم اتنے مویشیوں کے مالک ہیں ۔ تم کبھی اپنے ناگوری بیلوں کے قد اور سینگوں کی سنگوٹیوں کو دیکھ کر خوشی سے جھومتے ہو اور کبھی اپنے تیز رفتار عربی نسل کے گھوڑوں کی مستانہ چال کو دیکھ کر مست ہو جاتے ہو اور حضرت سلمانؑ کی طرح نوکروں چاکروں کے ہوتے ہوئے خود کھرکھرا لے کر کھڑے ہو جاتے ہواور کبھی اپنے بھورے رنگ کی دودھیل بھینسوں کو آتے جاتے دیکھ کر تم میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور کبھی اپنی بکریوں کے ریوڑ پر نظرکر کے اپنی مالی حیثیت کا جائزہ لینے لگتے ہو۔ مگر کبھی تم نے یہ سوچنے کی تکلیف بھی گواراکی ہے کہ یہ جانور تم کو کس نے دیے ہیں؟ اور یہ مال کہاں سے آیا اور یہ چلتی پھرتی منقولہ جائیدادیں کس کا عطیہ ہیں ؟ سنو !یہ سب کچھ اللہ کا عطیہ ہے۔ اس کی محبت اور اس کی بخشش ہے۔ پس جہاں تم ان جانوروں کو دیکھ دیکھ کرخوش ہوتے ہو وہا ں ان جانوروں کے پیدا کرنے والے کا شکر بھی ادا کرو۔

یہ ہے اصل مضمون جو اس رکوع میں بیان کیا گیا ہے لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ترتیب طبعی کو کیوں چھوڑ دیا ؟ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ چارپائے اور مویشی پہلے صبح کو چرنے کے لئے جنگل میں جاتے ہیں اور پھر شام کو واپس آتےہیں اس لیے بظاہر اس آیت کے الفاظ یوں ہونے چاہئیں تھے(کہ)…تمہارے مویشی تمہارے لئے موجبِ زیبائش ہیں جب کہ تم انہیں صبح کو چرانے کے لئے لے جاتے ہو اور جب انہیں شام کو چرا کر واپس لاتے ہو۔مگر قرآن مجید نے ترتیب طبعی کو چھوڑ کر یوں فرمایا ہے … (اور تمہارے لئے ان( مویشیوں )میں زینت ہے ۔جب تم انہیں شام کو گھر واپس لاتے ہو اور جب تم انہیں صبح کو چرانے کے لئے لے جاتے ہو۔)

خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں چوپایوں کی شام کی واپسی کا ذکر پہلے کرتا ہے۔ اور صبح کی روانگی کا بعد میں۔اس لیے اس جگہ بالطبع سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سی حکمت و مصلحت اور خوبی تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ترتیب طبعی کی بجائے دوسری ترتیب اختیار فرمائی ؟

اس سوال پر غور کرنے سے مجھے موجودہ ترتیب کی جو حکمتیں اور مصلحتیں معلوم ہوئیں وہ میں لکھنا چاہتا ہوں ۔اور وہ یہ ہیں کہ یہاں پر خدا تعالیٰ کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا نہیں کہ جانور صبح کو چرنے جاتے ہیں اور شام کو واپس آتے ہیں کیونکہ یہ تو بدیہی بات ہے اور ایک بچہ بھی اسے جانتا ہے بلکہ جانوروں کو بھی معلوم ہے تبھی وہ صبح کوجاتے اور شام کو خود بھاگ کر اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں ۔ اور الٰہی کتابوں کو اس سے غرض ہی کیا کہ وہ لوگوں کو یہ بتاتی پھرے کہ صبح کو چوپایوں کی روانگی ہوتی ہے اور شام کو واپسی ؟بلکہ یہاں پر حق سبحانہ تعالیٰ اپنا ایک احسان جتا کر لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ بجائے فخر کے میرا شکر بجا لاؤ اور بجائے تکبر کے میرے حضورانکسار دکھاؤ او اور بجائے اترانے کے میری جناب میں جھک جاؤ اور ہر وقت میری مہربانیوں کے گیت گاؤ کہ میں نے تمہیں گھوڑے،گدھے، خچر،گائے ،بھینسیں اور بکریوں کے ریوڑ دیے۔ علاوہ بہت سے مادی فائدوں کے تم اپنے ہم جنسوں میں ان کی وجہ سے فخر، خوشی اور سرور محسوس کرتے ہو ۔اور یہ جانور تمہارے لیے جمال یعنی زیبائش کا موجب ہیں ۔ پس اس سوال کو حل کرنے کے لئے اس آیت میں لفظ جمال کو بطور کنجی کے سمجھو تو صاف معلوم ہو گا کہ جو ترتیب اختیار کی گئی ہے وہ جمال یعنی زیب و زینت کے لحاظ سے واقعی سچی اور پوری طرح حقیقی اور درست ترتیب ہے اور اس کی دو وجہیں ہیں ۔

وجہ اول

پہلی وجہ یہ ہے کہ صبح کے وقت بے شک جب کسی زمیندار کے مویشی چرنے کے لیے باہر جاتے ہیں تو وہ انہیں دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے مگر ہر شخص جانتا ہے کہ صبح کو جانور اکٹھے ہو کر باہر نہیں جاتے بلکہ ہر گھر سے الگ الگ روانہ ہوکر کھیتوں،چراگاہوں اور جنگلوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔لیکن شام کو سارے گاؤں کے مویشی مل کر سینکڑوں کی تعداد میں گاؤں کی طرف آتے ہیں اور جو نظارہ مویشیوں کے اجتماع کا شام کو واپسی کے وقت ہوتا ہے وہ صبح کو روانگی کے وقت نہیں ہوتا۔ اور جو فخر زمیندار کو اپنے مویشیوں پر اس وقت ہوتا ہے جبکہ اس کے مویشی دوسرے سینکڑوں مویشیوں میں کھڑے ہوکر اپنے قد،اپنی مضبوطی ،اپنی رنگت ،اپنی چال اور اپنی مخصوص رفتار میں ممتاز نظر آتے ہیں وہ اس فخر سے ہزاروں گنے زیادہ ہوتا ہے جو کہ صبح کے وقت بغیر مقابلے کے محض اپنے مویشیوں کو دیکھ کر کسی زمیندار کو ہو سکتا ہے۔ پس جمال کے لحاظ سے مویشیوں کا مالک صبح کی نسبت شام کو زیادہ خوش اور مسرور ہوتا ہے اورگو مقابلہ کا یہ فخر ان زمینداروں سے مخصوص ہے جن کے مویشی دوسروں کے مویشیوں سے اچھے اور اعلیٰ ہوتے ہیں مگر خود بحیثیت مجموعی بھی ہر گاؤں اپنے مویشیوں کی زینت اور زیبائش کے لحاظ سے بجائے صبح کے شام کو زیادہ نمایاں اور ممتاز ہوتا ہے۔کیونکہ صبح کو وہ اجتماع مویشیوں کا کبھی نہیں ہوتا جو شام کو ہوا کرتا ہے۔اس طرح لوگ گوصبح کو بھی سیر کو جاتے ہیں۔ مگر بہت کم ۔ہاں امراء اور متوسط درجہ کے لوگ گھوڑوں پر سوار ہوکر شکرموں اور فٹنوں میں بیٹھ کر ہوا خوری کے لئے شام کو ہی نکلتے ہیں ۔اور ان کی زیبائش کی نمائش شام ہی کو قائم ہوتی ہے۔

وجہ ثانی

دوسری وجہ یہ ہے کہ صبح کو مویشی عموماً خالی پیٹ جنگلوں، میدانوں اور کھیتوں کو جاتے ہیں نیز دودھ دینے والی گائے اور بھینسیں خالی تھنوں سے روانہ ہوتی ہیں ۔ لیکن شام کو چر، چُگ کر اور خوب سیر ہو کر واپس آتی ہیں اس لئے رنگ وروپ نکھرنا اور پیٹ اور پسلیوں کا پھولا ہونا اور ان کی جسامت کا نمایاں ہونا اورتھنوں کا دودھ سے بھر جانا جواپنی بہار شام کو دکھاتا ہے وہ صبح کو کہا ں؟

پس جمال کے لحاظ سے مویشیوں کی زیبائش شام کو زیادہ محسوس و مشہود ہوتی ہے بہ نسبت صبح کے۔ اس لیے ہمارے حکیم خدا کی حکیم کتاب نے جانوروں کی شام کی واپسی کا پہلے ذکر فرمایا کیونکہ وہ جمال کے لحاظ سے اول درجہ پر ہوتی ہے اور صبح کی روانگی کا بعد میں کیونکہ وہ زیبائش کے لحاظ سے دوم درجہ پر ہے۔پس منجملہ اوربہت سی وجوہ کے جو ہمیں معلوم نہیں۔ یہ دو وجہیں ایسی ہیں جن کو مدنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ترتیب طبعی کو چھوڑ کر واپسی کے ذکر کو روانگی کے ذکر سے پہلے رکھا ہے ۔

( بحوالہ ماہنامہ تحریک جدید ستمبر 2016ء صفحہ 13تا14)

(مرسلہ :عطاءالمجیب راشد۔امام مسجد فضل لندن)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button