متفرق مضامین

حسن سلوک کے اعلیٰ معیار

اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو

مرد عورتوں پر نگران ہیں

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب31؍جولائی 2004ء برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ میں سورۃ النساءآیت 35کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ

’’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ

یعنی مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیاہے۔ اور پھر یہ:

بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ (النساء: 35)

مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت دی گئی ہے۔ اس کی مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں۔ لیکن ایک بہت خوبصورت تفسیر جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے کی ہے وہ میں تھوڑی سی بیان کرتاہوں۔ فرمایا: ’’کہ سب سے پہلے تو لفظ قوّام کو دیکھتے ہیں۔ قوّام کہتے ہیں ایسی ذات کو جو اصلاح احوال کرنے والی ہو، جودرست کرنے والی ہو، جوٹیڑھے پن اور کجی کو صاف سیدھا کرنے والی ہو۔ چنانچہ قوّام اصلاح معاشرہ کے لئے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا۔ پس قوّامون کا حقیقی معنی یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاحِ معاشرہ کی اول ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے۔ اگر عورتوں کا معاشرہ بگڑنا شروع ہوجائے، ان میں کج روی پیدا ہوجائے، ان میں ایسی آزادیوں کی رو چل پڑے جو ان کے عائلی نظام کو تباہ کرنے والی ہو۔ یعنی گھریلوں نظام کو تباہ کرنے والی ہو، میاں بیوی کے تعلقات کوخراب کرنے والی ہو، توعورت پر دوش دینے سے پہلے مرد اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو نگران مقرر فرمایا تھا۔ معلوم ہوتاہے انہوں نے اپنی بعض ذمہ داریاں اس سلسلہ میں ادا نہیں کیں اور:

بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ(النساء: 35)

میں خداتعالیٰ نے جوبیان فرما یاہے وہ یہ ہے کہ خد اتعالیٰ نے ہر تخلیق میں کچھ خلقی فضیلتیں ایسی رکھی ہیں جو دوسری تخلیق میں نہیں ہیں اور بعض کو بعض پر فضیلت ہے۔ قوّام کے لحاظ سے مرد کی ایک فضیلت کا اس میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ ہرگزیہ مرادنہیں کہ مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت حاصل ہے۔ ‘‘

(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان۔یکم اگست 1987ء)

تو،

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ(النساء: 35)

کہہ کر مردوں کو تو جہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی بھلائی کا کام سپرد کیا ہے تم نے اس فرض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ اس لئے اگر عورتوں میں بعض برائیاں پیدا ہوئی ہیں تو تمہاری نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ پھر عورتیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں، اب بھی، اس مغربی معاشرے میں بھی، اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ عورتوں میں بھی، کہ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے۔ تو خود تو کہہ دیتے ہیں کہ عورتیں نازک ہیں۔ عورتیں خود بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض اعضاء جو ہیں، بعض قویٰ جو ہیں مردوں سے کمزور ہوتے ہیں، مردکا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس معاشرے میں بھی کھیلوں میں عورتوں مردوں کی علیحدہ علیحدہ ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ میں تخلیق کرنے والا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ میں نے کیا بناوٹ بنائی ہوئی ہے مرد اور عورت کی اور اس فرق کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ مرد کو عورت پر فضیلت ہے تو تمہیں اعتراض ہو جاتاہے کہ دیکھو جی اسلام نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی۔ عورتوں کو تو خوش ہو نا چاہئے کہ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مرد پر زیادہ ذمّہ داری ڈال دی ہے اس لحاظ سے بھی کہ اگر گھریلو چھوٹے چھوٹے معاملات میں عورت اور مرد کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں ہوجاتی ہے، ناچاقیاں ہو جاتی ہیں تو مرد کو کہا کہ کیونکہ تمہارے قویٰ مضبوط ہیں، تم قوّام ہو، تمہارے اعصاب مضبوط ہیں اس لئے تم زیادہ حوصلہ دکھاؤاور معاملے کوحوصلے سے اس طرح حل کر و کہ یہ ناچاقی بڑھتے بڑھتے کسی بڑی لڑائی تک نہ پہنچ جائےاور پھر طلاقوں اور عدالتوں تک نوبت نہ آجائے۔ پھر گھر کے اخراجات کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالی گئی ہے۔ ‘‘

(جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

اپنے اسی خطاب کے دوران حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے سورۃالنساء آیت 20 کی تلاوت اور ترجمہ بیان کرنے کے بعد اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرۡہًا ؕ وَ لَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ لِتَذۡہَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۚ وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا۔ (النساء: 20)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبردستی کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو۔ اور انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہیں دے بیٹھے ہو اس میں سے کچھ(پھر) لے بھاگو، سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بےحیائی کی مرتکب ہوئی ہوں۔ اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ اور اگر تم اُنہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔

اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو۔ جن کو تم دوسرے گھروں سے بیاہ کر لائے ہو ان کے عزیز رشتے داروں سے ماں باپ بہنوں بھائیوں سے جدا کیا ہے ان کو بلاوجہ تنگ نہ کرو، ان کے حقوق ادا کرو اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے کے بہانے تلاش نہ کرو۔ ‘‘

(جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 82تا85)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button