اِس زمانہ کے اکثر مسلمان اسلامی روحانیت سے بہت دُور جا پڑے ہیں
اکثر لوگوں کو مَیں دیکھتا ہوں کہ ان کا اوّل اور آخر برابر نہیں ہوتا اور ادنیٰ سی ٹھوکر یا شیطانی وسوسہ یابدصحبت سے وہ گر جاتے ہیں۔ مگر اس جوانمرد مرحوم کی استقامت کی تفصیل میں کن الفاظ سے بیان کروں کہ وہ نورِ یقین میں دمبدم ترقی کرتا گیا۔ اور جب وہ میرے پاس پہنچا تو مَیں نے اُن سے دریافت کیا کہ کن دلائل سے آپ نے مجھے شناخت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے قرآن ہے جس نے آپ کی طرف میری رہبری کی اور فرمایا کہ مَیں ایک ایسی طبیعت کا آدمی تھا کہ پہلے سے فیصلہ کر چکا تھا کہ یہ زمانہ جس میں ہم ہیں۔ اِس زمانہ کے اکثر مسلمان اسلامی روحانیت سے بہت دُور جا پڑے ہیں۔ وہ اپنی زبانوں سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ مگر اُن کے دِل مومن نہیں۔ اور اُن کے اقوال اور افعال بدعت اور شرک اور انواع و اقسام کی معصیت سے پُر ہیں۔ ایسا ہی بیرونی حملے بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ اوراکثر دِل تاریک پردوں میں ایسے بیحس و حرکت ہیں کہ گویا مر گئے ہیں۔ اور وہ دین اور تقویٰ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے جس کی تعلیم صحابہ رضی اللہ عنہم کو دی گئی تھی۔ اور وہ صدق اور یقین اور ایمان جو اس پاک جماعت کو ملا تھا بلاشبہ اب وہ بباعث کثرت غفلت کے مفقود ہے۔ اور شاذنا درحکم معدوم کا رکھتا ہے۔ ایسا ہی میں دیکھ رہا تھا کہ اسلام ایک مردہ کی حالت میں ہورہا ہے۔ اور اب وہ وقت آگیا ہے۔ کہ پردہ غیب سے کوئی منجانب اللہ مجدد دین پیدا ہو۔ بلکہ میں روز بروز اس اضطراب میں تھا کہ وقت تنگ ہوتا جاتا ہے۔ انہیں دنوں میں یہ آواز میرے کانوں تک پہنچی کہ ایک شخص نے قادیان ملک پنجاب میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اور مَیں نے بڑی کوشش سے چند کتابیں آپ کی تالیف کردہ بہم پہنچائیں۔ اور انصاف کی نظر سے ان پر غور کر کے پھر قرآن کریم پر ان کو عرض کیا تو قرآن شریف کو ان کے ہر ایک بیان کا مصدق پایا۔ پس وہ بات جس نے پہلے پہلے مجھے اس طرف حرکت دی وہ یہی ہے کہ مَیں نے دیکھا کہ ایک طرف تو قرآن شریف بیان کررہا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں اور واپس نہیں آئیں گے۔ اور دوسری طرف وہ موسوی سلسلہ کے مقابل پر اس امت کو وعدہ دیتا ہے کہ وہ اس امت کی مصیبت اور ضلالت کے دنوں میں ان خلیفوں کے رنگ میں خلیفےبھیجتا رہے گا جو موسوی سلسلہ کے قائم اور بحال رکھنے کیلئے بھیجے گئے تھے۔سو چونکہ ان میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ایسے خلیفےتھے جو موسوی سلسلہ کے آخر میں پیدا ہوئے اور نیز وہ ایسے خلیفےتھے کہ جو لڑائی کے لیے مامور نہیں ہوئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ کے کلام سے ضرور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے رنگ پر بھی اس اُمت میں آخری زمانہ میں کوئی پیدا ہو۔ اسی طرح بہت سے کلمات معرفت اور دانائی کے اُن کے منہ سے مَیں نے سُنے جو بعض یاد رہے اور بعض بھول گئے اور وہ کئی مہینہ تک میرے پاس رہے۔ اور اس قدر اُن کو میری باتوں میں دلچسپی ہوئی کہ انہوں نے میری باتوں کو حج پر ترجیح دی اور کہا کہ میں اس علم کا محتاج ہوں جس سے ایمان قوی ہو اور علم عمل پر مقدم ہے۔ سو مَیں نے اُن کو مستعد پاکر جہاں تک میرے لئے ممکن تھا اپنے معارف اُن کے دل میں ڈالے اور اس طرح پر اُن کو سمجھایا کہ دیکھو یہ بات بہت صاف ہے۔ کہ اللہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
اِنَّا اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا(المزمل:16)۔
جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے ایک رسول کو جو تم پر گواہ ہے یعنی اس بات کا گواہ کہ تم کیسی خراب حالت میں ہو تمہاری طرف اسی رسول کی مانند بھیجا ہے جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ سو اس آیت میں اللہ جلشانہ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ ٹھہرایا ہے۔ پھر سورۂ نور میں سلسلہ خلافت محمدیہ کو سلسلہ خلافت موسویہ کا مثیل ٹھہرا دیا ہے۔ سو کم سے کم تحقق مشابہت کے لیے یہ ضروری ہے کہ دونوں سلسلوں کے اوّل اور آخر میں نمایاں مشابہت ہو۔ یعنی یہ ضروری ہے کہ اس سلسلہ کے اوّل پر مثیل موسیٰ ہو اور اس سلسلہ کے آخیر میں مثیل عیسٰی۔ اور ہمارے مخالف علماء یہ تو مانتے ہیں کہ سلسلہ ملت اسلامیہ مثیل موسیٰؑ سے شروع ہوا مگر وہ سراسر ہٹ دھرمی سے اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ خاتمہ اس سلسلہ کا مثیل عیسیٰ پر ہوگا۔ اور اس صورت میں وہ عمداً قرآن شریف کو چھوڑتے ہیں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن شریف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن کریم نے نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰؑ قرار دیا بلکہ آیت کما استخلف الذین من قبلہم (النور :56)میں تمام سلسلہ خلافت محمدیہ کوسلسلہ خلافت موسویہ کا مثیل قرار دیا ہے۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ10تا 12)