خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ جماعتِ احمدیہ برطانیہ 2021ء کے تیسرے روزسیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکااختتامی خطاب فرمودہ 08؍اگست 2021ء

ہم یہ ایمان اور یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم کامل اور مکمل اور ہر زمانے کے مسائل کا حل ہے اور

اس پر عمل کیے بغیر نہ ہی دنیا کے مسائل حل ہو سکتے ہیں نہ ہی معاشرے کے مختلف طبقوں کے حقوق ادا ہو سکتے

اللہ تعالیٰ ان دنیاداروں اور ان دنیاوی حکومتوں کو عقل دے اور اپنی اناؤں کی بجائے انسانیت کو بچانے کی فکر کرنے والے ہوں

قرآن کریم ،احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات کی روشنی میں اُن حقوق کا بیان جن پر عمل کر کے ہی حقیقت میں مختلف طبقوں کے حقوق قائم ہو سکتے ہیں

دوستوں، مریضوں، یتیموں کے حقوق اور جنگ کرنے والوں کے حقوق نیز معاہدوں کی پاسداری کی بابت اسلام کی بے مثال تعلیمات کا بصیرت افروز

جلسہ سالانہ جماعتِ احمدیہ برطانیہ 2021ء کے تیسرے روزسیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکامعرکہ آرا، بصیرت افروز اور دل نشیں اختتامی خطاب (فرمودہ 08؍اگست 2021ء بروزاتواربمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن ہمپشئر۔ یوکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج مَیں مختلف طبقات کے جو حقوق ہیں جیسا کہ کل میں نے لجنہ میں بھی اظہار کیا تھا ان کے بارے میں اسی تسلسل کو جاری رکھوں گا جو 2019ء کے جلسہ کی آخری تقریر میں مَیں نے کیا تھا۔ اورجو مختلف طبقوں کے اسلام نے قائم فرمائے ہیں اور یہ سب حقوق قرآن کریم ،حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات کی روشنی میں پیش کروں گا جن پر عمل کر کے ہی حقیقت میں مختلف طبقوں کے حقوق قائم ہو سکتے ہیں۔

ہم یہ ایمان اور یقین رکھتے ہیں کہ

قرآن کریم کی تعلیم کامل اور مکمل اور ہر زمانے کے مسائل کا حل ہے

اور اس پر عمل کیے بغیر نہ ہی دنیا کے مسائل حل ہو سکتے ہیں نہ ہی معاشرے کے مختلف طبقوں کے حقوق ادا ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں دنیا کے سامنے اس تعلیم کو پیش کرنے کے لیے کسی شرم، جھجک اور احساس کمتری کی ضرورت نہیں۔ ہمیں حقوق کے بارے میں دنیا داروں کے بنائے ہوئے اصول و قواعد کو اپنانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی قسم کا دفاعی انداز اپنانے کی ضرورت ہے بلکہ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں دنیاداروں کو اور حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو اسلامی تعلیم کی روشنی میں اپنے پیچھے چلنے کی دعوت کی ضرورت ہے تا کہ ہر لحاظ سے ہر طبقہ کے حقوق کی حفاظت ہو اور دنیا میں امن اور سلامتی کی فضا حقیقت میں پیدا ہو اور قائم ہو۔ یہ یقینی بات ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے حقوق اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس بات پر یقین نہ ہو کہ ہمارا ایک پیدا کرنے والا خدا ہے اور اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ’’حق اللہ کیا ہے؟ یہی کہ اس کی عبادت کرنا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا اور ذِکرُاللّٰہ میں لگے رہنا۔ اس کے اوامر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کرنا، اس کے محرمات سے بچتے رہنا۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ319)

اور جب خدا تعالیٰ کا یہ تصور ہو گا تو پھر اس کے احکامات پر بھی عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور اس کے احکامات کی ایک بہت بڑی اکثریت اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو سب طاقتوں کا مالک ہے، ربّ ہے، ہر چیز دینے والا ہے اس کی شکرگزاری ایک انسان پر لازم ہے کہ کس طرح وہ اپنی ربوبیت، رحمانیت اور رحیمیت کے نظارے دکھاتا ہے۔ اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم سے کوئی نیک سلوک کرے اور تم اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ کے بھی شکرگزار نہیں ہو۔

(سنن الترمذی ابواب البرّ والصّلۃ بَابُ مَا جَاءَ فِي الشُّكْرِ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَيْكَ حدیث1954)

پس اللہ تعالیٰ نے تو ہر موقع پر ہمیں بتایا کہ تم ایک دوسرے کے حق ادا کرو تبھی میرے حق ادا کرنے والے بنو گے۔

اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کے لیے بھی بندوں کی شکرگزاری

کا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کو بھی بندوں کے حق کی ادائیگی سے مشروط کر دیا۔ پس یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور یہ ہے اسلام کا خدا جو ایک دوسرے کے حقوق کو اس طرح قائم کرنے کی تلقین فرماتا ہے۔

اب میں بعض حقوق کا ذکر کروں گا۔ پہلے میں جو حقوق بیان کر چکا ہوں اس میں حقوق اللہ کے کچھ ذکر کے ساتھ والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، بچوں اور بچیوں کے حقوق، میاں بیوی کے حقوق، بہن بھائی کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، ہمسایوں کے حقوق، بیواؤں کے حقوق ، بوڑھوں کے حقوق، دشمنوں کے حقوق، غلام اور لونڈی کے حقوق، غیرمسلموں کے حقوق کا ذکر تھا۔ اب ان حقوق کی تفصیل ہی ایسی ہے کہ دنیا دار اس کے قریب بھی پہنچ نہیں سکتے اور یہیں پر بس نہیں جیسا کہ میں نے کہا کچھ اَور بھی حقوق کی فہرست ہے جس میں سے کچھ کا آج میں ذکر کروں گا جن کے قائم کرنے کی اسلام اپنے ماننے والوں کو تلقین کرتا ہے کہ یہ ادا کرو تب تم حقیقی مومن اور مسلمان کہلا سکتے ہو بلکہ جب ہم تفصیل میں جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام جانوروں تک کے حقوق قائم کرتا ہے اور پھر یہ نہیں کہ حکم دے دیا کہ یہ حقوق قائم کرو۔ اسلام کی تعلیم پر چلنے والوں نے اس پر عمل کر کے بھی دکھایا ۔

بہرحال آج بیان کرنے کے لیے مختلف طبقات کے جو حقوق میں نے منتخب کیے ہیں ان میں سے ایک

دوستوں کا حق

ہے۔ دیکھیں کس تفصیل سے اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے کہ تمہارے حقیقی دوست وہی ہو سکتے ہیں جن کے دل صاف ہیں۔ اگر دل صاف نہیں تو پھر دوستی کیسی اور جب ایسے لوگوں کو دوست بنا لو جن کے دل صاف ہیں تو پھر ان کا حق بھی ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ۚۖ وَ مَا تُخۡفِیۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَکۡبَرُ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ (آل عمران:119)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے لوگوں کو چھوڑ کر دوسروں کو جگری دوست نہ بناؤ۔ وہ تم سے برائی کرنے میں کوئی کمی نہیں کرتے۔ وہ پسند کرتے ہیں کہ تم مشکل میں پڑو۔ یقیناً بغض ان کے مونہوں سے ظاہر ہو چکا ہے اور جو کچھ ان کے دل چھپاتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ یقیناً ہم تمہارے لیے آیات کو کھول کھول کر بیان کر چکے ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔

پھر اللہ تعالیٰ نے دوستوں کو بھی قریبی رشتہ داروں کی فہرست میں شامل کر کے بھائی چارے کی ایسی فضا پیدا کی ہے جو قربت کے احساس کو بڑھائے۔ دوستوں کے معیار کیا ہونے چاہئیں؟ جب اس طرح دوستی ہو جائے تو اسے قائم بھی رکھنا ہے۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت ابواُمَامہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اللہ کی خاطر محبت کی اور اللہ کی خاطر نفرت کی اور اللہ کی خاطر دیا اور اللہ ہی کی خاطرکچھ دینے سے رکا رہا تو یقیناًً اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔

(سنن ابو داؤد کتاب السنۃ باب الدلیل علی زیادة الایمان ونقصانہ حدیث4681)

خدا کی خاطر دوستی نبھانا ، یہی حقیقی دوستی قائم رکھ سکتا ہے اور رکھتا ہے۔ عارضی دوستی نہیں ہوتی جس میں دراڑیں پڑ جائیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی محبت کے بغیر دوستی ہے وہ دوستی عارضی ہوتی ہے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً اللہ کے بندوں میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جو انبیاء اور شہیدوں میں سے نہ ہوں گے لیکن قیامت والے دن اللہ کے پاس ان کے رتبہ کی تعریف انبیاء اور شہداء بھی کر رہے ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! کون لوگ ہوں گے وہ؟ آپؐ نے فرمایا وہ جو اللہ کی خاطر محبت کرنے والے ہوں گے کیونکہ ان کے درمیان نہ کوئی رشتہ داری ہو گی نہ ہی کوئی لین دین کا معاملہ ہو گا ۔ اللہ کی قسم! ان کے چہرے نور سے پُر ہوں گے اور وہ نور سے بھرے ہوں گے۔ جب قیامت والے دن لوگ خوفزدہ ہوں گے تو اس وقت ان کو نہ تو خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔(سنن ابو داؤد ابواب الاجارة باب فی الرھن حدیث3527)
پس یہ ہے آپس کی محبت اور دوستی کرنے کا نتیجہ اور اللہ تعالیٰ کا ہم پہ یہ احسان۔

پھر حضرت ابودرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بھی مسلمان اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں دعا مانگتا ہے تو فرشتہ اس کے حق میں کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی اسی طرح ہو۔

(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار باب فضل الدعاء المسلمین بظھر الغیب حدیث6927)

یہاں صرف حقیقی بھائی مراد نہیں ہے ان کے لیے تو عموماً انسان دعا مانگتا ہے۔ اس بھائی چارے میں غیر رشتہ دار اور دوست بھی شامل ہیں۔ اسلام نے پیار کی ایسی بنیاد ڈالی ہے کہ جس کی مثال نہیں ہے۔ یہ بھائی چارہ اور دوستی ہی ہے جو ایک دوسرے کے لیے دعا کرنے کی طرف راغب کرتی ہے اور فرشتوں کی دعا لینے کا بھی ذریعہ بن جاتی ہے۔

پھر حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آپس میں بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو اور

اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی ہو جاؤ

اورکسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔(صحیح بخاری کتاب الادب باب الھجرة حدیث۶۰۷۶)یہ ہے بھائی چارے کا اور دوستی کا حق ادا کرنا۔

حضرت ابواُسَید مالک بن رَبِیعہ سَاعِدی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ بنو سَلَمَہ میں سے ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے والدین کی وفات کے بعد کیا اب بھی ان سے نیکی کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا، ان کے عہد کو ان کے بعد پورا کرنا۔ جو بھی انہوں نے عہد کیے تھے ان کوپورا کرنا اور اس رشتہ سے صلہ رحمی کرنا جس سے صلہ رحمی صرف انہی کے واسطے سے کی جاسکتی تھی اور ان کے دوست کے ساتھ عزت سے پیش آنا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب، ابواب النوم ،باب في بر الوالدين حدیث5142)

اب یہاں صرف ہم مذہب دوست مراد نہیں یا انہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ عمومی دوست کا ذکر ہے۔ یہ ہے دوستی کاحق کہ والدین کے دوستوں کا بھی تم نے حق ادا کرنا ہے۔

حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے والد کے دوستوں کی خاطر مدارات کرے جبکہ والد کا انتقال ہو چکا ہو۔(سنن ابی داؤد کتاب الادب ، ابواب النوم ،باب في بر الوالدين حدیث5143)مزید اسے کھولا اور نسلوں تک دوستی کا یہ حق قائم فرما دیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:’’اصل بات یہ ہے کہ ہمارے دوستوں کا تعلق ہمارے ساتھ اعضاء کی طرح سے ہے اور یہ بات ہمارے روز مرہ کے تجربہ میں آتی ہے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے عضو مثلاً انگلی ہی میں درد ہو تو سارا بدن بے چین اور بے قرار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ٹھیک اسی طرح ہر وقت اور ہر آن میں ہمیشہ اسی خیال اور فکر میں رہتا ہوں کہ میرے دوست ہر قسم کے آرام اورآسائش سے رہیں۔ یہ ہمدردی اور یہ غمخواری کسی تکلف اور بناوٹ کی رو سے نہیں بلکہ جس طرح والدہ اپنے بچوں میں سے ہر واحد کے آرام وآسائش کے فکر میں مستغرق رہتی ہے خواہ وہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں اسی طرح مَیں لِلّٰہی دلسوزی اور غمخواری اپنے دل میں اپنے دوستوں کے لیے پاتا ہوں اور یہ ہمدردی کچھ ایسی اضطراری حالت پر واقع ہوئی ہے کہ جب ہمارے دوستوں میں سے کسی کا خط کسی قسم کی تکلیف یا بیماری کے حالات پر مشتمل پہنچتا ہے تو طبیعت میں ایک بے کلی اور گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے اور ایک غم شامل حال ہو جا تا ہے اور جوں جوں احباب کی کثرت ہوتی جاتی ہے۔ اسی قدر یہ غم بڑھتا جاتا ہے اور کوئی وقت ایسا خالی نہیں رہتا جب کہ کسی قسم کا فکر اور غم شامل حال نہ ہو کیونکہ اس قدر کثیر التعداد احباب میں سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی غم اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کی اطلاع پر ادھر دل میں قلق اور بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ میں نہیں بتلا سکتا کہ کس قدر اوقات غموں میں گزرتے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی ہستی ایسی نہیں جو ایسے ہموم اور افکار سے نجات دیوے۔ اس لیے میں ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہتا ہوں اور سب سے مقدم دعا یہی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں کو ہموم اور غموم سے محفوظ رکھے کیونکہ مجھے تو ان کے ہی افکار اور رنج غم میں ڈالتے ہیں اور پھر یہ دعا مجموعی ہیئت سے کی جاتی ہے کہ اگر کسی کو کوئی رنج اور تکلیف پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کو نجات دے۔ ساری سر گرمی اور پورا جوش یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کروں۔ دعا کی قبولیت میں بڑی بڑی امیدیں ہیں ۔‘‘

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 105-106)

یہ تو افراد جماعت کے لیے فرمایا۔ اسی طرح آگے بھی اپنے دوستوں کے لیے فرمایا کہ ’’ہمارا تعلق دوستوں سے اس قدر ہے کہ جس قدر دوست ہوتے ہیں اور ان کے اہل و عیال ہیں گویا ہمارے ہی ہیں۔ کسی عزیز کے جدا ہونے پر اس قدر دکھ ہوتا ہے کہ جیسے کسی کو اپنے عزیز سے عزیز اولاد کے مر جانے کا ہوتا ہے۔‘‘

(ماخوذ از ملفوظات جلد 2صفحہ197)

پھر آپؑ

دوستی کے معیار

کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ کیا معیار ہونا چاہیے۔ ایک مثال دے کے بیان فرماتے ہیں کہ چوری بھی ایک بُری صفت ہے لیکن اگر اپنے دوستوں کی چیز بلا اجازت استعمال کر لی جائے تو معیوب نہیں۔ عام دنیاداروں میں دیکھا جاتا ہے بشرطیکہ دوست ہوں دوستی پکی ہے تو بغیر پوچھے بھی استعمال کر لی، چیز نکال لی تو کوئی بری بات نہیں۔ یہ چوری نہیں۔ واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ دو شخصوں میں باہمی دوستی کمال درجہ کی تھی اور ایک دوسرے کا محسن تھا۔ اتفاقاً ایک شخص سفر پر گیا۔ دوسرا اس کے بعد اس کے گھر میں آیا اور اس کی کنیزسے دریا فت کیا کہ میرا دوست کہا ں ہے؟ اس نے کہا کہ سفر کو گیا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ اس کے روپیہ والے صندوق کی چابی تیرے پاس ہے؟ کنیز نے کہاکہ ہاں میرے پا س ہے۔اس کے سیف (Safe)کی چابی میرے پاس ہے یہاں چھوڑ گیا ہے۔ اس نے کنیز سے وہ صندوق منگوایا وہ سیف منگوا کرجہاں رقم رکھی ہوئی تھی چابی لی اور خود کھول کر کچھ روپیہ اس میں سے لے لیا۔ جب صاحبِ خانہ (گھر والا )واپس آیا تو کنیز نے کہا کہ آپ کا دوست گھر میں آیا تھا۔ یہ سن کر صاحب خانہ کا رنگ زرد ہو گیا اور اس نے پو چھا کہ کیا کہتا تھا؟ کنیز نے کہاکہ اس نے مجھ سے صندوق اور چابی منگوا کر خود آپ کا روپیہ والا صندوق کھولا اور اس میں سے روپیہ نکال کرلے گیا۔ پھر تو وہ صاحب خانہ، جو گھر والا تھا، جو مالک تھا اس کنیز پر اس قدر خوش ہوا کہ بہت ہی پھولا اور صرف اس صلہ میں کہ اس نے اس کے دوست کا کہا مان لیا اس کو ناراض نہیں کیا۔ ناکام واپس نہیں لَوٹایا۔ اس کنیز کو اس نے آزاد کر دیا اور کہا کہ اس نیک کا م کے اجر میں جو کہ تجھ سے ہوا میں آج ہی تجھے آزاد کرتا ہوں ۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ268)

پس یہ ایسی دوستی اور اخوت ہے جس کا حق ایک دوسرے کو ادا کرنا چاہیے۔ اس دوستی کے حق کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کس خوبصورت انداز میں بیان فرماتے ہیں کہ’’میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مجھ سے عہد دوستی باندھے۔ مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں۔ ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گِرا ہوا ہو اور لوگوں کا ہجوم اس کے گرد ہو تو بلا خوف لومۃ لائم کے اسے اٹھا کر لے آئیں گے۔ عہد دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے۔ اس کو آسانی سے ضائع کر دینا نہ چاہئے اور دوستوں سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آوے اسے اغماض اور تحمل کے محل میں اتارنا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 8)

اب کوئی مرید تو ایسی بات نہیں کرے گا۔ یہ آپ عام دوستوں کی ہی بات کر رہے ہیں۔ یہ ہے دوستی کے حق کا معیار کہ ایک دفعہ دوست کہہ دیا تو پھر آخر تک اس کا ساتھ نبھایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بچوں کا کام ہے کہ اپنے والدین کے دوستوں سے بھی حسن سلوک کریں اور ان کا حق ادا کریں۔ جیسا کہ بیان ہوا ۔

پھر اسلام نے روزے کی بھی مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے لیکن

مریض کا حق

بھی قائم فرما دیا ۔ اگر مریض ہے تو روزہ کی رخصت ہے جب تک کہ صحت نہیں ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ (البقرۃ:185)گنتی کے چند دن ہیں پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا کسی سفر پر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے۔ پس یہ حق ہے کہ اس کو چھوٹ بھی دے دی۔ یہ نہیں ہے کہ ضرور مریض نے بھی روزہ رکھنا ہے۔ بعض زبردستی اپنے اوپر ٹھونس لیتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اسلام نے تمہیں اجازت دی ہے کہ اگر تم نے سفر میں یا مریض ہونے کی حالت میں رکھ بھی لیا ہے تو بعد میں بہرحال پورا کرنا پڑے گا۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد9صفحہ430)

پھر مریض کا اسلامی معاشرے میں حق قائم کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی خواہشات کا بھی احترام کرنے کی ہدایت ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی عیادت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کو کیا خواہش ہے؟ اس کی خواہش پوچھی۔ وہ بولا مجھے گندم کی روٹی کی خواہش ہے۔ یہ حال تھا صحابہ ؓکا کہ گندم کی روٹی میسر نہیں تھی۔ یہ خواہش تھی کہ گندم کی روٹی تھوڑی سی مل جائے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس گندم کی روٹی ہو وہ اپنے بھائی کے لیے بھجوا دے۔ اب یہ کوئی عام چیز نہیں تھی کہ ہر ایک کے گھر میں موجود ہے۔ فرمایا جس کے پاس ہے وہ اس کی خواہش پوری کر دے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا مریض کسی چیز کی خواہش کرے تو اس کو وہ کھلا دیا کرو۔

(سنن ابن ماجه كتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِي عِيَادَةِ الْمَرِيضِ حدیث 1439)

حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مریض کی عیادت کی تو آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ تُو بہت اچھا ہے۔ تیرا چلنا بہت اچھا ہے اور تُو نے جنت میں اپنا گھر بنا لیا ہے۔

(سنن ابن ماجه كتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ مَنْ عَادَ مَرِيضًاحدیث1443)

مریض کی عیادت پہ بھی اللہ تعالیٰ اس طرح نوازتا ہے۔

مریض کے لیے دعا

بھی اس کا حق ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اسوہ کیا تھا۔ حضرت عائشہ بنت سعدؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد حضرت سعدؓ نے کہا میں بیمار ہو گیا۔ اس وقت میں مکہ میں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپؐ نے اپنا دستِ مبارک میری پیشانی پر رکھا۔ پھر میرے سینے اور پیٹ پر اپنا ہاتھ پھیرا۔ پھر کہا اے ہمارے اللہ !سعد کو شفا عطا فرما اور ان کی ہجرت مکمل فرما۔(سنن ابي داؤد كتاب الجنائز باب الدُّعَاءِ لِلْمَرِيضِ بِالشِّفَاءِ عِنْدَ الْعِيَادَةِ حدیث 3104)لمبی زندگی کی دعا دی۔

مریض کی عیادت کرنا اور اس کا حق ادا کرنا کتنا بڑا اجر دیتا ہے، اس بارے میں حضرت علی ؓنے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جو اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے آیا وہ جنت کے پھل کی چنائی کے وقت اس میں چل رہا ہے یہاں تک کہ وہ بیٹھ جائے۔ جب وہ بیٹھتا ہے تو رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے اگر صبح کا وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے اس پر رحمت بھیجتے ہیں یہاں تک کہ شام ہو جائے اور اگر شام کا وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے اس پر رحمت بھیجتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔(سنن ابن ماجه كتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ مَنْ عَادَ مَرِيضًا حدیث نمبر: ۱۴۴۲)تویہ ہے مریض کی عیادت کا اجر۔پھر

عیادت کا طریق

سکھاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابو اُمَامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مریض کی مکمل عیادت یہ ہے کہ تم میں سے عیادت کرنے والا اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھے جیسا کہ پہلے بھی حدیث میں گزر گیا۔ آپؐ نے جس طرح رکھا یا آپؐ نے فرمایا: اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھے۔ پھر اس سے پوچھے وہ کیسا ہے؟ اور تمہارا مکمل ترین تحفہ تمہارا آپس میں مصافحہ کرنا ہے۔

(سنن الترمذي كتاب الاستئذان والآداب عن رسول اللّٰه باب مَا جَاءَ فِي الْمُصَافَحَةِ حدیث نمبر 2731)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام مریضوں کے کس طرح حق ادا کرتے تھے اس بارے میں ایک روایت ہے۔ ایک قریشی صاحب کئی روز سے بیمار ہو کر دارالامان میں حضرت حکیم الامت کے علاج کے لیے آئے، علاج کروانے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے متعدد مرتبہ حضرت حجة اللہ کے حضور دعا کے لیے التجا کی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ہم دعا کریں گے۔ کہتے ہیں ایک دن شام کو اس نے بذریعہ حضرت حکیم الامت التماس کی کہ میں حضور مسیح موعود ؑکی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر پاؤں کے متورم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا۔ پاؤں سوجا ہوا ہے۔ چل نہیں سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اگلے دن ان کے مکان پر جا کر دیکھنے کا وعدہ فرمایا کہ کل میں آ جاؤں گا۔ چنانچہ وعدے کے ایفا کے لیے آپؑ سیر کو نکلتے ہی خدام کے حلقہ میں اس مکان پر پہنچے جہاں وہ فروکش تھا۔ آپؑ کچھ دیر تک مریض کے عام حالات دریافت فرماتے رہے اس کے پاس بیٹھے رہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد3 صفحہ317-318)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓکہتے ہیں کہ عیادت کے لیے بعض اوقات آپؑ نے سفر بھی کیے۔ لدھیانہ میں ایک میر عباس علی صاحب صوفی تھے۔ ابتدا میں حضرت اقدسؑ کے ساتھ ان کو بڑی محبت اور اخلاص تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی بیماری کا خط ملا۔ آپؑ نے باوجودیکہ خود بیمار تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور پھر مصروف بھی تھے مگر حقِ دوستی اور اخوت کی اس قدر رعایت کی کہ خود ان کی عیادت کے لیے لدھیانہ جانا ضروری سمجھا۔

مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس وعدے کے مطابق 14؍ اکتوبر 1884ء کو لدھیانہ تشریف لے گئے اور میر صاحب کی عیادت کر کے واپس چلے آئے اور خدا تعالیٰ نے میرصاحب کو شفا بھی دے دی۔

(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 183، 184)

پھر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام

مریضوں اور بیماروں کا کس طرح حق ادا فرمایا کرتے تھے

اس بارہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ لکھتے ہیں کہ بعض اوقات دوادرمل پوچھنے والی، دوائیاں لینے والی گنوار عورتیں زور سے دستک دیتیں اور اپنی سادہ اور گنواری زبان میں کہتیں کہ ’’مِرجا جی! جرا بوا کھولو تاں ‘‘کہ مرزا صاحب ذرا دروازہ تو کھولیں۔ حضرتؑ اسی طرح اٹھتے جیسے مطاع ذی شان کا حکم آیا ہے اور کشادہ پیشانی سے جیسے کسی بڑے حاکم نے حکم دیا ہے کہ دروازہ کھولو فوراً اٹھ کے دروازہ کھولتے اور کشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوا بتاتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں۔ جو پڑھے لکھے لوگ ہیں وہ بھی وقت کی قدر نہیں جانتے تو گنوار تو اَور بھی زیادہ وقت ضائع کرنے والے ہیں۔ ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ کرنا شروع کر دیا ہے اور گھنٹہ بھر اس میں ضائع کر دیا ہےلیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام وقار اور تحمل سے بیٹھے اس کی باتیں سن رہے ہیں۔ زبان سے یا اشارے سے اس کو کہتے نہیں کہ بس اب جاؤ۔ دوا پوچھ لی ہے جان چھوڑو میری۔ اب کیا کام ہے۔ ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ سیالکوٹی صاحبؓ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ جاؤ اب کیا کام ہے۔ ہمارا وقت ضائع کر رہی ہو تم۔ خود ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ جب کچھ دیر ہو جاتی ہے تو خود ہی اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ بہت سی گنواری عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں اتنے میں اندر سے بھی چند خدمت گار عورتیں شربت شیرہ کے لیے برتن ہاتھوں میں لیے آ نکلیں اور آپؑ کو دینی ضرورت کے لیے ایک بڑا اہم مضمون بھی لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا۔ میں بھی اتفاقاً جا نکلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں اور جیسے کوئی یورپین اپنی دنیاوی ڈیوٹی پر چُست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کچھ عرق دے رہے ہیں۔ مختلف دوائیاں دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا۔ دس پندرہ بیس منٹ نہیں، آدھا گھنٹہ، گھنٹہ نہیں، تین گھنٹے تک یہ بازار لگا رہا، اسی طرح دوائیاں دیتے رہے اور ہسپتال جاری رہا۔ فراغت کے بعد میں نے عرض کیا۔ حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے۔ لوگوں کی خدمت کرنا اور دوائیاں دینا۔ مریضوں کو پوچھنا، ان کا علاج کرنا یہ بھی تو دینی کام ہے۔ یہ مسکین لوگ ہیں۔ یہاں کوئی ہسپتال نہیں۔ میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا کر رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آ جاتی ہیں۔ اور فرمایا یہ بڑا ثواب کا کام ہے۔ مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پرواہ نہیں ہونا چاہیے۔

(ماخوذ از سیرت مسیح موعودؑ مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ صفحہ 35-36)

پھر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان کرتے ہیں کہ لالہ ملاوا مل صاحب جب ان کی عمر بائیس سال کی تھی وہ بعارضہ عِرق النساء بیمار ہو گئے غالباً گاؤٹ (gout)اس کو کہتے ہیں۔ یا شاید شیاٹیکا (sciatica)کو کہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ صبح شام ان کی خبر ایک خادم جمال کے ذریعہ منگوایا کرتے اور دن میں ایک مرتبہ خود تشریف لے جا کر عیادت کرتے۔ صاف ظاہر ہے کہ لالہ ملاوا مل صاحب ایک غیر قوم اور غیر مذہب کے آدمی تھے لیکن چونکہ وہ حضرت اقدسؑ کے پاس آتے جاتے رہتے تھے اور اس طرح پر ان کو ایک تعلق مصاحبت کا تھا۔ آپ کو انسانی ہمدردی اور رفاقت کا اتنا خیال تھا۔ یہاں صرف مریض کی بات نہیں آجاتی بلکہ دوستی کا بھی خیال رکھا ہے۔ اب غیرمذہب کا آدمی ہے اس کی دوستی کا بھی خیال ہے اور مریض کی تیمارداری کا بھی خیال ہے۔ رفاقت کا اتنا خیال تھا کہ ان کی بیماری میں خود ان کے مکان پر جا کر عیادت کرتے اور خود علاج بھی کرتے تھے۔ ایک دن لالہ ملاوا مل صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دوائی انہیں دی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رات بھر میں انیس مرتبہ لالہ صاحب کو اجابت ہوئی اور آخر میں خون آنے لگ گیا اور ضعف بہت ہو گیا۔ علی الصبح معمول کے موافق حضرت کا خادم دریافت حال کے لیے آیا تو انہوں نے اپنی رات کی حقیقت کہی اور کہا کہ وہ خود تشریف لائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ خود تشریف لائیں۔ حضرت اقدسؑ فوراً ان کے مکان پر چلے گئے اور لالہ ملاوا مل صاحب کی حالت کو دیکھ کے تکلیف ہوئی اور فرمایا کچھ مقدار زیادہ ہی تھی مگر فوراً آپ نے اسپغول کا لعاب نکلوا کر لالہ ملاوا مل صاحب کو دیا جس سے وہ سوزش اور خون کا آنا بھی بند ہو گیا اور ان کے درد کو بھی آرام آ گیا۔(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 170، 171)۔ دوستی کا اور ہمسائیگی کا اور مریض کی عیادت کا یہ حق ہے۔

پھر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ ہی لکھتے ہیں کہ ’’لالہ شرمپت رائے …… ایک مرتبہ وہ بیمار ہوئے ……ان کے شکم پر‘‘ (پیٹ پر) ’’ایک پھوڑا ہوا اور اس دنبل نے نہایت خطرناک شکل اختیار کی۔ حضرت اقدسؑ کو اطلاع ہوئی۔ آپؑ خود لالہ شرمپت رائے کے مکان پر جو نہایت تنگ و تار تھا تشریف لے گئے …… لالہ شرمپت رائے صاحب کو آپؑ نے جا کر دیکھا وہ نہایت گھبرائے ہوئے تھے۔ ان کو اپنی موت کا یقین ہو رہا تھا۔ بیقراری سے ایسی باتیں کر رہے تھے جیسا کہ ایک پریشان انسان ہو۔ حضرت صاحبؑ نے اس کو بہت تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں۔ میں ڈاکٹر عبداللہ صاحب کو مقرر کر دیتا ہوں وہ اچھی طرح علاج کریں گے۔ اس وقت قادیان میں ڈاکٹر صاحب ہی ڈاکٹری کے لحاظ سے اکیلے اور بڑے ڈاکٹر تھے۔ چنانچہ دوسرے دن حضرت اقدس ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لے گئے‘‘ (بھیجا نہیں صرف بلکہ ساتھ لے کر آئے) ’’اور ان کو خصوصیت کے ساتھ لالہ شرمپت رائے کے علاج پر مامور کر دیا اور اس علاج کا کوئی بار لالہ صاحب پر نہیں ڈالا گیا۔‘‘ (کوئی خرچہ بھی ان پہ نہیں ڈالا۔) ’’آپؑ روزانہ بلا ناغہ ان کی عیادت کو جاتے اور جب زخم مندمل ہونے لگا اور ان کی وہ نازک حالت عمدہ حالت میں تبدیل ہو گئی تو آپؑ نے وقفہ سے جانا شروع کیا مگر اس کی عیادت کے سلسلہ کو اس وقت تک جاری رکھا جب تک کہ وہ بالکل اچھا ہو گیا۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 170،169)

یہ اعلیٰ نمونے ہیں دوستی نبھانے کے بھی اور عیادت کے بھی اور مریض سے ہمدردی کے بھی جو آپؑ نے دکھائے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن پانچ باتوں کو ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حق کے بارے میں بیان فرمایا ہے ان میں سے ایک مریض کی عیادت بھی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ باتیں مسلمان کے مسلمان پر حق میں سے ہیں۔ یہ حق ہے۔ سلام کا جواب دینا ۔بلانے پر لبیک کہنا ۔جنازے میں حاضر ہونا ۔مریض کی عیادت کرنا اور چھینک مارنے والے کو جب وہ الحمدللّٰہ کہے، یرحمک اللّٰہ کہنا۔

(سنن ابن ماجه كتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِي عِيَادَةِ الْمَرِيضِ حدیث نمبر 1435)

پھر اگلا جو حق ہے جو میں نے آج لیا ہے وہ ہے

یتیموں کا حق۔

یتیموں کے حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کیا حکم فرماتا ہے۔ فرمایا:

وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ (الانعام: 153)

کہ اور سوائے ایسے طریق کے جو بہت اچھا ہو یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے ۔یعنی اگر کسی یتیم کی پرورش کرنی پڑے اور یتیم کا مال بھی ہو تو پرورش کے بہانے ناجائز طور پر اس کا مال نہ کھاؤ۔ اگر کوئی توفیق والا انسان ہے تو اپنی طرف سے اس کی پرورش میں خرچ کرتا رہے تو یہ سب سے زیادہ بہتر ہے لیکن اگر نہیں تو جو خرچ کرنا ہے وہ احتیاط سے کرو اور حسب ضرورت اتنا ہی خرچ کرو جتنی ضرورت ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۪ وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل: 35)

اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریق پر جو بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو۔ یقیناً عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس یہاں اس بات کی مزید وضاحت کر دی کہ

نہ صرف ناجائز طور پر یتیم کا مال نہیں کھانا بلکہ اس کی حفاظت بھی کرنی ہے

اور جب یتیم عقل و بلوغت کو پہنچے تو اس کو اس کا مال واپس کر دو۔ حفاظت کرنے سے یہ بھی مراد ہے کہ منافع بخش تجارت میں بھی اس کا مال لگایا جا سکتا ہے اور ایک یتیم کی پرورش کا یہی صحیح طریق ہے۔

پھر فرمایا:

وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَتِيْمًا وَاَسِيْرًا (الدھر:9)

اور وہ کھانے کو اس کی چاہت ہوتے ہوئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔ یہ ایک مومن کی شان ہے کہ ضرورت کے باوجود قربانی کر کے حق ادا کرتے ہیں۔

پھر فرمایا۔

كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ (الفجر: 18)

خبردار درحقیقت تم یتیم کی عزت نہیں کرتے۔ یتیم کی عزت نہیں کرتے یعنی کہ اس کا حق ادا نہیں کرتے تو پھر اس کی سزا بھی ملے گی اس لیے ہوشیار ہو۔

پھر فرمایا:

فَأَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ (الضحى: 10)

پس جہاں تک یتیم کا تعلق ہے اس پر سختی نہ کرو۔ یہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے یتیم کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے جو معاشرے کا کمزور حصہ ہے بلکہ کمزور ترین حصہ ہے جب تک بلوغت کو نہیں پہنچ جاتا اس کی حفاظت کرو۔ اس کے تمام حقوق کی حفاظت کرو اور یہی ایک مومن کے لیے لازمی شرط ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح قرآنی ارشادات کی روشنی میں یتیم کی خبرگیری کی تلقین فرمائی ہے اس کا مختلف روایات میں ذکر ملتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکی بیوی حضرت زینبؓ سے مروی ہے۔ وہ کہتی تھیں کہ میں مسجد میں تھی میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا تم عورتیں صدقہ کیا کرو خواہ اپنے زیور ہی کا۔ اور حضرت زینبؓ حضرت عبداللہؓ پر اور پھر چند یتیموں پر جو ان کی پرورش میں تھے خرچ کیا کرتی تھیں۔ اب آپؐ نے جب ارشاد فرمایا اس وقت حضرت زینبؓ خرچ کیا کرتی تھیں۔ یا اس سے پہلے خرچ کیا کرتی تھیں۔ بہرحال انہوں نے حضرت عبداللہ کو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کیا میری طرف سے کافی نہیں ہو گا کہ میں اسی صدقے سے تم پر اور ان یتیموں پر جو میری پرورش میں ہیں خرچ کروں ۔تو حضرت عبداللہؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود ہی پوچھو۔ اس لیے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی۔ میں نے دروازے پر انصارمیں سے ایک عورت پائی۔ اس کی حاجت بھی میری حاجت جیسی تھی، وہ بھی وہی سوال پوچھنا چاہتی تھی۔ اتنے میں حضرت بلالؓ ہمارے پاس سے گزرے۔ ہم نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کیا میری طرف سے یہ کافی ہو گا کہ میں اپنے خاوند اور چند ایسے یتیموں پر جو میری گود میں ہیں صدقہ سے خرچ کروں اور ہم نے کہا ہمارا پتہ نہ بتانا۔ یہ نہ بتانا کہ کس نے پوچھا ہے۔ چنانچہ وہ اندر گئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دو عورتیں کون ہیں جو سوال پوچھ رہی ہیں؟ حضرت بلالؓ نے کہا کہ زینب۔ آپؐ نے پوچھا زینبوں میں سے کون سی زینب؟ حضرت بلالؓ نے کہا عبداللہ بن مسعود ؓکی بیوی۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں اس کے لیے دو اجر ہیں۔ قرابت کا اجر اور صدقے کا اجر۔(صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ باب الزکوٰۃ علی الزوج و الایتام فی الحجر حدیث 1466)اس طرح جو خرچ کر رہی ہے اس کو یقیناً اجر ملے گا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یتیم کی پرورش کرنے والا اور مَیں جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ دونوں اور راوی مالک جو تھے وہ کہتے ہیں کہ شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے ذریعہ اشارہ فرمایا۔

(صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق باب الاحسان الی الارملۃ والمسکین و الیتیم حدیث 7469)

دونوں انگلیاں ملا کر فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں میرے ساتھ جنت میں ہوں گی اسی طرح میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں ہوں گے۔ صرف تعلیم ہی نہیں اس کی مثالیں بھی ہمیں ملتی ہیں۔ عَون بن ابو جُحَیْفَہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدقہ لینے والا آیا جس نے ہمارے امراء سے زکوٰة لے کر ہمارے غریبوں کو دی اور میں ایک یتیم لڑکا تھا سو انہوں نے مجھے اس مال میں سے ایک اونٹنی دی۔

(سنن الترمذی ابواب الزکوٰۃ باب ماجاء ان الصدقۃ توخذ من الاغنیاء فترد علی الفقراء حدیث 649)

اس زمانے میں یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ اونٹنی دی جائے اور وہ بھی ایک لڑکے کو جو یتیم لڑکا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں میں سے جو کسی یتیم کو اپنے ساتھ کھانے پینے میں شامل کرے تو بلا شک و شبہ اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔

(سنن الترمذی ابواب البر و الصلۃبَابُ مَا جَاءَ فِي رَحْمَةِ اليَتِيمِ وَكَفَالَتِهِ حدیث 1917)

پھر حضرت ابوہریرہؓ ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میں یقیناً دو کمزوروں کے حق کے بارے میں سختی سے انذار کرتا ہوں ایک یتیم کا اور ایک عورت کا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب حق الیتیم حدیث 3678)حق ادا نہیں کروگے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ جاؤ گے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوںمیں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہواور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہے اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب حق الیتیم حدیث 3679)

کس قدر ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ یتیم کا حق ادا نہ کرنے والوں کو بڑا انذار کیا گیا ہے، سخت تنبیہ کی گئی ہے۔پھر

یتیموں کی پرورش

کرنے والوں کو خوشخبری دیتے ہوئے ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے یتیموں میں سے تین کی پرورش کی وہ ایسا ہی ہے جیسے رات بھر وہ قیام کرتا رہا ہو۔ رات بھر وہ نفل پڑھتا رہا ہو اور دن میں روزہ رکھتا رہا ہو اور اپنی تلوار سونتے ہوئے اللہ کے راستے میں صبح نکلا اور شام کو نکلا اور میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح بھائی ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں اور آپ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا دیا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب حق الیتیم حدیث ۳۶۸۰)اتنا بڑا اجر ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ’’ایک جگہ فرمایا

یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِـیْمًا وَّ اَسِیْرًا اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّ لَا شُکُوْرًا (الدھر:9-10)

یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روٹی کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکرگزاری نہیں چاہتے اور نہ ہماری کچھ غرض ہے۔ ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارا مطلب ہے۔‘‘ یعنی صرف ہمیں خدا کی رضا چاہیے۔ ’’اب سوچنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادت الٰہی اور اعمال صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبت الٰہی اور رضائے الٰہی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آوے…… خدا تعالیٰ نے تو اس دین کا نام اسلام اس غرض سے رکھا ہے کہ تا انسان خدا تعالیٰ کی عبادت نفسانی اغراض سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے کرے۔‘‘ کسی ذاتی غرض سے عبادت نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا، اس کی رضا حاصل کرنے کا ایک جوش ہو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے ’’کیونکہ اسلام تمام اغراض کے چھوڑ دینے کے بعد رضا بقضا کا نام ہے۔ دنیا میں بجز اسلام ایسا کوئی مذہب نہیں جس کے یہ مقاصد ہوں۔‘‘ فرمایا ’’بیشک خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت جتلانے کے لئے مومنوں کو انواع اقسام کی نعمتوں کے وعدے دئیے ہیں مگر مومنوں کو جو اعلیٰ مقام کے خواہش مند ہیں یہی تعلیم دی ہے کہ وہ محبت ذاتی سے خدا تعالیٰ کی عبادت کریں۔‘‘

(نورالقرآن نمبر 2 ،روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 440-441)

اور اس کے لیے یہ یتیموں اور مسکینوں کا حق ادا کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک بچہ یتیم رہ گیا تو صحابہ میں آپس میں لڑائی شروع ہو گئی۔ ایک کہتا تھا کہ میں اس کی پرورش کروں گا۔ دوسرا کہتا تھا اس کی پرورش مَیں کروں گا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ معاملہ پہنچا تو آپؐ نے فرمایا کہ بچہ سامنے کرو اور وہ جس کو پسند کرے اس کے سپرد کر دو۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 497)پس اس طرح صحابہ یہ فرض ادا کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔

اسلام

معاہدوں کی پابندی

کی بڑی شدت سے تلقین کرتا ہے کہ معاہدے جو تم کرتے ہو ان کا بھی حق تم نے کس طرح ادا کرنا ہے اور ہر صورت میں انہیں پورا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ بعض دفعہ دشمن نے چالاکی سے کسی مسلمان سے معاہدہ کر لیا تو پھر اس وقت بھی اس وقت کے خلیفہ نے کہا کہ اسے نبھایا جائے۔ چنانچہ ایک واقعہ تاریخ میں آتا ہے۔حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک حبشی غلام نے ایک قوم سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ فلاں فلاں رعایتیں تمہیں دی جائیں گی۔ جب اسلامی فوج گئی۔ اس قوم نے کہا ہم سے تو یہ معاہدہ ہے۔ فوج کے اعلیٰ افسر نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل کی اور بات حضرت عمرؓ تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ مسلمان کی بات جھوٹی نہیں ہونی چاہیے چاہے غلام نے ہی معاہدہ کیا ہے۔(ماخوذ از بعض ضروری امور، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 405)ایک معاہدہ کر لیاہے تو اب ہمیں اس کو پورا کرنا چاہیے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ معاہدوں کی پابندی کرنے کے بارے میں فرماتا ہے۔

اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ثُمَّ لَمۡ یَنۡقُصُوۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَمۡ یُظَاہِرُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَحَدًا فَاَتِمُّوۡۤا اِلَیۡہِمۡ عَہۡدَہُمۡ اِلٰی مُدَّتِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ۔(التوبہ: 4)

سوائے مشرکین میں سے ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا ہے پھر انہوں نے تم سے کوئی عہد شکنی نہیں کی اور تمہارے خلاف کسی اور کی مدد بھی نہیں کی پس تم ان کے ساتھ معاہدہ کو طے کردہ مدت تک پورا کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت کرتا ہے۔ پس تقویٰ پر چلنے والوں کی ایک شرط معاہدوں کی پابندی ہے اور اس کا حق ادا کرنا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جس نے ایسے آدمی کو قتل کیا جس سے معاہدہ ہو اس نے جنت کی خوشبو نہ سونگھی جبکہ جنت کی خوشبو تو ایسی ہے کہ چالیس برس کی مسافت پر بھی محسوس ہوتی ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الجزیہ والموادعہ بَابُ إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَيْرِ جُرْمٍ حدیث 3166)

اس طرح پھیلی ہوئی ہے جنت کی خوشبو لیکن جس نے معاہدہ توڑ دیا وہ اس سے محروم رہ گیا۔

صحابہ کرامؓ کے چند صاحبزادوں سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے آباء سے سنا جو ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی ذمی شخص پر ظلم کرے گا یا اس کے حق میں کسی قسم کی کمی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر ذمہ داری ڈالے گا یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی چیز حاصل کرے گا تو میں قیامت کے دن ایسے شخص سے جھگڑا کروں گا۔

(سنن ابی داؤد كتاب الخراج والفيء والإمارة باب فِي تَعْشِيرِ أَهْلِ الذِّمَّةِ إِذَا اخْتَلَفُوا بِالتِّجَارَاتِ حدیث 3052)

اس لیے کہ ذمی سے بھی ایک معاہدہ ہے اورمسلمان پر اس کے حقوق کی حفاظت کرنے کا فرض ہے۔

پھر آپؐ نے معاہدات کا کس حد تک پاس فرمایا اس بارے میں حضرت عبدالرحمٰن بن بَیْلَمَانِیبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمیوں میں سے ایک آدمی کے بدلے میں اہل قبلہ یعنی مسلمانوں میں سے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور فرمایا کہ میں ان لوگوں میں سب سے زیادہ حق دار ہوں جو اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں ۔

(سنن الدّارقطنی کتاب الحدود والدّیات وغیرہ المجلد الثانی الجزء الثالث حدیث 3234 صفحہ 101

دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

یعنی اس مسلمان نے ذمی کو قتل کیا تھا تو اس کی وجہ سے اس کو بھی قتل کیا۔

حضرت عِرْبَاض بن سَارِیۃسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر میں اترے اور آپؐ کے صحابہ بھی آپؐ کے ساتھ تھے اور خیبر کا حاکم ایک فتنہ انگیز اور شریر آدمی تھا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے محمدؐ !کیا تمہارے لیے جائز ہے کہ تم ہمارے گدھوں کو ذبح کرو اور ہمارے پھل کھا جاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو۔ اس کی بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: اے ابن عوف! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر منادی کر کہ غور سے سنو۔ یقیناً جنت صرف مومنوں کے لیے حلال ہے اور تم سب نماز کے لیے اکٹھے ہو جاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر آپؐ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر ٹیک لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف انہی چیزوں کو حرام کیا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے؟ غور سے سنو۔اللہ کی قسم !میں نصیحت کر چکا ہوں اور تمہیں اوامر اور نواہی سے آگاہ کر چکا ہوں۔ بہت سارے اوامر اور نواہی ہیں جن سے متعلق مَیں بتا چکا ہوں۔ وہ اتنی چیزیں ہیں جو قرآن کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہیں اور یقیناً اللہ تعالیٰ عزوجل نے تمہارے لیے جائز نہیں کیا کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ہو جاؤ اور نہ ان کی عورتوں کو مارنے کی اجازت ہے اور نہ ان کے پھل کھانے کی جب کہ وہ تمہیں جزیہ دیں جو اُن پر واجب ہے۔(سنن ابی داؤد کتاب الخراج والامارۃ والفئ باب فی تعشیر اھل الذمۃ اذا اختلفوا بالتجارۃ حدیث۳۰۵۰) جب وہ جزیہ دے رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں۔

پھر حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ عامر کے دو آدمیوں کو مسلمانوں کے برابر دیت دی کیونکہ ان دونوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد و پیمان تھا۔(سنن الترمذی ابواب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب. حدیث ۱۴۰۴) قتل کیا تھا اس لیے دیت دی۔پس

غیر مسلم سے بھی معاہدے کی پابندی کرنا ضروری ہے

اور یہ اس کا حق ہے۔

صلح حدیبیہ میں ایک مشہور واقعہ ہے جو تاریخ میں آتا ہے اور اسے حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس طرح بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بڑی تاکید فرمائی ہوئی ہے کہ معاہدہ کسی سے ہو، کافر سے بھی ہو تو بدعہدی نہیں ہونی چاہیے۔ صلح حدیبیہ میں کفار سے ایک یہ بھی شرط ہوئی تھی کہ اگر تمہاری طرف سے کوئی آدمی ہمارے میں آ ملے گا تو ہم اسے تمہیں واپس لوٹا دیں گے اور ہمارا آدمی تم سے جا ملے تو تم اسے اپنے پاس رکھ سکو گے۔ اب یہ شرط بڑی کڑی شرط ہے۔ برابری کی شرط بھی نہیں ہے۔ عہد میں شرط لکھی جا چکی تھی اور ابھی دستخط نہیں ہوئے تھے کہ ایک شخص ابوجندل نامی جسے لوہے کی زنجیروں سے جکڑ کر رکھا جاتا اور جو بہت کچھ دکھ اٹھا چکا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آ کر اپنی حالتِ زار بیان کی اور عرض کی یا رسول اللہؐ! آپؐ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں۔ یہ لوگ میرے مسلمان ہونے کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف دیتے ہیں۔ صحابہ نے بھی کہا یا رسول اللہؐ! اسے ساتھ لے چلنا چاہیے۔ یہ کفار کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھا چکا ہے لیکن اس کے باپ نے آ کر کہا کہ اگر آپؐ اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے تو یہ غداری ہو گی۔ پھر معاہدہ توڑا آپؐ نے!؟ صحابہ نے کہا کہ ابھی عہد نامے پر دستخط نہیں ہوئے۔ اس نے کہا لکھا تو جا چکا ہے۔ دستخط نہیں ہوئے تو کیا ہو گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے واپس کر دو۔ ہم عہد نامہ کی رو سے اسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ٹھیک کہتا ہے اس کا باپ۔ صحابہ اس بات پر بہت تلملائے لیکن آپؐ نے اسے واپس ہی کر دیا اور وہ اسے لے گئے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو وہ پھر کسی طرح چھوٹ کر آپؐ کے پاس چلا آیا۔ اس کے پیچھے ہی دو آدمی اس کے لینے کے لیے آ گئے۔ انہوں نے آ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپؐ نے عہد کیا ہوا ہے کہ ہمارے آدمی کو آپ واپس کر دیں گے۔ آپؐ نے کہا کہ ہاں عہد ہے اسے لے جاؤ ۔ جو مسلمان دوڑ کے آیا تھا اس نے کہا: یا رسول اللہ ؐ! یہ لوگ مجھے دکھ دیتے ہیں۔ تنگ کرتے ہیں۔ آپؐ مجھے ان کے ساتھ نہ بھیجیں۔ آپؐ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں غداری نہ کروں اس لیے تم ان کے ساتھ چلے جاؤ۔ وہ چلا گیا اور راستے میں جا کر ایک شخص کو قتل کر کے پھر بھاگ آیا اور آ کر کہا یا رسول اللہ ؐ!آپ کا جو اُن سے عہد تھا وہ آپؐ نے پوراکر دیا لیکن میرا تو اُن سے کوئی عہد نہیں تھا کہ میں ان کے ساتھ جاؤں۔ اس لیے مَیں پھر آگیا ہوں۔ دوسرا شخص پھر اس کے لینے کے لیے آ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم تمہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ آپؐ نے پھر اسے واپس بھیج دیا لیکن بہرحال وہ اکیلا آدمی اسے نہ لے جا سکا اس لیے وہ رہ گیا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہی کہا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ مدینہ آنے کی بجائے کسی دوسرے علاقے میں چلا گیا لیکن وہاں نہیںآیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہی کہا کہ میں جو عہد کرچکا ہوں اس کے خلاف نہیں کروں گا۔ تو آپؐ نے باوجود کافروں سے عہد کرنے کے اور ایک مسلمان کے سخت مصیبت میں مبتلا ہونے کے اسے پورا کیا۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد 6 صفحہ 275-276 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 ستمبر 1916ء)

(شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 216 امر الحدیبیۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک شرط یہ ہوئی تھی کہ عرب کے جو قبائل چاہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جائیں اور جو چاہیں مکہ والوں سے مل جائیں اور دونوں فریق کا فرض ہے کہ نہ صرف آپس میں لڑائی سے بچیں بلکہ جو لوگ دوسرے فریق کے ساتھ مل جائیں ان سے بھی نہ لڑیں۔ مکہ والوں نے اس میں بدعہدی کی اور ایک قبیلہ جو مسلمانوں کا حلیف تھا اس پر انہوں نے حملہ کر دیا۔ ان لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی اور آپؐ نے اپنے دوست قبیلے کی حمایت پر مکہ پر چڑھائی کا فیصلہ کیا۔ معاہدہ کی رو سے یہ ان کا حق تھا کہ ان کی مدد کی جائے اور بہرحال اب مسلمانوں کا فرض تھا کہ اس کو پورا کریں اور ان کو حق دلوائیں اور مکہ والوں کو جو معاہدہ توڑنے کی سزا ہے وہ بھی دی جائے۔ بہرحال مکہ والوں کو خبر پہنچی۔ ابوسفیان کو انہوں نے بھیجا۔ وہ آیا۔ اس نے مسجد نبوی میں آ کے اعلان کیا کہ میں کیونکہ معاہدے میں شامل نہیں تھا اس لیے نئے سرے سے معاہدہ ہوتا ہے لیکن مسلمانوں نے کہا یہ بچوں والی باتیں نہ کرو۔ جو معاہدہ ہو گیا ہو گیا اور اب تم اس کو توڑ چکے ہو۔ اور وہ سخت شرمندہ ہو کر واپس گیا اور اس کے نتیجہ میں پھر فتح مکہ ہوئی۔

(ماخوذ از تحریک آزادی کشمیر ، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 112)

پھر

جنگ کرنے والوں کے حقوق

ہیں۔ عام طور پر جو جنگیں ہوتی ہیں یا آج کل بھی جو جنگیں ہوتی ہیں وہ صرف اپنی برتری ثابت کرنے اور اپنی حدود کو بھی بڑھانے کے لیے لڑی جاتی ہیں اور آج کل تو دوسرے ملکوں کے وسائل پر بھی کسی نہ کسی طریق سے قبضہ کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہ حقوق کی بات کرتے ہیں اور حق دوسروں کے غصب کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام میں جو جنگ کی اجازت ہے یا اسلام جو جنگ کی اجازت دیتا ہے تو امن قائم کرنے کے لیے، مذہبی آزادی کے لیے، ظلم کرنے والوں کے خلاف لڑنے کے لیے اور پھر لڑائی کے باوجود اس کے ساتھ ہی ان کے، دشمن کے حقوق بھی قائم کرتا ہے۔ چنانچہ جب پہلا حکم جنگ کی اجازت کا نازل ہوا تو اس میں اللہ تعالیٰ نے اجازت کی وجہ بتا کر اجازت دی تھی کہ

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُ ۔ (الحج:40)

کہ ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے قتال کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیے گئے اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ۔ (الحج:41)

وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے اور بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ اور یقیناً اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اگر ان لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی تو پھر تو کوئی مذہبی عبادت گاہ باقی نہیں رہے گی۔ یہ لوگ حملہ کر کے سب کچھ ختم کر دیں گے۔

پھر انصاف قائم کرنے کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اجازت دی کہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔ (المائدہ: 9)

اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو انصاف کرو۔ یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً ًاللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ قائم کرنےوالے کے حق کس طرح قائم فرمائے۔ اس بارے میں ایک روایت ہے۔

سلیمان بن بُرَیْدَہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لشکر یا مہم پر کوئی امیر مقرر فرماتے تو خاص اسے

اللہ کا تقویٰ

اختیار کرنے اور اپنے ساتھی مسلمان کے ساتھ بھلائی کی تاکید فرماتے۔ پھر آپؐ فرماتے کہ اللہ کے نام کے ساتھ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ کا انکار کرتے ہیں۔ جنگ کرو اور خیانت نہ کرنا۔ بدعہدی نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا اور جب تمہارا اپنے مشرک دشمنوں سے مقابلہ ہو تو انہیں تین باتوں کی دعوت دو۔ پس ان میں سے جو بھی وہ تمہاری طرف سے قبول کریں وہ ان سے قبول کر لو اور ان سے رک جاؤ۔ انہیں اسلام کی طرف بلاؤ۔ اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان سے قبول کر لو اور ان سے رک جاؤ۔ ان سے اپنے علاقے سے مہاجرین کے علاقے کی طرف منتقل ہونے کا مطالبہ کرو اور انہیں بتاؤ کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے بھی وہی حقوق ہوں گے جومہاجرین کے ہیں اور ان پر بھی وہی فرائض ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں۔ اگر وہ ان سے منتقل ہونے سے انکار کریں تو انہیں بتاؤ کہ ان کا معاملہ بدوی مسلمانوں کا سا ہو گا۔ ان پر بھی اللہ کا حکم ویسے ہی جاری ہو گا جیسے مومنوں پر نافذ ہے اور انہیں غنیمت اور فَے سے کچھ نہیں ملے گا سوائے اس کے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔ اگر وہ اس سے بھی انکار کریں تو ان سے جزیہ طلب کرو اور اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان سے قبول کرو اور ان سے رک جاؤ اور اگر وہ انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرو اور ان سے لڑائی کرو۔ اور اگر تم قلعہ والوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے اللہ اور اس کے نبی کی ذمہ داری مانگیں تو تم انہیں اللہ اور اس کے نبی کی ذمہ داری نہ دو بلکہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی ذمہ داری دو۔ وجہ کیا ہے؟ کیونکہ اگر تم اپنے یا اپنے ساتھیوں کی ذمہ داری کو پورا نہ کر سکو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری پوری نہ کرو۔ اگر وہ پوری نہ کر سکو گے تو پھر زیادہ گناہگار بنو گے اور تم جب کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے اللہ کے حکم پر اترنے کی اجازت مانگیں تو تم انہیں اللہ کے حکم پر نہ نکالو بلکہ اپنے حکم کے تحت نکالو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تم ان کے متعلق اللہ کا حکم ادا کر سکتے ہو یا نہیں۔(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب تأمير الإمام الأمراء على البعوث، ووصيتہ إياهم بآداب الغزو وغيرها حدیث ۴۵۲۲) جتنی نرمی ہو سکتی ہے وہاں کرنے کی ان کوتلقین فرمائی ہے۔

پھر ایک روایت میں ہے حضرت عبداللہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لُوٹ مار کرنے اور مُثلہ کرنے سے منع فرمایا۔

(صحیح بخاری كتاب الذبائح والصيد بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْمُثْلَةِ وَالْمَصْبُورَةِ وَالْمُجَثَّمَةِ حدیث نمبر 5516)

حضرت عبدالرحمٰن بن عائذؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی دستہ روانہ فرماتے تو یہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں کے ساتھ الفت پیدا کرو۔ ان پر اس وقت تک حملہ نہ کرو جب تک ان کو دعوت نہ دے دو۔ اس لیے کہ مجھے تمام اہل زمین کا خواہ وہ گھر میں رہنے والا ہو یا خیمہ میں ان کا مسلمان ہو کر آنا اس بات کی نسبت زیادہ پسندیدہ ہے کہ تم ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لاؤ اور مردوں کو قتل کرو۔

(کنز العمال کتاب الجہاد من قسم الافعال حدیث نمبر11396 الجزء 4 صفحہ 469 موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اللہ کے نام کے ساتھ نکلو اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کے دین پر نکلو اور کسی ضعیف العمر کو قتل نہ کرو اور نہ کسی بچے کو اور نہ کسی چھوٹے کو اور نہ کسی عورت کو اور تم خیانت نہ کرنا اور اپنے مال غنیمت اکٹھے رکھنا اور اپنے احوال کی اصلاح کرنا اور حسن معاملگی سے پیش آنا کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی دعاء المشرکین حدیث نمبر2614)

پھر ایک روایت ہے۔ حضرت اسود بن سریع ؓکہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر ایک دستہ روانہ فرمایا۔ انہوں نے مشرکین سے قتال کیا جن کا دائرہ وسیع ہوتے ہوتے ان کی اولاد کے قتل تک جا پہنچا۔ جب وہ لوگ واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کس چیز نے بچوں کے قتل پر مجبور کیا تھا۔ تمہارا تو یہ حق نہیں تھا بلکہ ان بچوں کا حق تم نے مارا ہے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! وہ تو محض مشرکین کے بچے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میں سے جو بہترین لوگ ہیں وہ مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! جو جان بھی دنیا میں جنم لیتی ہے وہ فطرت پر پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ اس کی زبان اپنا مافی الضمیر ادا کرنا شروع کر دے۔

(مسند احمد بن حنبل مسند الاسود بن سریع جلد 5صفحہ 365 حدیث 15673 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

حضرت رَبَاح بن رَبِیعؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنگ میں شریک تھے۔ آپؐ نے لوگوں کو دیکھا کہ کسی چیز کے ارد گرد جمع ہیں۔ آپؐ نے ایک شخص کو بھیجا کہ جا کر دیکھے کہ یہ مجمع کیسا ہے۔ اس نے جا کر دیکھا اور آ کر بتایا کہ ایک عورت قتل ہوئی ہے اس کے گرد یہ جمع ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اس کو کیوں مارا ہے؟ یہ تو لڑتی نہ تھی۔ لوگوں نے جواب دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اگلے مورچے پر خالد بن ولید ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ خالد بن ولید سے کہہ دو کہ نہ کسی عورت کو قتل کیا جائے اور نہ کسی خادم کو۔

(سنن ابي داؤد كتاب الجهاد باب فی قتل النساء حديث نمبر2669)

فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولیدؓ سے فرمایا کہ وہ مکہ کی زیریں جانب سے داخل ہوں اور بالآخر صفا پر آپؐ سے ملیں اور حضرت ابو عبیدہ بن جرّاح ؓکو ہدایت فرمائی کہ وہ بطن وادی کے راستے مکہ میں داخل ہوں اور آگے جا کر آپؐ کا انتظار کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو تاکیدی ہدایت فرمائی کہ جب تک کوئی مزاحمت نہ کرے کسی پر ہتھیار نہ اٹھایا جائے۔ آپؐ نے یہ تاکیدی ہدایت سب کو عموماً اور حضرت خالدؓ کو خصوصاً ارشاد فرمائی تھی۔ چنانچہ ان ہدایات کے مطابق ہر جانب سے اسلامی فوج مکہ میں داخل ہونے لگی۔ جس سمت سے حضرت خالد بن ولیدؓ مکہ میں داخل ہوئے وہاں ابھی امن اور امان کا اعلان نہیں پہنچا تھا۔ اس لیے وہاں قریش میں سے بعض نے ان کا مقابلہ شروع کر دیا۔ یہاں چونکہ آپؓ کے مقابلہ پر آ کر عکرمہ بن ابی جہل، سفیان بن امیہ اور سہل بن عمرو اپنے ساتھیوں کے ساتھ آپؓ پر حملہ آور ہوئے تھے اس لیے مجبوراً آپؓ کو بھی دفاع میں ہتھیار اٹھانے پڑے۔ خندمہ کے مقام پر گو کہ جھڑپ تھی تو مختصر مگر اس میں دشمنوں کے بارہ آدمی مارے گئے۔ ان کا انجام دیکھ کر باقی سب بھاگ گئے اور پھر کسی کو مزاحمت یا مقابلے کی ہمت نہ ہوئی۔

اس وقوعہ کی اطلاع حضرت خالد بن ولیدؓ کے پہنچنے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچی اور اس درخواست کے ساتھ پہنچی کہ ان کو روکا جائے ورنہ وہ سارے مکہ والوںکو قتل کر دے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً حضرت خالدؓ کو بلوایا اور فرمایا: کیا میں نے تمہیں لڑائی سے منع نہیں کیا تھا؟ حضرت خالدؓ نے عرض کی یا رسول اللہؐ! آپؐ نے یقیناً منع فرمایا تھا لیکن ان لوگوں نے ہم پر پہلے حملہ کیا اور تیر برسانے شروع کر دیے۔ ہم نے اس پر بھی صبر کیا اور انہیں بتایا کہ ہم تم سے لڑنا نہیں چاہتے اس لیے تم یہ مزاحمت بند کرو۔ انہوں نے ہماری بات اَن سنی کر کے ہم پر مسلسل تیر اندازی جاری رکھی۔ پھر ہمیں مجبوراً لڑائی کرنی پڑی اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کو مکمل طور پر پسپا کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی وضاحت کو قبول فرمایا۔ اس ایک واقعہ کے علاوہ وہاں کوئی قابل ذکر واقعہ رونما نہیں ہوا۔ سب کمانڈر اپنی اپنی سمت سے آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر فرمودہ جگہ پر آپؐ سے مل گئے اور طلوع آفتاب سے کچھ دیر بعد ہی مکہ مکرمہ مکمل طور پر آپؐ کو عطا ہو گیا۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی ؐالرایۃیوم الفتح حدیث 4280)

( السیرۃ النبویہ لابنِ ہشام صفحہ 741-742 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

(شرح العلامۃ الزرقانی جزء 3 صفحہ417باب غزوۃ الفتح الاعظم دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

(السیرۃ الحلبیۃ جزء 3 صفحہ121باب ذکر مغازیہ فتح مکۃ دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

آج جو اعتراض کرنے والے ہیں وہ اسلام پہ اعتراض تو کرتے ہیں لیکن بغیر کسی امتیاز کے ہسپتالوں اور سکولوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔ ایئر ریڈز (air-raids)کر دیتے ہیں۔ عمارتوں کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں۔ گھروں میں بچوں اور عورتوںکو، بیماروں کو مار دیتے ہیں ۔ یہ لوگ کسی کا حق تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ پھر اسلام پر الزام کہ حق مارتا ہے۔ کون ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفائے راشدین کے علاوہ جنہوں نے اس حد تک حقوق کا خیال رکھا ہو۔ اسلام نے

جنگ کی صورت میں بھی دشمنوں کے بعض حقوق

کو کس طرح قائم فرمایا ہے اس کا خلاصہ بیان کرتا ہوں۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے بھی بیان فرمایا ہے کہ کسی صورت میں مسلمانوں کو مثلہ کرنے کی اجازت نہیں۔ یعنی مسلمانوں کو مقتولین جنگ کی ہتک کرنے یا ان کے اعضاء کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ دوسرے: یہ کہ مسلمانوں کو کبھی جنگ میں دھوکا بازی نہیں کرنی چاہیے۔ تین: یہ کہ کسی بچے کو نہیں مارنا چاہیے اور نہ کسی عورت کو۔ چار: یہ کہ پادریوں پنڈتوں اور دوسرے مذہبی رہنماؤں کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ پانچ: یہ کہ بڈھے کو نہیں مارنا چاہیے، بچے کو نہیں مارنا، عورت کو نہیں مارنا اور ہمیشہ صلح اور احسان کو مدّنظر رکھنا ہے۔ چھ: جب لڑائی کے لیے مسلمان جائیں تو اپنے دشمنوں کے ملک میں ڈر اور خوف پیدا نہ کریں اور عوام الناس پر سختی نہ کریں۔ بلاوجہ عوام کو نہ ڈرائیں جس طرح یہ ایئر ریڈز (air-raids)کر کے ڈرا دیتے ہیں۔ نمبر سات: جب لڑائی کے لیے نکلیں تو ایسی جگہوں پر پڑاؤ نہ ڈالیں کہ لوگوں کے لیے تکلیف کا موجب ہو اور کوچ کے وقت ایسی طرز پر نہ چلیں کہ لوگوں کے لیے رستہ چلنا مشکل ہو جائے۔ راستوں میں پڑاؤ نہ ڈالیں۔ خوفزدہ کرنے کے لیے پڑاؤ نہ ڈالیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا سختی سے حکم دیا تھا۔پھر فرمایا: جو شخص ان احکام کے خلاف کرے گا اس کی لڑائی پھر اس کے نفس کے لیے ہو گی خدا کے لیے نہیں ہو گی۔ آٹھ: یہ کہ لڑائی میں دشمن کے منہ پر زخم نہ لگائیں۔ نو:یہ کہ لڑائی کے وقت کوشش کرنی چاہیے کہ دشمن کو کم سے کم نقصان ہو۔ دس: جو قیدی پکڑے جائیں ان میں سے جو قریبی رشتہ دار ہوں ان کو ایک دوسرے سے جدا نہ کیا جائے۔ گیارہ: قیدیوں کے آرام کا اپنے آرام سے زیادہ خیال رکھا جائے۔ بارہ: غیرملکی سفیروں کا ادب اور احترام کیا جائے۔ وہ غلطی بھی کریں تو ان سے چشم پوشی کی جائے۔ تیرہ: اگر کوئی شخص جنگی قیدی کے ساتھ سختی کر بیٹھے تو اس قیدی کو بلا معاوضہ آزاد کر دیا جائے۔ اگر غلط طریقہ سے سختی ہوگئی تو پھر اس قیدی کو آزاد کر دے۔ چودہ: جس شخص کے پاس کوئی جنگی قیدی رکھا جائے وہ اسے وہی کھلائے جو خود کھائے اور اسے وہی پہنائے جو خود پہنےاور اسی پر صحابہ نے عمل کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہی احکام کی روشنی میں مزید یہ حکم بھی جاری فرمایا کہ عمارتوں کو مت گراؤ اور پھل دار درختوں کو مت کاٹو۔

(ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 301-302)

عبادالرحمٰن کی تفسیر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں کہ’’عبادالرحمٰن کی ایک اور علامت یہ بتائی ہے کہ وہ کسی کو ناجائز طور پر قتل نہیں کرتے۔ یہ علامت بھی اپنی پوری شان کے ساتھ ہمیں صحابہؓ کے مقدس وجود میں جلوہ گر دکھائی دیتی ہے۔ وہ اس حکم پر اتنی سختی سے عمل کرتے تھے کہ باوجود اس کے کہ وہ ایسی اقوام سے برسرپیکار تھے جو بزور شمشیر ان سے اپنا مذہب بدلوانا چاہتی تھیں پھر بھی ان کی تلوار صرف ان افراد پر اٹھتی تھی جو عملاً جنگ میں شامل ہوں۔ کسی عورت ،کسی بچے، کسی بوڑھے، کسی راہب اور کسی پنڈت یا پادری پر نہیں اٹھتی تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام صرف لڑنے والے افراد سے جنگ کرنا جائز قرار دیتا ہے۔ دوسرے افراد کوقتل کرنا خواہ وہ دشمن قوم سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتے ہوں جائز قرار نہیں دیتا۔ آج دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں جو اپنے آپ کو عدل و انصاف کا علمبردار قرار دیتی ہیں اور جن کا وجود امن عالم کے قیام کی ضمانت سمجھا جاتا ہے ان کی یہ کیفیت ہے کہ وہ دشمن اقوام کو ہمیشہ ایٹمی ہتھیاروں سے ہلاک کرنے کی دھمکی دیتی رہتی ہیں بلکہ عملاً گذشتہ جنگ عظیم میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں بے گناہ جاپانی مردوں اور عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا‘‘ اور اب بھی مختلف شہروں میں جو حملے ہوتے ہیں جنگیں ہو رہی ہیں۔ عراق میں کیا ہوا، فلسطین میں کیا ہوا، شام میں کیا ہوا، یمن میں کیا ہو رہا ہے سب کچھ یہی ہو رہا ہے ’’اور اسے امن عالم کے قیام کے لیے ایک بڑا بھاری کارنامہ قرار دے کر اسے سراہا گیا‘‘ آہا ہا ہم نے کارنامہ سرانجام دے دیا ’’لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں کہیں ایسا ظلم دکھائی نہیں دیتا کہ برسرِپیکار ہونے کی حالت میں بھی انہوں نے بے گناہ مردوں اور عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ کیا ہو مگر یہ لاکھوں افراد کے ناجائز خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والے تو عدل و انصاف کے مجسمےکہلاتے ہیں اور وہ مسلمان جنہوں نے اپنے پاؤں تلے کبھی ایک چیونٹی کو بھی نہیں مسلا تھا انہیں یہ لوگ ڈاکو اور لٹیرا قرار دیتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 575-576)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یہ بھی فرق یاد رہے کہ اسلام نے صرف ان لوگوں کے مقابل پر تلوار اٹھانا حکم فرمایا ہے کہ جو اول آپ تلوار اٹھائیں اور انہیں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو اول آپ قتل کریں۔‘‘

(انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 37)

پس یہ چند حقوق میں نے مزید بیان کیے ہیں اور یہی حقوق ہیں جن کو قائم کر کے ہم معاشرے میں اور دنیا میں امن کی فضا قائم کر سکتے ہیں، امن قائم کر سکتے ہیں ورنہ دنیا میں امن کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ خاص طور پر جنگ کرنے والوں کے حقوق کا جو میں نے ذکر کیا ہے اس طرح اگر حکومتیں اپنے فرائض کو نہیں سمجھیں گی اور دوسروں کے حقوق ادا نہیں کریں گی تو پھر عالمگیر جنگ کے لیے بھی تیار رہیں جس کی تباہی پھر ہر تصور سے باہر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان دنیاداروں اور ان دنیاوی حکومتوں کو عقل دے اور اپنی اناؤں کی بجائے انسانیت کو بچانے کی فکر کرنے والے ہوں۔ پس اس لحاظ سے آج ہر احمدی کا کام ہے کہ دعا کرے کہ دنیا تباہی اور بربادی سے بچ جائے اور واحد اور لاشریک خدا کو مان لے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو سمجھنے والی اور عمل کرنے والی بن جائے اور یہی ان کی بقا ہے اور یہی ان کی بقاکی ضمانت ہے۔ یہی ان کی نسلوں کی بقاکی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔

سب دنیا کے احمدیوں کو اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے حفاظت میں رکھے۔ ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شر سے ہر احمدی کو ہر مظلوم کو بچا کے رکھے۔ اب دعا کرلیں۔

(دعا)

(دعا کے بعد قصائد پڑھے گئے اور پھرحضورِ انور نے فرمایا:)

حاضری ان کی یہاں تین دنوں میں مختلف وقتوں میں کُل 8,877کی حاضری رہی۔ 6,709 مرد اور 2,168 عورتیں۔ اسی طرح یہاں یوکے میں جماعتی انتظام تھا جو ان کے پاس رپورٹ آئی ہے اس کے تحت مختلف جماعتوںمیں، تین ہزار سے اوپر لوگ مساجد میں بھی بیٹھ کر اجتماعی طور پر سنتے رہے ہیں۔ اور یہ جو دنیا میں ہم ایک نیا نظارہ دیکھ رہےہیں کبابیر سے بھی اور کینیڈا سے بھی اور قادیان سے منارۃ المسیح نظر آرہا تھا، مسجد اقصیٰ میں بیٹھے لوگ سُن رہے تھےیہ بھی ایک عجیب نظارہ ہے۔ وہاں قادیان میں رات کے تقریباً بارہ بجنے والے ہیں لیکن لوگ پھر بھی بیٹھے ہیں۔ اسی طرح باقی ملکوں میں late night ہو چکی ہے لیکن بیٹھے جلسہ سُن رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور ان کو جلسے کی برکات سے وافر حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button