حضور انور کے ساتھ ملاقاتیورپ (رپورٹس)

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جنوبی برطانیہ میں مقیم 16 تا 19 سال کےممبرانِ خدام الاحمدیہ کی (آن لائن) ملاقات

جب آپ اپنے ایمان میں مضبوط ہوں گے پھر جب تم دعا کرو گے تو میں تمہاری دعا ئیں قبول کروں گا اور تمہارے روحانی مدارج بڑھاؤں گا۔

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 4؍ستمبر 2021ء کو مجلس خدام الاحمدیہ ساؤتھ یوکے کے ایسےطلباء جن کی عمر 16 سے 19 سال ہے، سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضور انور اس ملاقات میں اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق افروز ہوئے جبکہ 230سے زائد ممبران مجلس خدام الاحمدیہ نے بیت الفتوح لندن سے شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد ممبران مجلس خدام الاحمدیہ کو حضور انور سے سوالات پوچھنے اور راہنمائی طلب کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور طاعون کے دوران اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ آپؑ کے گھر میں رہنے والوں کی حفاظت فرمائے گا ، کیا یہ وعدہ موجودہ وبا اور آئندہ آنے والی مصیبتوں کے بارے میں بھی ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ دیکھو، وہ ایک نشان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا تھا۔ اور اس کی خبر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیشگوئی کی صورت میں فرمادی تھی کہ اس وقت طاعون شروع ہوگی اور یہ کہ آپ اپنی جماعت کے مضبوط ایمان والے لوگوں کو بتا دیں کہ اگر وہ طاعون سے حفاظت کا ٹیکہ نہ بھی لگوائیں تو بھی وہ محفوظ رہیں گے۔ پھر بھی اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی فردجماعت کو ویکسین لگوانے سے روکا نہیں تھا۔ اگر گورنمنٹ اس کو لازمی قرار دے تو پھر آپ لگوا سکتے ہیں۔ یہاں ہمارے پاس کوئی ایسا وعدہ نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کو یاد رکھو کہ اگر ہم (ایمان میں) مضبوط ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کے برے اثرات سے بچائے گا۔ پھر بھی آنحضرت ﷺ کے دور میں اور آپ ﷺ کے خلفاء کے دور میں بھی طاعون پھیلی تھی۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جو بھی طاعون سے فوت ہو گا وہ شہید ہوگا۔ اس لیے اس(وبا) کو آپ ایک سزا قرار نہیں دے سکتے اور نہ ہی یہ کوئی نشان ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں ایک نشان تھا۔ اب یہ اس طرح کا نشان نہیں ہے۔ اس لیے اگر گورنمنٹ ہمیں کہتی ہے کہ ہم کووڈ کی vaccineلگوالیں تو ہمیں لگوانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہ ضروری نہیں ہےکہ ہم سب کو کووڈ ہو جائے یا یہ کہ سارے احمدیوں کو کووڈ ہو گا یا یہ کہ اگر کسی احمدی کو کووڈ ہوتا ہے تو وہ لازماً بچ جائے گا۔ اگر وہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ کی نظر میں اس کا مقام ایک شہید کا مقام ہوگا۔ ہمیں جملہ وباؤں اور مصیبتوں کے خلاف جملہ حفاظتی پہلو اختیار کرنے چاہئیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ خلیفہ وقت کو خود یہ بتا نہ دے کہ یہ ایک نشان ہے اور جملہ احمدی اس سے محفوظ رہیں گے۔ پھر وہ ایک الگ معاملہ ہوگا۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ ہم کس طرح ایک دوسرے کو احمدیہ مسلم جماعت اور خلافت کے وفا دار بننے کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ جب کبھی بھی آپ مختلف موضوعات پر گفتگو کےپروگرامز بنائیں تو ایسے موضوعات زیر بحث لائیں جیسے بحیثیت احمد ی مسلمان ہم کون ہیں اور ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں؟ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیوں مانا؟ آپ کے آنے کا مقصد حقیقی اسلامی تعلیمات کو دوبارہ زندہ کرنا تھا اس لیے ہمیں ان تعلیمات کو تلاش کرنے کی ضرروت ہے… آپ کو قرآن کریم پڑھنا چاہیے اور اس کے احکامات اور ہدایات تلاش کرنے چاہئیں اور ان باتوں کو بھی جن سے روکا گیا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا کہ اس طرح آپ کو آپ کی زندگی کا مقصد سمجھ آجائے گا اور یہ چیز پھر آپ کو جماعت احمدیہ کے مزید قریب کر دے گی کیونکہ خلیفہ وقت آپ کو مستقل حقیقی اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں اور یہ بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہم سے کیا توقعات ہیں۔ تو اس طرح آپ احمدیہ جماعت سے بہت زیادہ قریب ہو سکتے ہیں۔

ایک اَور طالب علم نے پوچھا کہ ہم آنحضرت ﷺ سے حقیقی اور مستقل محبت کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔

حضورانور نے فرمایا کہ اپنے پیاروں کی محبت آپ کس طرح حاصل کرتے ہیں۔ انہیں یاد کرکے۔ ان کے لیے کچھ اچھا کرکے۔ ان کی توقعات پر پورا اتر کر یا جو بھی وہ کہیں اسے مان کر۔ اس طرح آپ محبت حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ آنحضرت ﷺ کی محبت حاصل کر سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ارشاد فرمایا ہے کہ آپﷺ لوگوں کو بتا دیں کہ اگر وہ اللہ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیما ت اور احکامات کی پیروی کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر نازل فرمائے ہیں۔ مزید برآں آپ ﷺ پر درود بھیجیں۔ اس طرح آپ آنحضرت ﷺ کی محبت حاصل کر سکتے ہیں اور اس چیز سے پھر اللہ تعالیٰ بھی آپ سے محبت کرنے لگے گا۔

ایک اَور طالب علم نے حضور انور سے ایسے خدام کے بارے میں راہنمائی طلب کی جو یو نیورسٹی میں پڑھائی کی وجہ سے گھر سے دور رہتے ہیں۔

حضورانور نے فرمایا کہ اگرچہ آپ یونیورسٹی میں ہیں آپ کو پنجوقتہ نمازیں ادا کرنی چاہئیں اور انہیں بھولنا نہیں چاہیے۔ آپ کو تلاوت قرآن کریم میں سست نہیں ہونا چاہیے۔ یونیورسٹی میں بھی ایسے لڑکوں سے دوستی کریں جو فطرتاً اچھے ہوں اور نیک ہوں۔ اگرچہ وہ مذہبی خیالات کے مالک نہ بھی ہوں لیکن فطرتاً اچھے ہوں اور اچھے اخلاق کے حامل ہوں۔ انہیں اپنا دوست بناؤ اور ہمیشہ خیال رکھو کہ تمہاری دوستی اچھے لوگوں سے ہو۔ خود بھی دوسروں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ تو یہ تمہاری ڈیوٹیز ہیں۔ اس طرح اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ تم لوگوں کو حقیقی اسلامی تعلیمات بھی سکھا رہے ہوگے اور ایک مسلمان کا اچھا نمونہ بھی دکھا رہے ہوگے۔

پھر ایک خادم نے سوال کیا کہ اسلام climate change کے بارے میں کیا راہنمائی کرتا ہے اور یہ کہ اس مسئلہ کو کس طرح حل کرنا چاہیے۔

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز کی زیادتی بری ہے۔ اگر ہم قانون قدرت کے مطابق نہیں چل رہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ ہم اپنے مستقبل کو خراب کر رہے ہوں گے۔ اور ہم اپنے آپ کو اپنی نسلوں کو تباہ کرنے والے ہوں گے۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ ہاں (ماحولیاتی) آلودگی ہے کیونکہ ممالک میں مسابقت کی دوڑ لگی ہوئی ہے جیسے چائنا، انڈیا اور امریکہ کے درمیان۔ یوں ہر ملک کا اپنا ذاتی مفاد ہے۔ وہ اپنی آئندہ نسلوں کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ اس لیے وہ اس حوالہ سے پلان نہیں کررہے کہ کسی بھی ملک کو کتنا ایندھن جلانے کی اجازت ہونی چاہیے اور اس کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ممالک کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور انہیں مجبور کرنا چاہیے کہ وہ زیادہ سےزیادہ درخت لگائیں تاکہ ماحولیاتی آلودگی کو کم سے کم کیا جا سکے اور یہ ہمیں climate change کو بھی کم کرنے میں مدد دے گی۔

پھر ایک خادم نے سوال کیا کہ میں مستقل اپنی روحانی ترقی کے لیے دعا کرتا ہوں لیکن میں کوئی بہتری محسوس نہیں کرتا کیا حضور میری راہنمائی کر سکتے ہیں کہ میں کس طرح بہتری لاسکتا ہوں۔

حضور انور نے فرمایا کہ دیکھو، یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کو فوراً اس کا نتیجہ مل جائے۔ ایک بزرگ تھے جو ہر روز کسی چیز کے لیے دعا کرتے تھے اور مستقل اس کے لیے دعا ئیں کرتے تھے۔ ان کا اللہ تعالیٰ سے قربت کا ایسا تعلق تھا کہ ہر روز انہیں اللہ کی طرف سے یہ جواب ملتا کہ تمہاری دعا قبول نہیں ہوئی۔ ایک دن ان کاایک مرید وہاں موجود تھا۔ اس کی موجودگی میں جب وہ بزرگ دعا کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہی جواب آیا اور وہ جواب اس مرید نے بھی سنا۔ تو اس مرید نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ فر مارہاہے کہ وہ آپ کی دعا قبول نہیں کرے گا تو پھر آ پ کیوں بار بار دعا کرتے ہیں۔ اس کو چھوڑ دیں۔ اس پر اس بزرگ نے کہا کہ میں گذشتہ تیس سال سے دعائیں کر رہا ہوں اور روزانہ یہی جواب سنتا ہوں۔ پھر بھی میں اس کو جاری رکھے ہوئے ہوں۔ اور میں اس کو جاری رکھوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمالے۔ (اللہ کو چھوڑ کر) میں اور کہاں جاؤں۔ پھر فوراً ایک آواز آئی اور اس مرید نے بھی اس کو سنا کہ گذشتہ تیس سال سے جو دعائیں بھی تم نے کی ہیں وہ سب قبول کرلی گئی ہیں۔ اس ایک فقرے کی وجہ سے (جو اس بزرگ نے مستقل مزاجی سے دعا کے اور توکل کے بارے میں کہا تھا)۔ اس لیے آپ کو جلدبازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ سے اپنی روحانی ترقی کے لیے دعا کر رہے ہیں تو پھر اس بات پر بھی غور کریں کہ آیا آپ اللہ تعالیٰ کے جملہ احکامات پر عمل پیر اہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تمہیں اپنے ایمان میں مضبوط ہونا چاہیے۔ پھر جب آپ اپنے ایمان میں مضبوط ہوں گے پھر جب تم دعا کرو گے تو میں تمہاری دعا ئیں قبول کروں گا اور تمہارے روحانی مدارج بڑھاؤں گا۔ تمہیں پنجوقتہ نماز ادا کرنا ہوگی اور اگر ممکن ہو تو با جماعت ادا کرو۔ اور مستقل مزاجی سے ادا کرو۔نوافل پڑھو اور جیساکہ میں نے کہا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجاؤ۔ صرف یہ نہیں کہ بے توجہی سے نماز ادا کرو اور کہو کہ اللہ تعالیٰ میرا روحانی درجہ بڑھا دے اور اللہ تعالیٰ فرمائے کہ ٹھیک ہے اب میں تمہیں ایک بزرگ کا درجہ دے دیتا ہوں۔ ایک رات میں تم ولی نہیں بن سکتے یہ ایک مستقل محنت کا متقاضی عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جَاھَدُوْا فِیْنَا یعنی جو لوگ ہماری راہوںمیں جہاد کرتے ہیں پھر میں ان کو درجہ عطا کرتا ہوں۔ اس لیے تم یہ کرتے رہو۔ ایک دن تم اللہ تعالیٰ سے یہ جواب پاؤ گے کہ اب اس نے تمہارا درجہ بڑھا دیاہے۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ کرتے رہو۔ ا یک دن تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ کبھی ہار مت مانو۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ اگر آپ کو احمدیت کی سچائی کا ایک تشفی بخش ثبوت دینا ہو تو وہ کیا ہوگا؟

حضور انور نے فرمایا کہ دیکھو، مختلف لوگوں کے لیے مختلف دلائل ہوتے ہیں۔ اگر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان نہیں رکھتا تو پہلے تو آپ کو اسے یقین دلانا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہے اور مسلم background سے ہے تو اس کو الگ طرح سے ثبوت دینا ہوگا کہ یہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو آنحضرت ﷺ نے اس دور کے لیے بیان فرمائی تھیں اور وہ پوری ہو چکی ہیں۔ اور قرآن کریم میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ امام مہدی کا آئندہ زمانہ میں ظہور ہوگا۔ ایک عیسائی کے لیے آپ کا جواب مختلف ہوگا۔ ان کو بتانا ہوگا کہ جس مسیح کے وہ انتظار میں ہیں وہ وہی مسیح نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور آسمان پر اٹھائے گئے تھے بلکہ وہ امت مسلمہ میں سے ہوگا۔ اس لیے کسی طرح کے مختلف ثبوت دیے جا سکتے ہیں لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک آسمانی نشان بتایا تھا اور وہ یہ تھا کہ کسوف و خسوف ہوگا اور وہ امام مہدی و مسیح موعود کے ظہور کا نشان ہوگا۔ یہ ایک نشان تھا جو آپ ﷺ نے بیان فرمایا تھا۔ اور یہی وہ نشان ہے جس کا انتظار مسلمانوں کو اور دیگر لوگوں کو بھی تھا۔ یہ نشان 1894ء میں مشرقی افق پر ظاہر ہوا اور مغربی افق میں یہ نشان 1895ء میں ظاہر ہوا۔ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ (مسیحیت اور مہدویت) پہلے سے موجود تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جس شخص نے آنا تھا اور اس کے آنے کی بابت کئی نشانات بتائے گئے تھے اور پیشگوئیاں کی گئی تھیں، جو ہم تک قرآن کریم اور آپ ﷺ کے ذریعہ سے پہنچی ہیں، کچھ آسمانی نشان بھی تھے اور یہ ان میں سے ایک آسمانی نشان ہے جو پورا ہو چکا ہے۔ اس لیے اس نشان کو پورا ہوتے دیکھنے کے بعد بھی اگر آپ ایمان نہیں لاتے تو آپ کسی کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ یہ ایک انسان کا بنایا ہوا نشان نہیں ہے یہ ایک آسمانی نشان ہے جو پورا ہو چکاہے۔

بعد ازاں ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور آج کل سیاسیات، ملکی اور بیرونی طاقتیں دوہرے معیاروں پر چل رہی ہیں۔ ایک احمدی سیاست دان ایسے مسائل سے کیسے نپٹے اور آپ کے نزدیک ایسی کون سی پالیسیاں ہیں جو پوری دنیا کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اپنانے کی ضرورت ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ حقیقی عدل و انصاف قائم ہو۔ جب تک اس پر قائم نہ ہوا جائے ہم معاشرے میں یا پوری دنیا میں امن قائم نہیں کر سکتے۔ حقیقی عدل و انصاف یہ ہے کہ جیساکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر تمہیں اپنے رشتہ داروں کے خلاف بھی بات کرنی پڑے اور اپنے لوگوں کے خلاف گواہی دینی پڑے تو پھر بھی حق بات کہو۔ اور سچ بولو۔ اور یہی انصاف ہے۔ تو اگر ہم یہ معیار اپنالیں تو ہم معاشرے میں امن پھیلا سکتے ہیں۔ اور یہ معاشرے کا امن پھر پوری دنیا میں پھیلے گا اور پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں باہمی امن، رواداری اور محبت کی امید کی جا سکتی ہے ورنہ نہیں۔ سیاست دانوں کے دوہرے معیار ہوتے ہیں ان کے اپنے ذاتی مفاد ہوتے ہیں۔ ایسے سیاست دان بھی جو آپ کی بات سن کر کہتے ہیں کہ جو آپ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے اور میں سو فیصد آپ سے اتفاق کرتا ہوں لیکن جب بھی وہ باہر جائے گا وہ اپنی پارٹی کے منشور کی پیروی کرے گا۔ اور جو بھی اس کی پارٹی کی پالیسی ہے۔ تو وہ اپنی پارٹی کی پالیسی سے دور نہیں ہٹ سکتا۔ اس طرح وہ آپ سے مختلف بات کرتے ہیں لیکن عملاً دوسری چیزوں پر عمل کرتے ہیں۔ ایک احمدی کی حیثیت سے اگر آپ سیاست میں آتے ہیں تو ایک آزاد سیاست دان کی حیثیت سے معاشرے میں امن، انصاف محبت اور رواداری کی آواز کو اٹھائیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کسی پارٹی کا حصہ بننا ہے اور وہ اس پارٹی کا منشور آپ کو یہ موقع نہیں دیتا کہ آپ آزادانہ طور پر سچ بو ل سکیں، انصاف کے لیے بول سکیں پھر اس پارٹی کو چھوڑ دیں۔ اور ایک آزاد سیاست دان بنیں۔ اور اگر ایسا کر رہے ہیں تو کچھ عرصے کے بعد آپ اپنی پارٹی بنا سکتے ہیں یا کم از کم ایک آزاد سیاست دان کے طور پر معاشرے میں امن کےقیام کے لیے لڑائی لڑ سکتے ہیں۔

پھر ایک خادم نے سوال کیا کہ ہم خدام کو چندے کی اہمیت اور فوائد کے بارے میں کس طرح بتا سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اگر ہمارا چندہ خدا کی راہ میں خرچ ہوتا ہےتو ہمیں اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر نہیں تو پھر نہ دیں۔ اس لیے اپنے خدام کو بتائیں کہ جو بھی ہم خرچ کرنے جا رہے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہوگا۔ اور ہماری جماعت کی بہتری کے لیے خرچ ہوگا، ہمارے لٹریچر کی اشاعت پر خرچ ہوگا اور ہماری روزمرہ کی دفتری ضروریات پر خرچ ہوگا اور دیگر جماعتی پروگرامز پر خرچ ہوگا۔ بغیر فنڈز کے آج کل آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ آنحضرت ﷺ اور آپ سے قبل انبیاء کے زمانوں میں بھی چندہ لیا جاتا تھا۔ اسی لیے قرآن کریم کی دوسری سورۃکے ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اس لیے اگر آپ ایمان رکھتے ہیں کہ جو ہم چندہ دے رہے ہیں وہ اللہ کی راہ میں خرچ ہوگا تو پھر لوگ خوشی سے چندہ دیں گے۔ لیکن اگر وہ یہ سمجھیں گے کہ ہم چندہ جمع کرتے ہیں اور مہتممین صاحبان اور صدر صاحب اور ناظم صاحب عمومی اور میاں اطہر محمود (سوال کرنے والے خادم کانام) اس چندہ کی رقم سے Nando’s اور پیزا کھائیں گے تو کوئی چندہ نہیں دے گا۔ اس لیے انہیں اس بات کا احساس دلائیں کہ جو بھی چندہ وہ دے رہے ہیں وہ اسلام کا پیغام پھیلانے کے لیے استعمال ہو گا اور ہماری جماعت کی بہتری کے لیے استعمال ہوگا۔ آپ ایک چھوٹے سے کلب کے معاملات بھی بغیر پیسوں کے نہیں چلا سکتے۔ آپ کو کچھ نہ کچھ پیسے اکٹھے کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے یہاں بھی ہمیں کچھ نہ کچھ حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے معاملات چلا سکیں۔ہم ایک بجٹ تیار کرتے ہیں اور ایک باقاعدہ تفصیلی بجٹ تیار ہوتا ہے، اس کو عاملہ میں زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اگر نیشنل بجٹ ہے تو نیشنل عاملہ میں زیر بحث آتا ہے پھر شوریٰ میں زیر بحث آتا ہے پھر وہ مجھے بھجواتے ہیں پھر میں بھی دیکھتا ہوں کہ کوئی بھی پیسہ بغیر مقصد کے خرچ نہ ہو پھر ایک لمبی بحث اور سوچ بچار کے بعد بجٹ منظور ہوتا ہے۔ اس لیے چندہ ادا کرنا چاہیے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button