خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍ ستمبر2021ء

٭…جنگِ یرموک پندرہ ہجری یا بعض کے نزدیک فتحِ دمشق سے پیشتر تیرہ ہجری میں لڑی گئی تھی

٭… جب مسلمانوں نے رومیوں کی جنگی تیاری کی خبریں سنیں تو گھبراگئے …… حضرت عمرؓ نے ایک نہایت پُرتاثیر خط لکھا اور مسلمانوں کو بےجگری ودلیری سے لڑنے اور دشمن کی کثرت سے خوف زدہ نہ ہونے کی تلقین فرمائی

٭…مسلمانوں کی فوج میں تمام عرب سے منتخب لوگ شامل تھے۔جن میں ایک سَو بدری صحابہ اور
ایک ہزار وہ بزرگ تھے جنہوں نے رسول اللہﷺ کا چہرۂ مبارک دیکھا تھا

٭…اس جنگ میں رومیوں کے ستّر ہزار یا ایک لاکھ سپاہی مارے گئے۔ مسلمانوں کی طرف سے تین ہزار کا نقصان ہوا

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍ ستمبر2021ء بمطابق 17؍تبوک1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 17؍ستمبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عمرؓ کے زمانے کے واقعات کا ذکر چل رہا تھا جس میں آج جنگِ یرموک کے متعلق کچھ بیان کروں گا۔ جنگِ یرموک پندرہ ہجری یا بعض کے نزدیک فتحِ دمشق سے پیشتر تیرہ ہجری میں لڑی گئی تھی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کو سب سے پہلے جنگِ یرموک میں فتح کی خوش خبری ملی تھی، اس وقت حضرت ابوبکرؓکی وفات کو بیس دن گزرے تھے جبکہ بعض کے نزدیک سب سے پہلے فتحِ دمشق کی خوش خبری ملی تھی اور شواہد سے یہی بات زیادہ درست لگتی ہے۔ رومی دمشق و حمص سے شکست کھاکر سرحدی شہر انطاکیہ پہنچے جہاں ہرقل نےاپنے ہوشیار اور معزز درباریوں سے رائے طلب کی کہ عرب جو سازوسامان اور جنگی زور میں تم سے کم ہیں، تم پر غالب کیسے آرہے ہیں۔ تمام مشیروں نے ندامت سے سر جھکا لیے تاہم ایک تجربہ کار، بڈھے نے کہا کہ عرب اخلاق میں ہم سے اچھے ہیں۔ وہ رات کو عبادت کرتے اور دن کو روزہ رکھتے ہیں، کسی پر ظلم نہیں کرتے۔ قیصر شام سے نکل جانے کا ارادہ کر چکاتھا لیکن عیسائی فریادیوں نےجوق در جوق آ کر اس سے فریاد کی، جس سے قیصر کو بھی غیرت آئی اور اس نے اپنی شہنشاہی کاپورا زور عرب کے مقابلے میں صرف کردیا۔قسطنطینیہ، جزیرہ آرمینیا ہر جگہ سے فوجیں انطاکیہ میں امڈ آئیں۔

حضرت ابوعبیدہؓ کو اس تیاری کی خبر ہوئی توآپؓ نے بڑی پُراثر تقریر کی اور مشاورت طلب کی۔ یزید بن ابی سفیان نے مشورہ دیا کہ عورتوں اور بچوں کو شہر میں چھوڑ کر خود شہر کے باہر لشکر آرا ہواجائے۔ اس پر شرحبیل بن حسنہ نے کہا کہ شہر والے عیسائی ہیں اس طرح کہیں وہ اندر سے بغاوت ہی نہ کردیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ عیسائیوں کو شہربدرکردیتے ہیں جس پر شرحبیل نے کہا کہ یوں تو نقضِ عہد ہوگا تو ابوعبیدہؓ کوفوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ آخر یہ رائے ٹھہری کہ دمشق پہنچا جائے جہاں خالدؓ بھی موجود ہیں اور عرب کی سرحد بھی قریب ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ کے حکم سے اہلِ شہر کی حفاظت کےلیےوصول کردہ جزیہ یا خراج کی لاکھوں کی رقم انہیں واپس کردی گئی جس کا عیسائیوں اور یہودیوں پر بڑا اثر ہوا۔

جب حضرت ابوعبیدہؓ نےتمام حالات حضرت عمرؓ کو لکھے تو آپؓ یہ سن کرکہ مسلمان رومیوں کے ڈر سے حمص چلے آئے ہیں نہایت رنجیدہ ہوئے۔ آپؓ نے لکھا کہ مَیں سعید بن عامر کو مدد کےلیے بھیجتا ہوں۔ حضرت ابوعبیدہؓ ابھی دمشق پہنچے ہی تھے کہ عمرو بن عاص کی طر ف سےاردن کے اضلاع میں بغاوت کی خبر ملی۔ چنانچہ دوسرے ہی دن حضرت ابوعبیدہؓ اردن کی حدودمیں یرموک پہنچ گئے۔ یہاں سے پشت پر عرب کی سرحد قریب تھی اور کھلا میدان ہونے کی وجہ سے جنگی ضرورت کے تحت پیچھے ہٹنا آسان تھا۔ جب مسلمانوں نے رومیوں کی جنگی تیاری کی خبریں سنیں تو گھبراگئے۔ ایسے میں ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو پھر خط لکھا۔ حضرت عمرؓ نے تمام انصارومہاجرین کو جمع کرکے خط سنایا تو تمام صحابہ روپڑے اور کہا کہ اے امیرالمومنین! ہمیں اجازت دیں کہ ہم اپنے بھائیوں پر جاکر نثار ہوجائیں۔ عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت عمرؓ کو سپہ سالار بننے اور صحابہ کے ساتھ خروج کا مشورہ دیا لیکن اس وقت تک دشمن یرموک سے تین چار منزل کے فاصلے پر رہ گیا تھا اور مدد کا پہنچنا ناممکن تھا ۔ حضرت عمرؓ نے ایک نہایت پُرتاثیر خط لکھا اور مسلمانوں کو بےجگری ودلیری سے لڑنے اور دشمن کی کثرت سے خوف زدہ نہ ہونے کی تلقین فرمائی۔ جس روز قاصد خط لےکرپہنچا حسنِ اتفاق سے اسی روز سعید بن عامر بھی ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ پہنچ گئے جس سے مسلمانوں کو بہت تقویت ملی۔

دونوں افواج صف آرا ہوئیں۔ رومیوں کے پاس دو لاکھ سے زیادہ کی جمعیت اورچوبیس صفیں تھیں جن کے آگے مذہبی پیشوا صلیبیں لیے جوش دلاتے تھے۔ ابتدائی مبارزت کے بعد پہلے روز رومیوں نے شکست کھائی۔ اگلے روز رومیوں نے مسلمانوں کو مال وزَر کی طمع دلانے کے لیے اپنا قاصد بھیج کر صلح کی گفتگو کرنا چاہی۔ جس وقت قاصد پہنچا مسلمان نمازِ مغرب ادا کررہے تھے۔ قاصد مسلمانوں کی محویت،ادب وقار اور خضوع کو حیرت و استعجاب سے دیکھتا رہا۔ نماز کے بعد اس نے حضرت ابو عبیدہ ؓ سےچند سوالات کیے مثلاً کہ تم عیسیٰؑ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ آپؓ نے سورۂ اٰلِ عمران کی آیت 60 اور سورۂ نساء کی آیات 172 اور 173 کی تلاوت کی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کو حضرت آدمؑ کی پیدائش سے مشابہ قرار دیا ہے اور اہلِ کتاب کو نصیحت فرمائی ہے کہ دین کے معاملے میں غلو سے کام نہ لیں۔ مسیح ہرگز اس امر کو برا نہ منائے گا کہ وہ اللہ کا بندہ متصور ہو۔ یہ آیات سن کر وہ قاصد یہ کہتا ہوا کہ عیسیٰؑ کے یہی اوصاف ہیں اور یقیناً تمہارا رسول سچا ہے مسلمان ہوگیا۔ اگلے روز مسلمانوں کی طرف سےحضرت خالدؓ سفارت کے لیے گئے۔ رومیوں نے اپنے جاہ و جلال سےانہیں مرعوب کرنا چاہا لیکن حضرت خالدؓ نےتحقیر سے ان سب سے اعراض برتا۔رومیوں کے کمانڈر باہان نے مال و متاع کا لالچ دیا جسےحضرت خالدؓنے حقارت سے ردّ کردیا۔

سفارت کے بعد آخری لڑائی کی تیاریاں شروع ہوئیں تو اگلے روز رومی جوش اور سروسامان کے ساتھ مقابلے کےلیے نکلے۔ حضرت خالدؓ نے بھی عرب کے عام قاعدے سے ہٹ کر نئے طور سے فوج آرائی کی۔ اس طرح تیس پینتیس ہزار کی فوج کے چھتیس حصّے کرکے اسےنہایت مہارت اور خوبی سے صف در صف کھڑا کیا۔ خطیب فوج کو جوش اور حوصلہ دلاکر ایک نیا ولولہ اور جذبہ پیدا کر رہے تھے۔ مسلمانوں کی فوج میں تمام عرب سے منتخب لوگ شامل تھے۔جن میں ایک سَو بدری صحابہ اور ایک ہزار وہ بزرگ تھے جنہوں نے رسول اللہﷺ کا چہرۂ مبارک دیکھا تھا۔ اس معرکے میں عورتیں بھی شامل تھیں جن میں ابوسفیان کی بیوی ہند بھی تھیں جنہوں نے بڑی دلیری سے لڑتے ہوئے شہادت کا مقام پایا۔

رومیوں کے جوش کا یہ عالَم تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے ثابت قدم رہنے کےلیے پاؤں میں بیڑیاں پہن لی تھیں۔ ہزاروں پادری اور بشپ ہاتھوں میں صلیب لیے حضرت عیسیٰ کی جَے پکار رہے تھے۔ دولاکھ کا ٹڈی دل لشکر آگےبڑھا اور نہایت زور کا حملہ کیا۔ مسلمان دیر تک ثابت قدم رہے لیکن پھر مسلمانوں کا میمنہ ٹوٹ گیا۔ عورتوں نے مسلمان سپاہیوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو انہیں غیرت دلائی۔جنگ میں یہ شدت تھی کہ ہر طرف ہاتھ بازو کٹ کٹ کر گرتے جاتے تھے لیکن سپاہیوں کے پایۂ ثبات میں لغزش نہ آتی تھی۔

دفعتاً حضرت خالدؓ فوج کی صفیں چیرتے ہوئے آگے نکلے اور اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کی صفیں پلٹ ڈالیں اور انہیں دباتے ہوئے سپہ سالار درنجار تک پہنچ گئے۔عکرمہ بن ابی جہل نے عیسائیوں کو للکارا اور چارسَو آدمیوں کی مرنے پر بیعت لے کر آگے بڑھےاور قریباً سب وہیں کٹ کر رہ گئے مگر دشمن کے ہزاروں آدمیوں کو برباد کر گئے۔ عین اسی وقت رومی میمنہ کا سردار ابن قناطیر میسرہ پر حملہ آور ہوا۔میسرہ میں زیادہ سپاہی لحم وغسان قبیلے کے تھے جو مدت سے رومیوں کے باج گزار چلے آرہےتھےاور یوں طبعاً رومیوں سے مرعوب تھے۔ وہ اس حملے کی تاب نہ لاسکے اور پیچھے ہٹے، پیچھےموجود مسلم خواتین آگے بڑھیں اوربڑی پامردی سے عیسائیوں کو آگے آنے سے روک دیا۔ فوج کی صورتِ حال ابتر ہورہی تھی لیکن افسروں کی شجاعت دیدنی تھی۔لڑائی میں اب تک رومیوں کا پلڑا بھاری تھا کہ اچانک قیس بن ھبیرہ جو میسرہ کی پشت پر متعین تھے عقب سے حملہ آور ہوئے۔ یہ حملہ ایسی شدت کا تھا کہ رومی سنبھل نہ سکے، ان کی تمام صفیں ابتر ہوگئیں اور وہ بڑی تیزی سے پیچھے ہٹتے چلے گئے۔ مسلمان لشکر نے بےجگری اور جواں مردی سے کشتوں کے پشتے لگادیے۔ایک مسلمان سپاہی حباس بن قیس ایسی جاں بازی سے لڑے کہ پاؤں کٹ گیا مگر انہیں پتا ہی نہ چلا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اس اہم ترین جنگ میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتح سے ہم کنار کیا۔

اس جنگ میں رومیوں کے ستّر ہزار یا ایک لاکھ سپاہی مارے گئے۔ مسلمانوں کی طرف سے تین ہزار کا نقصان ہوا۔ قیصر کو انطاکیہ میں شکست کی خبر ملی تو وہ اسی وقت قسطنطنیہ روانہ ہوگیا۔ حضرت عمرؓ کو فتح کی خوش خبری پہنچی تو دفعتاً سجدے میں گر گئے اور خدا کا شکر ادا کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس جنگ کی تفاصیل بیان فرمائی ہیں۔ آپؓ کو تاریخ پر بڑا عبور حاصل تھا اور آپؓ کا خیال تھا کہ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ سے پوچھ کر ٹیکس وغیرہ عیسائی شہریوں کو واپس کیا تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت عکرمہؓ اور ان کے بارہ ساتھیوں کے ایثار کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب جنگ کےبعد پانی پلانے والا شخص ان کے پاس پہنچاتو ان سپاہیوں میں ابھی زندگی کی ہلکی سی رمق باقی تھی۔ ان میں سے ہرایک نےیہی کہا کہ میرے دوسرے ساتھی کو پہلے پانی پلاؤ اور یوں وہ سب بنا پانی پیے ہی شہادت کا مقام پاگئے۔

حضورِانور نےخطبے کے آخر میں فرمایا کہ یہ ذکر ابھی چل رہا ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی بیان ہوگا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button