الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت ابّان بن سعید الاموی قریشیؓ

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 27؍مارچ 2013ء میں مکرم حافظ مظفر احمد صاحب نے صحابیٔ رسولؐ حضرت ابّان بن سعید الاموی قریشیؓ کی سیرت و سوانح پر روشنی ڈالی ہے۔

حضرت ابّانؓ کے والد سعید بن العاص الاموی کی کنیت ابواحیحہ تھی۔ ان کے دادا عاص بدر میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ان کی والدہ ہند بنت مغیرہ مخزومیہ یا صفیہ، خالدبن ولیدؓ کی پھوپھی تھیں۔ پانچویں پشت میں عبدمناف پر رسول اللہﷺ سے ان کا نسب مل جاتا ہے۔ ابّانؓ کے دو بھائیوں خالد اور عمرو نے ابتدائی زمانہ میں اسلام قبول کر لیا تھا اور حبشہ کی طرف ہجرت کی سعادت پائی۔ جبکہ دو بھائی عاص اور عبیدہ بدر میں مارے گئے۔

ابّان ابتدا میں اسلام کے سخت مخالف تھے۔ بھائیوں کے قبول اسلام پر ابّان کو سخت صدمہ پہنچا جس کااظہارانہوں نے اپنے اشعار میں یوں کیا: (ترجمہ) اے کاش!ظریبہ مقام پر مدفون ہمارے آباو اجداد اس جھوٹ و افترا کو دیکھ لیتے جو عمرو اور خالدنے کیا ہے تو کتنا برا مناتے۔ ان دونوں نے عورتوں والا کمزور دین قبول کرلیا اور ہمارے دشمنوں کے معاون ومددگار ہوگئے جو مخالفانہ تدبیریں کرتے رہتے ہیں۔

اس کے جواب میں ان کے مسلمان ہونے والے بھائی عمروؓ نے بھی کیا خوب کہا: (ترجمہ) جب ہمارے بھائی کے حالات اس کے مخالف ہوتے ہیں تووہ کہہ اٹھتا ہے کہ کاش! ظریبہ میں مدفون شخص زندہ ہو کر دیکھے۔ اے ہمارے بھائی! ان مُردوں کے ذکر کو چھوڑو جو اپنی راہ پر روانہ ہو چکے اور ان زندوں پر توجہ کرو جو وطن سے بے وطن ہوچکے ہیں۔

حضرت ابّانؓ کے اسلام قبول کرنے کا سبب یہ واقعہ ہواکہ وہ تجارت کے لیے ملک شام کو گئے۔ وہاں ایک راہب سے ملاقات ہوئی اس سے رسول اللہﷺ کے بارہ میں مشورہ کیا اوربتایاکہ میں قریش سے ہوں اور ہم میں سے ایک شخص ظاہر ہوا ہے جوموسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی طرح رسول اللہ ہونے کا دعویدار ہے۔ اُس نے پوچھا تمہارے صاحب کا کیانام ہے؟ انہوں نے کہا محمدؐ۔ راہب نے رسول اللہﷺ کی تمام صفات، آپؐ کی عمر اور نسب سب بیان کر دیے تو ابّان نے کہا یہ درست ہے۔ اس پر راہب نے کہا کہ یہ شخص پہلے عرب پر اور پھر ساری دنیا پر غالب آئے گا۔ پھر ابّان سے کہا کہ اس نیک شخص کو میرا سلام کہنا۔ ابّان جب مکہ واپس آئے تو خلافِ معمول آنحضورﷺ کی مخالفت میں کوئی بات نہیں کی۔ یہ حدیبیہ کے قریب کا زمانہ ہے۔ پھر جب آنحضورﷺ حدیبیہ تشریف لائے اور واپس مدینہ چلے گئے تو ابّان بھی پیچھے پیچھے مدینہ پہنچے اور اسلام قبول کرلیا۔

غزوئہ حدیبیہ کے موقع پر اہل مکہ کو صلح پر آمادہ کرنے کے لیے رسول کریمﷺ نے حضرت عثمانؓ کو اپنا سفیر بنا کر مکہ بھجوایا تو اس موقع پر ابّان بن سعید نے حضرت عثمانؓ کو اپنی امان میں لیااور پورے اعزاز و اکرام سے مکہ لائے۔ وہ اپنی خاندانی اور ذاتی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سواری سے اتر آئے۔ حضرت عثمانؓ کو زین پر اپنے آگے سوار کیا اور خود ان کے پیچھے بیٹھے اورانہیں پیشکش کی کہ مکہ میں آپ جہاں چاہیں جائیں اب آپ بنوسعید کی امان میں ہیں جنہیں حرم میں عزت کا مقام حاصل ہے۔ ابّان کی پناہ میں حضرت عثمانؓ نے رسول کریمﷺ کا پیغام اہل مکہ کو پہنچایا، ابو سفیان اور دیگر سردارانِ قریش سے ملاقاتیں کیں۔ ابّان نے حضرت عثمانؓ کو طواف ِکعبہ کی بھی پیشکش کی مگر حضرت عثمانؓ نے کہا میں رسول اللہﷺ کے بغیر طواف نہیں کرسکتا۔

فتح خیبر کے بعد رسول کریمﷺ نے حضرت ابانؓ کی سرکردگی میں ایک مہم نجد کی طرف بھجوائی۔ یہ دستہ فتح خیبر کے بعد واپس لَوٹا تو حضرت ابوہریرہؓ نے رسول کریمﷺ کی خدمت میں اپنی رائے پیش کی کہ فتح خیبر کے مال غنیمت سے ان لوگوں کو حصہ نہیں ملنا چاہیے۔ جس پرابّانؓ ناراض ہوئے۔ رسول کریمﷺ نے منع فرمایا اور پھر ان کے لیے غنائمِ خیبر سے حصہ نہیں نکالا۔

دوسری روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابانؓ بن سعید رسول کریمﷺ کی خدمت میں فتح خیبر کے بعد حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے رسول اللہﷺ سے شکایت کے رنگ میں عرض کیا کہ ابانؓ ایک مسلمان ابن قوقلؓ کا قاتل ہے۔ (ابن قوقلؓ بدر میں ابان کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے)۔ حضرت ابانؓ نے کمال ذہانت اور حاضرجوابی سے اپنا موقف یوں پیش کیا کہ مضمون اُلٹ کررکھ دیا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے کہنے لگے تمہارے جیسے شکایت کرنے والے شخص پر مجھے تعجب ہے جو دُور کہیں ضان کے پہاڑ سے اتر کر آیا ہے اور مجھ پر ایک ایسے کی موت کا الزام لگا رہا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں مرتبۂ شہادت عطا کرکے عزت و کرامت عطا فرمائی اور اُسے اس بات سے روک دیا کہ میں اس کے ہاتھ سے ہلاک ہو کر ذلیل ہوں۔

رسول کریمﷺ نے فتح بحرین کے بعد وہاں کے حاکم علاء بن حضرمی کی معزولی کے بعد حضرت ابّانؓ کو وہاں کا حاکم مقرر فرمایا۔ رسول کریمﷺ کی وفات تک یہ وہاں حاکم رہے پھر مدینہ واپس آگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے دوبارہ وہاں بھجوانا چاہا تو پہلے عرض کیا کہ رسول اللہﷺ کے بعد مجھے اس کام پر نہ لگائیں تو بہتر ہے۔ مگر پھر خلیفہ وقت کی خواہش پر یمن کے ایک حصہ کے والی کے طور پر کام کیا اور حضرت عمرؓ کے زمانہ تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔

حضرت ابّانؓ ایک ذہین اور عادل حاکم تھے۔ ولایت یمن کے زمانے میں ان کے پاس فیروز نامی ایک شخص نے اپنے کسی عزیزدادویؔہ کے قتل کا مقدمہ پیش کیا جسے قیس بن مکشوح نے قتل کیا تھا۔ حضرت ابّانؓ نے قیس کو طلب کرکے پوچھا کہ کیا تم نے کسی مسلمان شخص کو قتل کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ اوّل تو دادؔویہ مسلمان نہیں تھا۔ دوسرے میں نے اسلام سے پہلے اسے اپنے والد اور چچا کے قتل کے بدلے میں ماراتھا۔ اس پر حضرت ابانؓ نے فرمایا کہ رسول کریمؐ نے جاہلیت کے تمام خون بہا معاف اور کالعدم قرار دے دیے تھے۔ اب اسلام کے زمانہ میں جو شخص کسی جرم کا مرتکب ہوگا ہم اس پر گرفت کریں گے۔ پھر حضرت ابانؓ نے قیس سے کہا کہ میں یہ فیصلہ تمہیں لکھ کردیتا ہوں۔ یہ تحریری فیصلہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کرکے توثیق کروالو۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے اس کی توثیق فرمائی۔

حضرت عثمانؓ کی ہدایت پر حضرت ابّانؓ نے یہ خدمت بھی احسن رنگ میں انجام دی کہ وہ حضرت زیدبن ثابتؓ کو مصحفِ عثمانؓ کے مطابق قرآن شریف کی املاءکرائیں۔

حضرت ابّانؓ کی وفات کے بارہ میں اختلاف ہے۔ ایک روایت کے مطابق 13ھ میں جنگ اجنادین میں، دوسری روایت کے مطابق 15ھ میں جنگ یرموک میں اور تیسری روایت کے مطابق 29ھ میں حضرت عثمانؓ کی خلافت میں وفات ہوئی۔ یہ آخری روایت نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں انہیں قرآن شریف کی خدمت کی سعادت ملنے کا ذکر موجود ہے۔

………٭………٭………٭………

مکرم سید محمد اشرف شاہ صاحب

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 18؍جنوری 2013ء میں مکرم عزیز احمد طاہر صاحب مکرم سید محمد اشرف شاہ صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اپریل 1964ء میں خاکسار اپنی ملازمت (بطور لیکچرار کالج) کے سلسلے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ گیا تو مقامی مسجد میں سب سے پہلے جن دوستوں سے ملاقات ہوئی ان میں مکرم سید محمد اشرف شاہ صاحب بھی شامل تھے۔ آپ نے بڑی گرم جوشی سے مجھے خوش آمدید کہا اور ہر ممکن مدد کی پیشکش کی۔ خاکسار نے رہائش کے حوالے سے اپنی مشکل کا ذکر کیا تو آپ نے مشورہ دیا کہ کرائے پر مکان لینے کی بجائے پانچ مرلے کا ایک پلاٹ خرید کر آغاز میں چند کمرے تعمیر کرکے اس میں رہائش اختیار کرلیں اور پھر بعد میں ضرورت کے مطابق مزید کمرے تیار کرلیں۔ آپ نے ہر ممکن مدد کا وعدہ بھی فرمایا۔ آپ کا مشورہ ہمیں اتنا پسند آیا کہ ہم نے موسم گرما کی تعطیلات میں ہی مکان تعمیر کرنے کا فیصلہ کرلیا اور شاہ صاحب کو ایک پلاٹ کی خریداری کے لیے کہہ دیا۔

اچانک ہمیں چند روز کے لیے شہر سے باہر جانا پڑا۔ پلاٹ کی خریداری کے لیے ہم شاہ صاحب کو ابتدائی رقم (بیعانہ)بھی دے کر نہ گئے تھے لیکن اس کے باوجود ہماری واپسی تک شاہ صاحب نے ہمارے لیے پلاٹ کاانتظام کررکھا تھا۔ چونکہ پیشہ کے اعتبار سے آپ ایک عرائض نویس تھے لہٰذا رقم کی ادائیگی کے بعد ضروری کارروائی ایک دو روز میں ہی مکمل کرلی اور موسم گرما کی تعطیلات میں ہی ہم اپنے چھوٹے سے ذاتی مکان میں شفٹ ہوگئے۔ شاہ صاحب کا ذاتی مکان بھی اسی گلی میں تھا اس لیے بہت قریبی گھریلو تعلقات پیدا ہوگئے۔ میری اہلیہ سرکاری سکول میں درس و تدریس سے تعلق رکھتی تھیں، چنانچہ شاہ صاحب کی بعض بچیوں کی پڑھائی کے معاملات میں وہ راہنمائی بھی کرتی رہیں۔

مکرم شاہ صاحب پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرتے اور جماعتی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں بھرپور تعاون کرتے۔ چندہ جات باقاعدگی سے بروقت ادا کرتے۔ اس کے علاوہ مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جب بھی رقم کی ضرورت ہوتی تو فراخدلی سے حصہ لیتے۔ آپ چونکہ آغاز ہی سے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مقیم تھے اس لیے مقامی جماعتی مسائل سے پوری طرح آگاہ تھے۔ ہمیشہ صائب مشورہ دیتے اور جماعتی وقار کا بہت خیال رکھتے۔ مرکز سے آنے والے نمائندگان کا بہت احترام کرتے اور ان کے ساتھ مکمل تعاون کرتے۔ مرکز سے آنے والے حکم پر پوری طرح عمل کرتے۔ آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے لوگ احمدیوں کے کردار اور لین دین کے معاملات کے بارے میں اچھی رائے قائم کریں۔ خاکسار کا مشاہدہ تھا کہ احاطۂ کچہری میں دوسرے عرائض نویس آپ کابے حد احترام کرتے ہیں۔ اسی طرح محلہ میں بھی سب ہی آپ کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے۔

خاکسار سیکرٹری مال تھا تو شاہ صا حب چندہ جات کی ادائیگی میں اس حد تک باقاعدہ تھے کہ اپنی روزانہ کی آمد کا دسواں حصہ کچہری سے گھر واپس جاتے وقت مجھے ادا کرتے ہوئے جاتے۔ آپ نے دیگر مختلف ذمہ داریوں کے علاوہ بطور سیکرٹری مال اور بطور صدر جماعت بھی خدمت کی توفیق پائی۔ جب آپ سیکرٹری مال تھے تو وصول شدہ چندہ بروقت مرکز میں ارسال کرتے۔ بطور صدر جماعت پانچ سال تک خدمت کی توفیق پائی اور علالت کے با وجود اپنے فرائض نہایت احسن رنگ میں ادا کرتے رہے۔ آپ وضعدار، بے لوث اور بااصول شخص تھے۔ زندگی کے معاملات میں اپنے وضع کردہ اصولوں پر ہمیشہ کاربند رہے۔ بے خوف اور نڈر احمدی تھے۔ ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں کلمہ کیس میں ایک ماہ اسیر راہ مولیٰ رہنے کی سعادت بھی آپ نے پائی۔ آپ کے پاس جو لوگ بھی اپنے کام سے آتے ان کو تبلیغ کرنا اپنا فرض سمجھتے۔ باقاعدگی کے ساتھ کتب حضرت مسیح موعودؑ، دیگر دینی کتب اور روزنامہ الفضل کا مطالعہ کرتے۔

آپ محنت کی عظمت پر یقین رکھتے تھے۔ حکمت سے بھی شغف تھا۔ اکثر گھریلو استعمال کے لیے اور ضرورت مند مریضوں میں مفت تقسیم کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی دوا بناتے رہتے۔ مفرد ادویات کی تاثیر اور طریقۂ استعمال کے سلسلے میں اکثر بڑے مفید مشورے دیتے۔

محترم شاہ صاحب کی نیک اور خدمت گزار بیوی 11؍جنوری 2001ء کو اچانک وفات پاگئیں۔ جبکہ آپ خود دسمبر 2005ء میں ڈائریا اور نمونیا کے باعث بیمار ہوئے اور 18؍دسمبر کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ موصی تھے۔ جنازہ ربوہ لایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ آپ نے اپنے پیچھے دوبیٹے اور چار بیٹیاں سوگوار چھوڑیں۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button