سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

اس دن مَیں عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پُر معانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی (حضرت مسیح موعودؑ )

خطبہ الہامیہ کی بابت بعض روایات (حصہ سوم)

(گذشتہ سے پیوستہ)اس کے بعد صفحہ 74تا 302 بقیہ تین ابواب ہیں۔ جوکہ عربی زبان میں ہیں ان کا فارسی اور اردو ترجمہ بھی ساتھ موجود ہے۔

صفحہ 303تا306 پر عربی زبان میں ایک قصیدہ بزبان

’’اَلْقَصِیْدَۃُ لِکُلِّ قَرِیْحَۃٍ سَعِیْدَۃٍ ‘‘

موجود ہےجس کا ترجمہ نہیں ہے۔

صفحہ307تا 334 پر حاشیہ متعلقہ خطبہ الہامیہ بعنوان ’’ماالفرق بین آدم و المسیح الموعود ‘‘ہے۔ اس کا ترجمہ موجود نہیں ہے۔

خطبہ الہامیہ اگرالہامی ہے توتذکرہ میں شامل کیوں نہیں کیاگیا

بعض اوقات یہ سوال کیاجاتاہے کہ خطبہ الہامیہ اگرلفظ، لفظ الہامی عبارت تھی تو یہ تذکرہ میں درج کیوں نہیں کی گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک سوال یادلیل یہ دی جاتی ہے کہ دراصل اس کی عبارت الہامی نہیں تھی بلکہ مفہوم ومضمون یاکوئی کوئی فقرہ تو ہو سکتاہے مسلسل یہ عبارت الہامی نہیں ہوسکتی اور اس کی ایک دلیل مزیدیہ ہے کہ تبھی تویہ تذکرہ میں بھی شامل نہیں کیاگیا۔

خطبہ الہامیہ کے متعلق اس نظریہ کی بابت خاکسار عرض کرتاہے کہ ہمیں پہلے یہ دیکھناہوگا کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی وحی والہامات کی کیفیت کیاتھی اور وہ کیا پیمانے ہیں کہ جن کومدنظررکھتے ہوئے ہم یہ دیکھ سکیں گے کہ یہ وحی و الہام ہے یالفظی وحی ہے یارؤیاوکشوف کے ذیل میں آتاہے۔ خاکسارنے یہ الفاظ اکٹھے اس لئے استعمال کئے ہیں تاکہ تذکرہ میں شامل کرنے یانہ کرنے کے متعلق خودہی ایک معیارقائم ہوتاہوانظرآجائے۔

حضرت اقدس علیہ السلام نے وحی و الہام کی بابت مختلف جگہ پربیان فرمایا ہے۔ مثلاً نزول المسیح روحانی خزائن جلد18صفحہ 492-493، ضرورۃ الامام اور حقیقۃ الوحی وغیرہ۔

سیرت المہدی کی ایک روایت بھی اس ضمن میں اہم ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ

’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فرماتے تھے کہ بعض اوقات الہام اس طرح بھی ہوتا ہے کہ کلامِ الٰہی بندہ کی اپنی زبان پر بلند آواز سے ایک دفعہ یا بار بار جاری ہو جاتا ہے اور اس وقت زبان پر بندے کا تصرف نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا کا تصرف ہوتا ہے اور کبھی الہام اس طرح ہوتا ہے کہ لکھا ہوا فقرہ یا عبارت دکھائی دیتی ہے اور کبھی کلام لفظی طور پر باہر سے آتا ہوا سُنائی دیتا ہے۔ ‘‘

(سیرت المہدی روایت نمبر 595)

اسی طرح نزول المسیح میں ایک جگہ ایک اوررنگ میں وضاحت فرمائی ہے جو ہمارے اس زیربحث مسئلہ میں کافی وشافی رہنمائی بھی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ حضورؑ علیہ السلام اپنی انشاء پردازی کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ مَیں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتاہوں کیونکہ جب مَیں عربی میں یا اُردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اُردو یا فارسی دو حصّہ پرمنقسم ہوتی ہے۔ (1) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور مَیں اُس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقّت اُٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اُٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر اُن مضامین کو مَیں لکھ سکتا۔ والله اعلم۔

(2) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب مَیں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح رُوح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت مَیں اپنی حس سے غائب ہوتا ہوں۔ مثلاً عربی عبارت کے سلسلہ تحریر میں مجھے ایک لفظ کی ضرورت پڑی جو ٹھیک ٹھیک بسیاری عیال کا ترجمہ ہے اور وہ مجھے معلوم نہیں اور سلسلہ عبارت اُس کا محتاج ہے تو فی الفور دل میں وحی متلو کی طرح لفظ ضفف ڈالا گیا جس کے معنے ہیں بسیاری عیال۔ یا مثلاً سلسلہ تحریر میں مجھے ایسے لفظ کی ضرورت ہوئی جس کے معنی ہیں غم و غصّہ سے چُپ ہو جانا اور مجھے وہ لفظ معلوم نہیں تو فی الفور دِل پر وحی ہوئی کہ وجوم۔ ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے۔ عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے بنائے فقرات وحی متلو کی طرح دِل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے …… اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جومختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو میرے پر بطور وحی القا ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میں درج ہو کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے۔ ‘‘

(نزول المسیح صفحہ 56۔ 57، روحانی خزائن جلد18ص434-435)

توگویا حضورعلیہ السلام وحی والہام کے خود کئی مختلف پہلویاکیفیات بیان فرمارہے ہیں اور ہرایک کووحی ہی قرار دے رہے ہیں۔ اب ہم براہ راست خطبہ الہامیہ کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیایہ ایک عام پبلک تقریرتھی؟ یاکہ کوئی خاص اہمیت کی حامل تقریرتھی؟ بلکہ کیاایسی خاص اہمیت کی حامل کہ اس کوالہام کامقام ومرتبہ حاصل تھا؟ یہ کہ حضرت اقدسؑ نے اس وحی کوکسی مجموعہ میں درج کیوں نہ فرمایا؟

خطبہ الہامیہ کی بابت روحانی خزائن جلد16 کاتعارفی دیباچہ، اس کتاب کااپناٹائٹل پیج، اس کی بابت حضرت اقدسؑ کی بعض تحریرات اوراس کی بابت الحکم اپریل مئی 1900ء کی رپورٹنگ اور رجسٹرروایات میں موجود اس تقریب کے متعلق روایات اور سیرت المہدی میں مذکور روایات کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ کوئی عام پبلک تقریرنہ تھی۔

یہ ایسی خاص تقریر تھی کہ اسکے لئے اول توایک دودن قبل ہی خدائی الہامات اور القاء نے توجہ دلادی تھی اور یہی وجہ ہے کہ قریب قریب علاقوں اورشہروں میں اطلاعات بھی بھیج دی گئی تھیں کہ لوگ عید کے موقعہ پرضرور تشریف لائیں۔ اور ایک روزقبل حضوراقدسؑ نے ایک دعائیہ فہرست مرتب کروائی اور حضورؑ سارادن بیت الدعاء میں دعاکرتے رہے۔ اس سارے دن اور اس کی رات بھرکی دعاؤں کے ثمرہ کے طور پریہ خطبہ تھا جوعید والے دن مسجداقصیٰ میں دیاگیا۔ اس لئے یہ انتہائی اہمیت کاحامل خطبہ قرار پاتا ہے۔

اب خاکسار وہ دلائل عرض کرے گا کہ جواس کوالہام کے مقام تک سمجھنے میں مدددے سکتے ہیں۔

اس خطبہ سے قبل صبح کے وقت آپؑ کوالہام ہواکہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی اورنیزیہ الہام ہوا

کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ……(تذکرہ صفحہ 290)

یہ الہام اشارہ فرمارہاہے کہ یہ کلام رب کریم کی طرف سے تھا۔ حضورؑ کی اپنی ذات کا یا زورِبیان کاکوئی دخل نہ تھا۔

پھرحقیقۃ الوحی اور نزول المسیح میں حضورعلیہ السلام خود اس خطبہ الہامیہ کی جوتفصیلات بیان فرمارہے ہیں وہ سطرسطر اس طرف رہنمائی فرمارہی ہے کہ یہ خطبہ اپنے آغازکی ’’یا ‘‘ سے لے کر خبیر کی ’’ر‘‘تک سارے کاساراالہام ہی تھا۔ کوئی ایک لفظ بھی شایدوبایدہوگاکہ حضورؑ کی اپنی طرف سے ہو۔ کیونکہ وہ نظارہ اور کیفیت جوبیان ہورہی ہے جودیکھنے والوں نے بھی بیان کی اورجس پروہ واردہورہی تھی اس نے خودبیان کی وہ دلیل ہے اس کی کہ وہ انسان اپنے ہوش وحواس سے بے خوداوربے گانہ ہوچکاتھا۔ مسجداقصیٰ کایہ درمیانی دَر وہ کوہِ طور تھا جس پرمثیل موسیٰ کاخدااپنے اس بندے سے کلام کررہاتھا اور وہ نہ دکھائی دی جانے والی الواح کودیکھ دیکھ کر ساتھ کے ساتھ حاضرین کوسنا رہا تھا۔ حضرت اقدسؑ علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کیفیت کاذکرکرتے ہوئے اپنی تصنیف نزول المسیح میں فرماتے ہیں:

’’اس دن میں عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پُر معانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی جو کتاب خطبہ الہامیہ میں درج ہے۔ وہ کئی جز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہو کر زبانی فی البدیہہ کہی گئی۔ اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی۔ میں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہل علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہو کر کر سکے یہ تقریر وہ ہے جس کے اس وقت قریباً ڈیڑھ سو آدمی گواہ ہوں گے۔ ‘‘

(نزول المسیح صفحہ 210، روحانی خزائن جلد18صفحہ 588)

اسی کاذکراپنی ایک اورکتاب حقیقۃ الوحی میں یوں فرماتے ہیں:

’’11اپریل 1900ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی۔ اور نیز یہ الہام ہوا

کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ

یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے…… تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے مُنہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو200کے قریب ہو گی سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے مُنہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبہ الہامیہ ہے۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی صفحہ 362-363، روحانی خزائن جلد22ص375-376)

ایک صحابیؓ کی روایت کے مطابق’’ حضرت مولوی نور الدین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ نے عربی میں خطبہ عید الاضحٰی پڑھا (جو کتاب خطبہ الہامیہ کے ابتدا میں درج ہے) تو بعد میں جب اس کی کیفیت پوچھی گئی تو فرمایا کہ فرشتے میرے سامنے موٹے موٹے حروف میں لکھی ہوئی تختی لاتے جاتے تھے۔ جسے میں دیکھ دیکھ کر پڑھتا جاتا تھا۔ ایک تختی آتی۔ جب میں وہ سنا چکتا تو دوسری تختی آتی اور پہلی چلی جاتی۔ اس طرح تختیوں کا سلسلہ رہا۔ جب کوئی لکھنے والا پوچھتا تو گئی ہوئی تختی بھی واپس آجاتی۔ جسے دیکھ کر میں بتادیتا۔ ‘‘

(رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)رجسٹر نمبر4ص38)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button